نئے انقلابی نظام کی تشکیل

بسم اﷲ الرحمان الرحیم الحمد ﷲ رب العالمین
اسلام علیکم ورحمتہ اﷲ

اﷲ تعالٰی کے اس ملک اور عوام پر اتنے بے شمار احسانات ہیں جس کا اندازہ ہم ان نعمتوں کو دیکھ کر سمجھ سکتے ہیں جوہمیں زراعت،معدنیات دریاسمندراور دوسری بے شمار نعمتوں کے ساتھ اپنے ایسے باصلاحیت لوگ بھی عطا کئے ہیں جنہوں نے فن، کھیل ،سائنس،تعلیم اورزندگی کے دوسرے شعبوں میں نمایاں کردار ادا کرکے دنیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے اور دنیا کو حیران کردیا۔ ایسے لوگ اوروسائل اﷲ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہےں۔ان تمام لوگوں کی تلاش اورکامیابی میں کسی حدتک ہمارے مڈیا کا بھی حصہ ہے مگر افسوس کہ ہماری مڈیا آج تک کوئی ایسا سیاستدان تلاش نہ کر سکی جو اس زوال پذیر ملک کو ترقی پذیرملک کی راہ پر لے آئے۔ کیا اس ملک میں ایسے باصلاحیت لوگ موجود نہیں؟ یقینا موجود ہیں بات ہے ان کو نمودار کرنے کی انکی باتوں کو سمجھنے کی اور ان پر اعتماد کرنے کی۔ یہ کام ہماری مڈیا کر سکتی ہے۔ مگر شایداس لئے نہیں کر رہی کہ ان کی نظر میں بھی سیاست کرنا فقط پیسے والوں کا کام ہے ۔موجودہ نظام میں ایسا ہی ہے مگر جب اس وقت تمام لوگ اورخود مڈیا والے اس نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں تو ذرا خود کو بھی بدلیں اور پرانے سیاستدانوں کا پیچھا چھوڑ کر ملک کے لئے نئے سیاستدانوں کی تلاش کریں اوران کو مواقع دیں، یقینا ایسے کافی باصلاحیت لوگ مل جائینگے جن کواس فرسودہ اور سرمایہ دارانہ نظام میں آگے آنے کی وسعت نہیں جب کہ وہ اس ملک کاانمول سرمایہ بن کر اس ملک کو دنیا کا عظیم ملک بنا سکتے ہیں۔

آج ملک کے جو حالات ہیں وہ ملک کی تاریخ کے بدترین حالات ہیں۔اس وقت ملک کا ہر آدمی ملکی حالات کی خاطر بہت پریشان ہے ۔ دن بہ دن بڑہتی ہوئی کرپشن، رشوت،مہنگائی،بے روزگاری، ٹارگیٹ کلنگ ، دہشت گردی ،اداروں میں تصادم،غیر ملکی جارحیت، سیاسی محاذ آرائی ،اغوا برائے تاوان ،زنابالجبر،دھوکہ، بھتہ خوری،ڈرگ مافیہ ،قبضہ مافیہ،قبیلائی، قومی، مذہبی اور لسانی جھگڑے،جسم فروشی ،بے حیائی، بے ادبی،نافرمانی،بداخلاقی،نا انصافی،خود کشی ،اسٹریٹ کرائم وغیرہ وغیرہ جیسی اور برائیاں اس ملک میں عام جام مل رہی ہیں۔ میرے خیال میںدنیا کی کوئی ایسی برائی نہیں جو ہمارے ملک میں نہ پائی جاتی ہو۔ کتنے افسوس کی بات ہے اس جدید دور میں بھی ہم جاہلوں اور جانوروں جیسی زندگی گذار رہے ہیں۔اگر یہ الفاظ کسی کو برے لگ رہے ہیں تو میں معافی مانگتا ہوں لیکن حقیقت یہ ہی ہے۔اس ملک اور ہم عوام کو اس جگہ لانے میں ہمارے نا اہل سیاستدانوں کا اہم کردارہے جنہوں نے کبھی بھی عوام کی فلاح و بہبود کی طرف کوئی خیال نہ کیا۔اور نہ ملک مےں کو ئی ایسی پلاننگ کی جس سے عوام کو خوشحالی اور ملک کو ترقی مل سکے۔ ان سیاستدانوں کے پاس نہ کوئی پہلے منصوبہ بندی تھی اور نہ اب کوئی منصوبہ ہے۔ اقرباپروری، ناانصافی، غیرمنصوبہ بندی یا ناقص منصوبہ بندی ان حکمرانوں کی نااہلی کوظاہر کرتی ہے ۔ ان حکمرانوں نے اس ملک کا نظام ہی اس طرح بنایا ہے کہ اس ملک کوترقی کے بجاءزوال کی طرف لے جایا جائے کیونکہ یہ لوگ کبھی بھی نہیں چاہتے کہ اس ملک کے غریب عوام کو بنیادی حقوق مل جائیں اور یہ خوشحال زندگی بسر کریں اور اگر ان کی زندگی میں خوشحالی آگئی تو یہ عوام ،حکمران بن جائیگا اور ان کی سیاست جوکہ غریبوں کے حقوق اور خوشحالی کے نام پر کی جارہی ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی ۔ ان کے وہ تمام ناجائز کاروبار،رشوت،کمیشن،اور دیگر کام بند ہوجائینگے جن کے سہارے وہ زندہ ہیںجب کہ ان کے آگے پیچھے خوشامدکرنے والا کوئی نہ ہوگا۔

جب اس ملک کے حکمران چوکیدار بن کر خود چور بنیگے تو عوام کو بھی زندگی گزارنے اور سفید پوشی کابھرم رکھنے کے لئے خوشی یا مجبوری سے کوئی نہ کوئی راستہ نکالنا ہوگا ۔چاہے وہ جائزقانونی ہو یا ناجائز اور غیر قانونی ہو۔اس طرح اس ملک کے زیادہ تر لوگ کسی نہ کسی طرح چھوٹے موٹے جرم میںشامل ہیں اور یہ غیر اخلاقی جرم ہم نہ چاہتے ہوئے بھی مجبوری میں کرتے ہیں۔اگر ان لوگوں کے جائز اور بنیادی حقوق اوران کی تمام ضرورتوں کو قانونی طور پر پورا کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں، کوئی شک نہیں کہ یہ تمام لوگ شرافت اورایمانداری سے زندگی بسر کریں جو اس وقت موجودہ بے اعتمادی ،بے یقینی اورناانصافی جیسے حالات کے شکار ہیں۔جبکہ عوام کی تمام تر ضروریات کو پورا کرنا وقت کے حکمرانوں کی ذمیواری ہوتی ہے جوکہ وہ پوری نہیں کرتے۔ایسے حکمرانوں کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں۔
کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔ہمارے ملک کے سیاستدان اس لئے بھی اس نظام کو تبدیل کرنے میںبری طرح ناکام ہوچکے ہیں ان کو زندگی گذارنے کے لئے کسی قسم کی کوئی دقت پیش نہیں آتی ان لوگوں کے پاس عوام کی لوٹی ہوئی بہت دولت موجود ہے۔ جب ان کو کسی قسم کی کوئی ضرورت نہیں تو یہ کیا ، اورکیوں ایجاد کریں؟ وہ نظام کیوں بدلینگے ؟ان کو فقط ایک ضرورت ہوتی ہے ، اقتدار کی اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے وہ مختلف طریقے ایجاد کرتے رہتے ہیں۔اور ہم نے ایک نیا نظام ایجاد کیا ہے۔

یہ بھی کہ ان کو کیا معلوم کہ ایک عام آدمی کی ضرورتیں کیا ہیں ؟ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے عوام کے پاس کیا وسائل ہیں؟اور ہیں بھی کہ نہیں ۔ان کوکیا معلوم کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کیا ہوتی ہے، جب کوئی سارا دن کام کرکے تھکا مارا واپس گھر آئے تو نہ نہانے کا پانی نہ پینے کا پانی ، نہ وضو کرنے کا پانی ، بھلا ان کو کیا معلوم کے نمازیوں پر کیا گذرتی ہے ؟اس گرمی کے دنوں میں لوڈشیڈنگ جس میں نہ کاروبار ، نہ دن کا سکون نہ رات کوآرام۔ ان کو کیا معلوم کہ جس کی پانی کی موٹرجل جائے اور کھانے پینے نہانے کے لئے پانی نہ ملے، ان کو کیا معلوم کہ جس کی فرج جل جائے اور پینے کے لئے ٹھنڈا پانی نہ ملے، واشنگ مشین جل جائے اور صاف کپڑے نہ ملیں،کمپیوٹر جل جائے اور بچوں کی تعلیم متاثر ہوتو ان کوکیا معلوم کے ایسے لوگوں کی دل پر کیا گزرتی ہوگی جب اپنے بچوں کے منہ سے نوالہ چھین کربا ربار یہ الیکٹرانک اشیاءبنانے پرخرچ کرتے ہونگے۔ اس وقت اس کے دل سے کیا آہ نکلتی ہوگی۔ذرا سوچاہے کبھی ان لوگوں نے۔

جب ایسے حالات ہوجاتے ہیں تب ہر آدمی مجبوراً باغی ہوجاتا ہے اوراپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے نت نئے نئے طریقے نکالنے کی کوشش کرتاہے۔ چاہے وہ قانونی ہوں یا غیر قانونی۔

جب ملک میں اندھیر نگری ہو ہرشہری کسی نہ کسی مسئلہ کا شکار ہو،کوئی انسان ایسا نہیں جس کوکوئی فکرنہ ہو۔ کس کو آنے والے بچے کی فکر توکسی کو دنیا سے بچھڑنے والے کو آخری آرام گا ہ تک پنہچانے کی فکر، کسی کو روٹی کی فکر تو کسی کوکپڑوں کی فکر،کسی کو مکان کی فکرتو کسی کومکان کے کرائے کی فکر، کسی کوبچوں کی تعلیم کی فکر تو کسی کوگھر والوں کی صحت کی فکر،کسی کو دولت کمانے کی فکر تو کسی کو دولت چھپانے کی فکر،کوئی بچوں کے مستقبل کی فکر میں تو کوئی خیریت سے گھر واپس آنے والوں کے فکرمیںرہتاہے۔

آپ سب جانتے ہیں کہ فکر جیسی کوئی بیماری نہیں اور خوشی جیسی کوئی خوراک نہیں، اور ہر پاکستانی اس بیماری میں مبتلا ہے شاید کوئی ایسا آدمی ہو جسکو کوئی فکر نہ ہو۔ ہر محب وطن اس ملک کے حالات دیکھ کر ملک اور اپنے مستقبل کے لئے پریشان اور فکرمند ہے اور ان حالات سے نکلنے کی جستجو میں ہے ۔وہاں پر میں بھی ایک پاکستانی ناتے دوسرے پاکستانیوں کی طرح اس اہم مسئلہ کا شکاررہا ہوں۔

میری عمر51 برس ہے اور30 سال پہلےB.com کیا ملازمت کی تلاش کی مگر کہیں رشوت کہیں سفارش ۔ یہ دونوںچیزیں نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری ملازمت حاصل نہ کر سکا اور آج تک مختلف قسم کی محنت مزدوری کرتے وقت گذارا ہے ۔دھکے کھاتے کھاتے تھک گیا اور اس نظام سے باغی ہو کر اس نظام کوخود بدلنے کی ٹھان لی۔ضیاالحق کا مارشل لا تھا۔سیاسی حکومتیں آئیں اور گئیں ان کو دیکھا پڑہا مگر سمجھ میں نہیں آیا کیونکہ میں نے دیکھا کہ یہ تمام لوگ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے قائل ہیں۔ ان لوگوں سے ایسی کوئی امید رکھنا فضول ہے ان کے نظام میں اور جو نظام میں چاہتا تھا اس میں بہت فرق تھااس لئے اپنے آپ کواس نظام میں نہ ڈھال سکا۔

ظاہرہے کہ ہرانسان کو اس دنیا میں رہنے کے لئے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب ہمارے حکمرانوں میں اتنی طاقت نہیں ، اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ ملک کے لوگوں کی کوئی جائز ضرورت پوری بھی نہ کرسکیں تو ایسے لوگوں کو اقتدار میں رہنے کاکوئی حق نہیں۔

جب ملک کی سا لمیت اور غیرملکی جارحیت کی بات سامنے ہو تو کوئی غیرت مندپاکستانی خاموش تماشائی بن کرنہیں بیٹھ سکتا۔

میں جانتاہوں کہ بے روزگاری کیا ہوتی ہے کیونکہ میں بےروزگار رہا ہوں۔میں جانتا ہوں کہ اقربا پروری کیا ہوتی ہے اور میرٹ کا جنازہ کیسے نکلتا ہے کیونکہ میں اس کا شکار ہوا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ بے گھر کی زندگی کیسے گذرتی ہے اس لئے کہ میں بے گھر ہوں۔مجھے معلوم ہے کہ بھوک کیا ہوتی ہے کہ میں کافی مرتبہ بوکھا رہا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ بچوں کے بھوکے رہنے پر والدین پر کیا گذرتی ہے اس لئے کہ میں نے اپنے معصوم بچوں کوبوکھا سوتے بھی دیکھا اور بھوکا اٹھ کربھوکا سکول جاتے بھی دیکھاہے۔مجھے معلوم ہے کہ اس والدین پرکیا گذرتی ہے جب ان کی اولاد بیماری میں تڑپتی ہو اور معمولی اعلاج کی طاقت نہ ہو۔مجھے پتہ ہے کہ مجبوری میں قرضہ لے اور اس قرضدار کی کیا حالت ہوتی ہے۔ ان تمام واقعات سے میں گذرا ہوں اور مجھے ان تمام باتوں کا پورا اور زیادہ سے زیادہ احساس ہے ۔ اس لئے میں نے اس نظام میں انسان کی ہر اس مجبوری کو ختم کردیا ہے جس کی وجہ سے انسان باغی ہوجاتاہے اور باغی ہوکر غیر اخلاقی ۔غیر قانونی کام کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے اس طرح امن وامان کا مسئلہ پیدا ہو جاتاہے ۔ اس لئے غریبوں کے دکھ اور درد کو مجھ سے زیادہ کوئی اور نہیں جانتا۔

آج ملک کے ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں کہ اس ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لئے پاکستان کے غیرت مند عوام کوتمام وسائل تلاش کرنے پڑے ہیں اور ہر ایک عزت دار، غیرت منداورشریف آدمی وسائل کو تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس طرح میں بھی نے ان وسائل کوتلاش کرنے کی کوشش کی مگرفرق یہ رکھا کہ میں نے یہ سوچا کہ یہ وسائل ایسے ہونے چاہئیں ،طریقہ ایسا ہونا چاہئے جس کے اثرات اور فائدے پورے ملک اور قوم کے ساتھ ساتھ ہر انسان تک پہنچیں۔

آخر کار کافی سوچ فکرکے بعد یہ بات یقینی ہوگئی کہ اس ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لئے موجودہ نظام کا خاتمہ اور نئے نظام کا رائج ہونا انتہائی ضروری ہے ۔ اور ایسا نظام بنایا جائے جو ملک کے عوام کے لئے یکساں اور سب کے لئے قابل قبول ہو۔جس میں ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی ہو۔ کسی قسم کی کوئی بدعنوانی ،کوئی غیرقانونی ،غیراخلاقی، غیرشرعی،کام نہ ہو جس میں عوام کوانصاف، حقوق، امن، ترقی ،خوشحالی،اور سکون ملے۔جس کی تلاش میںعوام کی زندگی گذر گئی ہے۔

جب انصاف ہوگا تو حقوق ملینگے حقوق ملینگے تو امن ہوگا امن ہوگا تو ترقی ہوگی ترقی ہوگی تو خوشحالی ہوگی خوشحالی ہوگی تو سکون ہوگا -

ملک میں سیاسی، سماجی ، انتظامی،عدالتی،تعلیمی اور دوسرے اداروں میں روز بروز ہونے والی چپقلش ،کرپشن ،نا انصافی اور بے اعتمادی کو سامنے رکھتے ہوئے اﷲ کے فضل وکرم اور ان کی طرف سے عطا کی ہوئی صلاحیت جیسی نعمت سے فائدہ اٹھاتے میں نے ایسا نظام تیار کیا ہے جس میں سب سے زیادہ تر کوشش ہر قسم کی کرپشن کے مکمل خاتمے اور فضول خرچہ بچانے کے لئے کی ہے اگر ہم اس کام میں کامیاب گئے تو اس ملک کی بڑے میں بڑی مشکل ختم ہوجائےگی ۔جس کے بعد اس ملک کے تمام مسائل پر انتہائی آسانی سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے ۔ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے اس ملک کے لئے نیا نظام ترتیب دیا ہے جوکہ اس ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لئے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ جس میں 100% عوام کے لئے روزگار ، عزت اور امن و امان کا وہ نقشہ تیار کیا گیا ہے جس سے ملک بھر میں کسی قسم کا کوئی جرم نہیں ہوگا۔ جس میں ہرشخص اورہرادارے کو آزادی سے کام کرنے کا اختیار دیا گیاہے اور ملک میں ہونے والی ہر برائی کواس کی جڑ سے ختم کردیاگیا ہے ۔ جس نظام کو رائج ہونے کے بعد ہر پاکستانی کو خوشی اور فخر سے سر بلند ہوجائےگااور انشاءاﷲیہ ملک بہت جلدی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوجائیگا جس پرپوری دنیا حیران ہوجائے گی بلکہ کامیابی کے لئے ہمارے نقش قدم پر چلیگی۔

اس پروگرام میں میں نے سب سے پہلے ایک منصوبہ بندی کے تحت ملک میں ہونے والی غیر منصوبہ بندی سے ہونے والے اس کثیر خرچہ کو بچایا ہے جو کہ انتہائی غیر ضروری اور سیاسی رشوت کے بدلے خرچ کیا جاتا ہے۔

اس ملک میںناقص اورغیرمنصوبہ بندی کی وجہ سے کھربوں روپے مختلف طریقوں سے کرپشن کی نظرہوجاتے ہیں ۔ در ا صل یہ غیر منصوبہ بندی جان بوجھ کر سیاسی رشوت کے عیوض کی جاتی ہے ۔جس سے ہرحکمران اپنے لوگوں کو مختلف غیر ضروری ترقیاتی کاموں کے بہانے کھربوں روپے کی سیاسی رشوت دے کر کرپشن کرتے ہیں ۔

ملک بھر کے ایسے چھوٹے چھوٹے گاﺅں میںجہاں بمشکل دس بارہ جھگی نما گھر بنے ہوئے ہوتے ہیں وہاں لاکھوں روپے لگا کر سکول بنائے جاتے ہیں۔ جس گاﺅں میں ٹوٹل دس بارہ بچے ہوتے ہیں جن میں سے کوئی بھی تعلیم حاصل نہیں کرتا۔جب کہ اس سکول میں کم سے کم پانچ اساتذہ ایک چپراسی ایک چوکیدار ہوتے ہیں ۔تعلیم بالکل نہیں ہوتی اور ہرماہ لاکھوں روپے تنخواہوں کی مدمیں سیاسی کارکنان کو دیئے جاتے ہیں جو کہ مسلسل ڈیوٹی سے غائب ہوتے ہیں۔ اور ایسے سکول جو کہ ایک دوسرے سے دور نہیں بلکہ ان سکولوں کے درمیان مفاصلہ بھی زیادہ سے زیادہ پیدل جانے میں پانچ منٹ کا ہے ۔جب کہ اتنے قریب قریب پانچ چھہ چھوٹے گاﺅں پر ایک اسکول ہونا کافی ہے۔ کہنے کے لئے تو تعلیم عام کرنے اور لوگوں کو روزگارکے لئے اسکول کھولے جاتے ہیں لیکن در اصل سکول کی تعمیر پر آنے والا خرچہ اور ان میں تعینات غیر حاضراساتذہ پرہر ماہ ہونے والی تنخواہوں کے لاکھوں روپے بھی سیاسی عہدیداران اورکارکنان کے لئے سیاسی رشوت ہوتی ہے اور وہ سکول ان کی بیٹھک یا جانوروں کے باڑے بنے ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس پہلے سے قائم اسکولوں میں پینے کے لئے پانی اورباتھ روم بنے ہوئے نہیں یا نا قابل استعمال ہیں۔ یہ وہ کام ہیں جو کہ منصوبہ بندی کے بغیرکئے جاتے ہیں جس کا عوام کوکوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوتاہے اورعوام پر ٹیکس کا مزید بوجھ بڑھایاجا تا ہے۔

جس کی ایک مثال یہ ہے کہ کراچی شہرمیں، 2کمروں پر مشتمل ایک سکول میں تیس 30شاگرد اور9 اساتذہ جن میں سے زیادہ سے زیادہ تین حاضر باقی غیر حاضر ہوتے ہیں ۔ایک چوکیدار ایک چپراسی جن کی ٹوٹل تنخواہ تقریبا 150,000بنتی ہے ایوریج نکالیں تو ایک بچہ پر ہرماہ 5000 روپے خرچ کئے جاتے ہیں جبکہ تعلیم کا رزلٹ کچھ بھی نہیںیہ سکول خالصاَ سیاسی بنیاد پر بنایا گیا جب کہ اس کے قریب ایک سکول پہلے ہی موجود تھا۔اس سے بہتر تویہ ہوتا کہ ان تمام تیس بچوں کو قریبی پرائیویٹ اسکول میں داخل کرایا جاتا اور اس کا تمام خرچہ حکومت خود برداشت کرتی تو بھی ماہانہ خرچہ بمشکل چالیس ہزار روپیے بنتا اور حکومت کو ایک لاکھ روپے سے زیادہ بچ جاتے اور اس ملک میں ایسے بے شمار سکول موجود ہیںجن پراجتماعی طورپر ہر ماہ کروڑوں روپے فضول خرچ کئے جاتے ہیں جوکہ فقط سیاسی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔

ہر سرکاری بلڈنگ ، راستوں اور دوسری تمام تعیرات میں ناقص مٹیریل استعمال کرکے اسے بار بار توڑا اوربارباربنایا جاتاہ اور کہاں تو بنائے ہوئے راستوں کوبلا وجہ توڑکر دبارہ بنایا جا تا ہے۔جس پر کروڑوں روپے فقط اس لئے خرچ کئے جاتے ہیں تاکہ ان افسران کی کمیشن بنے اور جیب بھری جائے۔

پاور کمپنی جس میں رکارڈ کرپشن ہے سب کو پتہ ہے کہ کرپشن اورچوری کی راک تھام کے لئے اس نظام میں کتنی بار تبدیلی کی ہے مگر آج تک کچھ بھی نہ ہوئا نہ کرپشن رکی نہ چوری رکی جب کے اس کو روکنے کے لئے باربار کھربوں روپے خرچ کیئے جا چکے ہیں ۔اس کے باوجود اب پھر سے دبارہ کھربوں روپے خرچ کیئے جارہے ہیں جس کا وزن بھی عوام پر پڑ رہا ہے جب کے کھربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود کرپشن اور چوری نہ رکے گی کیونکہ اس چوری میں پاورکمپنی کا پورا عملہ شامل ہے اور اب دوبارہ اپنی کمیشن بنانے کے لئے پھر سے کھربوں روپے کا خرچ کیا جا رہا ہے۔

آج بتاریخ11,06,2012 بروز پیر کو ایک نجی ٹی وی کی رپورٹ مطابق لاہور کے ایک روڈ کوتوڑتا دکھایا گیا جس رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ روڈ فقط دو مہینے پہلے بھاری رقم سے تیا ر کیا گیا ہے۔

حیدر آباد میں لطیف آباد سے گدو چوک طرف جانے والے بہترین راستے کو توڑ کر دبارہ بنایا جا رہاہے۔ ملک میں ایسے بے شمار قائم منصوبوں پر بلا وجہ دبارہ خرچ کیا جاتا ہے۔جس کا اصل مقصد رشوت اور کمیشن کھانا ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ ملک کے کئی شہروں میں جہاں پر گلیوں میں فرش بندی ہونا چاہئے، نکاسی آب کے منصوبہ کی ضرورت ہے،کچے راستوں کو پکا کرنے کی ضرورت ہے ، پینے کے پانی کی سخت ضرورت ہے لیکن اس کے بدلے شہروں اور گاﺅں کے باہرداخلی راستوں پر لاکھوں روپے لگا کربڑے بڑے محراب نما گیٹ بنا کر سیاسی قائدین کے نام پر منسوب کرکے اپنے قائدین کو خوش کیا جاتاہے۔ شہروں میں مختلف اقسام کے مجسمے فوارے اور دوسری غیر ضروری تعمیرات کی جاتی ہیں جس پر مجموئی طور پر عوام کی اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ جب کے ان کو بنا نے کامقصد اپنے لوگوں کومالی فائدہ دینا ہوتا ہے۔لیکن آج تک کسی ادارے کے سربراہ نے ایسے غیرضروری کاموں پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔اوران منصوبوں کی افتتاحی تقاریب منقعد کرکے اپنے نام کی تختی لگانے کے بہانے عوام کے مزید لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ بے شمار ایسے ترقیاتی منصوبے بنائے جاتے ہیں جن پر کھربوں روپے خرچ دکھایا جاتا ہے مگرحقیقت میں ان کا زمین پر کوئی وجود نہیں ہوتا یہ فقط کاغذی کاروائی اور فائل کی حد تک محدود ہوتے ہیں اور وہ تمام رقم ان افسران کے گھر میں جاتی ہے۔

لیکن اس نظام کے نفاظ کے بعدکوئی بھی ایسا غیر ضروری منصوبہ نہیں بنے گا اور عوام کا پیسہ عوام کی فلاح اور تکالیف ختم کرنے پر خرچ کیا جائےگا -

دوسرے نمبر پر اس خرچے کو بچایا ہے جس پرہمارا زرمبادلہ خرچ ہوتاہے جیسا کہ ٹرانسپورٹ پر ہونے والا خرچ۔

اس ملک کی بڑھتی ہوئی ٹرانسپورٹ کو کم کرنا پڑیگا ۔ٹرانسپورٹ کو کم کرنے سے اس پراستعما ل ہونے والا کھربوں روپے کازر مبادلہ جو کہ پٹرول،ڈیزل،انجن آئل،اسپیئرپارٹس اورنئی گاڑیو ں کے خریدنے پر خرچ کیا جاتا ہے وہ با آسانی بچایا جا سکتا ہے ۔اس کے علاوہ اس ملک کی گیس کو بھی بچاکر گیس کی قلت کو ختم کیا جا سکتاہے۔ٹرانسپورٹ کا استعمال کم ہونے سے روڈس پر دباﺅ کم ہوجائیگا جس کی وجہ سے روڈس پربار بار کیا جانے والا خرچہ بھی کم ہوجائیگا۔بلکہ روڈس پرہونے والے حادثات میں نمایاں کمی اوربڑھتی ہوئی آلودگی کو کم کرنے پربھی مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ اب رہا سوال یہ کہ ٹرانسپورٹ کم کیسے ہوگی ، اس کی کسی کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں اسکا طریقہ بھی میرے پاس موجود ہے اور ٹرانسپورٹ کم کرنے کے باوجود عوام کو موجودہ سہولیات سے زیادہ آرام دہ اورپرسکون سہولیات مہیا کی جائینگی۔

تیسرے نمبرپر وہ خرچا بچایا ہے جس کے بغیر بھی ہم ملک کا نظام اچھی طرح چلا سکتے ہیں جیسا کہ پولیس ، عدالتیں اور جیل اور کچھ دوسرے غیر ضروری عوام پر بوجھ ادارے۔

ملک کی بجٹ کا کافی حصہ امن وامان کے نام پرحفاظتی اموراورانصاف کے نام پرپولیس اور دوسرے سکیورٹی ادارے ،جیل اور عدلیہ پر خرچ کئے جارہے ہیں۔ان تمام اخراجات کوبچایاجا سکتا ہے۔

ملک کی عدالتوں میں اس وقت لاکھوں مقدمات التوا کا شکار ہیں یہ تمام مقدمات فقط چند مہینوں میں ختم ہو سکتے ہیں جس کے بعدکافی عدالتیں بندکی جائینگی سواءچندعدالتوں کے۔پورے ملک میں تھانہ کلچر اورعدالتی طریقہ کار کو تبدیل کیا گیا ہے جس میں فوری اور مفت انصاف فراہم کیا جائیگا۔

اورجب یہ نظام رائج ہو جائیگا تو ملک میں کسی قسم کی کوئی بد امنی نہیں ہوگی جس کی وجہ سے ملک کے تمام تھانے ،عدالتیں اور جیل ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہوجائینگے۔جس کے بعد ان تمام اداروں پر ہر سال ہونے والی کھربوں روپے کی رقم کا کم سے کم 70% بچا کر اس رقم کو بھی منافع بخش کاروبارمیں تبدیل کیا جائیگا۔جبکہ بقایہ 30%رقم سے موجودہ حالات سے زیادہ اور بہتر امن قائم کیا جا سکتا ہے۔ یہاں پروہ ہی سوال پیدا ہوتاہے کہ تمام مقدمات کیسے ختم ہونگے؟اس کا طریقہ کار بھی مکمل تیارکیا جا چکاہے ۔

یہ تینوں ایسی وجوہات ہیں جنہوں نے ہماری معاشی حالات کو نیست و نابود کرکے رکھ دیا ہے اورانشاءاﷲ اس نئے نظام میں کوئی چاہتے ہوئے بھی ایسا کچھ نہیں کرسکے گا۔

اس کی ساتھ ساتھ ملک کے ہر ادارے کو بہتر طریقے سے چلانے کے لئے انقلابی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

تعلیم۔ جس قوم کو برباد کیا جاتا ہے اس قوم سے تعلیم ختم کی جاتی ہے ۔ ہماری قوم سے بھی کچھ ایسا کیا گیا ہے جس میں تعلیم کا کوئی معیار نہیں رہا اور حکمرانوں کی یہ پالیسی ہے کہ پورے ملک اندر آٹھویں جماعت تک کے شاگردوں کو ہر حالت میں پاس کیا جائے ۔جب ان کی بنیادی تعلیم کمزور ہوگی تو آگے کیا کرینگے جب کہ کاپی کلچر عام ہوچکا ہے۔ اب ہماری یہ حالت ہے کہ حکومت چلانے کے لئے چند لوگ امپورٹ کرتے ہیں ۔اگر تعلیم کا یہ حال رہا تو خدا نہ کرے کہ اس ملک کو چلانے کے لئے تمام افسران اور حکمران امپورٹ نہ کرنے پڑیں۔اور ہم دوسری قوم کے غلام نہ بن جائیں۔ اس لئے اس نظام میں بھی بڑی تبدیلی کی گئی ہے اورپورے ملک میں تعلیمی نظام یکساں اور مفت مہیا کرنے کامکمل انتظام کیا جا چکا ہے ۔

اس کے علاوہ انتخابات کا وہ طریقہ کار تیار کیا گیا ہے جس میںکوئی امیدوار کسی قسم کی دھاندلی نہ کر سکے گااور ہر عام غریب آدمی بغیر کوئی پیسہ لگا کر آسانی سے انتخابات میں حصہ لے سکے گا اور وہ ہی اصل جمہوریت ہوگی۔بھلا آپ بتائیں کہ اس موجودہ نظام میں کوئی بھی غریب آ دمی حکومت کا حصہ بن سکتا ہے؟کبھی نہیں کیونکہ یہاں الیکشن میں حصہ لینا امیروں کا کام ہے چاہے وہ اس کے قابل ہی نہ ہو، اور غریب آدمی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا چاہے وہ اس کے مدمقابل زیادہ قابل، ہوشیاراوربا صلاحیت ہی کیوں نہ ہو ۔اور یہ میری بات یاد رکھی جائے کہ موجودہ نظام میں رہتے ہوئے جتنے بھی فیئرالیکشن کروائیں اس ملک میں تبدیلی نہیں آ سکتی نہ ملک ترقی کریگا ، نہ عوام کو خوشحالی اور سکون ملیگا، نہ امن وامان قائم ہوگا ،نہ اصل جمہوریت قائم ہوگی اور نہ ہی کوئی مستحکم حکومت قائم ہوگی بیشک مزید65 سال اور انتظار کرو۔

اس ملک میں اﷲ تعالٰی نے بےشمارزرعی اور معدنی نعمتیں عطا کی ہیں جن سے مستفید نہ ہونا ہماری نا اہلی اور بدنصیبی ہے ۔ اس نظام میں زراعت کے نظام کو بڑی ترجیع دی گئی ہے اور ایساانقلابی طریقہ کار بنایا گیا ہے جس میں ہمارے کاشتکا ر بھائی اتنے خوشحال ہوجائیگے کہ ان تمام لوگوں کو شہرمیں روزگار تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ بہت سارے وہ کاشتکار بھائی جو اس کام سے دل برداشتہ ہوکر یا بد امنی کی وجہ سے اپنے گھربار چھوڑ کر شہروں کا رخ اختیار کر چکے ہیں۔ اس نظام کے رائج ہونے کے بعدمکمل امن ہونے اور کاشتکاروں کو تمام سہولیات ملنے کے بعدوہ تمام لوگ خوشی خوشی سے اپنے گھر گاﺅں کو واپس جاکر کاشتکاری کواولین ترجیح دینگے۔فقط یہ نہیں بلکہ اس نظام میں دیہات والوں کواپنے گاﺅں کے اندر روزگار اور ہرقسم کی اتنی سہولیات دی گئی ہیں کہ ان تمام لوگوں کو وہ گاﺅں نہیں بلک ایک شہر ہی محسوس ہوگا۔ اس ملک میں ہرآدمی کے لئے یقینی روزگار کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کے لئے اتنے وسیع وسائل بنائے گئے ہیں کہ کسی کو کسی سے قرضہ لینے یا بھیک مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔بلکہ آج کل کے تنگ معاشی حالات میں جو لوگ مقروض ہو چکے ہیں ان کے تمام قرضے اتارنے کا بھی بندوبست کیا گیا ہے ۔

اس نظام میں ماں کی گود سے لیکرقبر کی گود تک کسی کو کسی قسم کی کوئی مشکلات پیش نہیں آئیگی اگر خدا نخواستہ کبھی کوئی ایسی مشکل آبھی گئی تو اس خودکار سسٹم میں حکومت کی طرف سے اس کی مددکا مکمل طریقہ کار بنایا گیا ہے۔ چاہے وہ آدمی یا خاندان اپنے شہر میں ہو یا شہر سے بہت دورہو مگر ان کو کوئی بھی مشکل اس وقت اسی جگہ ہی ختم کی جا ئیگی۔

اس نظام کے رائج ہونے کے بعد کسی والدین کواپنی حیاتی اور حیاتی کے بعد پیدا ہونے والے حالات کے پیش نظر اپنے بچوں کی تعلیم ، روزگار،شادی،شادی کاجہیز،مکان اور روزگار کے حصول کے لئے پریشان یا فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ یہ نظام فقط سیاسی یا انتظامی نہیں بلکہ اصلاحی اور سماجی نظام بھی ہے۔جس میں انسان ،خاندان اور سماج کی ہر ضرورت کا مکمل خیال اور بندوبست کیا گیا ہے۔اور اس نظام کو فقط انتظامی سیاسی نہیں سمجھا جائے بلکہ اس میں انسان او ر سماج کی اصلاح کا بندوبست کیا گیا ہے اس لئے اس نظام کو اصلاحی اکیڈمی بھی سمجھاجائے۔جس میں ہر گھر ہر خاندان ہر محلہ،ہرقبیلے، ہرشہر میں ہونے والی انفرادی اور اجتمائی چپقلش ، ناراضگی، نا انصافی، بداخلاقی،نافرمانی،وغیرہ وغیرہ جیسے چھوٹے موٹے مسائل کاحل بھی تیار کیا گیا ہے ۔جس کی وجہ سے ہمارے گھر، خاندان ،اڑوس پڑوس ،شہراور برادریوں میں ہونے والے انفرادی اور اجتمائی ناراضگیاں ختم ہوجائیگی اور ہرجگہ بھائی چارہ کی فضا گونجنے لگے گی ۔اور ہر وہ کام تشکیل دیا گیا ہے جو ایک گھر کا سربراہ اپنے اہل وعیال کے لئے کرتا ہے۔اورمیں عوام کو اس یقین دلاتاہوں کہ وہ اپنے اہل وعیال کے لئے ایسا کوئی غیر قانونی ، غیرشرعی اور غیر اخلاقی کام نہ کریگا جو کہ آج کے بے اعتمادی دور میں مجبوراًکرتا ہے۔یہ تمام تر ذمہ واری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ اور انشاءاﷲ تمام ذمیواری پوری کرنے کا بندونست کیا جا چکا ہے۔

اس نظام کے نافظ ہونے بعدکسی کو بھی کسی قسم کا کوئی غیر قانونی کام کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوگی۔جب کسی کو غیر قانونی کام کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوگی تو امن وامان کا مسئلہ ازخود ختم ہوجائیگا اور ہر وقت ہر جگہ امن ہی امن ہوگا۔پورے ملک میں کوئی مسئلہ نہیں رہیگا اورلوگ مسائل کا لفظ بھول جائیں گے ۔

اس نظام کوملک میں رائج ہونے کے بعد اﷲ کے حکم اورمدد سے کسی کے لئے کوئی مسئلہ نہیں رہیگا۔لیکن اس کے باوجود اگر کوئی غیر قانونی کام کرنے کا ارادہ کریگا بھی تومیں اﷲ کی حکم سے یہ دعویٰ کرتاہوں بلکہ ملک کے ہر عام آدمی سے لیکرحکمرانوں تک کو چیلینج کرتاہوں کہ اس نظام کے رائج ہونے کے بعد کوئی کسی قسم کی کرپشن جیسا کہ کمیشن اوربھتہ،لینا، کوئی جعلسازی یاکوئی دو نمبر کا کام، کسی کو بلیک میل کرنا، انصاف کی خرید وفروخت کرنا،رشوت کالین دین کرنا، اغوابرائے تاوان،نا انصافی ،دھوکہ ،جوا، جسم فروشی ، ٹیکس چوری، سمگلنگ،قبضہ خوری، ذخیرہ اندوزی ، بلیک مارکیٹنگ،ڈرگ،لوٹ مار، ڈکیتی،،بجلی چوری ،موٹرسائیکل ،کار چھیننے کے ساتھ ساتھ کوئی اسٹریٹ کرائم جیسا کوئی غیر قانونی کام کر ہی نہیں سکے گا،چاہے وہ کتنا بااثرہی کیوں نہ ہو۔یہ میرا اٹھارہ کروڑ عوام کو چیلینج ہے۔

یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں ملک کا ہر آدمی ایک خود کار سسٹم کے ذریعے ٹیکس اوراحتساب کے دائرے میں شامل ہوجائیگا اور جب جہاں کسی قسم کی کوئی بھی مالی بد عنوانی کریگا تو فوری طور پر اس کی نشاندہی ہوجائے گی اور100% یقینی ثبوت کے ساتھ پکڑا جائیگا اور سخت سے سخت سزا کامستحق ہوگاجس کی وجہ سے کوئی بھی آدمی ایسا کام نہیں کریگا۔

اس نظام کے رائج ہونے کے بعدملک میں گھرو،خاندانی ، صوبائی ، لسانی ، قبیلائی جھگڑے ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائینگے۔

پورے ملک میں تمام اداروں کے تمام ملازمین کی تنخواہ اور دوسری تمام مراعات اور سہولیات کو یکسان بنایا گیا ہے۔

اچھی منصوبہ بندی کرنے کے بعدپانی ،بجلی،گیس،کی لوڈ شیڈنگ کا یقینی خاتمہ ہوجائے گا۔

ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حیائی ختم ہوجائےگی اورمشرقی روایات ،قومی اور مذہبی ثقافت کو فروغ دیا جائیگا۔

میرا یہ نظام ملک کی ترقی،سا لمیت اور عوام کی خوشحالی کی ضمانت دیتا ہے۔یہ نظام رائج ہونے کے بعدہمارا ملک ترقی پذیر نہیںبلکہ ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوجائیگا۔

اس نظام کے رائج ہونے کے بعدملک کی برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں نمایاں کمی آئیگی جس کی وجہ سے ہمارا ملکی سرمایہ باہر نہیں جائیگا بلکہ غیر ملکی سرمایہ میں کافی اضافہ ہوگا۔

اس نظام کے رائج ہونے کے بعدملک کے عوام کوکوئی انتظار کرنا نہیں پڑیگابلکہ پہلے دن سے ریلیف ملنا شروع ہوجائیگا۔

اﷲ کی مدد اور رحمت سے میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ اس ملک کی ترقی اورعوام کی خوشحالی فقط اور فقط میرے اس نظام کے رائج ہونے میں ہے باقی سب وقت ضایع کرنے کے مترادف ہے۔

کوئی بتائے کہ کب تک ٹارگیٹ کلنگ ہوتا رہیگا، کب تک لاشیں گرتی رہینگی، کب تک بے گناہ مرتے رہینگے،کب تک بچے یتیم ہوتے رہینگے،کب تک بہنیں بےواہ ہوتی رہینگی،کب تک بوڑھے ماں باپ کے سہارے چھینتے رہینگے،کب تک بھتہ خوری چلتی رہیگی،کب تک ہڑتالیں ہوتی رہینگی، کب تک احتجاج ہوتے رہینگے،کب تک آخر کب تک کہاں تک یہ نہ رکنے والا سلسلہ چلتا رہیگا؟ ان تمام سوالات کاجواب ہے کسی کو ؟ بالکل نہیں کسی کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔توپھر آزمائے ہوئے کومزید آزمانا اپنے لئے نقصان کار ہوتاہے۔

اور اس کاجواب میرے پاس ہے میں جانتا ہوں کہ اس بد امنی میں ایک دن بھی گزارنا مشکل ہے لیکن میں یقین سے کہتا ہوں کہ اس ملک سے ہر برائی ہر جرم کو ختم کرنے کے لئے 65سال کے بدلے میں فقط65 دن درکار ہیں ۔

میں یہ بات یقین سے کہتا ہوں کہ جو کام ہمارے سیاستدان 65سال میں نہ کر سکے انشاءاﷲ وہ کام میں 65 دنوں میں کرسکتا ہوں اور ملک کو ترقی پذیر نہیں ترقی یافتہ بنا دونگا اور پوری دنیا ہمارے نقش قدم پر چلیگی۔

ایسے صاف اور شفاف نظام کے رائج ہونے کے بعدفقط میں اور میرا پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا مستفید ہو سکتی ہے اوریہ کام میرے لئے صدقہ جاریہ ہے جو کہ انشاءاﷲ قیامت تک جاری رہیگا۔اور ان تمام کام کا اول مقصد فقط اور فقط رب العزت کی رضا حاصل کرنا ہے۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں روزروز کاقتل عام،بھتہ خوری ،اسٹریٹ کرائیم ،مہنگائی ، ناانصافی ،زیادتی ،بے حیائی ،چوری ،ڈکیتی ،رشوت ،اقربا پروری ،ناجائز اخراجات ،ناجائز اختیارات، مہنگائی، ذخیرہ اندوزی،اغوا،بلیک میلنگ،جوئا ،سمگلنگ،بھتہ خوری ،قبضہ مافیہ، ڈرگ مافیہ،جسم فروشی، خودکشی، سفارش، قبیلائی،لسانی،مذہبی جھگڑے،اور ہرقسم کا ظلم مکمل ختم ہو جائے اور پورے ملک میں سب کے لئے روزگار ،تعلیم ،صحت ،اپنا گھر، اپنا کاروبار،خوشحالی ،ترقی ،عزت اور احترام ،جھموریت ،انصاف ،چادر اور چار دیواری کا تقدس،انصاف، میرٹ اور ہرقسم کاامن بحال ہونا چاہتے ہیں تواﷲکی رضا کے لئے میری اس آوازکو ہر محب وطن انسان تک پہنچائیں تاکہ یہ نظام اس ملک میں بہت جلد رائج ہوجائے کیونکہ پہلے ہی وقت بہت ضائع ہو چکا ہے اب مزید وقت ضایع کرنا اجتمائی خودکشی کے مترادف ہوگا۔

آج بروزبدہ بتاریخ 13,06,2012کو کراچی میں بھتہ خوری کے خلاف تاجر برادری کی ہڑتال ہوئی جس میں ٹرانسپورٹ اور سیاسی جماعتوں نے بھی حصہ لیا میں تاجر برادری کو اﷲکی قسم کھاکریہ یقین دلاتا ہوں کہ اس نظام کے رائج ہونے کے بعد زیادہ سے زیادہ 50دن میں پورے ملک سے بھتہ خوری ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائیگی اور اگر نہ ہوئی تو میں اپنے آپ کو اس تاجر برادری کے حوالے کردونگا اور ان کو اختیا ر ہوگا کہ میری زندگی اور موت کا فیصلہ کریں۔ بلکہ جو بھی دعوے کئے ہیں پورے نہ کرنے پر اپنی زندگی اور موت کے لئے اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش کردونگا۔

اس نظام کے رائج ہونے کے بعد کسی تاجر،کسی سیاسی،سماجی یا عوام کو کسی قسم کا احتجاج اور ہڑتال کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آئیگی۔

اﷲ تعالٰی نے مجھے جو طاقت اور صلاحیت عطا کی میںنے اس کا بھرپور اظہار کیا ہے۔وقت اور حالات کے مطابق اس وقت جن خیالات کا مجھے اظہار کرنا تھا وہ اظہار میں کرچکا ہوں لیکن اس خیالات کو یہاں پر ختم نہ سمجھیں اس نظریہ میں ابھی بہت کچھ ہے جو کہ ملک کی ترقی ، سا لمیت ،اور عوام کے بہتر مستقبل کے لئے وقت کے ساتھ ساتھ ظاہر کیا جائیکا۔

پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لئے سب سے اول اﷲ کی مدد، اور بعد میں آپ تمام امن پسند لوگوں کاتعاون درکار ہے۔

جونظا م میں تشکیل دے چکا ہوں ایسا نظام آجتک کسی نے نہ دیا اور نہ کوئی دے سکے گا۔اگر آپ لوگوں نے اسے اچھی طرح پڑھ لیا ہے تو مجھے اﷲ کی ذات پر پورابھروسہ ہے کے اس ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح وبہبود اور خوشحالی کے لئے آپ کو یہ پروگرام یقیناپسند آیا ہوگا کیونکہ اس پروگرام میںپاکستان کی بقااورسا لمیت ،عزت اور وقار ہے اور ہر محب وطن یہ ہی چاہتا ہے ۔لیکن اس کے باوجود ہربا ت کے دو پہلو ہوتے ہیں ۔جہاں یہ نظام غریب سچے ایماندار مظلوم اور امن پسند عوام کے لئے ایک امید کی کرن نظر آئیگا وہاں پر یہ نظام رشوت خور،سود خور،بھتہ خور،قبضہ خور،زنا خور،منافع خور،ڈرگ مافیہ،بلیک میلر، چور، ڈاکو،اسٹریٹ کرائیمر،سمگلر،جسم فروش ،ٹیکس چور، اورہرظالم آدمی کے لئے انتہائی مایوس کن اور خراب لگے گااور وہ یقینااس کی بھرپور مخالفت کریگا۔ حالانکہ یہ اس کاقانونی اور جھموری حق ہے لیکن اس کو پسند کرنے اور نہ کرنے پر سچے اور کھوٹے کی پہچان ہوجائیگی۔

ملک کے موجودہ فرسودہ،سرمائیدارانہ نظام کے خاتمے اور نئے نظام کے نفاظ کے لئے جو میں نے پروگرام اور طریقہ کار بنایا وہ اس ملک کے مایوس عوام کے لئے ایک دم انقلابی قدم لگے گا لیکن دوسری سیاستدانوں کی طرف سے ان کے اعتماد کومسلسل ٹھیس پہچائی گئی اس بنہ پرمیری تمام باتیں ناممکن نظرآئینگی اوران پر اعتبار کرنا ایک مشکل فیصلہ ہوگا۔لیکن میں حلفیہ کہتا ہوں کہ یہ تمام باتیں سو فیصد سچ اور حقیقت پر مبنی ہیں اوریہ سب مکمل کرنا ممکن ہیں۔اور انشاءاﷲ بہت جلد اس پر عمل ہوناشروع ہوجائیگا۔

آﺅ ہم سب ملکر اس ملک کی ترقی ،اپنی قوم کے بچوں کا بہتریں مستقبل اور تمام عوام کی خوشحالی کے لئے اپنی علاقائی،قومی ،مذہبی ثقافت اور مشرقی روایات کوبچانے اور مغربی یلغار سے بچنے کے لئے اس نظام کو کامیابی سے ہمکنار کریں ورنہ ہمارا آنے والا نسل اور اﷲ کی پاک ذات ہمیں کبھی معاف نہیں کرینگے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم طاقت رکھتے ہوئے بھی اپنی قوم اور مذہب کے لئے کچھ نہ کر سکیںاور اﷲنہ کرے کہ روز قیامت اﷲ اور اس کے رسول اکرم محمد مصطفی ﷺ کے سامنے شرمندہ ہوکران کی ناراضگی اور عذاب کے مستحق نہ بن جائیں۔

آئیے مل کر اﷲ سے دعا مانگتے ہیں کہ اے اﷲ توسب کا مالک ہے دلوں کے تمام راز اور نیت جانتے ہو۔ اے اﷲتومجھے اور میرے تمام ساتھیوں کو اس نیک کام کو مکمل کرنے کی توفیق اور مدد فرما بےشک تیرے بغیر ہمارا کوئی مدد گار نہیں۔آمین۔

اس کو پڑھنے کے لئے آپ نے اپنا قیمتی وقت نکالا جس کے لئے آپ کا مشکور ہوں ۔جزاک اﷲ
Mohammad Haroon
About the Author: Mohammad Haroon Read More Articles by Mohammad Haroon: 2 Articles with 4182 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.