۲۰ رکعت تراویح سنت اور سنت میں جنت

الحمد للہ عزوجل دنیامیں جہاں ہمیں بے شمار نعمتیں مُیسَّر آتی ہیں انہی میں تراویح کی سنّت بھی شامِل ہے اور سنّت کی عظمت کے کیا کہنے ! اللہ عزوجل کے پیارے رسول، رسولِ مقبول، سیِّدہ آمِنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گلشن کے مہکتے پھول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ جنّت نشان ہے،’’جس نے میری سنّت سے مَحَبَّت کی اُس نے مجھ سے مَحَبَّت کی اور جس نے مجھ سے مَحَبَّت کی وہ جنّت میں میرے ساتھ ہو گا۔‘‘
(جامع ترمذی، ج۴،ص۳۱۰،حدیث۲۶۸۷)

قارئین کرام:
ہرسال رمضان المبارک کے موقع پر ملک کے متعدد مقامات پر کچھ لوگوں کی طرف سے اس قسم کے پوسٹر نظر آنے لگتے ہیں ۔ جن میں بلند بانگ دعووں کے ساتھ آٹھ رکعت تراویح کو ہی مسنون اور بیس رکعت کو غیر مسنون قرار دیا جاتا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ اسے ائمہ احناف کی طرف بھی منسوب کر دیا جاتا ہے کہ وہ خود بیس کو غیر مسنون اور آٹھ کو مسنون کہتے ہیں ۔اس سلسلے میں ان کی بعض عبارتیں مروڑ توڑ کے پیش کی جاتی ہیں ۔

مگر حقیقت کیا ہے ؟
آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
انشاء اللہ عزوجل تراویح کی بیس رکعات کے متعلق احادیث،اقوال صحابہ وفقہاء،اور جمہور کے تفصیلی مؤقف سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں :
نوٹ اس مضمون کے طویل ہونے کی بنا پرحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے تمام کو ملاحظہ فرماکر فیصلہ ثبت فرمائیں۔

تراویح کا حکم اورفضلیت
قال رسول اﷲ وان اﷲ افترض علیکم صیامہ وسننت لکم فیامۃ فمن صامہ ایماناً واحساباً ٰغفرلہ ما تقدم من ذنبہ
ترجمہ: رسول اﷲکا ارشاد ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تم پر رمضان کے روزوں کو فرض کیا ہیں اور میں نے تمہارے لیے اس کے قیام کو (تراویح)سنت قرار دیا ہے پس جو شخص رمضان کے روزے رکھے اور قیام کرے (تروایح پڑھے) ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے تو اس کے پچھلے گناہ بخشش دئیے جائیں گئے۔(امام بخاری کے استادکی کتاب ، مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص287 مکتبہ امدایہ ملتان پاکستان)
تین مسلک اور نقطہ اختلاف:
1۔ اہل سنت والجماعت
اہل سنت والجماعت کے نزدیک بیس رکعات تراویح رمضان المبارک کی مخصوص نماز ہے جو کہ گیارہ مہینے میں نہیں پڑھی جاتی بلکہ صرف رمضان المبارک میں عشاء کی نماز کے بعد باجماعت مسجد میں ادا کی جاتی ہیں اور اس میں ایک قرآن پاک ختم کیا جاتا ہے

2۔ شیعہ
جب کہ شیعہ حضرات کے نزدیک تراویح کوئی عبادت نہیں وہ تروایح کے منکر ہیں۔

3۔ غیر مقلد
لیکن غیر مقلدین حضرات بھی تروایح کو رمضان المبارک کا تحفہ نہیں مانتے بلکہ کہتے ہیں کہ یہ سارا سال پڑھے جانے والی نماز ہے۔ فرق صرف اتنا ہے۔ یہ نماز غیر رمضان میں ادا کی جائے تو تہجد کہلاتی ہے اور رمضان میں ادا کی جائے تو تروایح کہلاتی ہے۔ گویا کہ یہ بھی تراویح کے منکر ہیں۔

محترم قارئیں کرام: صحیح قول کے مطابق تراویح کی کل بیس ((20 رکعات ہیں اور یہی سوادِ اَعظم یعنی اہل سنت و جماعت کے چاروں فقہی مذاہب کا فتویٰ ہے۔

آئیے اب تراویح کے دلائل تفصیلا جانتے ہیں:
1۔ اُمّ المؤمنین حضرت اماں عائشہ صدیقہ طیبہ طاھرہ رضی اﷲعنہا سے روایت ہے کہ ایک رات رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں (نفل) نماز ادا کی تو لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نمازاداکی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اگلی رات نماز ادا فرمائی تو لو گ اورزیادہ اکھٹے ہوگئے، پھر تیسری یا چوتھی رات بھی اکٹھے ہوئے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان لوگوں کی طرف حاضر نہ ہوئے۔ جب صبح ہوگی تو ارشاد فرمایا : تم نے جو کیا میں نے ملاحظہ فرمایا اور مجھے تمہارے پاس (نماز پڑھانے کے لئے)حاضر ہونے سے اس بات نے روکا کہ یہ تم پر فرض کردی جا ئے گی۔
1حوالہ جات بخاری، کتاب التہجد رقم : 1077
2 بخاری، کتاب صلاۃ التروایح، رقم: 1908
3 مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، رقم: 761
4 ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، رقم 1373
5 نسائی، کتاب قیام اللیل وتطوع النہار، رقم : 1604)

محترم قارئین: یہ واقعہ رمضان المبارک میں پیش آیا۔

2۔ امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان نے اس روایت میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں قیامِ رمضان (تراویح)کی رغبت دلایا کرتے تھے لیکن حکم نہیں فرماتے تھے۔ ارشادفرماتے کہ جو شخص رمضان المبارک میں ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ قیام کرتا ہے تو اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ پھر حضورکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک تک قیام رمضان کی یہی طریقہ برقرار رہا اور یہی طریقہ خلافتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور خلافتِ عمررضی اللہ عنہ کے اوائل دور تک جاری رہا یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں(لوگوں کو) حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کی اقتداء میں جمع فرمادیا اور وہ انہیں نمازِ (تراویح) پڑھایا کرتے تھے۔اورا یہ پہلا موقع تھا جب لوگ نمازِ تراویح کے لئے (باقاعدہ با جماعت)جمع ہوئے تھے۔
(1 ابن حبان، رقم :141
2 ابن خزیمۃ ، رقم 2207)

3۔ امام ابن حجر عسقلانی فرمایا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو دو راتیں 20 رکعت نماز تراویح پڑھائی، جب تیسری رات لوگ پھر جمع ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف تشریف نہیں لائے۔ پھر صبح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے اندیشہ ہوا کہ (نمازِ تراویح) تم پر فرض کردی جائے گی لیکن تم اس کی طاقت نہ رکھوگے۔
( عسقلانی، تلخیص الحبیر، 21)


4۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲعنہما نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک میں وتر کے علاوہ بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔
1 طبرانی، المعجم الاوسط، رقم: 798
2 طبرانی، المعجم الاوسط،رقم : 5440
3 طبرانی، المعجم الکبیر، رقم : 12102
4 ابن أبی شیبۃ: رقم :7692)

5۔ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس (20) رکعت تراویح اور وتر پڑھتے تھے۔
( بیہقی، رقم : 4617)

ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف کی ایک رات تشریف لائے ۔لوگوں کو چار رکعات فرض، بیس رکعات نماز(تراویح)اور تین رکعات وتر پڑھائے۔
(تاریخ جرجان لحافظ حمزۃ بن یوسف السھمی ص146)

ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے حکم دیا کہ میں رمضان شریف کی رات میں نماز(تراویح) پڑھاؤں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ لوگ دن کو روزہ رکھتے ہیں اور (رات) قرأت (قرآن) اچھی نہیں کرتے۔ تو قرآن مجید کی رات کو تلاوت کرے تو اچھا ہے۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے امیر المومنین یہ تلاوت کا طریقہ پہلے نہیں تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں جانتا ہوں لیکن یہ طریقہ تلاوت اچھا ہے۔تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بیس رکعات نماز (تروایح) پڑھائی۔
(اتحاف الخیرۃ المہرۃ علی المطالب العالیہ ج2ص424)

ترجمہ: حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں رمضان شریف میں بیس رکعات (نماز تراویح) پابندی سے پڑھتے تھے۔ فرماتے ہیں کہ وہ قرآن مجید کی دو سو آیات تلاوت کرتے تھے اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور میں لوگ قیام کے (لمبا ہونے کی وجہ سے ) اپنی (لاٹھیوں) پر ٹیک لگاتے تھے۔
(سنن الکبری للبیہقی ج2ص496)

ترجمہ: حضرت حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رمضان شریف میں نماز تروایح پڑھنے کے لیے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت پر لوگوں کو جمع کیا تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ان کو بیس رکعات (نماز تراویح) پڑھاتے تھے۔
(سنن ابی داؤد ص1429،سیر اعلام النبلاء امام ذہبی ج3ص176)

ترجمہ: حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو حکم دیا جو لوگوں کو رمضان شریف کے مہینہ میں نماز (تراویح) پڑھاتے تھے کہ وہ ان کو بیس رکعات نماز (تراویح) پڑھائیں! ہر دو رکعتوں کے درمیان سلام پھیرے اور ہر چار رکعتوں کے درمیان آرام کے لیے کچھ دیر وقفہ کرے ۔
(مسند الامام زیدبن علی ص158)

ترجمہ: حضرت ابو الحسناء رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو رمضان میں بیس رکعات نماز (تراویح) پڑھائیں!
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج2ص285 )

ترجمہ: حضرت زید بن وہب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رمضان شریف میں ہمیں نماز (تراویح) پڑھاتے اور گھرکو لوٹ جاتے تو رات ابھی باقی ہوتی تھی آپ رضی اللہ عنہ بیس رکعات (تراویح ) اور تین رکعات وتر پڑھاتے تھے۔
(قیام اللیل للمروزی ص157)

ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں رمضان کے مہینے میں لوگوں کوبیس رکعات نماز (تروایح) اور تین (رکعات ) وتر پڑھاتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج2ص285؛ الترغیب والترھیب للاصبہانی ج2ص368)
ترجمہ: حضرت شُتیربن شکل رحمہ اللہ (حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے ساتھی ہیں) رمضان شریف میں لوگوں کو بیس رکعات نماز (تراویح)اور وتر پڑھاتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج2ص285 )

ترجمہ: حضرت ابو البختری رحمہ اللہ رمضان شریف میں (نماز تراویح) پانچ ترویحے (بیس رکعات)اور تین وتر پڑھاتے تھے ۔
نوٹ: ایک ترویحہ چار رکعات کا ہوتا ہے ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج2ص285)
ترجمہ: حضرت علی بن ربیعہ رحمہ اللہ رمضان شریف میں لوگوں کوپانچ ترویحے (بیس رکعات نماز تراویح) اور تین رکعات وتر پڑھاتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج2ص285)

ترجمہ: جلیل القدر تابعی حضرت عطا رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے (صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ جیسے) لوگوں کو بیس رکعات تراویح اور تین رکعات وتر پڑھتے پایا ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج2ص285)

ترجمہ: حضرت حارث رحمہ اللہ لوگوں کو رمضان شریف میں بیس رکعات نماز (تراویح) اورتین وتر باجماعت پڑھاتے تھے اور (دعائے) قنوت (جو کہ وتر میں پڑھی جاتی ہے ) رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج2ص285)

مذکورہ بالا روایات صراحتاً اِس اَمر پر دلالت کرتی ہیں کہ تراویح کی کل رکعات بیس ہوتی ہیں۔ اِسی پر اہل سنت و جماعت کے چاروں فقہی مذاہب کا اِجماع ہے اور آج کے دور میں بھی حرمین شریفین میں یہی معمول ہے۔ وہاں کل بیس رکعات تراویح پڑھی جاتی ہیں، جنہیں پوری دنیا میں براہِ راست ٹی۔ وی اسکرین پر دکھایا جاتا ہے۔

اب بھی اگر کوئی یہ کہے کہ ہم حدیث کے ماننے والے ہیں اور ہم آٹھ رکعت تراویح پڑھیں گے تو یہ حدیث کی نہیں بلکہ نفس کی پیروی ہے کہ جس میں دیکھی آسانی اس کو اپنا لیا جہاں تین طلاق دشوار وہاں اس کو ایک طلاق شمارکیا اور ۲۰ رکعت تراویح مشکل اسے آٹھ رکعت کیا تین وتر کو ایک رکعت کیا
سفر میں نمازوں کو ایک ساتھ پڑھ لو باربار پڑھنا شاید انہیں دشوار لگتا ہے عورت کے زیورات پر کوئی زکوۃ نہیں پیسوںں کی بچت کرو
نماز کے بعد کی سنتوں کی اہمیت بھی گئی جب دل چاہا چھوڑ دیا
تو ملا جی یہ احادیث کی پیروی ہے یا اپنے نفس لعین کی تابعداری ہے ہر ذی عقل سمجھ سکتا ہے کہ حدیث کے نام پر آسانی کے پیچھے اور نفس کے نقش قدم پر کون چل رہا ہے اور کون حقیقی طور پر اللہ تعالی کے رسول ﷺ کی سنتوں کی پیروی کرتا ہے کس کو حضورﷺ کی محبت ہے کونسی وہ جماعت ہے کہ جن کے پاس بیٹھنے سے اللہ کے حبیب ﷺ کی محبت دل میں بڑھتی ہے اور کو ن ہے کہ جن کی مجالس اختیار کرنے والا معاذ اللہ یہ کہہ رہاہوتا ہے نبی تو ہمارے جیسا ہے وہ تو مر کر مٹی میں مل گئے ۔اللہ تعالی اپنے نبی ﷺ کی سچی پکی محبت نصیب فرمائے اور سنتوں کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے جس نے نبی ﷺ سے محبت کی وہ جنت میں حضور ﷺ کے ساتھ ہوگا
’جس نے میری سنّت سے مَحَبَّت کی اُس نے مجھ سے مَحَبَّت کی اور جس نے مجھ سے مَحَبَّت کی وہ جنّت میں میرے ساتھ ہو گا۔‘‘
(جامع ترمذی، ج۴،ص۳۱۰،حدیث۲۶۸۷)چ
Ali raza
About the Author: Ali raza Read More Articles by Ali raza: 10 Articles with 26024 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.