ینگ ڈاکٹرز یا دبنگ ڈاکو

نوجوان ڈاکٹر علی احمد اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرے سے فارغ ہونے کے بعداپنی قیمتی گاڑی میں سوارہواجوپچھلے سال ایک بڑے ادویات سازادارے نے مریضوں کو اپنی مخصوص ادویات لکھنے کے بدلے میں اسے دی تھی ۔اس کے دائیں ہاتھ میں ایک نیلے رنگ کا مہنگا موبائل فون تھا جواسے ایک نجی لیب کے مالک نے مریضوں کے ٹیسٹ کیلئے ان کی لیب بجھوانے پردیا تھا ،وہ اپنے موبائل فون کی سکرین پراپنی منگیترسدرہ کی چارمس کال دیکھ کرخوشی سے جھوم اٹھا اورہونٹوں سے سیٹی مارنے کے اندازمیں گنگنانے لگا ۔اس نے بیک مئیرر میں اپنا چہرہ دیکھا اوریہ سوچ کر ہنس دیا کہ اس کی منگیتر کواس کاکتنا خیال ہے ،یقینا اس نے احتجاجی مظاہرے کے دوران اس کی خیریت دریافت کرنے کیلئے فون کیا ہوگا مگرفون کی بیل وہاں ہونیوالے شورمیں دب گئی ہوگی ۔ا س نے فوراً سدرہ کانمبرڈائل کیا اورموبائل اپنے بائیں کان کے ساتھ لگالیا ،ابھی ایک بیل ہوئی تھی کہ دوسری طرف سے فون کاٹ دیا گیا ۔ ڈاکٹرعلی احمد کوایک دم جھٹکالگا مگر وہ فوراًسنبھل گیا اوردوبارہ ڈائل کابٹن دبادیا مگراس بار بھی ایک بیل کے فوراً بعد دوسری طرف سے فون کاٹ دیا گیا ،یہ اس کیلئے دوسرادھچکا تھا ۔اس نے سوچا ہوسکتا ہے سدرہ کی امی جان یااباجان اس کے پاس ہوں یا وہ اس وقت کسی ضروری کام میں مصروف ہومگر اس سے زیادہ صبر نہیں ہوا اوراس نے تیسری بار فون ڈائل کردیا لیکن اس بار پانچویں بیل پردوسری طرف سے ہیلوکی آوازسنائی دی تواس کی جان میں جان آئی ۔اس سے بیشتر ڈاکٹرعلی احمد کچھ بولتا یاپوچھتا دوسری طرف سے انتہائی بیزاری میں اسے بتایاگیا کہ تم ایک مردہ ضمیر انسان ہولہٰذا ءمیں تمہارے ساتھ اپنی زندگی نہیں گزار سکتی ۔سدرہ نے بڑے جذباتی اندازمیں کہامسٹرعلی احمدیہ سچ ہے میں تم سے پیارکرتی ہوں مگرمجھے تم سے زیادہ انسانیت سے محبت ہے جواس وقت تمہاری وارڈ میں بیڈ پربے یارومددگارتڑپ رہی ہے اوراپنے مسیحا کی منتظر ہے ۔وہ مسیحاجوایک بیمار بچے کواس کی بے بس ماں کی آغوش میں درد سے روتا اور تڑپتا چھوڑ کر ہڑتال میں شامل ہوگیا ہے ۔تم نے زیادہ پیسوں کی ہوس میںاپنا حلف بھی فراموش کردیا ،تم نے اپنے بازوﺅں پرنہیں بلکہ اپنی آنکھوں پرسیاہ پٹی باندھ رکھی ہے اوراس سیاہ پٹی کے سبب تم کسی مجبورماں اورغم کے مارے باپ کی آنکھوں سے چھلکتے آنسونہیں دیکھ سکتے ہو۔تمہاری وارڈ میں داخل نوبرس کایثرب فاروق نہیں مرابلکہ تمہارااورتمہارے ساتھیوں کاضمیر مرگیا ہے۔تم نے انسانیت کی خدمت کے مقدس پیشے کوتجارت بنا دیا ہے ۔تم جیسا انسان میراآئیڈیل اورمیراہیرونہیں ہوسکتا۔جوشخص اپنی جیب بھرنے کیلئے بیمارانسانوں کی زندگی تک داﺅپرلگاسکتا ہے ،میں اس کی شریک حیات نہیں بن سکتی ۔میں نے تمہاری منگنی والی ڈائمنڈ رنگ اوردوسر اقیمتی سامان تمہارے گھر بجھوادیا ہے اورہاں یادآیاسامان کے ساتھ ساتھ کچھ نقد روپے بھی کیونکہ تمہارادین ایمان صرف پیسہ ہے۔شایدسدرہ ابھی اوربہت کچھ کہتی مگرڈاکٹرعلی احمد نے فون بند اور سدرہ کانمبر ڈیلیٹ کردیا اور گاڑی اپنے پرائیویٹ کلینک کی طرف موڑدی مگراچانک گاڑی موڑنے سے ڈاکٹرعلی احمد کی گاڑی دوسری سمت سے آنیوالے ٹرک سے بری طرح ٹکراگئی ۔شہری زخمی کواٹھاکرنزدیک ترین ہسپتال لے گئے جہاں ینگ ڈاکٹرز ہڑتال پرتھے اوروہاں کسی کو زخمی کی پہچان نہیں تھی ۔جس وقت اس کے ڈاکٹر ساتھیوں اوراہل خانہ کواطلاع ملی اس وقت بہت دیرہوچکی تھی ، ڈاکٹرعلی احمد تڑپ تڑپ کروفات پاگیا ۔

کیا ہم میں سے کوئی ہے جوسدرہ کی طرح ناجائزہڑتال،ہٹ دھرمی،پرتشدد احتجاجی مظاہروں،شہری ،قومی املاک کی توڑپھوڑاورجلاﺅگھیراﺅ کیخلاف نہ صرف آوازاٹھائے بلکہ اپناپیارتک داﺅپرلگادے ۔ہم میںسے کتنے لوگ ہیں جواپنے دوست ،بھائی ،شوہر،باپ یارشتہ دارینگ ڈاکٹر زاوردوسرے شعبہ جات سے وابستہ آفیسرزیااہلکاروں سے اس وقت تک اپنا تعلق توڑدیں جس وقت تک وہ راہ راست پرنہیں آجاتے ۔اگرہم سدرہ کی طرح اپنے گردوپیش ہونیوالی زیادتیوں اورناانصافیوں کومانیٹراوران کامحاسبہ کرناشروع کردیں توہمارے ملک اورمعاشرے کوجنت بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔صرف ڈاکٹرزکی ہڑتال کامعاملہ نہیں اگر ہم اپنے کسی رشتہ دار حکمران ،سیاستدان،جج،بیوروکریٹ،صحافی ،پولیس آفیسر،تحصیلدار،پٹواری ،ایل ڈی اے،واسا یاواپڈااہلکاروں کی کرپشن اوراختیارات سے تجاوزپربراہ راست ان سے بازپرس اوراظہار بیزاری کریںتوہمارے معاشرتی کلچراورنظام کو تبدیل ہونے سے نہیں روکاجاسکتا۔ہم نے دوسروں کی کرپشن پرشورمچانااپنا فرض جبکہ اپنوں کی بدعنوانی کوان کاحق سمجھ لیا ہے۔ہم واپڈا کوبرائیوںکامحورسمجھتے ہیں مگربجلی چوری میں ہم اورہمارے عزیز واقارب یامحلے داروں کاہاتھ ہے۔ہم لوڈشیڈنگ کیخلاف احتجاج کرتے ہیں مگرکیا ہم نے کبھی کسی بجلی چورکاگریبان پکڑا ہے۔پولیس کی ناانصافی اوربدعنوانی کاروناروتے ہیں مگرہماری شکایت پردرج ہونیوالی نوے فیصد ایف آئی آرجھوٹ پرمبنی ہوتی ہیں ۔اگر گھر ،گلی اورمحلے کی سطح سے احتساب کاسلسلہ شروع ہوجائے توہمارے ملک عزیز کی کایاپلٹ جائے گی ۔اگرعزت کامعیار کسی انسان کے منصب یادولت کی بجائے اس کے ذاتی کردارکوبنالیا جائے توہمارامعاشرہ کینسر وارڈ کے آئی سی یوسے باہرآجائے گا۔

اللہ تعالیٰ کے بعدبلاشبہ ڈاکٹرز دکھی انسانیت کیلئے مسیحا ہوتے ہیں ،ڈاکٹرزکوشش کرتے ہیں مگربیمار کو شفاءصرف اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ اگر مسیحازخم پرمرہم رکھنے کی بجائے الٹا انسانی زندگی سے کھیلناشروع کردیں گے توپھران میں اورشدت پسندوں میں کیا فرق رہ جائے گا۔ڈاکٹرز کی ہڑتال کے نتیجہ میں ہونیوالی اموات قتل عمد کے زمرے میں آتی ہیں،اگریہ شرافت سے راہ راست پرنہیں آتے توان کے ساتھ سخت رویہ اپنایاجائے ،ینگ ڈاکٹرز کیخلاف پنجاب حکومت کاحالیہ کریک ڈاﺅن درست اقدام ہے لیکن ان کیلئے معافی اورآبرومندانہ واپسی کاراستہ ضرورچھوڑاجائے کیونکہ یہ ہمارااثاثہ ہیں۔جیل کی شدید گرمی میں ان کاخمار پسینہ بن کراترجائے گا۔ینگ ڈاکٹرز چاہے ہمیں اپنا نہ سمجھیں مگر وہ ہمارے اپنے ہیں لہٰذا ءان کے لائسنس منسوخ اورانہیں سرکاری ملازمت کیلئے بلیک لسٹ کرنامناسب نہیں ہوگا۔جوینگ ڈاکٹر آئندہ ہڑتال نہ کرنے کاحلف دے کرڈیوٹی پرواپس آناچاہے اسے خوش آمدیدکہا جائے۔تاہم اس کڑے وقت میں پاکستان کے سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حکم پر پاک فوج ایک بار پھر اپنے ہم وطنوں کی مدد کیلئے میدان میں اتری ہے جس پرمیں جنرل اشفاق پرویز کیانی کوسلیوٹ کرتا ہوں۔فوج کے ڈاکٹرز نے لاہورسمیت مختلف شہروں کے ہسپتالوں میں ڈیوٹیاں سنبھال لی ہیں جس سے اوپی ڈی نے کام شروع کردیا ہے ۔جہاں جہاں سول حکمران اورسیاستدان ناکام ہوئے ہیں وہاں پاک فوج نے اپنا تعمیری کرداراداکیا اوراپنے ہم وطنوں کو بھرپورمددفراہم کی ۔

ینگ ڈاکٹرزکوبھی سوچناچاہئے کیا کوئی ڈاکٹر اپنے ماں باپ،بیوی بچوں یا عزیزواقارب کو یوںبستر مرگ پر تڑپتا ہواچھوڑکرہڑتال پرجا سکتاہے۔ وہ بیچارے مریض جوڈاکٹرز کی ہڑتال کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں کیا وہ انسان نہیں،کیاان کی زندگی ان کے پیاروں کیلئے اہم نہیں ہے ۔ینگ ڈاکٹرز اپنے نجی مفادات کیلئے انسانیت کوشرمندہ اورانسانی حقوق کاپوسٹ مارٹم نہ کریں۔انہیں حکومت کوانڈر پریشر کرنے کیلئے انسانی زندگی سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ پاکستان سمیت دنیا کا کوئی مہذب معاشرہ آئے روزڈاکٹرزکی ہڑتال کامتحمل نہیں ہوسکتا۔ڈاکٹری ایک مقدس پیشہ اورایک مشن ہے لہٰذاءچندپیسوں کیلئے اس کاوقار مجروح نہ کیا جائے۔ ڈاکٹرزاپنے پرائیویٹ کلینکس اورنجی ہسپتالوں میں آنیوالے مریضوں سے مرضی کی فیس وصول کرتے ہیں اوراس کے علاوہ انہیں ادویات سازاداروں، میڈیکل سٹوراورپرائیویٹ لیبارٹری مالکان سے بھی ہرماہ نقد نذرانہ ملتا ہے لہٰذا ان کے پاس ہڑتال اورسڑکوں پراحتجاج کرنے کاکوئی اخلاقی جوازنہیں رہ جاتا۔ ینگ ڈاکٹرزکی ہڑتال کے نتیجہ میں مریضوں کی اموات اورانہیں پیش آنیوالی مختلف مشکلات پنجاب حکومت کاایکشن جائز ہے ۔

ینگ ڈاکٹرز مریضوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے کے بعد دبنگ ڈاکو بن گئے ہیں۔جو ینگ ڈاکٹردبنگ ڈاکوبن جائے اس کے ساتھ سختی جائزہے۔معاشرے کاکوئی مہذب طبقہ ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال کوجائزقرارنہیں دے سکتا۔بدقسمتی سے دولت کی ہوس نے ڈاکٹراورڈاکو کے درمیان فرق مٹادیاہے۔ ینگ ڈاکٹرزکوبیمار انسانوں کویرغمال بنانے اوران کی محرومیوں کامذاق اڑانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ جو ڈاکٹرپنے مفادات اورمزیدمراعات کیلئے انسانی زندگی کوداﺅپرلگاسکتے ہیں وہ کسی رحم کے مستحق نہیں ہیں مگرپھر بھی ان سے روزگار نہ چھیناجائے ورنہ وہ ٹوٹ جائیں گے۔ ینگ ڈاکٹرزحکومت کوبلیک میل کرنے کیلئے مریضوں سے کس بات کاانتقام لے رہے ہیں ۔اگرایک ڈاکٹر کادل تکلیف اوردردکی شدت سے تڑپتے مریض کودیکھ کر بھی موم نہیں ہوتاتوپھراسے ڈاکٹر کہلوانے کاکوئی حق نہیں پہنچتا۔ینگ ڈاکٹرزنے چندہزارروپوں کیلئے اپنے پیشے کوبدنام کردیا ،ینگ ڈاکٹرز کی اس مجرمانہ روش پرسینئرڈاکٹرز کی خاموشی بھی ایک بڑاسوالیہ نشان ہے۔ اس طرح اگرپولیس اہلکار بھی تنخواہوں میں اضافہ کیلئے ہڑتال کردیں تواس صورت میںہمارامعاشرہ کسی جنگل سے بدترہوجائے گا۔ڈاکٹرزاپنے جائزمطالبات منوانے کیلئے ہڑتال کی بجائے کوئی معتدل اورمہذب راستہ اختیار کریں جس سے کسی مریض کی زندگی خطرے میں نہ پڑے ۔ مٹھی بھر ینگ ڈاکٹرز نے دوسرے ڈاکٹرز کویرغمال بنا لیا ہے ورنہ کوئی باضمیرڈاکٹرکسی بیمار ا نسان کوتکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔جس طرح ینگ ڈاکٹرز ہردوچارماہ بعدہڑتال پرچلے جاتے ہیں کاش اس طرح بیماریاں بھی ہڑتال پریاچھٹیوں پرچلی جایا کریں مگرایسا نہیں ہوسکتا۔اگرڈاکٹرزنے پیسہ ہی کمانا تھا تواس کیلئے وہ کسی دوسرے شعبہ میں چلے جاتے۔سیاستدان،پٹواری اورخواجہ سراءبھی بہت پیسہ کماتے ہیں ، پولیس فورس اورواپڈا میں بھی بڑا پیسہ ہے ۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126719 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.