اب کے بچھڑے تو شاید

شام کی سُرخی اندھیرے میں بدل چُکی تھی۔۔۔۔۔ گرد سے اٹے بلب کی روشنی قدیم زمانے کی لالٹین سے بھی ماند تھی۔۔۔۔۔ 55سال کی بھاگ بھری اپنے بستر پر لیٹے سامنے دیکھ رہی تھی۔ ۔۔۔۔۔ جیسے اُس کی آنکھوں میں انتظار تھا۔۔۔۔۔ مجھے اپنی جانب آتے دیکھ کر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔ اُس کی بجھی بجھی آنکھیں، لب اور چہرہ مُسکرا اُٹھے۔۔۔۔۔اپنے کمزور اور ضعیف ہاتھوں سے میرے ہاتھ کودباتے ہوئے دھیمی آواز میں میرا نام لیا ۔۔۔۔۔ میں نے اُس کے چہرے کی جانب دیکھا۔۔۔۔۔ اُس نے پہلا سوال یہی کیا ! تم پردیس جانے والے ہوکیا؟

میں نے آہستگی سے اپنا سر اثبات میں ہلا دیا۔۔۔۔۔اُس کے لبوں کی مسکراہٹ بالکل مدہم پڑ گئی۔۔۔۔۔ اور وہ خاموشی سے میری جانب دیکھتی رہی۔۔۔۔۔ہم دونوں کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔۔۔۔۔ میں جو پہلے ہی سب سے بچھڑنے کے خیال سے اندر سے ٹوٹ چکا تھا۔ ۔۔۔۔اُسے کیاسہارا دیتا۔۔۔۔۔ بہت مشکل سے بس اتنا کہہ سکا۔۔۔۔۔کہ آپ فکر نہ کریں ۔۔۔۔۔ اللہ بہتر کرے گا۔۔۔۔۔۔۔ اُس نے بھی بھرائی ہوئی آواز میں صرف اتنا کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ " اب کے بچھڑے تو شاید! ۔۔۔۔۔" اورپھر خامو ش ہوگئی۔

میرے پردیس جانے کے کچھ عرصہ بعد اُس کے ہاتھ میں دروازے کے کیل سے ہلکا سا زخم ہوا۔ 4,5روز شدید تکلیف رہی۔ عزیز واقارب اُسے شہر کے پرائیویٹ ہسپتال لے گئے۔ جہاں ڈاکٹر نے اُس کا علاج شروع کیا۔ جس سے کچھ فائدہ نہ ہوا۔ بلکہ علاج شروع ہونے کے دو دن بعد پورے جسم پر سوجن بڑھنے لگی اور تکلیف تھی کہ ہرلمحہ بڑھتی جا رہی تھی۔ اگلے دن ڈاکٹر نے یہ کہا کہ اسے کینسر ہے جو آخری سٹیج کو پہنچ چکا ہے۔ لہٰذا آپ اسے گھر لے جائیں۔

پہلے تو سب حیران ہوئے ۔ کوئی یقین کرنے کو تیار نہ تھا۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ ضعیف العمری اپنی جگہ لیکن اس سے پہلے تو کوئی ایسی بات نہیں تھی۔ ڈاکٹر کے اسرار پر بھاری بھرکم بل کی ادائیگی کے بعد ہسپتال سے فارغ ہوئے۔ مگر ایسی تکلیف دہ حالت میں گھر لے جانابھی سمجھ سے بالا تر تھا۔ آخر کار وہیں سے الائیڈ ہسپتال فیصل آبادجانے کا فیصلہ کیا۔

الائیڈ ہسپتال فیصل آباد کے ڈاکٹروں نے کینسر کی تشخیص کے تمام ضروری ٹیسٹ کئے ۔رزلٹ آنے کے بعد معلوم ہوا کہ تمام ٹیسٹ نارمل ہیں۔ کسی قسم کے کینسر کا نشان تک نہیں۔ لیکن اب تک بہت دیر ہوچُکی تھی۔ ڈاکٹروں کی تمام ترکوشش اور علاج کے باوجود بچنے کی کوئی اُمید باقی نہ تھی کیونکہ اس دوران حالت بہت بگڑ چُکی تھی ۔ آخرکار دس بارہ روزہ زندگی موت کی کشمکش کے بعد بھاگ بھری کو دُنیا کے تمام دُکھوں اور سختیوں سے چھٹکارا مل گیا۔ وہ خالق ِ حقیقی سے جاملی۔ اس طرح ڈاکٹروں کی لاپرواہی ، غفلت اور بے رحم موت کی ملی بھگت نے مجھ سے بے لوث دعاﺅں کا سہارا چھین لیا۔

دراصل ہوا یہ کہ پرائیویٹ ہسپتال کے ڈاکٹر کے غلط انجیکشن کی وجہ سے حالت بگڑی اور ڈاکٹر نے صورت حال کو بھانپتے ہوئے اپنی جان چھڑانے کے چکر میں اصل حقائق چھپائے۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ جو وقت اورپیسہ سرطان کی تشخیص میں ضائع ہوا۔ اس عرصہ میں براہِ راست اصل تکلیف کا علاج کیا جاتا تو شاید موت واقع نہ ہوتی۔

پاکستان کے کونے کونے میں موت کے سوداگر موجود ہیں جو نہ تو درست تشخیص کے قابل ہیں اورنہ ہی دواﺅں کے استعمال سے واقف ہیں۔ جن کی خود غرضی ، لالچ ، غلط تشخیص ، غلط مشوروں اور غلط علاج کی وجہ سے بے شمار مریض موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔

آخرہمارے ہاں ایسے واقعات اتنے تواترسے کیوں ہوتے ہیں۔ ڈاکٹروں اور دواساز اداروں پرچیک اینڈ بیلنس کیوں نہیں۔ ایسے نااہل تو اُن ظالم دہشت گردوں سے بھی برے ہیں۔ جو نہتے ، مجبو ر اور بے قصور شہریوں کا خون بہانے کے بعد اپنی ذمہ داری تو قبول کرلیتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے طبقہ کی لاپرواہی ، لالچ اور غفلت کی وجہ سے سینکڑوں لوگ جنہوں نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی سے دوائیں لیں اور موت کے منہ میں چلے گئے۔ لیکن نہ تو کوئی ذمہ دار ہے اور نہ ہی کوئی ذمہ داری قبول کرنے کوتیا ر ہے۔ آخر کسی بھی مرحلے پر ان کا احتساب کیوں نہیں ہوتا ہے۔ ۔۔۔۔یاپھر شاید انہیں بھی مکمل استثنیٰ حاصل ہے۔

پاکستان کے شہر لاہور میں، دل کے ہسپتال، پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی سے حاصل کردہ دواﺅں کی وجہ سے ہزاروں مریضوں کا متاثر ہونا اور سینکڑوں مریضوں کا موت کے منہ میں چلے جانا ٹھہرا۔۔۔۔۔ تو پھر ملک کے دور افتادہ علاقوں کی "بھاگ بھریاں" اپنے پیاروں سے جدا ہوتے وقت یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ " اب کے بچھڑے تو شاید! ۔۔۔۔۔"

کہنے کویہ ایک سادہ سا جملہ ہے لیکن اگر غور کیا جائے، تواس جملے میں ہزاروں آہیں ، سسکیاں اور آنسو چھپے ہیں۔یہاں پردیس میں مجھ جیسے ہر غریب الوطن کے ذہن وقلب کو ایسے بے شمار خدشے اور وسوسے ہروقت بے چین کئے رکھتے ہیں تومیرے دیس پاکستان میں زلزلہ ، سیلاب ، ڈینگی مچھرجیسی قدرتی آفات، ڈرون حملوں، دہشت گردوں، مفادپرست اشرافیہ، دواسازاداروں، جانوروں کی ادویہ ساز فیکٹری کے متاثرین سمیت بے رحم اور خودغرض ڈاکٹروں کی جاری ہڑتال نے میرے وطن کے ہرشخص کی حالت بقول شاعر ۔(منیر نیازی)
اُپر قہر خُدا میرے د ا - ہیٹھاں لکھ بلاواں
سب راہواں تے موت کھلوتی - کہڑے پاسے جاواں

اے رب العزت ہمارے گناہوں کو معاف فرما، ہمارے حال پر رحم فرما اور ہمارے ملک پاکستان سمیت پُورے عالمِ اسلام میںامن و سکون عطاءفرما (آمین ثم آمین یارب العالمین)۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

MUHAMMAD AKRAM AWAN
About the Author: MUHAMMAD AKRAM AWAN Read More Articles by MUHAMMAD AKRAM AWAN: 99 Articles with 84144 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.

- Find latest Urdu articles & Columns at Hamariweb.com. Read and other miscellaneous Articles and Columns in Urdu & English. You can search this page as .