سنت اور حدیث میں فرق

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ وکفی وسلام علی عبادہ الذین الصطفی۔اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔اھدنا الصراط المستقیم ۔صراط الذین انعمت علیھم۔ غیر المغضوب علیھم ولا الضالین۔ وقال رسول اللہ ﷺ علیکم بسنتی وسنة خلفاءالراشدین المھدیین۔صدق اللہ مولٰنا العظیم وبلغنا رسولہ النبی الکریم الامین ۔ونحن علیٰ ذالک لمن الشاھدین والشاکرین والحمد للہ رب العالمین۔

اللہ تبارک وتعا لٰی کا لاکھ لاکھ احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنی پوری مخلوقات میں سے ہمیں انسان بنایا جو کہ اشرف المخلوقات ہے۔او ر انسانوں میں سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں مسلمان بنایا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سچا دین صرف اور صرف اسلام ہے۔اور پھر مسلمانوں میں اہل سنت والجماعت بننے کی توفیق عطاءفرمائی ۔ جس طرح سارے دینوں میں سچا دین صرف اسلام ہے اسی طرح مسلمانوں میں سے نجات پانے والی جماعت کا نام اہل سنت والجماعت ہے۔رسول اللہ ﷺ نے اس کے بارے میں تاکیدیں فرمائیں کہ علیکم بسنّتی میر ی سنّت کو لازم پکڑنااور فرمایا فمن رغب عن سنّتی فلیس منّی جو میری سنّت سے منہ موڑ گیا ہو میرا کہلانے کا حقدار نہیں۔من احبّ سنّتی فقد احبّنی ۔جس نے میری سنّت سے پیار کیااس نے مجھ سے پیار کیا ومن احبنی کان معی فی الجنّة اور جس نے مجھ سے پیا ر کیا وہ میرے ساتھ جنّت میں ہو گا۔تو آپ ﷺ نے سنت پر عمل کرنے کی بہت تاکیدین فرمائیں۔

حضرت آپ کی سنت کیا ہے؟

ایک دن صحابہ اکرام ؓ نے عرض کیا کہ حضرت آپ کی سنّت کیا ہے؟فرمایا میری سنّت یہ ہے کہ سینہ کینے سے پاک ہو۔ہمارے مسلک اہل سنّت والجماعت میں جہاں اورہزاروں خوبیاں ہیں ایک سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس مسلک کی بنیاد کسی کینے پر نہیں۔آپ اِرد گِرد نظر دوڑائیں گے کسی فرقے کی بنیاد ہی یہی ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ کے صحابہؓ سے کینہ رکھا جائے۔ کسی کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ نبی پاک ﷺکے اہل بیت سے کینہ ہو۔کسی کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ فقہاءکرام کے خلاف کینہ ہو ۔کسی کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ محدثین کے خلاف کینہ ہو ۔عثمانی کی بنیادہی اسی بات پر ہے کہ اولیٰاءاللہ کے خلاف کینہ رکھا جائے۔کوئی علماءامت کے خلاف کینہ رکھتا ہے۔لیکن ایک مسلک اہل سنّت والجماعت ہے جو دنیا میں محبت اور پیار کا پیغام دیتا ہے۔وہ یہ ہی کہتا ہے ، ان کی دُعا اور محنت یہ ہی ہے کہ یا اللہ جس طرح ہمارا کینہ صحابہ کرام ؓ کی محبت سے پر نور ہے سب کے سینے کو صحابہ کی محبت سے پر نور کر دے۔یا اللہ جس طرح ہمار ے دل اہل بیت کی محبت سے منوّر ہیں سے کے دلوں میں آپ ﷺ کی اور اہل بیت کی محبت پیدا فرمادیجیے۔یا اللہ جس طرح فقہاءومحدثین سے ہمیں محبت ہے،یہ دو جماعتیں ہیں فقہاءاور محدثین جنہوں نے صحابہؓ کے بعد دین کی خدمت کی ہے۔

محدث اور فقیہ میں فرق کی مثال:

کیا بات ہے؟کیا بات ہے(ڈانٹ کے ساتھ غصّے کا اظہار کرتے ہوئے)۔ کیا بات ہے (تعریفی انداز میں)دیکھیے ایک فقرہ میں نے آپ کے سامنے تین دفعہ بولا ہے۔پہلے میرا لہجہ سوالیہ تھا تو سب نے پیچھے دیکھا پتہ نہیں کیا بات ہے اِدھر۔دوسری بار میں نے صرف لہجہ بدلہ ہے ایک نقطہ بھی کم وبیش نہیں کیااور میں نے پوراغصہ اس میں بھر دیا ہے گویا میں کسی کو ڈانٹ رہا ہوں۔تیسری مرتبہ میں نے یہ ہی فقرہ بولا ہے صرف لہجہ بدلا ہے اور اسی فقرے میں محبت اور پیار بھر دیا ہے گویا میں کسی کی تعریف کر رہا ہوں کہ کیا بات ہے۔اب یہ میرا بولا ہو ا فقرا کا غذپر لکھ کر کسی کے سامنے رکھ دیاجائے تو جس نے میر ا لب و لہجہ نہیں دیکھا تو وہ کیا سمجھے گاکہ یہ پیار میں کہا ہے یا غصّے میں کہا ہے یا سوالیہ لہجہ ہے۔تو معلوم ہواکہ ہمیں صرف الفاظ کی ضرورت نہیں ہے۔کس ماحول میںحضرت نے ارشاد فرمایا آپ کا لب و لہجہ کیا تھا اس کی بھی ضرورت ہے۔اسی لیے محدثین کو ن ہیں؟ الفاظ شناس ِ رسول ﷺ۔اور فقہاہیں مزاج شناسِ رسول ﷺ۔محدث کی رسائی زبانِ رسول ﷺ تک ہے کہ حضرت فرمان کیا فرما رہے ہیں۔اور فقہا حضرت کی پیشانی سے سینکڑوں مسائل پڑ ھ جاتے ہیں۔اسی لیے یہ دونوں جماعتیں دین کی خادم ہیں کہ ایک نے چھلکے کو محفوظ کیا ہے دوسرے نے مغظ کو محفوظ کیا ہے۔اور اہل سنت والجماعت (الحمد للہ ) دونوں سے محبت رکھتے ہیں۔اولیاءاللہ سے محبت رکھتے ہیں۔ تو ایک تو خوبی یہ ہوئی دنیا میں کہ اہل سنت والجماعت جو مسلک ہے یہ محبت اور پیار کا مسلک ہے۔صحابہؓ سے محبت رکھو، اہل بیت سے محبت رکھو ، اولیاءاللہ سے محبت رکھو، علماءامت سے پیار کرو، فقہا سے محبت رکھو، محدثین سے محبت رکھو۔ یہ تو دنیا میں فائدہ ہے۔اور آخرت میں جب ان کی بات سنی جائے گی اللہ کی بارگاہ میں تو آج اگر حضرت تونسوی دامت برکاتھم العالیہ یہ گالیاں سن کر بھی فاروق اعظم کی شان بیان کرتے ہیں تو کیا قیامت کے دن فاروق اعظم جو ہیں وہ حضرت تونسوی ؒ کو بھول جائیں گے؟وہ سفارش کریں گے سنیوں کی۔حضرت مولٰنا قاضی مظہر حسین صاحب دامت برکاتہم العالیہ سب کی گالیاں سن کر بھی اہل بیت کی شان بیان کرتے ہیں۔تو کیا قیامت کے دن اہل بیت قاضی صاحب کو بھول جائیں گے۔قیامت میں فائدہ یہ ہو گا کہ صحابہ کہیں گے آؤ ہم تمہاری سفارش کر دیں اللہ کی بارگاہ میں۔اہل بیت بھی آوازیں دیں گے سنیو آﺅ ہم تمہاری سفارش کر دیں اللہ کی بارگاہ میں۔ محدثین بھی ہماری سفارش کریں گے الحمد للہ ۔ فقہا بھی ہماری سفارش کریں گے۔اولیاءاللہ بھی ہماری سفارش کریں گے۔تو اس لیے یہ ایک ایسی با برکت جماعت ہے جو دنیا میں بھی محبت اور پیار کا پیغام دیتی ہے۔

سنّت کسے کہتے ہیں۔

آپ اپنے کاموں پر نظر دوڑائیں تو یقینا آپ اپنے کاموں کو دو حصّوں میں تقسیم کر لیتے ہیں۔ ایک وہ کام جو آپ عادةً کرتے ہیں۔اور ایک وہ کام جو کبھی ضرورتاً کرتے ہیں۔مثلاًایک آدمی کی عادت ہے کہ روزانہ فجر کی نمازکے بعد ایک پارہ تلاوت کرتا ہے اس نے عادت بنا لی۔ اسی طرح ایک آدمی ہے وہ روزانہ اذان سے پہلے سیر کونکل جاتا ہے پھر آکرجماعت سے نماز پڑھ لیتا ہے۔انہوں نے ایک عادت بنا لی ہے۔ایک دن آپ نے دیکھا اس نے تلاوت نہیں کی اُٹھ کر چلا گیا ہے اگلے دن آپ نے پوچھا کل آپ بیٹھے نہیں۔ وہ جواب دیتا ہے کہ ایک دوست بیمار تھا میں نے سوچا کالج جانے سے پہلے اس کی بیمار پرسی کر لوں ۔ تو یہ عمل جو اس نے کیا یہ ضرورت تھی نہ کہ عادت ۔ تو جب آپ اپنے کاموں پر نظر دوڑائیں گے تو کچھ کام آپ ضرورةً کرتے ہیں اور کچھ کام آپ عادةً کرتے ہیں۔یقینا آپ ﷺ کے مبارک کام بھی ان دو حصوں میں تقسیم ہیں۔ کچھ کا م آپ عادةً فرماتے تھے اور کچھ کام ضرورةً فرماتے تھے۔اب ان میں سے ہم نے تابعداری کن کاموں کی کرنی ہے فرمایا علیکم بسنّتی وہ جو میں عادةًکام کرتا ہوں ان کی تابعداری کرو۔ اب حدیث میں دونوں چیزیں آئیں گی سنت والے کا م بھی اور عادت والے کام بھی۔اب جس میں دو چیزیں آجائیں وہاں ہمیں حکم ہے علیکم بسنّتی۔آپ ﷺ کی عادت کا اتباع کرنا ہے آپ ﷺ کی مبارک عادت کو ہم نے بھی عادت بناناہے اور اپنانا ہے۔

اس بات کو ایک دو مثالوں سے سمجھیں۔

آپ روزانہ وضو میں کلّی کرتے ہو نا؟یہ حضور پاک ﷺ کی مبارک عادت تھی کہ آپ ﷺ روزانہ وضو میں کلی فرماتے تھے۔اب یہ عادت امّت نے عادت کے انداز میں ہی اپنا لی۔جہاں بھی کوئی وضو کرتا ہے اس میں کلّی کرتا ہے یا نہیں کرتا؟اگر ایک دن آپ وضو میںکلی نہ کریں تو آپ کا دل یقینا جھنجھوڑے گاکہ آج ایک سنت کا ثواب ضایع ہو گیا ہے۔جھنجھوڑے گا یا نہیں؟لیکن جن حدیث کی کتابوں آپ ﷺ کی اس مبارک عادت کا تذکرہ ہے کہ آپ ﷺ کلی فرماتے تھے فقہاءنے اس کو سنّتوں میں شمار کیا ہے۔احادیث کی کتابوں میں ایسی کتابیں بھی ملتی ہیں کہ وضوکے بعد آپ ﷺ نے بیوی سے بوس وکنار بھی فرمایا ہو۔یہ عادت نہیں تھی بلکہ ضرورت تھی۔کیونکہ پیغمبر پر مسئلہ سمجھانا بھی ایک ضرورت ہو تی ہے کہ کہاں تک وضو ہے اور کہاں تک ٹوٹ گیا۔

جیسے :

ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم ؓ تشریف لائے ایک سیب ہاتھ میں ہے رمضان کا مہینہ ہے اور روضہ رکھا ہوا ہے۔ آ کر عرض کیا حضرت اگر روضے کی حالت میںبیوی سے بوس و کنار کر لیا جائے تو روضہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟حضرت یوں بھی فرماسکتے تھے کہ ٹوٹ جاتا ہے اور یوںبھی کہ نہیں۔لیکن دیکھا کہ یہ صحابی تو مجتہد ہے اس کو تو اجتہاد کا انداز سکھانا چاہیے۔آپ ﷺ نے پوچھا کہ ہاتھ میں کیا ہے فرمایا جی سیب ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ ذرا مجھے دو۔ آپ ﷺ نے سیب لے کر مبارک ہونٹوں پر رکھ لیاپھر حضرت عمر ؓ سے پوچھا کہ عمر کیا میرا روضہ ٹوٹ گیا ہے؟حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ ایسے تونہیں بلکہ کھانے سے ٹوٹے گا۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو مسئلہ تو نے پوچھا وہ سمجھ آگیا یا نہیں ۔حضرت عمرؓ کہنے لگے کہ سمجھ آ گیا ۔

حضرت امام اعظم امام ابو حنیفہ ؒ کی ذہانت:

حضرت امام اعظم امام ابو حنیفہ ؒ سبق پڑھا رہے تھے برقعے میں ایک عورت آئی اس نے ایک سیب اور ایک چھری امام صاحب ؒ کو دے دی۔طلباءبڑے خوش ہوئے کہ بھئی بہت ہی نیک عورت ہے کہ سیب تو لائی ساتھ چھری بھی لے آئی تاکہ ہمیں تلا ش نہ کرنی پڑے۔ کیونکہ طالبعلموں کی سستی تو بڑی مشہور ہوتی ہے،

لطیفہ :

ایک بار طالب علم روٹی کھا رہے تھے لقمہ اٹک گیا اب اس کو کوئی پانی لا کر نہیں دے رہا بلکہ ایک اٹھتا ہے دو مکّے مارتا ہے دوسرا اُٹھتا ہے دو مکّے مارتا ہے تاکہ نیچے چلا جائے۔ آخر لقمہ بھی ایسا تھا جو کسی کی بات نہیں مانتا تھالقمے کو مکّوں کی دلیل سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ اب وہ خود ہی اُٹھااور جا کر کنویں میں ڈول ڈالا جب کھینچنے لگا اس بھرے ہوئے ڈول کو تو زور لگا وہ لقمہ نیچے چلا گیاتو وہ بھی ڈول وہیں پھینک کر آ گیا ،

خیر بات یہ کر رہا تھا کہ طلباءبڑے خوش ہوئے کہ بڑی نیک عورت ہے کہ سیب تولائی ہے ساتھ چھری بھی لائی ہے۔امام اعظم ؒ نے سیب کاٹااس کا جو اندر کا حصّہ تھا وہ باہر نکال کر چھری اور سیب عورت کو واپس کر دیا ۔ اب شاگرد امام صاحبؒ کو حدیثیں سنا رہے ہیں کہ حضرت حدیث میں تو آتا ہے کہ ہدیہ قبول کر لینا چاہیے تو آپ نے تو حدیث کے خلا ف عمل کیا ہے۔اگر آپ کو ضرورت نہیں تھی تو ہم جو یہاں بیٹھے ہوئے تھے اور ہدیے میں سارے شریک ہوتے ہیں آپ ہمیں دے دیتے۔امام صاحبؒ نے فرمایاوہ بے چاری تو مسئلہ پوچھنے آئی تھی۔اب یہ حیر ان کہ مسئلہ کونسا پوچھ کر گئی ہے۔نہ اس نے زبان سے پوچھا نہ اس نے زبان سے بتایا ۔ فرمایا کہ سیب کے باہر کئی رنگ ہوتے ہیں کہیں مٹیالہ ہے،کہیں مہندی کا رنگ ہے، کہیں سبز ہے کہیں سرخ ہے۔عورت جب ناپاک ہوتی ہے تو خون کئی رنگ بدلتا رہتا ہے۔وہ یہ مسئلہ پوچھنے آئی تھی کہ کونسا رنگ ناپاکی کا ہے اور کونسا پاکی کا ہے کہ کب نماز شروع کی جائے اگرچہ سیب کے باہر بہت سے رنگ ہو تے ہیں لیکن اس کو کاٹیں تو اندر ایک ہی سفید رنگ ہے اور کوئی رنگ نہیں۔تو میں نے کاٹ کر وہ سفیدحصّہ باہر کی طرف کر کے اس کو دےدیاکہ سوائے سفید کے سارے رنگ ناپاکی کے ہیں۔وہ خیرالقرون کا زمانہ تھا اندازہ کرو کہ عورت کو بھی اللہ تعالیٰ نے کیسا دماغ دیا تھا کہ کس طرح مسئلہ پوچھااور اما م اعظم ؒ نے بھی کس انداز میں مسئلہ سمجھایا ۔

تو خیر میں عرض کر رہا تھاوضو کے بعدبیوی سے بوس و کنار کی حدیث آتی ہے۔لیکن آپ لوگوں نے زندگی میں جتنے وضو کیے تو کیا جس طرح آپ ہر وضو میں کلی کرتے ہیں کیا اسی طرح ہر وضو کے بعد بیوی سے بوس و کنار بھی کرتے ہیں؟اور اگر نہیںکرتے تو کیا آپ کو دل جھنجھوڑتا ہے کہ آج سنّت کا ثوا ب نہیں ملا؟آخر کیوں؟ وہ بھی حضور ﷺ کا عمل ہے اور یہ بھی ۔فرق کیا ہے کہ وہ(کلی کرنا)صرف حدیث نہیںبلکہ آپ ﷺ کی عادت مبارکہ ہے اوریہ صرف حدیث ہے۔ہمیں حکم ہے آپ ﷺ کی عادت مبارکہ کو اپنانے کا۔اس لیے ہم وضو کریں گے کلی کریں گے اور نماز پڑھیں گے۔ یہ ہوا سنت پر عمل ۔ اور اگر ہم وضو کر کے بیوی سے بوس و کنار کریں گے تو یہ ہے حدیث پر عمل نہ کہ سنت پر۔

بخاری ومسلم میں حدیث موجود ہے کہ آپ ﷺجوتے پہن کر نماز پڑھتے تھے۔جوتے اُتار کر نماز پڑھنے کی حدیث بخاری ومسلم میں بالکل ہی نہیں ہے بلکہ ابو داﺅد شریف میں ہے۔لیکن کیونکہ جوتے اُتار کر نماز پڑھنا حضور ﷺ کی عادت مبارک تھی اس لیے امت نے آپ ﷺ کی اسی عادت کو اپنایا اور اسی لیے ہم آپ ﷺکی سنت کے مطابق جوتے اُتار کر نماز پڑھتے ہیںاگرچہ جوتا پہن کر نماز پڑھنے کی احادیث بخاری ومسلم میں موجود ہیں ۔یہ ہے سنت اور حدیث میں فرق۔اس لیے جو حضرات یہ رٹ لگاتے ہیں کہ حدیث پر عمل کرو حدیث پر عمل کر و یہ نہ دیکھا جائے کہ آپ ﷺ کی سنت کیا تھی وہ حدیث کے نام پر سنت کو مٹا رہا ہے۔حضور ﷺ نے تو فرمایا تھا میری سنت کو اپنانا جبکہ آج کل شور و غل ہے کہ حدیث پر عمل کرو حدیث پر۔

اسی طرح کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی حدیث بخاری ومسلم میں موجود ہے جبکہ بیٹھ کہ پیشاب کرنے کی حدیث بخاری ومسلم میں بالکل ہی نہیں بلکہ ترمذی وابو داؤد میں ہے۔لیکن بیٹھ کر پیشاب کرنا حضور ﷺ کی عادت مبارکہ تھی آپﷺ کی عادت کو امت نے عادةً ہی اپنایا ۔اور ساری امت بیٹھ کر پیشاب کرتی آ رہی ہے۔اب بیٹھ کر پیشاب کرنے والا کیونکہ سنت پر عمل کررہا ہے اس لیے یہ اہل سنت ہے۔اور جو کھڑے ہو کر پیشاب کرنے والی بخاری ومسلم کی حدیث پرعمل کرتا ہے وہ اہل حدیث ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کیونکہ ہمارے پاک پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ علیکم بسنتی میری سنت کو اپنانا اسی لیے ہم کو تو سنت پر چلنے دو۔اگر آپ کہتے ہو کہ ہم نے تو حدیث پر عمل کرنا ہے اہل حدیث ہی بننا ہے سنت پر عمل نہیں کرنا تو ہم کو سنت سے نہ ہٹاؤ۔بلکہ ہم آپ کو حدیث پرعمل کروانے میں آپ کی مدد کردیں گے ۔ وہ ایسے کہ جہاں کسی کو بیٹھ کر پیشاب کرتے دیکھ لیا اسے فوراً کھڑا کر دیں گے کہ بھائی بیٹھ کر پیشاب کرنا حضور ﷺ کی سنت ہے اس لیے یہ اہل سنت کا طریقہ ہے ۔ تو اہل حدیث ہے حدیث پر عمل کر کھڑا ہو کر پیشاب کر ۔

الحمد للہ ہم اہل سنت والجماعت ہیں آپ ﷺ کی عادات مبارکہ کو اپنانے والے۔معلوم ہوا کہ صرف حدیث کے لیے سنت ہونا ضروری نہیں (یعنی جو بات بھی حدیث میں آجائے ضروری نہیں کہ وہ ہی سنت ہو۔جیسا کہ سابقہ مثالوں سے معلوم ہو گیا)۔

سینے پر ہاتھ باندھنے کی حدیث بخاری میں ہے۔

چنیوٹ کا ایک طالب علم میرے پاس پڑھتا تھا۔شکیل نام تھا۔میں لڑکوں کو کہتا تھا کہ تبلیغی جماعت والوںکی طرح کبھی کبھی اپنی مسجد میں اکٹھے ہو کر سب بیٹھ جاؤ اور ایک لڑکا کھڑا ہو کر بیان کرے تا کہ بات کرنے کی جھجک دور ہو ۔اوریہ بھی معلوم ہو جائے کہ جواب دینے میں کیا کمزوری رہ گئی ہے۔پھر اس جواب کی تیاری ہو ۔خیر وہ لڑکا کسی مسجد میں گیا جماعت ہو چکی تھی دو تین آدمی نماز پڑھ رہے تھے ۔ یہ ایک آدمی کے پاس جا کر بیٹھ گیا ۔ جب اس نے سلام پھیرا تو اِس نے سلام کیا ۔ اُ س نماز پڑھنے والے نے جواب دیا۔اِس نے پوچھا کہ جی آپ کے والد صاحب حیات ہیں؟ اُس نے کہا جی ہاں۔لڑکے نے پوچھا کہ کیا کسی باہر کے ملک میں رہتے ہیں۔ کہا جی ہاں باہر رہتے ہیں۔ مگر آپ کو کیسے معلوم آپ کیوںپوچھ رہے ہیں ۔ لڑکے نے کہا کہ کچھ نہیں بس کوئی بات تھی ۔ اُس آدمی نے پھر پوچھا کہ آپ کے پوچھنے کی وجہ کیا تھی۔ اس لڑکے نے جواب دیا کہ آپ امی والی نماز پڑھ رھے تھے ابّا والی نہیں پڑھ رہے تھے اسی سے میں نے سمجھ لیا کہ یا تو ابا وفات پاگئے ہوں گے یا باہر کسی ملک میں ہوں گے اور نماز امی سے سیکھی ہو گی ۔ اسی لیے سینے پر ہا تھ باندھ رہے ہیں۔وہ آدمی بڑا تلملایا ۔کہا کہ بخاری میں ہے یہ حدیث بخاری میں۔لڑکے نے کہا کہ بالکل جھوٹ ہے یہ حدیث بخاری میں نہیں ہے۔

مجھے واپس آ کر اس لڑکے نے یہ لطیفہ سنایا کہ آج یہ ماجرہ پیش آیا ۔کل اس نے مجھے بخاری میں یہ حدیث دکھانی ہے ۔ میں نے کہا فکر نہ کرو بخاری میں یہ حدیث ہے ہی نہیں۔اب اس لڑکے کے ساتھ ایک دو ساتھی اور چلے گئے کہ جی وہ کل آپ نے کہا تھا کہ حدیث دکھاﺅ ں گا وہ حدیث دیکھنی ہے۔وہ آگے سے لڑ پڑا کہ دفع ہو جاؤ یہاں سے ۔مجھے کل پتہ نہیں چلاتو نیو ٹاﺅن سے آیا ہے اور امین کا شاگرد ہے۔لڑکے نے کہا کہ امین کے شاگرد کو حدیث دکھانے سے کیا حضور ﷺ نے منع کیا ہے۔اُس آدمی نے کہا کہ نہیں تو شرارت کرتا ہے۔لڑکے نے کہا کہ چلو بالفرض میں شرارت کر رہا ہوں تو حدیث تو دکھا دے نا۔

بخاری ومسلم کے خلاف ہے۔

ایک دن اسی طرح وہ جامعہ ستاریہ چلا گیا ۔کہتا ہے کہ میں نے جا کر دو نفل پڑھے۔دوتین بابے بیٹھے تھے۔شور مچانے لگے نماز نہیں ہوتی ۔ نماز نہیں ہو تی۔بخاری مسلم کے خلاف ہے ۔ حدیث کے خلا ف ہے۔میں نے کہا بابا جی نماز تو پڑھ لینے دو شور کیوں مچاتے ہو ۔ وہ پھربول پڑے جی ہوتی ہی نہیں ہے۔ہوتی ہی نہیں ہے۔پوچھا کیا ہوا۔کہابزرگوں نے کہ بخاری ومسلم کی حدیث کے خلا ف ہے۔اس نے کہا چلو حدیث کے خلا ف ہے سنت کے خلاف تو نہیں میں تو اہل سنت ہوں۔ آپ کو کس نے کہا کہ میں اہل حدیث ہوں۔ بزرگوں نے گرج کر کہا کہ جو بخاری کے خلاف نماز پڑھتا ہو اس کی نماز نہیں ہو تی ۔لڑکے نے کہا کہ ویسے ہی غصہ کر رہے ہو یہ جو باقی لوگ نماز پڑھ رہے ہیں ان کو کیوں نہیں کچھ کہتے۔ کہا کہ یہ لوگ تو بخاری کے خلاف نماز نہیں پڑھ رہے۔لڑکے نے پوچھا کہ کون پڑھ رہا ہے۔کسی نے نماز میں جوتا نہیں پہنا ہوا ۔ ان سب کو جوتے پہنا ﺅ تا کہ بخاری ومسلم پر عمل ہو جائے۔

بخاری میں باب ہے باب الصلٰوة فی ثوب واحد۔ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا باب ہے تین کپڑوں میں نماز پڑھنے کا باب بخاری میں نہیں ہے۔تو ان کے کپڑے اُتارو کسی کی قمیص رہنے دو کسی کی جراب رہنے دو کسی کی صرف بنیان رہنے دو۔تاکہ آرام سے گن کر بتایا جاسکے کہ یہ دیکھئے ایک کپڑے میں نماز ہو رہی ہے۔حدیث پر عمل ہو رہا ہے۔ بخاری پر عمل ہو رہا ہے۔اور بخاری ومسلم میں ہے۔ کہ کان یصلی وھو حامل حمامة بنت عاص کہ اپنی نواسی کو گود میں اُٹھا کر حضور ﷺ نماز پڑھ رہے ہیں۔دو چار بچے یہاں موجود رکھو تاکہ جو بھی نماز پڑھے اس پر بچے کو سوار کر دیا جائے۔تا کہ نماز بخاری ومسلم کے مطابق ہو جائے۔وہ لڑکا کہتا ہے کہ اتنے میں دیکھا کہ ایک آدمی بیٹھ کر استنجا کر رہا تھا میں نے کہا کہ دیکھو وہ آدمی بیٹھ کر استنجا کر رہا ہے اُسے کھڑا کر و بخاری ومسلم کے خلاف کر رہا ہے۔کم از کم اُس کو تو بتاؤ کہ بخاری ومسلم میں بیٹھ کر پیشاب کر نے کی حدیث مو جو د نہیں ہے۔وہ لڑکا کہتا ہے کہ مجھے کہنے لگے کہ چلو ہمار ے شیخ الحدیث کے پاس۔لڑکے نے کہا چلو۔بزرگوں نے جا کر کہا کہ جی یہ کہتا ہے کہ یہ یہ بات بخاری ومسلم میں ہے۔شیخ الحدیث نے کہا کہ جی ہاں ہے۔بزرگوں نے کہا کہ پھر اس پر ہمارا عمل کیوں نہیں؟شیخ الحدیث نے کہا کہ بس یہ لڑکا کوئی شرارتی معلوم ہوتا ہے ۔ لڑکے نے کہا کہ بخاری ومسلم کی حدیث پر عمل کرنے کو آپ شرارت کہتے ہیں۔

آمین تین بار کہنا سنت ہے۔

اسی طرح فتاوی ستاریہ میں مسئلہ لکھا ہو ا ہے کہ تین دفعہ آمین کہنا سنت ہے اور آمین کے ساتھ رب اغفرلی کہنا بھی سنت ہے۔ تین بار۔ ایک شاگرد نے وہ صفحہ فوٹو سٹیٹ کروا لیا جیب میں ڈالا اور چلا گیا ان کی مسجد میں مغرب کی نماز تھی ۔امام نے کہا ولاالضالین۔ سب نے کہا آمین ۔ اس لڑکے نے کہا آ۔آ۔آمین۔رب اغفر لی۔پھر کہا۔آ ۔ آ۔آمین ۔رب اغفر لی۔پھر کہا۔آ ۔ آ۔آمین ۔رب اغفر لی۔

اب شور مچ گیا ۔ پوچھا گیا تو کہاں سے آیا ہے ۔ کہنے لگا کہ جی میں تو حدیث پر عمل کررہا ہوں یہ دیکھو فتاوٰی ستاریہ میں لکھا ہے۔ عجیب بات ہے کہ اہل حدیث کی مسجدہے اور حدیث پر عمل کرنے سے ناراض ہو رہے ہیں۔ کیوں ناراض ہو رہے ہیں۔کہنے لگے نہیں نہیں تو شرارت کر رہا ہے۔ لڑکے نے کہا کہ حدیث پر عمل کرنا شرارت ہے؟عجیب بات ہے؟ اہل حدیث کہ منہ سے یہ کہنا کیسے زیب دیتا ہے کہ حدیث پر عمل کرنا شرارت ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ کبھی کبھی عمل کرنا چاہیے۔کہنے لگا کہ بھئی کبھی کبھی کا لفظ دکھاؤ کہ کہاں ہے حدیث میں؟تو میں کبھی کبھی کرلیا کروں گا۔ تو وہ خاموش ہو گئے۔

تو بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اہل سنت والجماعت ہیں اہل سنت وہ ہیں جو حضور ﷺکی عادات مبارکہ کو اپناتے ہیں۔ثبوت اور چیز ہے سنت اور چیز ہے۔جیسے نماز پڑہتے ہوئے دروازہ کھول دینا ثابت ہے سنت نہیں۔نماز کی حالت میں بچے کو اُٹھا لینا ثابت ہے سنت نہیں۔لیکن ہم اہل سنت ہیں۔ سنت کہتے ہی سڑک اور راستے کو ہیں اس لیے جو عمل آپ ﷺ سے امت میں چل پڑا وہی سنت ہے۔

چند وسوسوں کے جوابات:

ہمارے دوست جو ہیں ان کے پاس صرف چند وسوسے ہوتے ہیں اور کچھ نہیں۔میں جب کراچی تھا تو دس بارہ آدمی آگئے میں نگرانی کر رہا تھا امتحانات میں ۔ دو ساتھی آئے کہ یہ آدمی آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ہم بیٹھ گئے بڑا عجیب انداز تھا ان کا ۔ پڑھے لکھے آدمی تھے ۔ کوئی پروفیسر ، کوئی ٹیچر ، کوئی وکیل۔ کہنے لگے۔ ہم بہت پریشان ہیں۔ پوچھا کیا ہواجی۔کہنے لگا ہوا کیا چار امام ہوگئے ہیں ۔ چار۔چار۔چار۔ میں نے کہا کہاں ؟ یہاں جھنگ میں کتنے مدرسے ہیں شافعیوں کے؟مالکیوں کے کتنے ہیں؟ حنبلیوں کے کتنے ہیں؟تو میں نے کہا کہ جو بھینگا ہوتا ہے نا اس کو ایک کے دو نظر آتے ہیں ۔ تو یہاں تو صرف ایک حنفی ہیں پھریہ آپ کو ایک کے چار کہاں سے نظر آنے لگے؟ کہنے لگے کہ جی وہ کہیں نہ کہیں تو ہوں گے نا۔میں نے کہا کہ جہاں جہاں وہ ہوں گے تو وہاں کے لوگ پریشان ہوں آپ کو کیا پریشانی لگ گئی ہے یہاں پر بیٹھے بیٹھے؟

کہنے لگے کہ جی کسی حدیث میں ہے کہ صرف ایک ہی امام کی تقلید کرنا ؟میں نے پوچھا کہ آپ قرآن پاک پڑھتے ہیں؟کہنے لگے جی ہاں۔ میں نے کہا کہ ساتوں قراءتیں آتی ہیں؟کہنے لگے کہ نہیں جی ایک ہی قراءت میں ہم تو پڑھتے ہیں۔ میں نے کہا کہ کسی حدیث میں ہے کہ سات میں سے صرف ایک ہی قراءت میں پڑھنا؟کہنے لگے کہ ہم کیا کریں کہ ہمیں آتی ہی ایک قراءت ہے۔ میں نے کہا کہ ہم کیا کریں کہ یہاں ہے ہی ایک مسلک امام ابو حنیفہ ؒ کا ہے۔اُس کی حدیث تم دکھا دو اِس کی ہم دکھا دیتے ہیں۔پوچھنے لگے کہ جی خدا کتنے ہیں ؟ میں نے کہا کہ ایک ۔ کہنے لگے کہ خدا ایک اور امام چار بن گئے ؟ توبہ توبہ۔ غضب خدا کا۔میں نے کہا ابھی تھوڑا ہے۔کیسے؟ خدا ایک ہے اور نبی ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں۔میں نے پوچھا کہ آپ کا مقصد کیا ہے صاف بات کریں ۔ کہنے لگے کہ ہم تو اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سب کو چھوڑ دو۔میں نے کہا کہ دیکھو جلدی نہ کرنا ۔کیونکہ قرآن پاک میں سات قاریوں کا اختلاف ہے قراءت کا ۔ تو سات کا اختلاف بڑا ہے یا چار کا ؟اس لیے اگر ائمہ کو چھوڑنا ہے تو پہلے لکھ کر دو کہ آج کے بعد ہم قرآن نہیں پڑھیں گے کیوں کہ اس کی قراءت میں سات قاریوں کا اختلاف ہے اور ہم اختلاف کو پسند نہیں کرتے۔اس کے بعد احادیث کے باقی کتابیں تو ایک طرف کر دیں۔ صرف صحاح ستہ ہی ایسی چھ کتابیں ہیں جن میں آپس میں اختلافی حدیثیں ہیں۔ تو چھ کا اختلاف زیادہ ہے یا چار کا ؟کہنے لگے کہ چھ کا ۔ میں نے کہا کہ پھر دوسرے نمبر پرچھ والا اختلاف چھوڑنا پڑے گا۔ ان بے چارے اماموں کی کہیں جا کر تیسرے نمبر پر باری آئے گی جن کے پیچھے آپ پہلے نمبر پر ہی لاٹھی اُٹھا ئے پھر رہے ہیں۔

پھر کہنے لگے کہ چاروں امام ہی بر حق ہیں؟ میں نے کہا جی ہاں چاروں برحق ہیں۔پھر کہا کہ چاروں ؟میں نے کہا ہاں چاروں۔کہنے لگے کہ پھر آپ باقی تین کی تقلید کیوں نہیں کرتے ۔ میں نے کہا نہیں کرتے ۔ ہماری مرضی۔پھر کہنے لگے کہ ان کو برحق کیوں کہتے ہو؟ میں نے کہابالکل برحق کہتے ہیں مگر تقلیداپنے امام کی کرتے ہیں۔

پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آج آپ جمعہ پڑھ رہے ہیں نا کیونکہ آپ لوگ حضور ﷺ کو برحق مانتے ہیں۔ اورکیا کل آپ لوگ یہودیوں کی عبادت گاہوں میں جائیں گے ؟کیونکہ آپ موسٰی ؑ کو بر حق مانتے ہیں۔کیاپرسوں عیسائیوں کے گرجے میں جائیں گے؟ تا کہ اتوار والی عبادت بھی کر آئیں۔انہوں نے کہا نہیں۔میں نے کہا کہ اس لیے نہیں جائیں گے کہ آپ سب نبیوں کو بر حق مانتے ہیں مگر تابعداری صرف اپنے نبی کی کرتے ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ جی وہاں توناسخ منسوخ مسئلہ ہے ۔ میں نے کہا کہ یہاں راجح مرجوح کا مسئلہ ہے۔ جیسے منسوخ پر عمل جائز نہیں ویسے ہی مرجوع پر عمل جائز نہیں۔ہم اُن نبیوں کو برحق مانتے ہیں مگر اُن نبیوں کے بعض مسائل کو منسوخ مانتے ہیں۔ہم ان آئمہ کو برحق مانتے ہیں مگر بعض مسائل کو مرجوح مانتے ہیں۔

اب ایک صاحب تو زیادہ ہی ناراض ہو نے لگے کہنے لگے کہ مولوی صاحب آپ کو کبھی عقل آئے گی بھی یا نہیں؟چاروں اماموں میں حلال وحرام کا اختلا ف ہے حلال وحرام کا ۔ایک امام ایک چیز کو حلا ل کہتا ہے ایک اُسی چیز کو حرام کہتا ہے۔حلال بھی برحق حرام بھی برحق؟ غضب خدا کا۔کبھی تو عقل کی بات کیا کرو۔میں نے کہا کہ یہ امام بے چارے جن پر آپ ناراض ہیں ، یہ نبیوں کے تابعدار ہیں ۔نبیوں میں بھی حلال وحرام کا اختلاف ہے۔آدم ؑ کے زمانے میں بہن سے نکاح حلال تھا یا حرام ؟ (حلال) اور آج؟(حرام) وہ نبی ؑ بھی برحق جس کی شریعت میں بہن سے نکاح حلال تھا ۔ اور وہ نبی ﷺ بھی برحق جس کی شریعت میں بہن سے نکاح حرام ہے۔ہم آدم ؑ کو برحق ضرور مانیں گے مگر عمل اپنے نبی ﷺکی شریعت پر کریں گے۔یعقوب ؑ کے نکاح میں دونوں سگی بہنیں تھی ان کی شریعت میں حلال تھا ۔اور اب آیت آگئی ہے لا تجمع بین الاُختین۔ (دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع نہ کرنا ۔)اب یعقوب ؑ بھی برحق اور نبی ﷺ بھی برحق ۔برحق ہم دونوں کو مانتے ہیں مگر عمل اپنے نبی ﷺکی شریعت پر کریں گے۔ابراہیم ؑ کی زوجہ محترمہ حضرت سارہؓ ماں کی طرف سے آپ کی بہن تھیں باپ کی طرف سے نہیں تھیں۔اس سے نکاح ہوا۔آج یہ نکاح حلال ہے یا حرام ؟ (حرام ہے) تو ابرہیم ؑ کی شریعت میں حلال تھا اور ہماری شریعت میں حرام۔برحق ہم دونوں کو کہیں گے مگر تابعداری صرف اپنے نبی ﷺ کی کریں گے۔کہنے لگے کہ وہاں تو زمانے کا اختلاف ہے ۔میں نے کہا یہاں علاقوں کا اختلاف ہے شافعی سری لنکا میں ہیں حنفی پاکستان میں ۔شافعی اپنے ملک میں ہیں ۔ حنبلی اپنے ملک میں ہیں ۔ مالکی اپنے ملک میں ہیں ۔ اور حنفی اپنے ملک میں ہیں ۔

علاقے کے اختلاف کو سمجھنے کے لیے مثال:

علاقوں کے اختلاف کو ایک مثال سے سمجھیں۔کئی سالوں سے آپ دیکھ رہے ہیں کہ سعودیہ میں عید ہوتی ہے اور پاکستان میں روزہ ہوتا ہے۔ اب عید کے دن روزہ رکھنا حلال ہے یا حرام؟ اور رمضان میں عید پڑھنا حرام ہے۔لیکن اُن کی عید اپنی جگہ بالکل درست ۔ اور ہمارا روزہ صحیح یا غلط؟(بالکل صحیح) کیونکہ مسئلہ ہے کہ چاند نظر آگیا تو عید نہ نظر آیا تو روزہ ۔وہاں تواتر ساتھ چاند ثابت ہو گیا۔یہاں نہیں ہوا۔ وہاں سارے عید پڑھ رہے ہیں اُن کی عید درست ہے۔یہاں سارے روزہ رکھ رہے ہیں یہاں والوں کا روزہ بالکل درست ہے۔ہاں فتنہ پھیلانا اچھا نہیں کہ چار آدمی لاٹھیاں لے کر آجائیں کہ توڑو روزے آج مکے میں عید ہے۔یا چار آدمی وہاں لاٹھیاں لے کر کھڑے ہو جائیں کہ نہیں پڑھنے دیں گے آج عید۔پاکستان بڑا اسلامی ملک ہے وہاں آج روزہ ہے۔تو یہ فتنہ ہے۔جس طرح وہاں عید ان کا مذہب ہے بالکل برحق۔ اسی طرح روزہ یہاں ہمارا مسلک ہے بالکل برحق۔جہاں شافعیت ہے وہاں شافعیت بالکل برحق ہے مذہب ہے فتنہ نہیں۔جس ملک میں حنبلیت ہے وہ مذہب ہے فتنہ نہیں۔جس ملک میں حنفیّت ہے وہ مذہب ہے فتنہ نہیں۔جس ملک میں مالکیت ہے وہ مسلک ہے فتنہ نہیں۔اور غیر مقلدیت فتنہ ہے کوئی مسلک ومذہب نہیں ۔

کہنے لگے کہ جب تین امام ایک طرف ہوں اور ایک امام ایک طرف ہو تو کس کی بات ماننی چاہیے؟ میں نے کہا ایک کی ۔ کہنے لگے کیوں جی؟زیادہ کی ماننی چاہیے۔ میں نے کہ اچھا۔انبیاءؑ کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں ۔حضرت یوسف ؑ کے بھائیوں نے یوسف ؑ سجدہ تعظیمی کیا تھا نا ؟ اسی آیت کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ حضور ﷺ کی شریعت سے پہلے تمام شریعتوں میں تعظیمی سجدہ جائز تھا ۔اور ہماری شریعت میں جائز نہیں۔ سارے نبی ایک طرف اور ہمارے نبی ﷺ ایک طرف ۔ اب آپ ایک نبی کی بات مانیں گے یا زیادہ بلکہ سارے انبیاءکی ۔ کہنے لگے کہ جی ہم تو ایک ہی کی مانیں گے ۔ میں نے کہا کہ اسی طرح ہم بھی ایک ہی کی مانیں گے۔اسی طرح حضور ﷺ سے پہلے کی تمام امتوں میں تصویر بنانا جائز تھا ہماری شریعت میں حرام ہے۔ اب سب کی بات مانیں گے یا ایک کی۔

پھر آخر میں وہ لوگ کہنے لگے کہ دین مکے مدینے میں آیا تھا یا کوفے میں ؟ میں نے کہا کہ مکے مدینے میں۔کہنے لگے کہ پھر مکے مدینے والے امام کو ماننا چاہیے یا کوفے والے امام کو؟ میں نے کہا کہ آپ کا دل کیا کہتا ہے؟ کہنے لگے کہ مکے مدینے والے کو ماننا چاہیے۔میں نے کہا اچھا آپ کو معلوم ہے کہ جھوٹ بولنا ہر شریعت میں منع ہے؟ کہنے لگے کہ بالکل ۔ کیا ہم نے کوئی جھوٹ بولا؟ میں نے کہا کہ بہت بڑا جھوٹ بولا ہے۔ قرآن کی جو سات قراءتیں ہےں۔ ان میں مکی قاری بھی تھا۔ مدنی قاری بھی تھا۔ بدری قاری بھی تھا ۔ تم سب لوگ تو قاری عاصم کوفی جو کہ کوفہ کا رہنے والا تھا اس کی قراءت پڑھ رہے ہو ۔یہ ہی قرآن ہے جسے شاہ فہد ساری دنیا میں تقسیم کررہا ہے۔ تو خود کوفے والوں کو مانتا ہے تجھ سے بڑا کوفی کون ہو گا کہ قرآن نازل تو مکے مدینے میں ہو اور تو مکی قاری اور مدنی قاری کی قراءت چھوڑ کر کوفے والے قاری کے مطابق قرآن پڑھتا ہے۔اب وہ کہنے لگے کہ بات یہ ہے کہ کوفہ والوں نے قرآن خود تو نہیں بنایا تھا نا۔ایک ہزار سے زائد صحابہ کرام ؓ آئے تھے مکے مدینے سے ۔ وہ ساتھ قرآن لے کر آئے تھے۔میں نے کہا کہ جو صحابہ کرام ؓ قرآن ساتھ لائے تھے وہی صحابہ کرام ساتھ نماز لے کر آئے تھے۔ساتھ لائے تھے یا وہیں پھینک کر آئے تھے کہ کوفے جاکر نئی نماز بنا لیں گے؟ یا نماز بھی وہاں سے لے کر آئے تھے؟ (یقینا نماز بھی مکے مدینے سے لے کر آئے تھے۔) تو جب قرآن کے معاملے میں اہل کوفہ پر اعتماد کرتے ہو تو نماز کے بارے میں بھی اعتماد کرنا چاہیے۔ لیکن کریں کیا ۔ ایک رافضی کہتا ہے کہ نماز غلط ہے ایک رافضی کہتا ہے کہ قرآن غلط ہے۔لیکن قرآن کوفہ میں کہاں سے آیا ؟ مکے اور مدینے سے۔نماز کہاں سے آئی ؟ مکہ مدینہ سے ۔جب کوفے والے کی قراءت تم کو پسند ہے تو کوفے والوں کی وہ نماز جو صحابہ کرام ؓ لے کرآئے ہیں وہ پسند کیوں نہیں؟پھر ہمارے امام اعظم امام ابوحنیفہ ؒ کافی ہیں۔(الحمد للہ) امام صاحب نے صحابہ کی زیارت کی ہے۔جس صحابی نے اللہ کے نبی ﷺ کا دور نبوت پورا پایا وہ بھلا کتنے سال ہے دور نبوت؟ 23سال ۔اور امام اعظم امام ابو حنیفہ ؒ نے تقریباً چالیس سال صحابہ ؓ کا زمانہ پایا ہے۔تو چالیس سال کی عمر میں مسلمان نماز شروع کر دیتے ہیں یا نہیں ؟ خاص طور پر خیر القرون کے زمانے میں۔ آپ کا کیا خیا ل ہے کہ جب مسجد میں نماز کے لیے بچہ آتا ہے تو لوگ دیکھتے ہیں کہ بچہ نماز پڑھ رہا ہے۔ اور بچہ لوگوں کو دیکھ دیکھ کر نماز پڑھتا ہے۔اسی طرح صحابہؓ امام صاحبؒ کو دیکھتے تھے اور امام صاحب صحابہ کو دیکھ کر نماز پڑھتے تھے۔اگر امام صاحب کی نما زخلا ف سنت ہو تو صحابہ کو ٹوکنا چاہیے تھا یا نہیں؟ (اوراگر صحابہ اکرام ؓ نے دیکھا کہ نماز سنت کے خلاف پڑھ رہے ہیں اور صحابہ ؓ نے نہ ٹوکا تو مطلب یہ ہوا کہ نعوذباللہ صحابہ کے سامنے غلط کام ہو رہا ہے اور صحابہ خاموش ہیں ؟)

میں نے سر پر ہاتھ باندھ لیے:

ایک صاحب تھے بس میں بیٹھے تھے ۔ کسی جگہ بس رکی پاس ہی مسجد تھے ۔ وہ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ چلو نماز پڑھ لوں ۔ میں نے جب نماز پرھنے کے لیے ہاتھ ناف کے نیچے باندھے۔(یاد رہے کہ نماز میں ہاتھ سینے پر باندھنے کی حدیث ہے مگر یہ عمل سنت نہیں ہے ۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں۔ ان من السنّة وضع الکف علی الکف فی الصلوة تحت السرة۔ کہ بے شک نماز میں ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر ناف کے نیچے باندھنا یہ سنت ہے۔)تو ایک بابا جی آئے اور انہوں نے نماز میں ہی میرے ہاتھ سینے پر رکھ دیے۔ میں نے سر کے اُوپر رکھ لیے ۔ نماز کے بعد مجھ سے پوچھنے لگا کہ یہ کیا تھا(جو تو نے سر پر ہاتھ باندھے)؟ میں نے پوچھا وہ کیا تھا(جو تو نے سینے پر رکھوائے تھے؟)۔

اب اگر اس مسجد میں کوئی نماز پڑھنے کے لیے آئے اورہاتھ ناف کے بجائے سر پر باندھے تو کیا آپ لوگ اس کر ٹوکیں گے یانہیں ؟ (بالکل ٹوکیں گے۔) اس کا مطلب ہے کہ پندھرویں صدی کے مسلمانوں کا ایمان بہت ہی زیادہ مضبوط ہے جو غلط کا م ہو تا دیکھیں تو فوراً ٹوک دیتے ہیں۔اور معاذاللہ ،استغفراللہ جس زمانے کو اللہ کے نبی ﷺ خیر القرون فرما رہے ہیں ۔ صحابہ ،تابعین اور تبع تابعین جو تھے ان میں معاذاللہ سنت کی کوئی محبت ہی نہ تھی کہ امام صاحب ؓ غلط نماز پڑھتے رہتے تھے کوئی ٹوکتا ہی نہیں تھا؟

ہم جو نماز پڑھتے ہیں ہمیں فخر ہے کہ ہماری نماز کی توثیق الحمدللہ صحابہ ؓ کے سامنے ہو چکی۔ اگر اس میں کوئی غلطی ہوتی تو صحابہ ؓ ضرور ٹوکتے۔اب جس نماز کی تصدیق صحابہ ؓسے ہو چکی ہو؟مجھے اُن دوستوں سے نہیں گلہ آپ سے گلہ ہے کہ صحابہ کی تصدیق کے بعد بھی جب تک وہ بابا گنڈیریوں والا جب کہے گا نا کہ نماز ٹھیک ہے تو نماز ٹھیک ہو گی ورنہ نہیں۔کیا صحابہ کی تصدیق کے بعد کسی بابے روڑیے کی تصدیق کی ضرورت ہے؟ (بالکل نہیں۔) اگر آپ نے شک کیا تو گویا آپ نے صحابہ کی تصدیق کو نہ مانا۔امام صاحبؒ تابعی ہیں۔ اور صحابہ اُستاد ہیں۔تابعین ہم جماعت ہیں ۔تبع تابعین شاگرد ہیں۔ہماری نماز کی صحابہ کے سامنے تصدیق ہو چکی۔تابعین کے سامنے تصدیق ہو چکی اسی طرح تبع تابعین کے سامنے تصدیق ہو چکی۔ان سب کی تصدیق کے بعد اب ہمیں کسی پندھرویں صدی کے کسی آدمی کی تصدیق کی کوئی ضرورت نہیں۔

گجرانوالہ کا واقعہ:

یہ ہی بات ایک دفعہ میں گجرانوالہ میں بیان کر رہا تھا ایک نوجوان کو غصہ آگیا ۔ کھڑا ہو گیا ۔ کہنے لگا کہ آپ کی نماز کی تصدیق ہو گئی ہماری کی نہیں ہوئی؟ میں نے کہا بالکل۔ وہ کہنے لگا کہ ہمارے صادق سیالکوٹی صاحب نے نماز کی کتاب لکھی ہے صلوٰة الرسول اس کی تو نوائے وقت اخبار نے بھی تصدیق کی ہے کہ بہت اچھی کتاب لکھی ہے۔مرزائیوں کا رسالہ ہے "شہاب" اس نے بھی تصدیق کی ہے کہ بہت اچھی کتاب ہے۔کراچی کے" صحیفہ اہل حدیث"نے تصدیق کر دی کہ بہت اچھی کتاب ہے۔میں نے کہا کہ بہت اچھی بات ہے تصدیق تو ہو گئی۔ مگر ہماری نماز کی تصدیق تو ہو گئی صحابہ ،تابعین اور تبع تابعین کے سامنے ،جن کی تصدیق عرش والے (اللہ) نے کی ۔ فرمایا۔ والذین اتّبعوا ھم باحسان رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ۔اور فرش والے نبی ﷺ نے بھی کی ۔ فرمایا۔ خیرالقرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم۔عجیب بات یہ ہے کہ صحابہ،تابعین اور تبع تابعین کی تصدیق انہیں اچھی نہیں لگی اس کو چھوڑ دیا اور کہتے ہیں کہ مرزائیوں کے رسالے نے تصدیق کی ہے وہ اچھی لگی ہے۔الحمدللہ ہمارے امام صاحب ؒ نے 55حج کیے ہیں۔اللہ پاک اپنے ہر مسلمان بندے کو اپنے گھر کے حج اور نبی پاک ﷺ کے روضے کی زیارت نصیب فرمائے۔ (آمین) پاکستان کا رہنے والا مسلمان اگر یہاں نمازوں میں سستی بھی کرتا ہو تو وہ وہاں جا کر نمازیں ضرور پڑھتا ہے۔ امام صاحب جب حج پر جاتے تھے تو وہاں نمازیں بھی پڑھتے تھے۔ اگر اس نماز میں ایک بھی عمل خلاف سنت ہو تا تو مکے والوں کا کام تھا اعتراض کرنا۔مدینے والوں کا حق تھا سمجھانا۔مگر مکے والے کہتے ہیں۔ ماراینا احسن صلٰوة من ابی حنیفہ۔کہ ابو حنیفہ سے زیادہ پیاری نماز ہم نے (اس زمانے میں ) کسی کی دیکھی ہی نہیں۔الحیرات الاحسان کتاب ہے اس میں علامہ ابن حجر مکی شافعی(جو کہ حنفی نہیں شافعی المسلک ہیں۔)لکھ رہے ہیں کہ اہل مکہ یہ کہتے تھے۔ اور یہ نہیں کہ امام صاحبؒ وہاں کوئی چھپے ہوئے تھے۔ امام لیث بن سعد مصر کے بہت بڑے امام ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں ایک سو تیرہ ہجری میں حج کے لیے چلا اور دل میں یہ ہی خواہش تھی کہ امام صاحبؒ حج پر آئیں گے ان کی زیارت بھی ہو جائے گی۔ کیونکہ بہت شہرت تھی امام صاحب کی۔کہتے ہیں کہ میں جب پہنچا تو دیکھا کہ ایک نوجوان کھڑا ہے اور اس کے گرد دنیا اکٹھی ہے۔ کوئی قرآن کی آیت کی تفسیر پوچھ رہا ہے۔ کوئی حدیث کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔ کوئی قاضی قانون کا مسئلہ پوچھ رہا ہے۔ اور میں حیران ہوں کہ سوال کرنے والے کو سوال کرنے میں دیر لگتی ہے مگرا ُسے جواب دینے میں دیر نہیں لگتی ۔ تو میں بھی کھڑا ہو گیا کہ بھئی یہ بھی کوئی اچھا آدمی ہے اس کی باتیں سن لیں پھر لوگوں سے پوچھ لوں گا کہ امام صاحب بھی آئے ہوئے ہیں یا نہیں۔تو میں کھڑا سن رہا تھا کہ اتنے میں ایک نے سوال یوں کیا۔ ماتقول فی ھٰذا یا ابا حنیفہ ۔اے ابو حنیفہ اس مسئلے میں آپ کیا فرماتے ہیں۔ اب میں نے سوچا کہ اچھا یہ ہی امام ابو حنیفہ ہیں جن لے لیے میں یہاں پہنچا ہوں۔ تو یہ 113 ہجری ہے۔ 150ہجری تک آپ کی شان بڑھی ہے گھٹی نہیں۔ تاریخ میں تو یہاں تک آتا ہے کہ حضرت امام صاحب جب کسی جگہ تشریف لے جاتے تو اعلان ہو جاتا تھا کہ فقیہ اعظم پہنچ گئے ہیں کسی نے فتوٰی لینا ہو تو آ جائے۔یہ مکہ مکرمہ کی بات ہے۔اب مکہ اور مدینہ والوں نے تو نہیں کہا کہ امام ابو حنیفہ کی نماز غلط ہے۔ شور اُٹھا ہے تو امرتسر میں؟ اور وہ بھی انگریز کے دور میں کسی اسلامی حکومت میں نہیں۔ شور اُٹھا ہے تو روپڑ میں جو کہ سکھوں کا شہر ہے کہ جو نماز امام ابو حنیفہ اور حنفی پڑھتے ہیں وہ غلط ہے۔ہماری تبلیغی جماعت والوں کو لوگ کہتے ہیں کہ وہ لسوڑا پارٹی والے آگئے ۔ جیسے لسوڑا چمڑ جاتا ہے ایسے ہی یہ لوگ بھی چمڑ جاتے ہیں۔ اور کھینچ تان کر تو ایک دفعہ اللہ کا گھر دکھا دیتے ہیں۔بعد میں انسان کی قسمت ہے۔جماعت والے وہ کھیتوں میں پھر رہے ہیں پوچھو بھئی کیا کررہے ہو ۔ کہیں گے کہ ایک مسلمان ہے اللہ سے غافل ہو گیا ہے بندگی کا اقرار کرتا ہے بندگی کرتا نہیں۔ اسے ہم یاد کرانے جا رہے ہیں کہ بھئی نماز پڑھا کرو۔گلیوں میں پھر رہے ہیں۔ دروازوں پر کھڑے ہیں۔ اور الحمدللہ ان کی برکت سے دفتروں میں مصلے بچھ گئے ہیں۔تو ان لوگوں کا ایک مشن ہے کہ جو مسلمان نماز نہیں پڑھتا اس کو نمازی بنانا ہے۔اور سینکڑوں نہیں ہزاروں کو انہوں نے نمازی بنایا۔توآپ نے کبھی دیکھا کہ غیر مقلد اس طرح بے نمازی کے پیچھے پھر رہے ہوںاور اس کو نمازی بنا رہے ہوں؟ نہیں۔ جب تک آدمی بے نمازی ہوتا ہے تو اس کو پتہ ہی نہیں ہو تا کہ یہاں کوئی غیر مقلد رہتا ہے یا نہیں۔اب وہ بے چارہ جب نماز پڑھنا شروع کر دے گا تو ایک غیر مقلد اِدھر سے آجائے گا کہ تیری نماز نہیں ہوتی۔اب اُن کا کام ہے بے نمازی کو نماز پر لگانا۔ اور ان کا مشن یہ ہے کہ جو نماز پرھنے لگ گیا ہے اس کے دل میں اتنے وسوسے ڈالنے ہیں کہ وہ بے چارہ نماز پڑھنا ہی چھوڑ دے۔تو ہم حدیث کو سابقہ انبیاءکی طرح اور سابقہ شریعتوں کی طرح برحق مانیں گے ضرور ۔ اس کا ادب واحترام بھی ضرور کریں گے۔مگر حضور ﷺ کے حکم کے مطابق عمل سنت پر کریں گے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے پیارے محبوب ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔

واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
Uzair Muzaffar
About the Author: Uzair Muzaffar Read More Articles by Uzair Muzaffar: 10 Articles with 36667 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.