’’ماواں ٹھنڈیاں چھاواں‘‘

چند دن پہلے ماؤں کا دن منایا گیا ۔ بے شمار مضامین لکھے گئے ۔میں یہ سوچ رہا تھا کیا مائوں سے محبت کا بھی کوئی دن مقررہوتا ہے؟ہم مغربی رسومات پر چلتے چلتے اتنی دور نکل گئے کہ ماں کی عظمت پر لکھنے کے لیے دن مقر ر کر لیے ۔شاید میری یہی سوچ ان سطروں کو سپرد قرطاس کرنے کا باعث بنی ۔ماں کی عظمت پر کچھ لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔شفقت ، پیار ، بے لوث محبت اور قربانی کا دوسرا نام ماں ہے۔اس کا سایہ ہمارے لیے ٹھنڈی چھائوں کی طرح ہے۔حالات کی کڑی دھوپ اس ہستی کا دست شفقت سارے غم بھلا دیتا ہے۔خلوص و ایثار کے اس سمندر کی حدوں کا اندازہ کرنا نا ممکن ہے ۔اس مقدس رشتے کو شاید الفاظ میں بیان نہ کیا جا سکے ۔ ماں دنیا میں انسان کے پاس خداوند تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بیش قیمتی تحفہ ہے۔ اس نعمت کی قدر وہی جان سکتا ہے۔جو اس نعمت سے محروم ہو چکا ہے۔ایک صحابی (رض) رسول (ص) اللہ پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول(ص) ا للہ’’ ایک شخص ہے اس کی جان نہیں نکل رہی بستر مرگ پر تڑپ رہا ہے‘‘ آپ(ص) نے فرمایا چلو دیکھتے ہیں جب آپ(ص) وہاں تشریف لے گئے تو حکم دیا جائو اس کی ماں کو بلا کر لائو جب اس شخص کی ماں آپ(ص) کے پاس آئی تو آپ(ص) نے کہا بڑھیا اپنے بیٹے کو معاف کر دے۔ یہ سننا تھا کہ بڑھیا نے زارو قطار رونا شروع کر دیا ۔اور کہنے لگی میں اسے معاف نہیں کروں گی۔ یہ میری بات نہیں مانتا تھا میری حکم عدولی کرتا تھا اپنی بیوی کو مجھ پر ترجیح دیتا تھا ۔ آپ(ص) نے فرمایا جائو جنگل سے لکڑیاں اکھٹی کر کے لائو تاکہ اسے زندہ جلا دیں۔یہ سننا تھا کہ ممتا تڑپ اٹھی اور ضبط کے تمام بندھن ٹوٹ گئے ماں کے منہ سے الفاظ نکلے میں نے اپنے بیٹے کو معاف کیا۔ الفاظ ادا ہونے کی دیر تھی کہ وہ شخص تکلیف سے آزاد ہو گیا ۔ اور اسکی روح جہان فانی سے پرواز کر گئی۔یقیناً ماں تو نام ہی بے لوث محبت کا ہے۔ بچوں کی تکالیف کو ماں خود برداشت کر لیتی ہے لیکن کبھی اپنے بچوں پر آنچ نہیں آنے دیتی ۔کتنا حیران کن رشتہ ہے ایک ماں ہے اور بچے زیادہ لیکن سب میں برابر پیار تقسیم کرنا سب کو ممتا کی چھائوں فراہم کرنا یہ کام یقیناً ایک ماں ہی سر انجام دے سکتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ(رض) فرماتے ہیں ۔ ایک شخص رسول(ص) اللہ کی خدمت میں آیا۔ اور پوچھا ’’ اے خدا کے رسول(ص) میرے نیک سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ ’’ آپ ö نے فرمایا تیری ماں ۔ اس نے پوچھا پھر کون ہے؟ آپ (ص) نے فرمایا تیری ماں ۔ تیسری مرتبہ پھر وہی سوال پوچھا پھر کون ہے؟ تو آپ(ص) نے فرمایا ’’ تیرا باپ‘‘ یہ واقعہ اللہ کے پیارے رسول(ص) کی نظر میں ماں کا رتبہ اور مقام ظاہر کرتا ہے۔ماں کی محبت کے جذبے کو گنا یا تولا نہیں جا سکتا ہے۔ایک ماں اپنی اولاد سے کتنا پیار کرتی ہے۔اس بات کا انداز ہ ارشاد خدا وندی سے لگایا جا سکتا ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ کہ میں اپنے بندے سے ستر مائوں سے زیادہ پیار کرتا ہوں ۔ ماں پیار بھرے جذبات کا نام ہے جس کی اولاد کتنی ہی نا فرمان ہو لیکن ماں کے لبوں سے کبھی بھی بد دعا کے الفاظ ادا نہیں ہوتے ہر وقت اپنے بچوں کے خیال اور دیکھ بھال میں لگے رہنے والی ماں کبھی بھی اپنے سکون و آرام کے بارے میں نہیں سوچتی اسی لیے تو جنت کو ماں کے قدموں میں رکھ دیا گیا ۔حضرت جاہمہ (رض) نبی(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول(ص) اللہ میرا ارادہ ہے کہ میں آپ(ص) کے ساتھ جہاد میں شرکت کروں نبی(ص) نے ان سے پوچھا ’’ تمھاری والدہ زندہ ہیں؟‘‘ جاہمہ (رض) نے کہا ’’ جی ہاں ‘‘ زندہ ہیں۔ نبی(ص) نے ارشا د فرمایا تو پھر جائو انھی کی خدمت میں لگے رہو کیونکہ جنت انھی کے قدموں میں ہے۔ قارئین کرام ! اطاعت والدین کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ ایک شخص میلوں چل کر آپ(ص) کے پاس جہاد میں شریک ہونے کی خواہش لے کر آیا اور آپ(ص) اس شخص کو اپنی ماں کی خدمت کرنے کی تاکید کرتے ہیں ۔ ماں کو رتبہ اور مقام تو ہر مذہب میں حاصل ہے۔ لیکن دین ِ اسلام خاص طور پر والدین کی اطاعت اور ان کے احترام کی تاکید کرتا ہے۔شاعر عباس تابش نے کیا خوبصورت کہا ہے۔
اک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے

ماں دنیا میں خدا کی طرف سے دیا گیا ایسا تحفہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔اسی لیے شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
داستاں میرے لاڈ پیار کی بس
ایک ہستی کے گرد گھومتی ہے
پیارجنت سے اس لیے ہے مجھے
کیوں کہ یہ میری ماں کے قدم چومتی ہے

ایسارشتہ ہے جو اپنی اولاد کا ہر گناہ ہر تکلیف اپنے سر لینے کے لیے تیار رہتا ہے۔مائیں تو ہو تیں ہی ایسی ہیں ۔ ساری دنیا کے دکھ اپنے سینے میں سمو لیتی ہیں ۔ لیکن بچوں کو گرم ہوا نہیں لگنے دیتیں ۔ بلا شبہ ماں کا وجود ایک نعمت اور اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔ دنیا میں ماں ٹھنڈی چھائوں اور گھنی دھوپ میں سایہ دار درخت ہے ۔ اور کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے ۔ ’’ ماواں ٹھنڈیاں چھاواں‘‘

دعاہے کہ خدا مائوں کا سایہ ہمارے سر پر ہمیشہ سلامت رکھے ۔

ماں جیسی ہستی دنیا میں ہے کہاں نہیں ملے گا بدل چاہے ڈھونڈلے سارا جہاں
Farrukh Shahbaz Warraich
About the Author: Farrukh Shahbaz Warraich Read More Articles by Farrukh Shahbaz Warraich: 119 Articles with 115605 views


فرخ شہباز

پنجاب یونیورسٹی سے جرنلزم میں گریجوایٹ ہیں۔انٹرنیشنل افئیرز میں مختلف کورسز کر رکھے ہیں۔رائل میڈیا گروپ ،دن میڈیا گروپ اور مختلف ہ
.. View More