پاکستان کا نصیب کب جاگے گا؟

یوسف رضاگیلانی کے ”بے آبرو“ہوکر وزارتِ عظمیٰ کے کوچے سے نکلے دو دن چکے تھے،ملکی منظرنامہ میںنئے پرائم منسٹر کے انتخاب کی گہما گہمی چھائی ہوئی تھی،حکمران جماعت کی طرف سے گیلانی کے بعد ایک اور مخدوم کو نامزد کیاجا چکا تھا،پھر عدلیہ کے فوری ایکشن لینے پر رحیم یار خان کے اس ملزم مخدوم کو بھی خفت کے ساتھ کنارہ کش ہونا پڑا،خبریںآرہی تھیں،تجزیئے ہورہے تھے،اٹکل پچو کے گھوڑے دوڑائے جارہے تھے،ہر ذہن پہ ایک ہی سوال راج کررہا تھا کہ اب اس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک کون ہوگا؟

22جون کو سارا دن میں منتظر رہا ،اس دوران میرا خیال تھا کہ اس وقت پی پی کے جو امیدوار ہیں ، ان کا رینٹل پاور والے کیس کے سلسلے میں عدالت انہیں بھی ڈس کوالیفائیڈ قرار دید ے گی لیکن ایسا نہ ہوا،میں دعائیںہی کرتا رہا،اس سہ پہر جب مجھے یہ اطلاع ملی کہ سانگھڑ کے ”راجہ رینٹل“بالآخر پاکستان کے مہاراجہ بن گئے تو اس لمحہ مجھے بے اختیار پاکستان کی قسمت پہ رونا آیا،مجھے لگا کہ پاکستان کا نصیب جیسے کسی گھٹا ٹوپ تاریکی میں ہے،مجھے یہ پاکستانی قوم گوانٹانامومیں قید بے بس مخلوق محسوس ہوئی،آج ایسے ایسے لوگ حکمرانی کے منصب ِ عالیہ پہ فائز ہورہے ہیں ،جن کا نام ،کردار اور شخصیت پوری قوم کے لیے اقوامِ عالم میںشرم کا باعث ہے، جو کردار سے عاری،ضمیر سے بے نیاز اور قوم کے درد سے بے غم ہوتے ہیں،ایسے ہی سارے ہی کھوٹے سکے ہماری تقدیر سے آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔

انہی راجہ کو دیکھ لیں،راجہ صاحب جوتوں کا کاروبار کیا کرتے تھے،بعد میںجب وہ سیاست کی پُرخاروادی میں اترے توشروع شروع ہی میں جماعت ِ اسلامی اور مسلم لیگ کے ہاتھوں شکست کھاتے رہے،پھر پرویز مشرف کی آمریت کے سائے تلے وجود میں آنے والی اسمبلی کے پہلی دفعہ رکن منتخب ہوئے،پھر دوسری بارنام نہاد جمہوری دور میںمنتخب ہوکر ذلت و رسوائی کا چغہ اوڑھے رخصت ہونے والے ملتان کے سید زادہ کی حکومت میں وزارت کے مزے لوٹے،انہوں نے فاقی وزارت برائے بجلی و پانی کا محکمہ سنبھال قوم کی اچھی طرح” خدمت“ کی،قوم نے ان کو اسی خدمت کے صلہ میں انہیں ”وزیر لوڈشیڈنگ“کاخطاب بھی دیا،اسی خدمت کے صلہ میں اقتدار کی دیوی بھی ان پہ مہربان ہوئی اوریہ آج پاکستان کے وزیر اعظم ہیں ،عموما ایسا ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی نیا حکمران ہم پہ مسلط ہوتا ہے تو اس سے شروع میں بے شمار امیدیں وابستہ ہوتی ہیں،بعد میں جب وہ اپنا رنگ بدلتا ہے تو پھر وہ قوم کی بے انتہا ”نوازشات“سے فیضیاب بھی ہوتاہے لیکن یہ ایسے حکمران ہیں،جوپہلے ہی قوم کی آہوں کا بوجھ اپنے کاندھوں پہ لادے ہوئے ہیں،یہ بات اس نوعیت سے بھی اہم ہے کہ یہ موصوف پہلے ہی کرپشن جیسی سیاست دانوںکی پسندیدہصفت سے متصف ہیں ،ان کے ”اجلے“دامن پہ پہلے ہی رینٹل پاور کیس میں اربوں کی کرپشن کا بدنما داغ لگا ہوا ہے،اس کیس کو مدِ نظر رکھ کر کر عدلیہ سے امید تھی اور جی بھر کے دعا بھی کی کہ خدا مخدوم شہاب کی طرح ان کے لیے بھی وزارتِ عظمیٰ سے متصادم کوئی اور راہ نکال دے،لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے بچ گیا۔

میں جب بھی کسی اپنے طبقہ اشرافیہ میں سے کسی کو وزیر اعظم بنتے دیکھتا ہوں تو مجھے خود کی بے بسی پہ بڑا افسوس ہوتا ہے، پوری قوم کو میں خود کوملامت کرتے دیکھتا ہوں ،لیکن نہ جانے کیوں اس لمحہ مجھے احساس ہوتا ہے کہ کچھ اور نہیں، بس !پاکستان کا نصیب ہی خراب ہے،میرا خیال ہے جس طرح اچھے استاد،اچھی بیوی اور اچھے دوست قسمت والوں کو ملتے ہیں ،اسی طرح اچھے حکمران بھی نصیب والے ملکوں کو ملتے ہیں،ورنہ اگر آج پاکستان کے نصیب پر تاریکی چھائی نہ ہوتی توایسے ناخلف حکمران ہمارا نصیب نہ ہوتے ....آپ کو میری بات سے اختلاف ہوسکتا ہے ،آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں یاسیت اور نوامیدی کی باتیں کررہا ہوں،لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آج جو حالات اس ملک اور اس کے باسیوں کے ہیں،اس کی وجہ تو صرف یہی معلوم ہوتی ہے کہ قسمت کی دیوی پاکستان سے روٹھی ہوئی ہے،آپ خود ذرا سوچیں!پاکستان کو اللہ نے کیا نہیں دیا،پاکستان کے لوگ محنتی،جفا کش اور باصلاحیت بھی ہیں،ان لوگوں کے پاس اللہ کا دیا سارا کچھ ہے،ہم کیا کرنا نہیں چاہتے اپنے ملک کے لیے؟،یہاں کے نوجوان تبدیلی کے خواہاں ہیں اور یہ اس کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں،سب کچھ ہونے کے باوجود آج پاکستان کسمپرسی کے عالم میں گھٹ گھٹ کر سانسیں گن رہا ہے،ان سب کے باوجود بھی یہاں کے لوگ اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں سے سنوارنے سے قاصر ہیں، لہٰذا اور کچھ نہیں تو میںاتنا ضرور کہوں گا کہ یہ ہمارا قصور نہیں ،بس پاکستان کے نصیب کا ستارہ اپنے محور سے بھٹکا ہوا ہے،ورنہ آپ خود دیکھ لیں،یہاں جو لوگ اس عظیم مسند پہ فائز ہورہے ہیں،انہیں دیکھ کرکہیں سے بھی نہیں لگتا کہ یہ اس مسندِ عالیہ کے اہل تھے!وزیر اعظم بننے سے قبل یہ لوگ عزت و احترام کو ترسے ہوئے ہوتے ہیں،ان کے چہروں پہ پسینہ کی میل جمی ہوتی ہے،یہ اچھل اچھل کرکیمرے کی چکاچوند روشنی میں خود کو نمایاں کرنے کی سعی لاحاصل کررہے ہوتے ہیں،پھر جب یہ وزارتِ عظمیٰ کی راہ دیکھ لیتے ہیں توپھر ان کے چہروں پہ ایک عجیب قسم کی چمک آجاتی ہے،شکل انکی شاداب دِکھنے لگتی ہے،والہانہ انداز میں کھل اٹھتے ہیں،ان کی بے رونق زندگیوں میں مسرتوں کے شادیانے بج اٹھتے ہیں،لیکن پھر بھی مجھے اس موقع پریہ کسی سود خور بنیے سے کم نہیں لگتے،قومی خزانے کی تجوریوں کے سامنے ان کی بھانچیں بھٹی ہوتی ہیں اور یہ بغیر ڈکارلیے سارا کچھ ہضم کرجاتے ہیں۔

یہ ایسی ہی بے یقینی کی کیفیت ہے،جس کی وجہ سے آج پاکستان کے لوگ اپنے سے متنفر ہیں،یہ لوگ آزاد پنچھی کی طرح کہیں دور اُڑجانے کو ترس ہے ہیں،جو نکل چلے ،وہ خوش اور جو بچ رہے وہ گالیاں کھاکر تالیاں بجانے پہ مجبور ہیں،کل ہی مجھے پتا چلا ہے کہ میرے کئی جاننے والوں اور ان کے عزیزوں نے یورپین ویزے کے لیے اپلائی کیا ہے تو مجھے ان کی قسمت پہ بے حد رشک آیا،میں اس موقع پر ان کے اس فیصلہ کو صائب سمجھتا ہوں ،کیونکہ راجہ صاحب کے پی ایم بننے کے بعد لگتا ہے کہ انہوں نے بجلی کا جو حال کیا ہے،یہ ملک وقوم کا بھی یہی حال کرنے والے ہیں،اس سے پہلے کہ کچھ رہے نہ رہے،یہاں سے کوچ کرچلو تو بہتر ہے،میں اب تک حیران اور پریشان ہوں ،میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ راجہ ہمارا مہاراجہ بن جائے گا ۔

میں نے ان سطور کو تحریر کرتے ہوئے اپنے انتہائی عزیز دوست عثمان غازی سے پوچھا:”یار!کبھی آپ نے سوچا تھا کہ ایسے راجے بھی ہمارے حکمران بنیں گے؟“کہنے لگے:”جب سینما کے سامنے بلیک میں ٹکٹ بیچنے والا اور اربوں روپے لوٹ کر بھاگنے والے ہمارے انتہائی اہم عہدہ پہ فائز ہوسکتے ہیں تو راجہ رینٹل جیسے لوگ وزیر اعظم کیوں نہیں بن سکتے؟“انہوں نے بجاکہا،یہی ہے میرے ملک کی وہ تقدیر ،جس پہ میں ماتم کررہا ہوں، کیا قسمت ہے پاکستان کی اور کیا نصیب ہے ہمارا؟جی چاہتا ہے کہ سر پیٹوں،بال نوچوںاورماتم کروں،کیا برا وقت آگیا ہے؟آج ہمیں یہ دن بھی دیکھنا پڑرہا ہے کہ راجہ پرویز اشرف جیسوں کے محکوم بنے ہوئے ہیں۔ہائے رے پاکستان! تیری قسمت!

رات کے اس آخری پہر جب تقریبا پورا پاکستان ہی محوِ خواب ہے،ایسے میں ،مَیں اپنے لان میں بیٹھاسوچوں کے محور میں گُم ہوں،میں سوچ رہا ہوں کہ کیا پاکستان کا نصیب اتنا خراب ہے کہ آج یہ برا دن دیکھنا پڑرہا ہے،میں اپنے آپ سے سوال کناں ہوں کہ کیا ایسے ایسے لوگ ہمارے سیاہ و سفید کے مالک بنتے رہیں گے؟مجھے آسمان کی سیاہ وسعتوں کو دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان کا نصیب بھی اس آسمان کی طرح بالکل تاریک ہے،ویسے تو ستارہ صبح تاریک راتوں کا سینہ چاک ضرور کرتی ہے مگر نہ جانے پاکستان کے مقدر کا ستارہ کہاں چھپا بیٹھا ہے ،کب یہ صبحِ نو کی نوید سنائے گااور کب پاکستان کا نصیب جاگے گا؟
Muhammad Zahir Noorul Bashar
About the Author: Muhammad Zahir Noorul Bashar Read More Articles by Muhammad Zahir Noorul Bashar: 27 Articles with 25683 views I'm a Student media science .....
as a Student I write articles on current affairs in various websites and papers.
.. View More