!کہاں ہیں پاسبان وطن

کیا وطن کی پاسبانی میں کوئی قانوں حائل ہوسکتا ہے ؟ جہاں تک مجھے یا دہے کہ مرحوم راشد منہاس کو نشان حیدر اس جرائت پر ملا تھا کہ انھوں نے اپنے انسٹرکٹر کو جہاز انڈیا لے جانے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔

بچپن سے ایک کہانی سنتے آئے ہیں کہ دو بچوں نے کسی بند(ڈیم) میں ایک چھوٹے سے سوراخ سے پانی آتے دیکھا توایک بچہ اپنی کمر سوراخ پر لگا کر کھڑا ہوگیا اور دوسرا گاؤں والوں کو مطلع کرنے بھاگا ۔ اسطرح گاؤں سے بہت سارے لوگ آگئے ۔اور سب نے مل کر اس بند کے ٹوٹ نے کی وجہ سے آنے والے سیلاب کو روک لیا تھا ۔

متذکرہ بالا دونو ں واقعات میں مجھے ضابطے کی کاروائی (پروسیجر) نظر نہیں آتی یا اس کے بااختیاروں سے اجازت لینے گیا ہو۔ یا اس قسم کا جملہ سننے میں آتا کہ آپ حکم دیں تو ہم ڈرون حملے روک سکتے ہیں۔ اگر یہی بات تھی تو مرحوم راشد منہاس نشان حیدر نے بھی ضابطے کی کاروائی کی ہوتی۔ اور ایسا نہ کرسکنے کی وجہ سے اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ۔ اگر ضابطے کی کاروائی کی ضرورت ہے تو ایسی صورت حال میں نشانِ حیدر کا استحقاق مشکوک ہوجاتا ہے۔

دراصل وطن کی پاسبانی کے لئے کسی ضابطے کی کاروائی کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ نیک نیتی کی بنیاد پر جو بن پڑتا ہے آدمی اپنے وطن کی حفاظت کی کوشش کرتا ہے۔ اور اکثر اس کوشش میں اسکی جان چلی جاتی ہے اور احوال کے معلوم ہونے پر حکومتیں حوصلہ افزائی کے لئے نشانِ حیدر جیسے اعزازات سے نوازتی ہیں۔

1965 یہ پہلی مرتبہ سناکہ ڈرون رو کنے کے لیے حکم دینے کی ضرورت ہے۔ پھر تو ملک کی سلامتی یقیناًداؤں پر لگی ہوئی ہے۔ اور 71 کی جنگ میں ہم نے نہیں سنا کے آنے والے جہازوں کو بمباری سے روکنے کے لئے ضابطے کی کاروائی کے بعد جہاز اڑے ہوں۔ عقاب کا کام ہے دشمن پر چھپٹنا اس میں اجازت لینے کا کیا جواز ہے۔

سیاست دانوں نے مارشل لاء لگانے والوں پر بڑی لعن طعن کی ہے اور اکثر کرتے رہتے ہیں۔ اور جمہوریت کے پرستاروں کی نظر میں وہ سزا کے مستحق ہیں ۔ اگر یاد ہو تو پاکستان میں سول مارشل لاء کس نے لگایا تھا ۔کیا وہ بڑی قابل ستائش بات تھی ۔لوگوں کی یاد داشت کمزور ہوتی ہے اور وہ ماضی کو جلد بھول جاتے ہیں ۔

ایوب خان نے جن حالات میں مارشل لاء لگایا تھا انہیں سیا ست دانوں نے ملک کو خطرے سے دو چار کر دیا تھا پھر مرحوم ایوب خان نے آنے والے دس سالوں میں یقیناًپاکستان کو مضبوط قوم بنا کر کھڑا کر دیا تھا ساری صنعتی ترقی انہی کی کوششوں کا نتیجہ تھی ۔ جب انہوں نے امریکہ کو اسکی دست درازی پر یاد دلایا کہ دوست رہو آقا نہ بنو تو امریکہ ان کا دشمن ہوگیا اور انکی کابینہ میں اپنا آدمی داخل کر دیا جس نے ایوب خان کو کم اور پاکستان کو زیادہ تباہ کیا یہاں تک کہ پاکستان دو لخت ہوگیا۔

آج تک شکایت یہ ہے کہ ہمیشہ سے ساری زیادتی پی پی پی کے ساتھ ہوتی آئی ہے اور پی پی پی نے اس ملک کے ساتھ کیا کیا تھا کہ عوام پر فوج کو گولی چلانے کا حکم دیا گیا ۔نتیجہ کہ طور پر ضیاالحق مرحوم وطن کو بچانے کے لیے سامنے آئے اور مارشل لاء لگا نا پڑا ۔ سیا ست دانوں کا کیا ہے وہ تو ہمیشہ سے وطن فروشی اور پیٹ پوجا میں مشغول رہے آج کیا صورتحال ہے ؟ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ کسی بھی عہدے پر امیدوار کی اہلیت میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ جیل جا چکاہے اور اکثر ہمارے ارباب اقتدار کے ساتھ جیل کی دوستی رکھتے ہیں ۔

عدالت کی بے عزتی روز کا معمول ہے بڑے بڑے جغادری وکیل کہہ رہے ہیں کہ توہین عدالت کا کوئی قانون ہی نہیں ہے اگر انکی جمہوریت دوبارہ آگئی تو یہ ایسے قوانین بنائینگے کہ عدالت پارلیمنٹ کی لونڈی ہے ۔ جب کے دنیا میں سماجی انصاف کے بغیر بقاء ممکن نہیں ۔

آج کی جمہوریت کا حسن دیکھئے جو آدمی مقدمات میں ملوث ہو اور عدالت اس کے لئے تفتیش اور تحقیق کا حکم دے وہی وزیر بنادیا جائے ۔یہ کب پتا چلے گا کہ ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور پاسبانِ وطن کہاں سے آئیں گے اور کب اپنا فرض نبائینگے یا دشمن سے پوچھیں گے کہ جادوئی چراغ آپکے پاس ہے ہمیں حکم دیں ہم سب اسباب باند ھ کر جہاں آپ کہیں گے وہاں پہنچادینگے ۔

روز کی ہڑتالیں جلاو گھیراو صنعتوں کا بند ہونا بے روزگاری لا قانونیت نے جمہوریت کی خوبصورتی میں چار چاند لگادیے ہیں۔ آج کی دنیا اس قدر تیز ہے کہ اگر ہما وقت یہ حکم نہ ہو کہ دشمن کو دیکھتے ہی للکارہ جائے اور پہلی وارننگ کے بعد عمل نہ ہونے پر حملے کا فوراََ جواب دیا جائے ۔

اگر پوچھ گچھ اور اجازت کے چکر میں پڑے تو ایٹمی ہتھیار ہماری زمین چھو چکا ہوگا ۔

اور اگر سیاسی حملہ ہوا تو اقتصیادیا ت وہاں پہنچ چکی ہوگی جہاں سے واپسی ممکن نہ ہوگی لہذا پاسبانِ وطن کا فریضہ مومن کی فراست کا متقاضی ہے ۔
Syed Haseen Abbas Madani
About the Author: Syed Haseen Abbas Madani Read More Articles by Syed Haseen Abbas Madani: 79 Articles with 83265 views Since 1964 in the Electronics communication Engineering, all bands including Satellite.
Writing since school completed my Masters in 2005 from Karach
.. View More