وہ زندگی کی بازی ہار گئی

توپھر بڑی توجہ اور انہماک کے ساتھ اس تحریرکو پڑھیں ۔یہ لو ۔محترم کبھی کالم پر نظرتو کبھی دوسری ویب پر تو خاک سمجھ آئیگا۔آپ نے تو ابتداء ہی ناکامی سے کی ہے ۔توجہ سے ۔

ہر انسان کامیاب ہونا چاہتاہے ۔بھلا وہ بے وقوف ہی ہوگاجوناکام ہونا چاہتاہے ۔آپ واقعی ہی کامیاب ہونا چاہتے ہیں ؟تو بلند آواز(اتنی کے اردگردکے ماحول کے متاثرنہ کرے)سے کہیے ۔میں کامیاب ہونا چاہتاہوں ۔
تو لیجیے اس کے لیے چند چیزوں کا سمجھنا ضروری ہے ۔

کامیابی ہے کیا ؟
سب سے پہلے آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کامیابی ہے کیا؟ہر شخص کے نزدیک کامیابی کے مختلف مفاہم ہیں ،اسے یوں سمجھ لیں کہ ایک جماعت کے بیس طلباء میں سے چند کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ٹاپ کریں ،ان میں کچھ کی خواہش ہوتی ہے کہ اچھے ،مناسب نمبر آجائیں جبکہ اک تعد اد ہوتی ہے جس کی خواہش ہوتی ہے کہ یار پاس ہی ہوجائیں ۔دیکھا آپ نے کے زعم میں کامیابی کا معیار اور توقعا ت مختلفت ہیں ،کامیابی کا شعور یہ کہ آپ کو پتا ہو کامیابی ہے کیا؟نیز وہ کون سے راستے ہیں جن کے ذریعے آپ کامیابی حاصل کرسکتے ہیں ۔

اپنی طلب کا ادراک کیا اچھا کیا برا؟
یہ معلوم ہونا بہت ضروری ہے کہ کامیاب کہاں اور کیسے مل سکتی ہے ۔اس کا ادراک بھی کو کہ جسے کامیابی سمجھا جارہاہے یہ حقیقی ناکامی تو نہیں ،یعنی کایابی کی سمجھ کا ہونا بہت ضروری ہے۔

کامیابی کی لگن :
گھرمیںبیٹھے بیٹھے شیخ چلی کی طرح تو آپ ملک کے صدر و وزیراعظم بھی بن سکتے ہیں لیکن حقیقی معنوں میں بننے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہوگی۔اک لمحہ کے لیے ہم یہ بات قبول کرلیتے ہیں کہ آپ کے عزم بہت بلند ہیں ،آپ عالم ،مفتی ، ڈاکٹر،انجینیر ،پائلٹ وغیرہ بننا چاہتے ہیں ،اپنی کامیابی کا تعین بھی کیا ۔سمجھا بھی ۔لیکن فقط سمجھنے پر اکتفاء کیا تو شاید یہ سوچ سوچ ہی رہ جائے جب تک اسے عمل جامہ نہ پہنائیں گئے ۔لہذا کامیابی اسی وقت ممکن ہوگی جب آپ دیگر کے ساتھ ساتھ انتھک محنت ،کوشش،لگن سے ان راستوں کو طے نہیں کریں گئے ۔جن کے پار کامیابی آپ کی منتظر ہے ۔تو کیا خیال ہے کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو پھر ابھی سے مراحل در مراحل کوشش کریں ۔

محترم قارئین:آپ والد ہیں یا والدہ ،آپ بہن ہیں یا بھائی ،اساتذہ ہیں یا شاگرد آپ جوبھی ہیں ۔کامیاب ہونا آپ کا حق ہے ۔یہ حق اسی وقت ملے گا جب اس حق تک پہنچنے کے لوازمات پورے کییے جائیں گئے۔ کافی پرانی بات ہے ایک مرتبہ مجھے کسی نے بتایا کہ آٹھویں جماعت کی طالبہ گھر سے خراماں خراماں رزلٹ کے لیے کالج گئی ۔اسکول میں جب رپورٹ کارڈ ملیں تو دو سبجیٹ میں فیل ۔رپوٹ کارڈ پر جمی نظریں منجمد ہوگئیں ،دل کی دھڑکنیں بے ربط ہوگئیں ۔گویا بہت بڑا جرم سرزد ہوگیا۔جس کی پاداش میں تختہ دار پر چڑھا دیا جائیگا۔دوستوں نے پوچھاتو بلک بلک کر رونے لگی ۔دوستوں نے کسی نے حوصلہ دیا کسی نے طنز کیا۔ملے جلے رجحان تھے ۔لیکن اس فیل ہونے والی نے دل ہی دل میں ٹھان لی تھی کہ میں اس اسکول کے امتحان میں فیل ہوگئی لیکن اپنے ارادے کے امتحان میں بہر صورت پاس ہوناہے ۔وہ خاموشی سے سہیلیوں کے پاس سے اُٹھی ۔اسکول کے ان درو دیواروں کو حسرت بھری نظروں دیکھ کر باہر نکل گئی ۔ابکی بار اس کے قدم تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے ۔شاید فیل ہونے کے بعد پاس ہونے کے عزم کے لیے ۔لیکن ایسا کچھ نہیں تو وہ فیل ہونے کو زندگی کابہت بڑا کلنک جان کر ،خوف و حراس کے گہرے بادلوں تلے بڑھی چلی جارہی تھی ۔آج نئی منزل اور نئے راستوں کا اس نے آغاز کرلیا تھا۔وہ جس راستے سے گھر جاتی تھی گھر سے اسکول آتی تھی ۔وہ راستہ تو نہیں تھا۔خیر وہ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعدخار دار جھاڑیوں میں کسی فوجی کمانڈو کی طرح بڑھے چلے جارہی تھی ۔دوپہر گزری ،شام گز ر گئی ،رات گزر گئی ،اگلی صبح ہوگئی کچھ خبر نہیں ،سردیوں کی سخت راتیں جو ختم ہی نہ ہوں ۔

دوسرے دن کسی جھاڑیاں کاٹنے والے کی نظر پڑی تو کیا دیکھتاہے کہ دو گزکے فاصلے پر سفید اسکول یونیفارم میں ایک ننھی سے دنیا و مافیہاسے مستغنی بے سود پڑی ہے۔چونک گیا ۔قریب جاکر جب ہاتھ لگاکراُٹھانے کی کوشش کی تو وہ اسکول کے امتحان کے ساتھ زندگی کا امتحان بھی ہار چکی تھی البتہ خوف ،انا ،نفرتوں کے دیس میں پلنے والی البتہ اپنے ارادے میں پاس ہوگئی ۔

محترم قارئین: جانتے ہیں یہ سب کیوں ہوا؟وہ اس لیے کہ اس کا پہلا جرم وہ بیٹی تھی اسے سننے کو ملتا تھا ۔نکمی ،فلانی ،اب کی بار اچھے نمبر نہ آئے تو تجھے گھر میں نہیں رکھوں گی۔تیری شادی کرکے ایسے کو دونگی لگ پتاجائیگا۔تو مصیبت ہے مصیبت ۔اس عظیم کام میں باپ نے اپنا حصہ رقم کروایا۔پڑھنا ہے یا جھاڑو پوچا کرناہے ۔بتامجھے فیصلہ کرکے بتا۔اب کی بار تمہارے نمبر فلاں سے اچھے نہ آئے تو میرے گھر نہ آنا اپنا ٹھکانہ سوچ کے رکھنا۔ان حریص ،لالچی ،مفاد پرست ،رشتوں کے تاجر ،سوداگروالدین کی کارستانیوں نے اس ننھے دماغ کو مفلوج کردیا،سوچ ،اعتماد دونوں ہی ختم ہوگئے تھے ۔چنانچہ نتیجہ موت ،موت وہ موت جو ان والدین کو کبھی سکھ سے سونے نہیں دے گی۔

محترم قارئین:میں نے کامیابی کے ٹاپک کو اسی لیے لکھا کہ خدا راہ بے جا توقع نہ وابستہ کیا کریں ۔والدین بنیں تاجر نہ بنیں کہ 500سو روپیہ فیس جمع کروائی ہے تو اب اس کو وصول بھی کریں ۔آپ کی چھوٹی چھوٹی غفلت کی وجہ سے آپ کی اولاد زوال پزیر ہوتی چلی جاتی ہے ۔آپ کا بے جا دبدبہ ،ڈرخوف بچوں اور آپ کے درمیان اتنے فاصلے پیداکردیتاہے کہ وہ ساری زندگی آپ سے دل کی بات تک نہیں کہتے ۔آپ والدین بنیں جو پیار بانٹیں ،مالی بن جائیں ،جو ننھے ننھے پودوں کو کتنے پیار سے پانی دیتاہے گردونواح کے کچرے کو ہٹاتاہے کتنے پیار سے کونپلوں کو دیکھتاہے ۔فیل ہونا جرم نہیں ۔آپ فیل ہونے کے محرکات پر غور فرماکر اس کا ازالہ کریں۔بجائے اس کے آپ اولاد پر طعن و تشنیع اور زور آزمائی شروع کردیں ۔خداراہ کامیابی کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔اگر جبر و تسلط سے کامیابی ملتی تو جیلوں میں موجود قیدی سب سے زیادہ کامیاب ہوتے ۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 549422 views i am scholar.serve the humainbeing... View More