پنجاب کا لارڈ میکالے

وطنِ عزیز پاکستان اس وقت بے شمار مسائل میںِ گھرا ہوا ہے۔کہیں عدل و انصاف کا فقدان ہے اور کہیں توانائی کا بحران ،کہیں امن و سلامتی ناپید ہے تو کہیں اشیائے خوردونوش کی قلت اور مہنگائی ۔

حکومتی شعبوں میں ہر طرف لوٹ مار اور رشوت کا بازار گرم ہے اور عوام ہر طرف بے یارو مددگار کسی مسیحا کے منتظر ہیں جو آ کر ان کے درد کا مداوا کرے ۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دشمن شروع ہی سے پاکستان کے خلاف ہر محاذ پر جنگ لڑ رہے ہیں۔ سیاست ہو یا عدالت ، معیشت ہو یا تجارت ، صحت ہو یا تعلیم ،ہرشعبۂ زندگی پر وہ شب خون مارتے رہے ہیں ۔ ان کا مقصد صرف اور صرف اس اسلامی مملکت کو مسائل کی دلدل میں دھنسا کر اسے ناکام بنانا ہے۔

نظامِ تعلیم کسی بھی ملک کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس طرح ریڑھ کی ہڈی ناکارہ ہو جائے تو پورا جسم بے کار ہو جاتا ہے اس طرح کسی ملک کا نظام تعلیم ناکارہ ہو جائے تو پورا ملک ناکام ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس ملک و ملت کے دشمنوں نے ہمیشہ اس کے نظام تعلیم کو اپنے شکنجے میں سب سے زیادہ کسنے کی جدوجہد کی ہے۔ اس سارے عمل میں ہمارے نام نہاد حکمران بھی ان کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں ۔

بر صغیر پر جب انگریز ی تسلط ہو ا تو انہوں نے یہاں کے نظام تعلیم کو یکسر بدل کر رکھ دیااور یہاں کے مقامی لوگوں کو عرصہ دراز تک اپنا غلام بنائے رکھا۔انہوں نے ایسا نظام تعلیم مرتب کیا جس نے انگریزی فکر کے حامل افراد کا ایک ایسا گروہ تیار کیا جو ان کے یہاں سے چلے جانے کے بعد بھی ان کا وفادار رہااور اس ملک پر ان کی فکر کو مسلّط کیے رکھا بلکہ انہوں نے ان کی توقعات سے بڑھ کر ان کے مفادات کا تحفظ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔ ہمارے موجودہ حکمران بھی اسی طرز پر ان کے مفادات کی خاطر نظام تعلیم پر بری طرح سے شکنجا کسے ہوئے ہیں اور اسے مشق ستم بنائے ہوئے ہیں ۔

ہمارے نظام تعلیم کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک مسئلہ ایسا ہے جو ہمارے سابقہ آقاؤں کا پیدا کردہ ہے۔ وہ تو اس مسئلہ کو حل کیے بغیر یہاں سے چلتے بنے لیکن اپنے اِس ادھورے مشن کی تکمیل اپنے وارثوں کو سونپ گئے ۔ غیرملکی آقاؤں کے یہاں سے چلے جانے کے بعد اِ س مسئلہ کا وجود ہی ختم ہو گیا تھا لیکن قوم کے غدّار حکمرانوں نے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کے مصداق بن کر نہ صرف اس مسئلہ کو ختم نہ ہونے دیا بلکہ ہر دور میں اس مسئلہ کو الجھائے رکھا اور وہ مسئلہ ہے ذریعہ تعلیم کا مسئلہ۔

یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے بارے میں دنیا بھر کے ماہرین تعلیم کے نزدیک کوئی اِبہام نہیں پایا جاتا ۔ تمام ماہرین تعلیم اِس بات پر متفق ہیں کہ ذریعہ تعلیم مقامی زبان ہونا چاہئے نہ کہ کوئی غیر ملکی زبان ۔ لیکن ہمارے نام نہاد حکمرانوں نے ماہرین تعلیم کی آراء،عوامی امنگوں اورآئین پاکستان کے برخلاف مقامی یا قومی زبان کے بجائے انگریزی کو بطور ذریعہ تعلیم نافذ کردیا ہے۔ اس مختصر مقالہ میں اسی مسئلہ کو زیربحث لایا گیا ہے ۔امید ہے کہ قوم کا درد رکھنے والے عوام اور حکمران اس مسئلہ کی سنگینی کااِدراک کرتے ہوئے اُسے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔

اﷲ تعالےٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اسے بولنا سکھایا۔اِس کائنات میں بے شمار زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ہر ملک اور قوم کی اپنی ایک الگ زبان ہوتی ہے جس سے اس ملک یا قوم کی اس دنیا میں پہچان ہوتی ہے۔زبانوں کا اختلاف اﷲ تعالےٰ کی نشانیوں میں سے ہے جیسا کہ اِس بارے میں اِرشاد باری تعالیٰ ہے: وَمِنْ آیَاتِہِ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفُ أَلْسِنَتِکُمْ وَأَلْوَانِکُمْ اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَآیَاتٍ لِّلْعَالِمِیْنَ۔[ سورۃ الروم الآیۃ۲۲]
)اور اُس (اللہ) کی نشانیوں میں سے ہے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگوں میں اختلاف، بیشک اس میں علم والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں (

اس کائنات میں زبانوں کا اختلاف ایک ابدی حقیقت ہے ، ہر ملک اور ہر علاقے کی اپنی الگ زبان ہے۔ جس قوم کی کوئی شناخت یا پہچان نہ ہو، اس کا وجود دنیا میں نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، بقول ڈاکٹر انعام الحق کوثر : قوموں کے عروج و زوال میں اگر کچھ ان کے ساتھ رہتا ہے تو وہ ان کی زبانیں ہوتی ہیں ۔ بر صغیر پاک و ہند میں اس کی واضح اور زندہ مثال اردو زبان ہے۔ اگر ہم اس زبان کے ارتقاء کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس صدیوں پرانی زبان کو مسلمانوں اور دیگر اقوام کے باہم میل جول سے نیا روپ ملا اور یہ پورے بر صغیر پاک و ہند میں عوامی رابطے اور افہام و تفہیم کا اہم ذریعہ بن گئی، لیکن قریباً سوا سَو سال پہلے ہندوں کے تعصبات اور تنگ نظری کے باعث بر صغیر کی یہ عوامی اور ماحولی زبان صرف مسلمانوں کی زبان ٹھہرائی گئی ۔جیسے ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں اسی طرح قرآن مجید بھی اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے۔ جو قیامت تک کے تمام انسانوں کے لیے ذریعہ ہدائت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مقدس کتاب کے تراجم دنیا کی تمام معروف زبانوں میں کئے گئے۔ تاکہ سب اس کو سمجھ سکیں اور اس کے پیغام پر عمل کر سکیں ۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید کو عربی زبان میں نازل کیا کیونکہ وہ جس قوم کی طرف نازل کیا گیا ان کی زبان بھی عرَبی تھی۔ اِس بارے میں ارشاد ربانی ہے : (اِنَّا أَنْزَلْنَاہُ قُرآناً عَرَبِیّاً لَعَلکُم تَعقِلون۔) [سورَۃ یوسف الآیۃ ۲]
( بے شک ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا تاکہ تم سمجھ سکو)

اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے جس قوم کی طرف کوئی نبی بھیجا وہ انہی میں سے بھیجا جو ان کی زبان بولتا تھا ۔ تا کہ وہ لوگ اس نبی کی بات کو سمجھ سکیں۔ اور اس کے پیغام پر عمل کر سکیں۔اس بارے میں اﷲ تعالٰی نے اِرشاد فرمایا : (وَلِکُلٍِّ قَوْمٍٍ ھَادٍ۔) [سورَۃ الرعد الآیۃ ۷] (اور ہر قوم کے لئے ایک ہدایت کرنے والا ہے)

ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا : (وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَھُمْ۔۔۔) [سورَۃ ابراھیم الآیۃ ۴]
(اور ہم نے جو رسول بھی بھیجے اُن کو اپنی قوم کی زبان میں ہی بھیجا تاکہ وہ اُن کے لئے ہر معاملہ بیان کر سکیں)

اِس سے ظاہر ہوا کہ جس قوم کو تعلیم دینی ہو وہ ان کی اپنی زبان میں دینی چاہیے ، یہی وجہ ہے کہ تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ذریعہ تعلیم مقامی زبان ہونا چاہیے۔ نہ کہ کوئی غیر ملکی زبان ۔ افریقی رہنما نیلسن منڈیلا کا قول بڑا مشہو ر ہے :
جب تم کسی شخص سے اس زبان میں بات کرو جسے وہ سمجھتا ہو تو تم نے اس کےَ سر سے بات کی اور اگر تم کسی سے اس کی مادری زبان میں بات کرو تو تم نے اس کے دل سے بات کی ۔

بدقسمتی سے ہمارے موجودہ حکمران بیرونی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لیے بے چین ہیں جو کہ سراسر غیر عقلی اور غیر فطری ہے۔ انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کے حق میں ان کے پاس وہی دلائل ہیں جو آج سے قریباً ایک سو ستتر(177)سال پہلے 1835ء میں لارڈ میکالے نے پیش کیے تھے ۔ منجملہ دیگر دلائل کے ایک دلیل یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ انگریزی جدید علوم )سائنس و ٹیکنالوجی(کی زبان ہے۔ یہ دلیل سرا سر جھوٹ ہے اور بد نیتی پر مبنی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ دنیا میں انگریزی زبان سے پہلے بھی سائنس و ٹیکنالو جی کا وجود تھا ذرا تاریخ کی طرف نظر تو دوڑا کر دیکھیں کشتی ء نوح ، داؤد ؑ کا ذرہ بنانا ، یوسف ؑ کا گندم ذخیرہ کرنے کا طریقہ ایجاد کرنے ، قوم ثمود کے پہاڑوں کو کھود کر بنائے گئے محلات ، قوم سبا کا ڈیم بنانا ،قوم یا جوج ماجوج سے بچنے کے لیے سکندر ذوالقرنین کی فولادی دیوار ، دیوار چین ، اہرام مصر اور دیگر عجائبات عالم میں سائنس و ٹیکنالوجی کا عمدہ مظاہرہ آپ کو نظر آئے گا۔ یہ سب کچھ انگریزی زبان کے بغیر کیسے ممکن ہوا ۔ کیا انگریزی زبان سے پہلے انسا ن نے کوئی ترقی نہیں کی تھی؟ اگر اس کے بغیر ترقی کی تھی تو کیا آج اس کے بغیر ایسا ممکن نہیں ؟
قرون وسطیٰ میں طب جغرافیہ ، کیمیا، فلکیات ، حساب و تاریخ ، وغیرہ علوم کی بنیادیں کس نے رکھیں ؟ کیمیا کا بانی جابر بن حیان ، ماہر طب محمد بن زکریا الرازی، زمین کا محیط ناپنے والا البیرونی ، مشہور مؤرخ علامہ ابن خلدون ، اور مشہور فلسفی علامہ ابن رشد ، اور امام غزالی نے کس زبان میں تحقیقات کیں ؟ یورپ کو تہذیب و تمدن سے کس نے آشنا کیا؟

موجودہ زمانے میں ہی دیکھ لیں ۔ تمام ترقی یافتہ ممالک نے کس زبان کی بنیاد پر ترقی کیا منازل طے کیں ؟ چین ، جاپان، جرمنی ، فرانس وغیرہ انگریزی زبان کے بغیر کیسے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں آ گئے ؟ اگر دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک اپنی مقامی زبانوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ترقی کے زینے طے کر سکے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ الغرض ایسی بیشمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی عالمگیر حیثیت کی حامل ہوتی ہیں جبکہ زبانیں علاقائی و جغرافیائی حدود کی پابند سائنس و ٹیکنالوجی کی اپنی کوئی مخصوص زبان نہیں ہوتی جو فرد یا قوم تحقیق میں دلچسپی لے اور سائنسی طرز فکر اپنائے تو سائنس و ٹیکنالوجی اس کی باندی بن جاتی ہے۔ پوری دنیا میں مختلف پیشوں کے کاریگروں کی بہت زیادہ اکثریت انگریزی زبان سے نا بلد ہونے کے با وجود اپنے کام میں کیسے ماہر بن جاتی ہے ؟ اس کا عملی مظاہر ہ دیکھنا تو اپنے اس پیارے ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مختلف پیشوں کے ہنر مند افراد سے مل کے دیکھیں ۔

انگریزی کو بطور زبان سیکھنے یا سکھانے پر کسی کو کوئی اعتراض نہ پہلے تھا نہ اب ہے۔ انگریزی زبان کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔بیشک آج کل یہ ایک بین الاقوامی زبان کی حیثیت حاصل کر چکی ہے۔ صرف اسی زبان پر ہی ساری توجہ دینا عقل مندی ہرگز نہیں ۔دنیا میں اور بھی بیشمار اقوام آباد ہیں۔ اُن سے میل جول اور تجارت وغیرہ کے لیے ان کی زبانیں بھی سیکھنے پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ بطور خاص عربی ز بان کی ترویج پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے کیوں کے یہ نہ صرف ہماری مقدس مذہبی زبان ہے بلکہ دنیا کے ایک بہت بڑے حصے میں (تقریباً 22ممالک) میں یہ ز بان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی کل تعداد کا نصف )تقریباً 11لاکھ(صرف ایک عرب ملک سعودی عرب میں آباد ہے۔ باقی عرب ممالک میں موجود پاکستانیوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ لہٰذا تجارتی معاشی ، معاشرتی اور سیاسی اہمیت کے پیش نظر عرَ بی زبان کو بھی اپنے ہاں فروغ دینا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی مقامی اور قومی زبانوں کا حق بھی ادا کرنے چاہیے کیونکہ انہی سے تو ہماری دنیا میں ایک پہچان اور شناخت ہے۔ کسی بھی قوم کا نظام تعلیم اس قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈ ی کی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استعماری طاقتیں سب سے پہلے اسی نظام کو اپنے ہاتھ میں لیتی ہیں ۔یہی طریقہ واردات ہندوستان میں برطانوی ا ستعمار نے اپنایا۔

کسی بھی نظام تعلیم میں ذریعہ تعلیم اس نظام کی روح ہوتا ہے۔اگر کسی قوم کا نظام تعلیم اور ذریعہ تعلیم بدل دیا جائے تو اسے مارنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔وہ قوم اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ بقول شاعر:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
ایک دوسرے مقام پر یوں فرمایا :
شیخ مرحوم کا قول اب مجھے یاد آتا ہے
دل بدل جاتے ہیں تعلیم بدل جانے سے

صد افسوس کہ ہمارے اس دور میں نظام تعلیم کو اَغیار کے اشارے پر تباہ کر کے رکھ دیاگیا ۔ ذریعہ تعلیم قومی یا مقامی زبان کی بجائے غیر ملکی زبان کو قرار دیا گیا۔ قومی اداروں سے قومی زبان کو بے دخل کر دیا گیا حتیٰ کہ سکولوں ، کالجوں کے درودیوار سے اردو زبان میں لکھے گئے الفاظ تک مٹانے کے احکام جاری کر دیے گئے ۔سرکاری سکولوں کے نام میں انگلش میڈیم کا اضافہ کر دیا گیا۔ قومی اداروں میں قومی
ز بان کے ساتھ ساتھ قومی لباس پربھی پابندی عائد کر دی گئی ۔کسی بھی محکمے میں چلے جائیں ہر طرف بابو ہی بابو آئیں گے۔ اُنہیں دیکھ کر استعماری دور کی یاد تازہ ہو جائے گی۔ نسل نَو کو اپنے ماحول ثقافت اور
مذہب کے بارے میں بھی قومی زبان میں پڑھانا ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ چھوٹے بچوں کو تعوُّذ اور تسمیہ کا ترجمہ بھی انگریزی میں کروانا لازمی ہے۔ یہ سب اس لیے کہ تعوذ اور تسمیہ اور دیگر مذہبی اقدار اُن پر اثر انداز ہونے سے قاصر رہیں ہمارے ارباب اقتدار اغیار کے آلہ کار بن کر نئی نسل کو جاہل بنانے پر مصر ہیں ۔ حالانکہ وہ خود اردو میڈیم سے آکر ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل ہوئے ہیں ۔ ہر محکمے کا سر براہ یا دیگر سر کردہ لو گ سب اردو میڈیم سے پڑھ کر اس مقام تک پہنچے ہیں ۔ کیا اردو آئندہ ایسے افراد پیدا کرنے سے بانجھ ہو گئی ہے۔ آج اس بد قسمت ملک کی رعایا کا کوئی پرسان حال نہیں حالانکہ اس ملک کے تمام ادارے عوام کی ملکیت ہیں اور ان اداروں میں کام کرنے والے اُن کے خادم ہیں۔ اس ملک کے نوکر ،آقا بن چکے ہیں۔ ہر طرف نوکر شاہی کا راج ہے ۔عوامی امنگوں کا ہر طرف خون کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی پالیسی سازی میں ان کی رائے کوئی وزن نہیں رکھتی۔ عموماً عوامی مطالبات کے بر عکس روش اپنانا اس ملک کی نوکر شاہی کا وتیرہ بن چکا ہے۔

آئیے تاریخ میں چھانک کر دیکھیں کہ انگریزی سرکار نے اپنے دور استعمار میں بر صغیر پاک و ہند میں "انگریزی ذریعہ تعلیم کے لئے کون کون سے جتن کیے"؟
بر صغیر میں انگریزی تعلیم کا آغاز:
چارٹر ایکٹ 1813ء :
ایسٹ انڈیا کمپنی کے سابق ملازم چارلس گرانٹ نے تجویز پیش کی کہ عظیم برطانیہ کو ہندوستان میں عیسائت کی تبلیغ انگریزی زبان و ادب اور مغربی سائنسی علوم کے ذریعے طاقت بڑھانی چاہیے ۔ چارلس گرنٹ کی اس رائے کو پسند کیا گیاا ور اس مقصد کے لیے ایک لاکھ روپے کی گرانٹ کی منظوری دی گئی۔
لارڈ میکالے رپوٹ 1835ء:
انگریزوں نے ہندوستانی لوگوں کے لیے تعلیم میں دلچسپی لی جیسا کہ چارٹر 1813ء سے ظاہر ہوتا ہے لیکن و ہ اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ وہ ذریعہ تعلیم کا مسئلہ حل نہ کر سکے۔ 1830ء میں مشرقی اور مغربی علوم کے بارے میں مخالفت زوروں پر تھی ۔یہ لارڈ میکالے ہی تھا جس نے بڑے وزنی نقاط پیش کر کے اس مسئلے کو حل کرنے کی کامیاب کوشش کی ۔ لارڈ میکالے نے 1834ء میں ہندوستان آیا تھا۔ وہ وائسرائے کی کونسل کا قانونی ممبر تھا لارڈ بنٹنک نے اسے پبلک انسٹرکشن کی جنرل کمپنی کا چیئر مین بنا دیا ۔لارڈ میکالے کے ذمہ تھا کہ و ہ گورنمنٹ کو اس کے تعلیمی پالیسی کے حوالے سے رہنمائی دے ۔اگرچہ لارڈ میکالے نے سابقہ نظام تعلیم کا صفایا کرنے سے متعلق تجاویز دینے سے گریز کیا تاہم ذریعہ تعلیم سے متعلق اس نے اپنی مشہور تجاویز فروری 1835ء میں پیش کیں جو کارنامہ لارڈ میکالے نے انگریزو ں کے لیے سر انجام دیا شائد فوج کے ہزاروں کمانڈر بھی یہ خدمت سر انجام نہ دے سکتے لارڈ میکالے نے سارے ہندوستان کو انگریزی رنگ میں رنگ دیا ۔
لارڈ میکالے کی رپورٹ کے نمایا ں نکات درج ذیل ہیں :
1۔ذریعہ تعلیم انگریزی ہو:
ہندوستانی تعلیم کے لیے ذریعہ تعلیم انگریزی ہو گی کیونکہ تمام ہندوستانی زبانیں بڑی ناقص ہیں اور انگریزی ،عربی اور سنسکرت سے بہتر ہے۔ انگریزی کے حق میں لارڈ میکالے نے درج ذیل دلائل پیش کیے ۔
ا۔ انگریزی جدید علوم کی کنجی ہے اس وجہ سے عرَبی اور سنسکرت سے بہتر ہے ۔
ب۔مغربی زبانوں میں بھی انگریزی کی حیثیت بڑی نمایاں ہے۔ ہندوستان میں انگریزی حکمران طبقہ کی زبان ہے۔ اس لیے تمام مشرقی سمندروں میں اس زبان کا تجارتی و کاروباری زبان بننا زیادہ مناسب ہے۔
ج۔ انگریزی ہندوستان کو زیادہ تہذیب یافتہ بنائے گی ۔ یہ ہندوستان میں نشاۃ ثانیہ لائے گی۔
د۔ہندوستانی خود بھی انگریزی زبان سیکھنا چاہتے ہیں ۔ (در حقیقت کچھ ہندوستانیوں کو رشوت دی گئے تھی کہ وہ انگریزی سیکھیں (
ہ۔عوام کے بجائے خاص طبقے کی تعلیم کی وکالت عوام کی بجائے خواص کے طبقے کی تعلیم کی وکالت کی گئی میکالے نے کہا انگریزی زبان کی تعلیم کے ذریعہ سے ہی یہ ممکن تھا کہ ہندوستانی لوگوں میں سے ایک ایسا گروہ تیار کیا جائے جو رنگ اور خون کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو لیکن سوچ و فکر کے لحاظ سے انگریزی ہو اور یہ تعلیم حکمران طبقہ سے عوام میں منتقلکی گئی ۔

2۔اد ب کا مطلب :
لارڈ میکالے نے کہا : ادب کا مطلب ہے انگریزی ادب جیسا کہ 1833ء کے چارٹر میں بیان کیا گیا ہے ۔ اس جد و جہد کو تقویت پہنچانے کے لیے میکالے نے ایک عمدہ عبارت پیش کی ایک اچھی یورپی لائبریری کا ایک شیلف تمام مقامی ادب سے زیادہ قیمتی ہے ۔
3۔ ہندستانی سکالر ز کی تعریف:
ہندوستانی سکالر سے مراد وہ شخص ہے جس نے لاک کی فلاسفی اور ملٹن کی شاعری پڑھی ہو ۔

4۔ مشرقی و مذہبی مدارس کی گرانٹ بند کر دی گئی:
میکالے نے کہا : اگر حکومت نے محسوس کیا کہ اس کی پرانی تعلیمی پالیسی ناکام ہو گئی ہے تو اس پالیسی کو تبدیل کر دیا جائے گا اور اس کی گرانٹ بند کر دی جائے گی ۔

میکالے رپورٹ کے مقاصد :
اس رپورٹ کا سب سے نمایا ں مقصد انگریزی ذریعہ تعلیم کے ذریعے انگریزی تعلیم کا فروغ تھا۔ لارڈ ولیم ، بنٹنک نے اس کی تائید کی اور اس کی رپورٹ کو قبول کیا اور 7مارچ 1835ء کی اپنی قرارداد میں اسے منظور کرنے کے احکام جاری کیے ۔

ووڈ ڈسپیچ1854 ء :
1853ء سے ارباب اختیار ہندوستانی لوگوں کی تعلیم کے بارے میں زیادہ واضح موقف نہیں رکھتے تھے تاہم اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ ہندوستانی تعلیم انگریزوں کے لیے بڑی مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ اس سوچ کی وجہ سے چارلس ووڈ کی مشہور تجاویز منظر عام پر آئیں ۔ چارلس ووڈ بورڈ آف کنٹرول کا صدر تھا وہ انڈیا آیا اور اس نے لارڈ ڈلہوزی سے مشاورت کی اور واپس چلا گیا۔ اس نے اپنی مشہور تجاویز پیش کیں جو ووڈز ڈسپیچ کے نام سے مشہور ہیں۔ اس ڈسپیچ میں لارڈ میکالے کے خیالات کو ہی آگے بڑھایا گیا ۔ اور ذریعہ تعلیم سے متعلق تجویز دی گئی کہ ہندوستان میں ذریعہ تعلیم انگریزی ہو گا ۔

ولیم رپورٹ 1882ء :
لارڈ میکالے کے بعد تقریباً 50سال تک ہندوستانی سیاست میں بڑے اتار چڑھاؤ آئے ۔اس عرصہ میں تعلیمی حوالے سے سب سے اہم پیش رفت پہلے ہندوستانی تعلیمی کمیشن کا قیام تھا ۔ 3فروری 1882ء کو لارڈ رپن نے اس کمیشن کا چیئرمین ولیم ہنٹر کو مقرر کیا۔ اس کے نام کی نسبت سے اس کمیشن کا نام "ہنٹر کمیشن"مشہور ہو ا ۔ اس کمیشن کی رپورٹ میں مختلف شعبوں سے متعلق مختلف قسم کی تجاویز دی گئیں تاہم سابقہ رپوٹوں کے برعکس دیسی تعلیم اور ذریعہ تعلیم سے متعلق حقیقت پسندی سے کام لیا گیا ۔ اس کمیشن نے تجویز پیش کی کہ دیسی تعلیم کو بھی مدد فراہم کی جائے اور حکومت سیکنڈری تعلیم کی بجائے پرائمری تعلیم پر زیادہ توجہ دے ۔ اور پرائمری تعلیم کے لیے ذریعہ تعلیم مقامی زبان ہو نا چاہیے ۔(Introduction to education by Parvai Iqbal page 69 to 79)

اس طرح انگریزی دور حکومت میں انگریزی ذریعہ تعلیم کے نفاذ کے لیے کافی تگ و دو کی گئی ۔انگریز اپنے مقصد میں پورے طور پر کامیاب نہ ہو سکے لیکن انہوں نے اس سرزمین میں انگریزی
ذریعہ تعلیم کے بیج بو دئیے جو ان کے اِس علاقے سے چلے جانے کے بعد بھی پھلتے رہے اور برگ و بار لاتے رہے اور مزید افزائش نسل کا سبب بنتے رہے۔آج لارڈ میکالے کے اَدھورے مشن کی تکمیل کے
لئے اس کے بوئے گئے بیجوں کی فصل ہر طرف لہرا رہی ہے ۔ پچھلی صدی کی آخری چوتھا ئی میں پرائیویٹ سکولوں و کالجوں کی فصل کھنبیوں کی طرح اگی جن میں ذریعہ تعلیم انگریز ی کو پروان چڑھایا گیا۔
حکومتی سطح پر ان کی حوصلہ شکنی کی بجائے حوصلہ افزائی کی گئی حتیٰ کہ پنجاب حکومت نے پنجاب کے تمام سرکاری سکولوں کو 2011ء سے انگریزی ذریعہ تعلیم کے ادارے قرار دے کر سابقہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ پاکستان کی نظریاتی جماعت کے داعی حکمرانوں نے لارڈ میکالے کو بھی مات دے دی۔ آج اگر لارڈ میکالے کی روح دنیا میں آجائے تو ورطہء حیرت میں ڈوب جائے کہ اتنی بڑی کامیابی تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی اور وہ خادم اعلیٰ کی تعلیمی خدمات کے صلے میں انہیں "پنجاب کا لارڈ میکالے" کے خطاب سے نوازنے پر مجبور ہو جائے گی ۔

مقام افسوس ہے کہ اْربا ب اختیار اس عظیم قومی زیاں کو عظیم کامیابی گرادانتے ہوئے نہیں شرماتے ۔اِس بارے میں انہوں نے کسی معروف ماہر تعلیم سے رہنمائی لینی مناسب نہیں سمجھی۔ پاکستان یا دنیا بھر کے ماہرین تعلیم میں سے کوئی ایک ماہر تعلیم ہی تلاش کر لیتے جو کسی غیر ملکی زبان کو ذریعہ تعلیم کے طور پر اپنانے کا حامی ہو۔ لیکن اَرباب اقتدار کی بھی اپنی مجبوریا ں ہیں ۔ انہیں اِس ملک و قوم سے کیا غرض ؟ وہ تو اپنے ذاتی مفاد پر سب کچھ داؤ پر لگانے کے لیے ہر وقت بیتاب و بے قرار نظر آتے ہیں۔ وہ راہزن ہو کر بھی رہبر ہی کہلاتے ہیں ۔ملکی مفاد کے نام پر اپنے ذاتی مفادات پورے کرنے کے لیے ہر وقت بے چین رہتے ہیں۔ ڈالروں کے شہر کا پانی اپنے اندر ایک عجیب تأثیر رکھتا ہے ۔
کتنا بدلا ہوں تیرے شہر کا پانی پی کر جھوٹ بولوں تو ندامت نہیں ہوتی مجھ کو

ہائے کاش ! قومی سطح پر اس مسئلہ کی سنگینی کا اِدراک کیوں نہیں کیا گیا؟ ملک و قوم کے درد کا دَم بھرنے والے اس سلسلے میں چپ کیوں ہیں ؟ کیا اِس انگریزی ذریعہ تعلیم کے ذریعے آنے والی نسل کو اپنی تہذیبی اقدار سے کاٹ دینے کی سازش نہیں کی گئی ؟ کیا یہ اِقدام قومی و اجتماعی خود کشی کے مترادف نہیں؟ علامہ اقبال ؒ کے اِس فرمان پر اپنی گزارشات ختم کرنے کی اجازت چاہتا ہوں ۔

دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سراسر موم ہو یا سنگ ہو جا
والسّلام
Akbar Ali Javed
About the Author: Akbar Ali Javed Read More Articles by Akbar Ali Javed: 21 Articles with 54380 views I am proud to be a Muslim... View More