شہر کراچی تیری قسمت؟

کراچی ملک کا واحد شہر ہے جہاں پورے پاکستان میں موجود قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں آباد ہے جو یہاں روزی روزگار کے واسطے آتااسی شہر کا ہوکر رہ جاتا۔ اسی لئے کراچی کو منی پاکستان کا لقب بھی حاصل ہے۔ مگر افسوس گزشتہ کئی دہائیوں سے باقاعدہ سوچی سمجھی سازش کے تحت شہر قائد کے حالات خراب کرنے کی کوششیں کی جاری ہیں، کبھی فرقہ وارایت کو فروغ دینے کی کوشش ہوتی تو کبھی لسانیت کی بنیاد پر آگ بھڑکانے کی کوشش، کبھی دہشت گردی اور کہیں انسانیت سوز مظالم کی کوششیں، کہیں اغوائے برائے تاوان اور کہیں بھتہ مافیاکی آڑ میں مکروہ کھیل شروع کردیا جاتا کہ جہاں تاوان یا بھتہ نہ دینے کی صورت میں دہشتگرد ، بھتہ خور اور انسانیت کے دشمن معصوم شہریوں اور تاجر برادری سے تعلق رکھنے والے بے گناہ افراد کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں، اس قسم کے غیر قانونی اور غیر انسانی عمل مسلسل حکومت وقت کی رٹ کو چیلنج کررہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ کراچی شہر جو پاکستان کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اس شہر کے باسیوں کی زندگیوں، جان و مال کی حفاظت سے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت بذات خود ایک مجرمانہ فعل ہے اور افسوس کہ کسی کے پاس کراچی کے مسئلے کا حل موجود نہیں ہے کیونکہ کسی کو کراچی کی فکر نہیں ہے ۔ ایک نجی ٹی چینل کی رپورٹ کے مطابق رواں ماہ کے دوران کراچی میں قتل و غارت گری کے کئی واقعات رونما ہوئے جس میں تقریباً 100سے زائد افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے، کوئی سوچنے والا نہیں ہے کراچی کے بے گناہ شہریوں کے بارے میں، کیا اہل کراچی اسی طرح مرنے کیلئے چھوڑ دئے گئے ہیں ، آخر کراچی کے شہریوں کا قصور کیا ہے، کیا ان کی جان و مال ، عزت و آبرو کی کوئی وقت نہیں ہے۔کراچی میں امن وامان کی صورتحال قابو سے باہر ہوتی جارہی ہے، آئے روز قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے لیکن کہیں بھی عوام کی جان ومال کی حفاظت کے لئے بھی ٹھوس و مثبت اقدامات ہو تے نظر نہیں آرہے کیا انسان کا خون اتنا ارزاں ہے کہ کسی کو اس کی فکر ہی نہیں، دنیا کے ہر مذہب میں انسانی جان کی اہمیت اور حرمت کی قدر و قیمت بہت زیاد ہے تو آخر یہ انسان کے لبادے میں ظالم درندے کون ہیں ، ان کو کیا تعلیمات ملی ہیں انکے کیا اپنے ماں باپ، بہن بھائی، یا دیگر رشتے دار نہیں ہیں جو یہ دوسروں کے عزیزوں کو درندوں کی طرح چیرنے پھاڑنے میں مصروف ہیں۔ ہم ہرواقعہ میں بیرونی ہاتھ تلاش کرتے ہیں آخر یہ بھی تو معلوم ہو کہ یہ درندہ صفت مخلوق آخر ہے کون جو انسانوں کو قتل کرنے میں مصروف ہے ۔ کہنے کو تو پورے کراچی میں رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے اس کے باوجود شہر کراچی میں مسلسل 10سے 12افراد کا قتل ، آخر کون جواب دیگا، کون ہے جو مجرمانہ غفلت یا چشم پوشی سے کام لے رہا ہے کیا چنگیز خان کا دور واپس آگیا ہے اور کیا انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنانے والا کوئی اپنے مکروہ مقصد کو پورا کرنے اورکراچی کے شہریوں کو انکے ناکردہ گناہوں کی سزا دینے میں مصروف ہے اور کیا اس نے دہشتگردوں کو ہتھیاروں سے اتنا لیس کردیا ہے کہ دہشتگردوں کے اسلحے اور بارود ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے، کون ہے وہ درندہ صفت کہ جو کراچی اور یہاں کی عوام سے اس قدر شدید نفرت کرتا ہے کہ کراچی کے شہریوں کی جان کو انسانی جان ہی نہیں تسلیم کر رہا اور اپنے کارندوں اور اپنے بچوں کے ذریعے کراچی میں قتل و غارت گری کی وارداتوں میں مصروف ہے اور جسکے اختیارات اس قدر زیادہ ہیں کہ حکومت وقت بھی اسکے سامنے بے بس ہے۔ آخر کب تک کراچی کے بے گناہ شہری اپنے مقتولوں کے جنازوں کو کندھا دیتے رہیں گے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ شہر سے نفرت کرنے والوں کی زبانیں چلتے سب نے دیکھی تھیں۔

کراچی کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیکر جامع حکمتِ عملی ترتیب دی جائے شہر میں پولیس کی نفری بہت کم ہے اور اس کمی کو دور کرنے کیلئے مقامی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو صرف میرٹ کی بنیاد پر بھرتی کیا جائے انکی تربیت جدید خطوط پر کرتے ہوئے انہیں تمام تر آلات استعمال کرنے کے قابل بنایا جائے۔ڈیڑ کروڑ سے زائد کی آبادی کے تناسب سے نفری کا تعین کیا جائے ایسے ماہرین تیار کئے جائیں جو مقدمات کی تیاری سے لیکر مجرموں کو سزا دلوانے کیلئے تمام تر صلاحیت کے حامل ہوں علاقائی سیاسی و سماجی قیادت کو بھی موثر انداز میں اعتماد میں لیا جائے۔

اس امر کا خصوصی جائزہ لیا جائے کے یہ کون سے درندہ صفت عناصر ہیں جو انسانوں کے گلے کاٹ کر دھشت پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں اغوابرائے تاوان کی وارداتیں کون کررہا ہے مجموعی طور پر ایسے اقدامات کئے جائیں کے جرم و سزا کا تصور قائم ہو اور امن شہر کراچی میں قائم ہوسکے۔
asad sheikh
About the Author: asad sheikh Read More Articles by asad sheikh: 22 Articles with 15986 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.