اقساط میں کاروبار ( شریعت کیا کہتی ہے)

قسطوں پر سامان کی فروخت
آج کل قسطوں پر سامان کو فروخت کرنے کا رواج عام ہو گیا ہے خریدنے والے کو بھی اس میں سہولت ہوتی ہے اور بیچنے والا بھی ادائیگی میں تاخیر کو ملحوظ رکھ کر قیمت کسی قدر بڑھا کر لیتا ہے، اس طرح کی خریدوفروخت میں نقد کی قیمت کم اور ادھار کی زیادہ ہوتی ہے،یہ صورت جائز ہے﴿ردالمحتار:،۷۷۱﴾البتہ معاملہ طے کرتے ہوئے ان امور کا خیال رکھنا چاہئے۔
۱﴾معاملہ نقد یا ادھار میں سے کسی ایک نوعیت پر قطعیت کے ساتھ طے کر لیا جائے
۲﴾ادھار جو قیمت مقرر کی جائے وہ بھی ایک اور مقرر و طے شدہ ہو۔
۳﴾اگر خریدار مقررہ وقت پرپیسہ ادانہ کرپا ئے توتاخیرکی وجہ سے قیمت میںمزیداضافہ نہ کیا جائے،اگر تاخیر مزید کی وجہ سے پھرقیمت بڑھادی جائے تو یہ حرام ہو گا اور سود متصور ہوگا۔

شیئرزکی خریدوفروخت
آج کل حصص یعنی کمپنیوں کے شیئرزکی خرید وفروخت ایک اہم اور مالی اعتبار سے نفع آور کاروبار بن گیا ہے،حصص کبھی تو براہِ راست کمپنی سے خریدے جاتے ہیں،کبھی ایجنسیوں کے واسطے سے لئے جاتے ہیں اور کبھی شخصی طور پر لوگ اپنا خرید کیا ہوا حصہ کسی اور کے ہاتھ فروخت کردیتے ہیں،یہ تینوں ہی صورتیں جائزاور درست ہیں،پہلی اور تیسری صورت میں براہِ راست مالک سے حصہ خریدے گا،دوسری صورت میں اگر ایجنٹ خرید کر شیئرز فروخت کر رہا ہے تو مالک سے خریداری عمل میں آئی اور اگر اس نے خرید نہیں کیا تھا تو اس کی حیثیت کمپنی کے وکیل کی ہوگئی ان تمام صورتوں میں شیئرز کے مالکان یا تو خود شیئرز پر قبضہ کر چکے ہیں یا کمپنی کے منیجر اورمنتظمین نے وکالۃً اس کی طرف سے شیئرز کی اصل ملکیت پر قبضہ کیاہے۔

کسی چیز کی خریدوفروخت کے لئے ضروری ہے کہ فروخت کنندہ یا تو خود اس کامالک ہویا مالک کی طرف سے فروخت کرنے کا وکیل ہو اور یہ دونوں باتیں یہاں متحقق ہیں،پھر یہ بھی ذہن نشین رہے کہ شیئر کی خریدوفروخت اس روپے کی خریدوفروخت نہیں ہے جس کی دستاویزخریدار انِ حصص کو حاصل ہوئی ہے، بلکہ یہ اس سامان کا وثیقہ اور اس سامان کی خریدوفروخت ہے جس کی ابتدائی قیمت کمپنی نے دس روپے یا اس سے کم و بیش مقرر کی تھی، پس جب شیئرز کی قیمت بنیادی طور پر سامان کی خرید وفروخت ہے نہ کہ نقد رقم کی، تو اب اس کو کسی قدر فرق کے ساتھ بھی فروخت کیا جائے اور اصل قیمت میں کتنی ہی کمی بیشی کے ساتھ بیچا جائے، سود کا تحقق نہیں ہوگا۔

ایک شبہ یہ ہوتا ہے کہ آج کل شیئر مارکیٹ میں جس قیمت پر حصص فروخت کئے جاتے ہیں ، اس کا حقیقی قیمت سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا، مصنوعی طریقوں کے ذریعہ شیئرز کی قیمتیں بہت بڑھادی جاتی ہیں اور بعض دفعہ اسی نسبت سے قیمتیں اترتی ہیں، ہوتا یہ ہے کہ جب کسی کمپنی کے حصص کی طلب بڑھ جاتی ہے اور اس کی قیمت چڑھنے لگتی ہے تولوگ اس کو نفع خیزاور ثمر آور سمجھ کر گراں قیمتوں میں خرید لیتے ہیں،اس طرح مصنوعی طریقوں سے قیمتوں کا بڑھانا یقینا درست نہیں اور اسے فقہ و حدیث کی اصطلاح میں’’نجش‘‘ کہاجا تا ہے، لیکن اس فعل کے مکروہ ہونے کے باوجود اگر کوئی شخص دھوکہ دے کر خریدوفروخت کر ہی لے تویہ خریدوفروخت جائزاور نافذہوتی ہے ۔

پس جب اصولی طور پر شیئرز کی خریدوفروخت جائز ٹھہری تو اب حکم کا مدار کمپنی کی نوعیت پر ہوگا، اگر کمپنی جائز کا روبار کرتی ہوتو اس کا شیئر خریدنا جائز ہوگا، کمپنی کے اصل مالکان مسلم ہوں یا غیر مسلم، او ر اگر وہ ناجائز اور غیر شرعی کاروبار کرتی ہو جیسے شراب سازی،مجسمہ سازی وغیرہ تواس کے حصص خریدنا جائز نہ ہوگا، ھذاماعندی واللّٰہ اعلم بالصواب

دوملکوں کی کرنسیوں کا نقد ادھار تبادلہ
دو ملکوں کی کرنسی نوٹ کوہمارے زمانہ کے علمائ نے دو علاحدہ جنس قرار دیا ہے اور چونکہ یہ ناپی یا تولی جانے والی چیز نہیں اور قدر و قیمت میں کافی تفاوت پائے جانے کی وجہ سے ان کو ایسی چیز بھی شمار نہیں کیا جا سکتا جو شمار کی جاتی ہیں اور ان کے افرادمیںباہم کوئی قابلِ لحاظ تفاوت نہیں، ﴿عددی متقارب﴾اس لئے اب دوملکوں کی کرنسیاں’’جنس‘‘اور ’’قدر ‘‘ہردولحاظ سے مختلف ہیں اور ایسی دوچیزوں میں نقد و ادھار تبادلہ ہو سکتا ہے،لہٰذایہ جائزہے کہ ایک ملک کی کرنسی کا د و سر ے ملک کی کرنسی سے اس طرح تبادلہ کیا جائے کہ ایک کی طرف سے نقد اور دوسری طرف سے اُدھارہو،دوسرے اس وقت ایک ملک سے دوسرے ملک کو وہاں کی کرنسی منتقل کرنے کے جو قانونی وغیر قانونی طریقے ہیںان سب میں یہ صورت پائی جاتی ہے کہ ایک طرف سے رقم پہلے ادا کی جاتی ہے اور دوسرے ملک کی رقم کا یاتو صرف چیک اور ڈرافٹ دست بدست طے پاتا ہے یا وہ رقم بعد کو ادا کی جاتی ہے،اس لئے عملاً بین الملکی تبادلۂ رقوم میں اس سے بچنا دشوار ہے۔
فقہائ کی ان تصریحات سے بھی اس کے جائز ہونے کااشارہ ملتاہے:
’’فلوس میں بیع سلم تعداد کے لحاظ سے امام ابو حنیفہ (رح)اور امام ابو یوسف(رح) کے نزدیک جائز ہے۔‘‘﴿بدائع الصنائع:۵،۸۰۲﴾
’’دراہم کے ساتھ فلوس بیچنا بیع صرف نہیں ہے۔‘‘﴿المبسوط:۴۱،۴۲﴾

اگر ایک کرنسی میں معاملہ طے پایا اور اسی کے مساوی دوسری کرنسی دی گئی تو کس کا اعتبار ہو گا؟
مختلف ملکوں کے سکوں کی قیمت میں ہونے والے اُتار چڑھائو کی وجہ سے ایک نیا مسئلہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ بعض اوقات مثلاً ایک شخص ایک لاکھ ہندوستانی روپے قرض مانگتا ہے، اس وقت دس ہزار ریال ایک لاکھ ہندوستانی روپے کے مساوی ہوتے ہیں ،قرض دہندہ دس ہزار ریال حوالہ کر دیتا ہے،اب جب قرض کی ادائیگی کا وقت آیا تو فرض کیجئے کہ ہندوستانی ایک لاکھ روپے نو ہزار ریال کے مساوی ہو گئے ہیں یا کسی شخص نے ایک سامان ہندوستانی پچاس ہزار روپے میں خرید کیا اور اس وقت کے مروّج نرخ کے لحاظ سے پانچ ہزار ریال ادا کر دئیے، پھر جب سامان پر قبضہ کرنے کا وقت آیا تو ہندوستانی روپے کی قیمت سابقہ نرخ کے مقابلہ میں بڑھ یا گھٹ گئی تھی، تو سوال یہ ہے کہ اب پہلی صورت میں قرض دہندہ دس ہزار ریال وصول کرے یا نو ہزار ریال اور دوسری صورت میں اگر قیمت بڑھ گئی ہوتو فروخت کنندہ اور گھٹ گئی ہو تو خریدار کو مزید ریال کی واپسی کے مطالبہ کاحق ہو گایا نہیں؟.جو لوگ بیرون ملک مقیم ہیں، وہ لوگ اکثر اوقات اس سے دو چار ہوتے رہتے ہیں۔

میرے خیال میں اس مسئلہ کی بنیاد اس پر ہے کہ معاملہ کس ملک کی کرنسی پر طے پایا تھا؟ وہ کرنسی اصل ہو گی اور اس کے مقابل دوسری کرنسی کی قیمت میںجواُتارچڑھائوہوگااس کاکوئی ا عتبا ر نہیںکیا جائے گا، مثلاً مذکورہ دونوں معاملات اصل میں ہندوستانی روپے پرطے پائے تھے،اس لئے ہندوستانی روپے ہی معتبر ہوں گے، اگر اس نے ریال کی شکل میں روپے ادا کئے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نے معاملہ کے دوسرے فریق کو اپنی طرف سے اس بات کا وکیل بنایا ہے کہ وہ اس ریال کو بھنا کر اس کے ذریعہ اپنی مطلوبہ چیز حاصل کر لے، علامہ شامی(رح) نے’’قرش‘‘ کے ذریعہ خریدو فروخت کا ایک جزئیہ نقل کیا ہے جس سے اس پر روشنی پڑتی ہے:
’’ڈھلے ہوئے سکوں کی قیمت قروش سے لگائی جائے گی چنانچہ بعض سکہ دس قرش کے برابر ہوتا ہے اور کچھ سکے دس سے کم ہوتے ہیں اور بعض اس سے زیادہ،پس اگر کسی نے سو قرش کے ذریعہ کوئی چیز خریدی تو عرف یہ ہے کہ یا تو اتنا ہی قرش ادا کر لے جو فریقین کا مقصود ہے یا دوسرے سکے مثلاً اتنا ریال یا سونا جو اتنے قرش کی قیمت کا ہے، ایسے معاملہ میں کوئی شخص یہ نہیں سمجھتا ہے کہ محض و ہ ٹکڑا خرید کرنا مقصود ہے جس کو’’قرش‘‘ کہتے ہیں، بلکہ وہ یا اس کے برابر کوئی اور سکہ جو مروّج ہے گو مالیت میں مختلف ہے۔‘‘﴿ردالمحتار:۴،۹۲﴾
٭.٭.٭
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 155391 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More