کمشنر پونچھ ڈویثرن کی کارکردگی اور بیوروکریسی کی طاقت

6ماہ کے مختصر سے عرصے میں راولاکوٹ کیلئے 22 منصوبہ جات کی منظوری ،ان منصوبہ جات میں گوئی نالہ سڑک کی تعمیر، واٹر سپلائی اسکیمیں ،سیویج کا نظام ،صابر شہید سٹیڈیم کی تعمیر،بس ٹرمینل اور 15رابطہ سڑکوں کا جال جو شہر کے ارد گرد ایک پلاننگ کے تحت بنائی جا رہی ہیں ،ان منصوبہ جات میں سے واٹر سپلائی اسکیموں پر کام تیزی سے چل رہا ہے،سیکنڈ فیز میں شہر کیلئے سیوریج کے کام کا جلدآغازمتوقع ہے،صابر شہید سٹیڈیم کی تعمیر جس تیز رفتاری سے شروع ہے وہ سب کے سامنے ہے ،بس ٹریمنل پر بھی کام کاآغاز کر دیا گیا ہے ،اس کے علاوہ بھی دیگر بہت سے منصوبے ایسے ہیں جن میں پونچھ یونیورسٹی کی تعمیر سمیت دیگر بہت سے اہم کام ہیں۔ان منصوبوں کی نگرانی ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جو یہاں کا مقامی باشندہ ہے ،جس کو یہاں کے مسائل کا بخوبی علم بھی اور یہاں کے لوگوں کے طریقہ کار و رہن سہن سے اچھی طرح واقفیت بھی ہے اسی لیے اس شخص نے کمال مہارت سے اپنی ٹیم کی سپورٹ سے یہ 22منصوبے راولاکوٹ کے باسیوں کو دلوانے میں بھی اپنا اہم کردار ادا کیا لیکن یہاں کے باسیوں کو اس شخص کی قدر نہیں ۔۔۔! پہاڑ ی زبان کی ایک اصطلاح مشہور ہے کہ ''کہیرے نا پیر ہولا ہونا'' اب کمشنر پونچھ ڈویثرن خورشید خان کی اس میں کیا غلطی کہ وہ راولاکوٹ کے نواحی گاﺅں چہڑھ کے رہنے والے ہیں، یہیں پڑھا لکھااور اپنی محنت کے بل بوتے پر اس اہم ذمہ داری تک پہنچے ہیں ۔میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق کمشنر پونچھ ڈویثرن کے آفس کے اندرتک عوام کی رسائی آسان تر ہے ،عوام کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ عوام کی خدمت کیلئے کام کرنے والے ان نمائیندوں تک اتنی آسان رسائی کسی اور ڈویثرن میں ممکن نہیں ہوتی، یہاں بھی رسائی آسان نہ ہو اگریہاں پر کسی لینٹ آفیسر کو لا کر بٹھا دیا جائے یا غیر مقامی آفیسران میں سے کوئی یہاں تعینات ہو تو آفس کے باہر قطاریں لگی ہوئی ہوں ،یہ شخص پورا دن مختلف عوامی وفود کے ساتھ میٹینگز، این جی اوز اہلکاروں کے ساتھ معاشرتی مسائل کے حل کیلئے مشاورتیں،انتظامیہ کے ساتھ انتظامی امور اور پلاننگ کے طریقہ کار اور دیگر بہت سے کاموں کے ساتھ ساتھ حکومت کی تمام تر رٹ کو پورے ڈویثرن میں بھال رکھنے سمیت تمام حکومتی و اعلیٰ شخصیات کو ڈویثرن آمد پروٹوکول کا انتظام کرنے سمیت دیگر بے شما رایسے کام ہیں جو ان کی ذمہ داریوںمیں شامل ہیں۔

خورشید خان جو 2009ءاور2010ءمیں پونچھ ڈویثرن میں کمشنر رہے ہیںاور ابھی گزشتہ پانچ ،چھ ماہ سے ایک بار پھر پونچھ ڈویثرن میں ہی کمشنر تعینات ہیں سے گزشتہ دنوں نشست ہوئی گو کہ مجھے ذاتی طور پر یہاں بیوروکریسی کے ساتھ زیادہ میل جول اس لیے پسند نہیں ہوتا کیونکہ جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں یہاں ابھی ہماری سوچیں خاصی محدود سی ہیں ہم الزام تراشی کی زد میں فوری آجاتے ہیںیہاں تک کہ یہاں کسی کی اگر ذاتی سلام د ±عا بھی کسی بیوروکریٹ سے ہو تو اس کو بیوروکریسی کے ٹاﺅٹ ہونے کا الزام با آسانی لگا دیا جاتا ہے لیکن مجھے اس کی پرواہ نہیں ہوتی کہ کون کس کو کیا الزام دے رہا ہے بس اپنا ضمیر مطمئین ہونا ضروری ہے ۔میں نے محسوس کیا ہے کہ یہاں جو لوگ بیوروکریسی کو جتنا زیادہ گالیاں دیتے ہیں ان میں سے اکثر کے تعلقات اور معاملات بیوروکریسی کی ہی مرہون منت چل رہے ہوتے ہیں ،جو سیاستدان اور ٹریڈ یونین عہدیداران چوکوں و چوراہوں میں کھڑے ہوکر عوام کے سامنے بیوروکریسی کو گالیاں دیتے ہیں ،تمام تر مسائل کی جڑ بھی انہی بیوروکریٹس کو قرار دیتے ہیں انہی لوگوں میں سے اکثر کی شامیں بیوروکریسی کے ساتھ گزرتی ہیں ، یہ بیوروکریٹس کی دعوتوں میں شریک بھی ہوتے ہیں اور خود بھی ان کی دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں(خیر دعوتوں میں کوئی ب ±ر ائی بھی نہیں ہے )یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گاکہ بیوروکریسی کوبرا بھلاکہنے والوں کے مفادات کی تکمیل اور ان ہی مفادات میں رکاوٹیں بھی یہی بیوروکریسی کے راستے سے ہوکر جاتی ہیں۔

اپنے اوپر الزام آئے تو دوسروں پر سونپ دینا دوسروں کو مورد الزام ٹھہرا دینا ہم سب کی پہچان سی بن گئی ہے ،اپنی کمززوریوں کو چھپانے کیلئے لاکھوں جتن اور ہزاروں بہانے بنانا تو ہمارے لیے آسان لیکن اپنی ہی اصلاح احوال کرنا بہت ہی مشکل ،شاید جس ماحول و معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں یہاں پر ہماری ذہنی تربیت ہی کچھ ایسے ہو جاتی ہے یا معاشرتی عوامل مل جل کرایسا کر جاتے ہیں کہ ہمیں اپنے آپ میں کوئی کمی محسوس ہوتی ہی نہیں (نظر آ بھی جائے تو اس کااظہار کرنے کی ہمت نہیں رکھتے) اور تمام تر عیب دوسروں میں نظر آتے ہیں۔ذکر ہو رہا تھا کمشنر پونچھ ڈویثرن سے نشست کا تو اس میں میرے لیے بہت سے انکشافات بھی ہوئے ان سے پوچھنے پر علم ہوا کہ مظفرآباد اور میرپور ڈویثرن میں کمشنر کی مدد کیلئے ایڈیشنل کمشنر تعینات کیے گئے ہیں لیکن پونچھ ڈویثرن میں تمام تر ذمہ داریاں کمشنر پر ہیں ،پونچھ ڈویثرن جس میں ضلع پونچھ،باغ،حویلی اور پلندری کے اضلاع شامل ہیں کی تمام تر نگرانی کمشنر پونچھ ڈویثرن کی ہی ہوتی ہے اس لیے ایک ایسا شخص جو چاروں اضلاع کو مانیٹر کرتا ہو اس کے پاس وسائل بھی محدود ہو ں ،حکومت کی تمام تر رٹ بھی اسی کے ذمہ ہو، ڈویثرن بھر میں تقریباً تمام تر بلا تخصیص کاموں کی نگرانی بھی اسی کے ذمہ ہو اوپر سے وزراء،مشراءاور دیگر حکومتی غیر حکومتی شخصیات جب ڈویثر ن میں داخل ہوں تو ان کی واپسی تک کے انتظامات اور پروٹوکول بھی انہی کی ٹیم کے ذمہ ہوتے ہیں۔ اس محکمہ کیلئے وہی پرانا فرسودہ بجٹ سسٹم جو ابھی تک رائج ہے جس کی وجہ سے اس محکمہ کے پاس وسائل بھی محدود ہیں،ایسے میں جب ان کی ذمہ داریاں بھی اس قدر زیادہ ہوں اور اپنے عہدے کا تشخص بھی سب کے سامنے بھال رکھنا ہو تو اس کیلئے کمشنر اور دیگر بیوروکریٹس کو کسی حد تک معاملات کو نپٹانے کیلئے لچک بھی کھانی پڑتی ہے ،ان محکموںکے بجٹ جو ان کے اخراجات کے حساب سے انتہائی کم ہیںاسی بجٹ کی کمی کی وجہ سے ہی پٹواریوں اور گرداوروں پر اعلیٰ حکومتی شخصیات کے دوروں کے دوران ان کی رہائش و کھانے کا بوجھ ڈالا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہی بوجھ عوام پر رشوت کی صورت میں پڑنا لازمی امر ہے گو کہ یہ تمام سابقہ و موجودہ حکومتوں کی نا اہلی ہے کہ وہ آزاد کشمیر حکومت کے وجود سے اب تک پٹواریوں ،گرداوروں اور دیگر عملے کو بنیادی سہولیات دے ہی نہ سکے کہ ان کو اس ذلت(رشوت) سے بچایا جا سکے ،محکمہ مال کے ان ملازمین کی اہمیت سے وہ سبھی لوگ واقف ہیں جو ایک بار ان کے چنگل میں آئے ہوئے ہوں لیکن اگر حقیقی آنکھ سے دیکھا جائے تو ان ملازمین کے مسائل اتنے زیادہ اور انہیں ان کے کام کی نسبت جو سہولیات دی جارہی ہیں وہ اتنی کم ہیں کہ رشوت لینا ان کیلئے مجبوری سی بن چکا ہے ،لیکن اس سب کے باوجود ہمیں رشوت لینے یا دینے والے کی حمایت کبھی نہیں کرنی چاہیے لیکن یہ بھی کڑوا سچ ہے کہ جب تک ان لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق نہیں دیئے جاتے تب تک یہ رشوت کا لین دین کم نہیں ہو سکتا ۔ان میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو ناجائیز فائدے اٹھانے کی حد تک کراس کر جاتے ہیں۔
یہاں احتساب بیورو کی ذمہ د اری بنتی ہے کہ وہ اس محکمہ میں موجود ایسی کالی بھیڑوں کا خاتمہ کرے جنہوں نے محدود آمدن کے باوجود بنگلے،جائیدادیں اور بنک بیلنس بنائے تا کہ کسی نئے آنے والے کو ان کی جیسی لت نا پڑ جائے اور جن لوگوں کے حقوق پر انہوں نے ڈاکے ڈالے ہیں ان کو انصاف مل سکے۔
کمشنر پونچھ ڈویثرن کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ گوئی نالہ روڈ کی تعمیر جولمبے عرصہ سے توکی جاری ہے لیکن نا قص تعمیر کی گئی جس کیلئے انہوں نے مناسب حکمت عملی کے تحت خود بھی گوئی نالہ سڑک کا بار ہا معائینہ کیااور گزشتہ ڈیڑھ ،دو ماہ سے متعلقہ عملہ میں سے اہم ذمہ دار ایس سی امتیاز کی ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ وہ ہر ہفتے گوئی نالہ روڈ کا معائینہ کرنے کے بعد تفصیلی رپورٹ کمشنر آفس میں جمع کروائیں ،اس کے علاوہ صابر شہید سٹیڈیم کی تعمیر میں بہت سی مشکلات تھیںجن میں لینڈ مافیا سمیت دیگر بہت سے عوامل تھے لیکن مہارت سے اس معاملہ کو حل کروایا گیا ، واٹر سپلائی اسکیموں کے ذریعے شہر و نواحی علاقوں کوصاف پانی مہیا کرنے کرنے کیلئے سڑک کنارے جو گہری نالیاں کھود کر پائپ ڈالے گئے اس اقدام سے اہم شاہرات بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار تو ہوئیں لیکن تکلیف کے بعد یہ معاملہ لمبے عرصے کیلئے تقریباً حل ہو چکا ہے،اس کے دوسرے فیز میں سیوریج کیلئے کام شروع ہونے والا ہے جس کی وجہ سے مزید کچھ عرصہ تک شہریوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن یہ کام انتہائی ضروری بھی ہیں کیونکہ اس شہر کی ترتیب ہی کچھ اس طرح بنی ہوئی ہے کہ مسائل کم تو کیے جا سکتے ہیں لیکن فوری طور پر ختم نہیں ہو سکتے ۔شہر کے ارد گرد 15رابطہ سڑکوں کی منظوری بھی اہم پیش رفت ہے ، ٹریفک پولیس میں نئے پڑھے لکھے تربیت یافتہ ٹریفک وارڈنز کے آنے سے آزاد کشمیر کے دیگر ڈویثرنز کی طرح پونچھ ڈویثرن میں بھی ٹریفک کے معاملات بہتر ہوئے ہیں جو ایک خوش آئیند عمل ہے ۔

اسی سال پونچھ ٹورازم فیسٹیول کا انعقاد کروایا گیا جس میں پونچھ کی ضلعی انتظامیہ نے این آر ایس پی اور دیگر این جی اوز کے ساتھ مل کر خاصی کامیابی حاصل کی گو کہ اس میں بہت سی کمیاں کجیاں تھیں جو وقت کے ساتھ دور ہو جاتی ہیں لیکن اس فیسٹیول کی کامیابی کا ایک بڑا کریڈٹ نوجوان بیوروکریٹ راولاکوٹ میں تعینات اسسٹنٹ کمشنرراجہ طاہر ممتاز کو جاتا ہے جنہوں نے ذاتی کاوشوں سے اس فیسٹیول کاآغاز کیا اور ایک ترتیب کے ساتھ مقامی این جی اوز کی سپورٹ،کمشنر خورشید خان، ڈپٹی کمشنرسہیل اعظم اور ایس پی راشد نعیم جیسے قابل سینئر آفیسران کی سرپرستی میں اس فیسٹیول کو کامیاب اختتام تک پہنچایا ۔ایک بات جوقابل غور ہے کہ سی ایس ایس یا پی ایس سی کے امتحانات پاس کر کہ آنے والے آفیسران کی کارکردگی دیگر بیوروکریٹس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے کیونکہ ان کی تربیت ہی اس انداز میں کی جاتی ہے کہ یہ لوگ تمام معاملات کو بہتر طریقے سے حل کرنے کی صلاحیت رکھ سکیں کیونکہ ہمارا حکومتی نظام ہی ایسا ہے کہ اس میں انتظامی آفیسران پر بے جا بوجھ ڈالا جاتا ہے ۔ریوینیو ڈیپارٹمنٹ ہو،صحت کے مسائل ہوں یا تعمیرات کا محکمہ،بجلی کی بندش کی وجہ سے ہڑتالیں ہوں ،جائیدادوں کے تنازعے ہوںیا کوئی قتل و غارت و حادثے،اہم لوگوں کو پروٹوکول(سکیورٹی) دینا ہو یا تجاوزات کا گرانا ، سیاسی گٹھ جوڑ ہوں یا ٹریڈ یونینز کے مسائل تمام تر کی ذمہ داری ان آفیسران کے ذمہ ہوتی ہے ،اگر یہ معیاری تعلیم و تربیت یافتہ نہ ہونگے تو اس ترقی یافتہ دور میں ان تمام مسائل کو کیسے حل کر پائیں گے ۔۔؟یہاں ایک ذکر کرنا ضروری سمجھوں گا کہ موجودہ وقت ایک مرتبہ پھر بیوروکریٹس اتنے مضبوط ہو چکے ہیں کہ یہ اپنی مرضی سے سیاستدان بناتے ہیں اور انہیں گرانے میں بھی انہی کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن کچھ سیاستدان زیادہ چلاک ہوتے ہیں جو ان سے چار ہاتھ آگے نکل بھی جاتے ہیں ۔بیوروکریسی ایک ایسا جال ہے جو موجودہ وقت میں سب سے مضبوط قوت ہے گو کہ چار ،چھ سال پہلے میڈیا کے اچانک آزاد ہو جانے خاص کر الیکٹرانک میڈیا کی مقبولیت کی وجہ سے بیوروکریسی کی مقبولیت کم ہو گئی تھی لیکن میڈیا کی نا مناسب حکمت عملی نے اپنا عروج برقرار نہ رکھا جس وجہ سے بیوروکریسی ایک بار پھر مضبوط طاقت بن چکی ہے۔اس سب تمہید سے نتیجہ یہ نکالا جا سکتا ہے کہ آزاد کشمیر میں بیوروکریسی جیسے اہم شعبے میں موجود خامیوں کو دورکر کہ اسے معاشرے کیلئے ترقی اور انصاف کی فراہمی کا باعث بنایا جا سکتا ہے اس میں موجود کرپٹ عناصر کا خاتمہ بھی عوامی تعاون سے ممکن ہے لیکن اس کیلئے ہم سب کو یہ ذمہ داری نبھانی ہو گی کہ سب سے پہلے خود کی سوچ و عمل کو بہتر معیار پر لاکرمعاشرے میں موجود منفی سوچ کو ختم کرنا ہو گا ،معاشرتی مسائل میں کمی لانے کیلئے انتظامیہ کہ ساتھ ہر ممکن جائزتعاون کرنا ہو گا، ذاتی مفادات کی سیاست کا خاتمہ کر کہ میرٹ کی بنیاد پر اپنے نمائیندوں کا چناﺅ کرنا ہو گا تبھی جا کر کمشنر خورشید خان جیسے فرض شناس شریف آفیسران کو اپنوں کی خدمت کرنے میں دلچسپی اور بھی بڑھے گی اور انہی کی دیکھا دیکھی جونیئر آفیسران محنت و لگن سے کام کریں گے ۔
Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 59674 views Columnist/Writer.. View More