اعداء اللہ سے برات

تحریر: مولانا طلحہ السیف حفظہ اللہ تعالیٰ

جس طرح ’’اولیاء اللہ‘‘ سے ایمانی اخوت ایمان کے لازمی تقاضوں میں سے ہے جس کا کچھ ذکر گذشتہ سبق میں ہوا. اسی طرح اعداء اللہ یعنی کفار سے برائ ت، لاتعلقی اور ایمانی بغض بھی ایمان کا ایک اہم شعبہ ہے۔
اس کو ’’بغض فی اللہ‘‘ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے. ’’جس نے اللہ کی خاطر محبت رکھی. اور اللہ تعالیٰ کی خاطر بغض رکھا. اور اللہ تعالیٰ کی خاطر دیااور اللہ تعالیٰ ہی کی خاطر روکا اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا ‘‘. ﴿ترمذی﴾

یعنی تکمیل ایمان موقوف ہے ان دونوں صفات کے جمع ہونے پر. محض ’’حب فی اللہ‘‘ سے ایمان مکمل نہیں ہوتا اور نہ محض بغض فی اللہ سے. اس لیے کامل الایمان جماعت یعنی حضرات صحابہ کرام(رض) کی صفات کے بیان میں دونوں کا ذکر آیا . بلکہ بغض فی اللہ کی تقدیم کے ساتھ آیا. ’’کفار پر بہت سخت ہیں اور آپس میں نرمی والے‘‘ ﴿الفتح﴾

قرآن مجید میں اہم اور مؤکد موضوعات کا تکرار ہے. کچھ باتوں کو بار بار دہرایا گیا ہے تاکہ وہ پڑھنے والوں کے ذہن میں راسخ ہو جائیں. اور دل میں اتر جائیں. انہی بار بار دہرائے جانے والے موضوعات میں سے ایک کفار سے برائ ت اور ترک تعلق کا ہے. قرآن مجید میں اس امر کا اعادہ کئی بار ہے اور کئی مقامات پر تو الفاظ بھی بالکل ایک جیسے ہیں.

چند آیات ملاحظہ ہوں. اور ان کے موضوعات بھی .
کفار کو اپنا دوست، رازدار نہ بنائو اور نہ ہی ان کے ساتھ قلبی تعلق قائم کرو.
ترجمہ: اے ایمان والو! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بناؤ کیا تم اپنے اوپر اﷲ تعالیٰ کا صریح الزام لینا چاہتے ہو۔ ﴿النسائ ۴۴۱﴾
ترجمہ: اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو کوئی تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرلے تو وہ انہیں میں سے ہے اﷲ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔ ﴿المائدہ ۱۵﴾
ترجمہ: اے ایمان والو! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتابیں دی گئی تھیں ان کو اور کافروں کو جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے دوست نہ بناؤ اور مومن ہو تو اللہ سے ڈرتے رہو۔ ﴿المائدہ ۷۵﴾
ترجمہ:اے ایمان والو میرے دشمنوں کو دوست نہ بنائو کہ ان کے پاس دوستی کے پیغام بھیجتے ہو حالانکہ تمہارے پاس جو سچا دین آیا ہے اس کے یہ منکر ہو چکے ہیں رسول کو اور تمہیں اس بات پر نکالتے ہیں کہ تم اپنے رب تعالیٰ پر ایمان لائے ہو اگر تم جہاد کے لیے میری راہ میں اور میری رضا جوئی کے لیے نکلے ہو تو ان کو دوست نہ بنائو تم ان کے پاس پوشیدہ دوستی کے پیغام بھیجتے ہو حالانکہ میں خوب جانتا ہوں جو کچھ تم مخفی اور ظاہر کرتے ہو اور جس نے تم میں سے یہ کام کیا تو وہ سیدھے راستے سے بہک گیا۔ ﴿الممتحنہ ۱﴾
حتیٰ کہ یہ کفار اگر قریبی رشتہ دار باپ اور بھائی کیوں نہ ہوں . تب ان سے اس طرح کا قلبی تعلق قائم نہ کرو.
ترجمہ:اے ایمان والو! اپنے باپوں او ربھائیوں سے دوستی نہ رکھو اگر وہ ایمان پر کفر کو پسند کریں اور تم میں سے جو ان سے دوستی رکھے گا سو وہی لوگ ظالم ہیں۔ ﴿التوبہ۳۲﴾
کفار کے ساتھ دوستی تو صرف وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں نفاق ہو گا ایمان نہیں.
ترجمہ: منافقوں کو تو خوشخبری سنادے کہ ان کے واسطے دردناک عذاب ہے۔ وہ جو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست بناتے ہیں کیا ان کے ہاں سے عزت چاہتے ہیں سو ساری عزت اﷲ تعالیٰ ہی کے قبضے میں ہے۔ ﴿النسائ ۸۳۱-۹۳۱﴾
ترجمہ: پھر تو ان لوگوں کو دیکھے گا جن کے دلوں میں بیماری ہے ان میں دوڑ کر جا ملتے ہیں کہتے ہیں کہ ہمیں ڈر ہے کہ ہم پر زمانہ کی گردش نہ آجائے سو قریب ہے کہ اﷲ تعالیٰ جلدی فتح ظاہر فرمادے یا کوئی اور حکم اپنے ہاں سے ظاہر کرے پھر یہ اپنے دل کی چھپی ہوئی بات پر شرمندہ ہوں گے۔ ﴿المائدہ ۲۵﴾
سچے ایمان والے ہرگز ایسا نہیں کرتے بلکہ ان کا عمل تو یہ ہے کہ .
ترجمہ: آپ ایسی کوئی قوم نہ پائیں گے جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اور ان لوگوں سے بھی دوستی رکھتے ہوں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں گو وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبے کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان لکھ دیا ہے اور ان کو اپنے فیض سے قوت دی ہے اور وہ انہیں جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے یہی اللہ تعالیٰ کی جماعت ہے خبردار بے شک اللہ تعالیٰ کی جماعت ہی کامیاب ہونے والی ہے۔ ﴿المجادلۃ۲۲﴾
یہ آیت خصوصیت کے ساتھ ان لوگوں کی تعریف میں نازل ہوئی جنہوں نے ایمان کی بنیاد پر اپنے قریبی رشتہ داروں کو قتل کیا.یا مکمل برات کا اعلان کیا.
امین الامۃ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ. امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ. مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور دیگر کئی حضرات.
اللہ تعالیٰ نے انہیں ’’رضوان‘‘ یعنی اپنی خوشنودی کا ایسا تمغہ اس عمل پر عطائ فرمایا کہ وہ قیامت تک ان حضرات کے ناموں کا حصہ بن گیا. رضی اللہ عنہم.
یہ مسئلہ قرآن مجید کے بیان سے اتنا واضح ہے کہ آپ صرف ان آیات کا ترجمہ پڑھتے جائیں بات دل میں اترتی جائے گی.
اور اگر کامل بصیرت چاہیں تو آیات کا حوالہ درج ہے. ان کی تفسیر فتح الجوّاد میں ملاحظہ کر لیں. ان شائ اللہ دل کی آنکھیں بھی کھل جائیں گی.
٭٭٭
کتنے پہلو ہیں اس مسئلے کے. اور کتنی وضاحت کے ساتھ بیان ہوئے.
اس کے باوجود لوگ دانش خوروں کی باتوں کی طرف بھاگتے ہیں.
قرآن مجید بتاتا ہے کہ ایسے لوگ مسلمانوں میں ہر زمانے میں ہوتے ہیں جو اہل ایمان کو کفر سے ڈرانے کی ’’شیطانی‘‘ محنت میں لگے رہتے ہیں. اور کوشش کرتے ہیں کہ ڈرا دھمکا اور جھکا کر کافروں کی دوستی ان کے دلوں میں پیدا کر دیں.
بزدلی کی باتیں. کفر کی طاقت کے چرچے. زمینی حالات کا واویلا.
عالمی مسائل کا ڈھنڈورہ.
قرآ ن مجید میں ان سب کا ذکر موجود ہے.
ترجمہ: جنہیں لوگوں نے کہا کہ مکہ والوں نے تمہارے مقابلہ کیلئے سامان جمع کیا ہے سو تم ان سے ڈرو تو ان کا ایمان اور زیادہ ہوا اور کہا کہ ہمیں اﷲ تعالیٰ کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے۔ ﴿آل عمران ۳۷۱﴾
ترجمہ:سو یہ شیطان ہے کہ اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے پس تم ان سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو اگر تم ایمان دار ہو۔ ﴿آل عمران ۵۷۱﴾
لیکن اہل ایمان کو واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ کفار سے دوستی اور ان کی فرمانبرداری.
مسلمانوں کے لیے ہربربادی. زوال. اور خسران کا باعث ہے. اس لیے اہل ایمان اس سے بچیں.
ترجمہ:اے ایمان والو اگر تم کافروں کا کہا مانوگے تو وہ تمہیں الٹے پاؤں پھیر دیں گے پھر تم نقصان میں جاپڑو گے۔ بلکہ اﷲ تعالیٰ تمہارا مددگار ہے اور وہ بہترین مدد کرنے والا ہے۔ ﴿آل عمران ۹۴۱﴾
٭٭٭
دوستی کے علمبردار لوگوں کا کہنا ہے کہ آج کی دنیا باہمی تعاون کی ہے.
تم ان سے تعاون کرو وہ تم سے کریں گے.
تم ان سے محبت رکھو وہ تم سے رکھیں گے.
باہمی مفادات مشترک ہیں اس لیے ان کے حصول میں تعاون لازم ہے.
قرآن مجید کا اسلوب واضح طور پر اس عجیب راز سے آگہی دیتا ہے کہ کفار اور مسلمانوں کی دوستی کبھی دو طرفہ نہیں ہوتی.
یہ محض یکطرفہ ٹریفک ہے.
مسلمان دوست کیا غلام بھی بن جائے. کافر کبھی نہ اس سے راضی ہو سکتے ہیں اور نہ ان کے دل میں اس کی محبت آسکتی ہے.
وہ صرف دھوکہ دیتے ہیں. دل میں بغض رکھ کر بظاہر میٹھی زبان بولتے ہیں. اور نقصان پہنچانے کے لیے دوستی کا جعلی ڈھونگ رچاتے ہیں.
آہ! کتنے ظالم ہیں وہ نام نہاد دانشور جو عالمی برادری سے موافقت کے نام پر مسلمانوں کو ذلت کی اس غار میں دھکا دیتے ہیں.
اور کتنے عجیب ہیں وہ مسلمان جو قرآن کی نہیں ان کی سنتے ہیں.
ترجمہ:اے ایمان والو! اپنوں کے سوا کسی کو بھیدی نہ بناؤ وہ تمہاری خرابی میں قصور نہیں کرتے جو چیز تمہیں تکلیف دے وہ انہیں پسند آتی ہے ان کے مونہوں سے دشمنی نکل پڑتی ہے اور جو انکے سینوں میں چھپی ہوئی ہے وہ بہت زیادہ ہے ہم نے تمہارے لئے نشانیاں بیان کردیں اگر تم عقل رکھتے ہو۔ سن لو تم ان کے دوست ہو اور وہ تمہارے دوست نہیں اور تم تو سب کتابوں کو مانتے ہو اور جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور جب الگ ہوتے ہیں تو تم پر غصہ سے انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں کہہ دو تم اپنے غصہ میں مرو اﷲ تعالیٰ کو دلوں کی باتیں خوب معلوم ہیں۔ اگر تمہیں کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں بری لگتی ہے اور اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچے تو اس سے خوش ہوتے ہیں اور اگر تم صبر کرو اور پرہیز گاری کرو تو ان کے فریب سے تمہارا کچھ نہ بگڑے گا بے شک اﷲ تعالیٰ ان کے اعمال پر احاطہ کرنے والا ہے۔ ﴿آل عمران ۸۱۱ تا ۰۲۱﴾
٭٭٭
بات کتنی بھی کھینچی جائے کھنچتی جائے گی کیونکہ موضوع ایسا ہے.
آئیے خلاصہ کرتے ہیں.
قرآن مجید واضح کرتا ہے کہ کفار سے تعلقات کے حوالے سے مسلمان کے لیے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ اور بہترین طرز عمل صرف وہ ہے جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنایا. ہر مسلمان اسے پڑھے اور اپنا لے.
ترجمہ: بے شک تمہارے لیے ابراہیم میں اچھا نمونہ ہے اور ان لوگوں میں جو اس کے ہمراہ تھے جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ بے شک ہم تم سے بیزار ہیں اور ان سے جنہیں تم اللہ تعالیٰ کے سوا پوجتے ہو ہم نے تمہارا انکار کر دیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان دشمنی اور بیر ہمیشہ کے لیے ظاہر ہو گیا۔ یہاں تک کہ تم ایک اللہ تعالیٰ پر ایمان لائو۔ ﴿الممتحنہ ۴﴾
اس کے علاوہ کوئی طرز عمل قبول نہیں اس کی مزید تاکید کے لیے محض ایک آیت کے فصل کے بعد پھر دہرا دیا گیا تاکہ سبق اچھی طرح یاد ہو جائے.
ترجمہ:البتہ تمہارے لیے ان میں ایک نیک نمونہ ہے اس کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن کی امید رکھتا ہے اور جو کوئی منہ موڑے تو بے شک اللہ تعالیٰ بھی بے پرواہ خوبیوں والا ہے۔ ﴿الممتحنہ ۶﴾
اور ہاں سب سے آخری اور سب سے سخت بات.
جب تک ایک مومن اپنے عمل سے اس کا سچا ثبوت پیش نہیں کر دیتا. چھوڑا نہیں جائے گا.
ترجمہ: کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ چھوڑ دئیے جائو گے حالانکہ ابھی اللہ نے ایسے لوگوں کو جدا ہی نہیں کیا جنہوں نے تم میں سے جہاد کیا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور مومنوں کے سوا کسی کو دلی دوست نہیں بنایا اور اللہ تعالیٰ تمہارے سب کاموں سے با خبر ہے۔ ﴿التوبہ ۶۱﴾
usama hammad
About the Author: usama hammad Read More Articles by usama hammad: 22 Articles with 45356 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.