قاتل کون ؟

ایک معصوم فرشتہ ، ایک روشن کل کی وہ داستان جو مکمل نہ ہو سکی ، مگریہ نامکمل داستان اپنے والدین ، اساتذہ ، اس معاشرے اور رویوں کی ا یک اور داستان سامنے لے آئی ہے ۔ فیصل آباد میں ایک بچے کا محض اس بناء پر خود کو آگ لگا کر خودسوزی کر لینا کہ اسکے استادنے متواتر غیر حاضریوں کی وجہ جاننے کیلئے اسے والد کو اپنے ہمراہ لانے کا کہا اوروالد نے سبق دینے کیلئے ساتھ جانے سے انکار کیا۔یہ اقدام ، یہ افکار ، یہ رویئے ہماری میراث تو نہ تھے پھر کیوں ایک گیارہ سالہ معصوم طالب یہ فعل سرزد کر گزرا ، اسکا معصوم ذہن کس چیز سے متاثر ہوکر اس قدر بھیانک قدم اٹھانے پر مجبور ہوا ، اور ہمارے لئے سوال بھی چھوڑ گیا کہ ہم اپنے آنے والی نسل کو کیا سبق دے رہے ہیں؟ اس کے لئے بھی ذرا سوچیے ! واقعے کی تفصیلات کے مطابق فیصل آباد کے رہائشی طالب طویل غیرحاضری کے بعد اپنے اسکول گیا تو استاد نے اسے کلاس میں داخل ہونے سے روک دیا اور اسکول کے ہیڈماسٹر نے اسے اپنے کسی بڑے کے ہمراہ اسکول آنے کا حکم دیا جس پر وہ پڑوس میں رہنے والے اپنے ایک دوست کو اپنے ہمراہ لے گیا تاہم ہیڈ ماسٹر صاحب نے اسے والد کوساتھ لانے کا کہا، بچے نے گھر آکر تمام تر صورتحال اپنے والد کے سامنے رکھی میڈیا کے مطابق والدنے محض ناراضگی کا اظہار کرنے کیلئے اسکے ساتھ اسکول جانے سے انکار کیا جس پر دلبرداشتہ ہوکر بچے نے خود پر تیل چھڑک کر آگ لگا ، جسکے بعد اسے ہسپتال لے جایا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہوسکا اور چند گھنٹوں بعد ہی خالق حقیقی سے جاملا۔ اس تمام واقعہ میں اسکول انتظامیہ یا والد کی جانب سے کہیں بھی کوئی خلاف معمول بات سامنے نہیں آئی ، یقیناًایسے واقعات روز پیش آتے ہیں کہ اسکول میں والدین کو طلب کر کے بچوں کے تعلیمی ، اخلاقی اور تربیتی معاملات زیر بحث لائے جاتے ہیں اور والدین بھی عمومی طور پر بچوں کے مستقبل کی خاطر انہیں مصنوعی غصہ دکھاتے ہیں جو انکی تربیت کا حصہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ذرائع ابلاغ پر اس واقع کو جس طرح اساتذہ کی بے حرمتی کیلئے استعمال کیا جارہا ہے اس سے ہم اپنے مستقبل کو کیا پیغام دے رہے ہیں، اس استاد کا قصور محض اتنا کہ انہوں نے غیر حاضری پر والد کو طلب کیا۔ ہمارے نامور ادیبوں ، سیاستدانوں، دانشوروں یا زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے نامور افراد کی سوانح عمری پر نظر دوڑایں تو وہ اپنے اساتذہ کرام کے سخت رویے کا ذکر ضرور کرتے ہیں اور ساتھ ہی اس رویے کو ہی اپنی شخصیت سازی کا ماخذ قرار دیتے ہیں۔ عبدالقدیر خان سے لیکر علی معین نوازش تک ، نواز شریف ہو یا زرداری ، جاوید چوہدری ہو یا ثناء بچہ ہر ایک اپنے معلمین کے علم کی خیرات سے دنیا پر راج کر رہا ہے۔ ایک استاد ایک معاشرہ بنایا کرتا ہے ، ایک محسن جو ایک بیکار بیج کو علم کی جڑ عطاکرتا ہے جو آگے چل کر تناآوردرخت میں تبدیل ہوکر معاشرے میں بسنے والوں کیلئے اپنے سائے سے سکون فراہم کرتا ہے اور جن معاشروں میں استاد کی عزت وتکریم نہ ہواور انکی عظمت کا بیان ختم کردیا جائے وہا ں خدا علم و ہنر کا وہ قحط پیدا کردیا کرتا ہے کہ معاشرے اپنی پہچان بھول جاتے اور انہیں ہمیشہ کیلئے غلامی کی دلدل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ حقیقی والد کی وراثت تو انکے انتقال کے بعد اولاد کو ملتی ہے جو عموما دنیاوی مال و متاع ہوتی ہے مگر استاد کو ہمارے دین اسلا م نے روحانی والد کا درجہ عطا کیا ہے اور اسکی ڈانٹ یا مار ایک روحانی برسات کی ماند ہوا کرتی ہے کہ جو اس برسات سے فیضیاب ہوا اسے علم کی میراث حاصل ہوتی ہے ۔یہ روحانیت سے طالب علم کو وہ لگن اور جذبہ عطا کرتی ہے جو ایک لٹے پٹے مہاجر کو عبدالقدیر خان بنا دیتی ہے۔یہی روحانیت ہے جو امام ابوحنیفہؒ ، حنبلؒ ، احمدؒ اور شعفی ؒ کوپیدا کرتی ہے۔نیشنل کالج کراچی میں نقل سے باز رکھنے والا ایک معلم اگر سیاسی دہشتگروں کے ہاتھوں جسمانی تشدد کا شکار ہوا تو پاکستانی ذرائع ابلاغ کا ایک مخصوص طبقہ کیونکر فیصل آباد کے اس معلم کو روحانی تشدد کا شکار کرنا چاہتا ہے، کیا میڈیا پر آنے والے دانشور، صحافی کسی استاد کے زیر سایہ نہ تھے اور کیا انہیں اپنے استا دسے وہ روحانی برسات حاصل نہ ہوئی ، خدارا اپنی ہستی کو پہچانیے ، آپ جن اخلاقی روایات کو اپنانا چاہتے ہیں وہ نہ ہمارے آباء واجداد کی تھیں نہ ہیں نہ ہی بن سکتی ہیں۔ ضرت علیؓ کا قول مبارکہ ہے کہ جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا اس نے گویا مجھے خرید لیا ، خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے مسجد میں اپنے استاد کے جوتے فخرسے اٹھایا کرتے تھے ، مفکر پاکستان علامہ محمداقبال ؒ کو حکومت برطانیہ نے شمس العلماء کا خطاب دینے کا اعلان کیا تو انہوں نے اسے اپنے استاد کیلئے تجویز کیا، اسلامی تاریخ میں ایسے ہی کئی واقعات درج ہیں جن میں خلفاء کے صاحبزادوں، شہزادوں ،حکمرانوں ، علماء، دانشوروں غرض ہرشعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کا اپنے اساتذہ کیلئے احترام اور والہانہ محبت کا اظہار موجود ہے جو درحقیقت ہماری میراث ہے جسے سامنے لاکر ہمیں اپنے مستقبل کے معماروں کو یہ درس دینا چاہیے کہ استاد اگر سختی برتتا ہے تو یہ اسکا دینی حق ہے اور خود طلباء کے بہتر کل کیلئے اتنہائی اہم ہے۔مگرہم کس ڈگر پر اور کیوں چل نکلے ہیں اسکا فیصلہ یقیناًہمیں جلد از جلد ہی کر لینا چاہیے کہ ہمارا آج کیا گیا درست فیصلہ ہی ہمارے بہتر کل کا ضامن بن سکتا ہے۔اس حوالے سے طویل پروگرام کرکے طلباء کو استاد اور استاد کو طلباء کا جائز مقام دکھایئے اور اس واقعے کو ایسے ہی حادثہ قرار دیجئے جیسا کہ الحمرہال میں کانسرٹ کے بعد مرنے والی بچیوں کے لئے قرار دیا گیا تھا اور پنجاب اسمبلی کی تعلیمی اداروں میں کانسرٹس پر پابندی کی ’’بربریت‘‘کو روکا اور اس قرارواد کو واپس لینے پر مجبورکیا گیا تھا۔ خدارا پاکستان کو اسکی اصل بنیاد پر واپس لانے میں اپنا مثبت کردارادا کیجئے اور اساتذہ کے ڈھائے گئے مظالم کی داستانوں کے بعد کچھ وقت عوام اور حکومت کو یہ بیان کرنے میں بھی صرف کیجئے کہ ہمارا معلم بھی ہماری ہی طرح اس معاشرے کا حصہ ہے لحاظہ اسے اسکا جائز مقام عطا کیا جائے وگرنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ۔۔
بھلا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا
Ahsan Hilal Awan
About the Author: Ahsan Hilal Awan Read More Articles by Ahsan Hilal Awan: 11 Articles with 6790 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.