مَر جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے

جتنا اہم یہ ہوتا ہے کہ بات کیا کہنی چاہیئے، اتنا ہی اہم یہ ہونا چاہیئے کہ بات کیسے کہی جانی چاہیئے۔ لہجہ کرخت اور بھونڈا ہو تو بات سچی بھی ہو تو کرخت اور بھونڈا ہی لگنے لگتی ہے۔ جس موضوع کی شروعات کرنے جا رہا ہوں اس کے جلی حروفوں سے ہی اندازہ ہو جائے گا کہ نیچے کتنی اہم عبارات تحریر ہیں۔ اس موضوع کیلئے یہ ضروری ہے کہ میں یہ بات بار آور کرا دوں کہ راقم نہ تو کسی کے حق میں بولنا چاہتا ہوں اور نہ ہی کسی کی مخالفت میں۔ راقم تو بس سچ کا پیکر ہے اور سچائی لکھنا ہی میری ذمہ داری ہے اس لئے قلم اٹھانے پر مجبور ہوا۔ ویسے بھی 25سالہ دورِ ملازمت میں اتنی ناانصافیاں دیکھ رکھی ہیں کہ اب تو خیر کی توقع کہیں سے بھی نظر نہیں آتی ہے۔ لکھاری اور اس کے قلم کو بھی زور جب ہی میسر ہوتی ہے جب ناانصافیاں اپنے حدوں کو پار کر جائیں۔ انشا جی کا یہ شعر بھی آپ کو اس مضمون کے آخر ی لفظ تک کا احاطہ کرتا ہوا نطر آئے گا۔
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیئے

بات تو میرے بھائی بجٹ 2012-13کی ہے ، معزز بھی کہہ لیں اور امپورٹیڈ بھی کیونکہ ہمارے وزیرِ خزانہ صاحب ان دونوں ہی عبارت میں پورے اترتے ہیں۔ موصوف نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قومی اسمبلی ہال میں اپنے حکومتی ادوار کا پانچواں بجٹ پیش کر دیا ہے۔ یہ بجٹ پیش کرنے سے پہلے بہت واویلہ مچا ہوا تھا کہ یہ غریب دوست بجٹ ہوگا اور عوام دوست بھی؟ مگربجٹ کے پیش کیئے جانے کے بعد حقیقتاً یہ اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہی نظر آتا ہے۔ ورنہ تو اس بجٹ میں ایسا کچھ بھی نہیں جو عوام دوست اور غریب دوست ہو۔ سرکاری ملازمین تو روز روز کے حکومتی بیان بازی سے اپنے آپ کو خوش نصیب تصور کرنے لگے تھے کہ اس دفعہ واقعی ملازم دوست بجٹ پیش ہوگا ۔ کبھی کہا جاتا کہ 2010-11کا ایڈہاک ریلیف بیسک پے میں ضم کر دیا جائے گا۔ اور کبھی 50%تنخواہ میں اضافے کی خوشخبری دی گئی۔ اور بھی بے تحاشہ چیمہ گوئیاں کی گئیں لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ” کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا“لوگوں نے اپنے سارے کام ادھورے چھوڑ کر جب ٹی وی کے سامنے بجٹ تقریر سننے کیلئے صفیں بچھا کر بجٹ تقریر سنی تو صرف اور صرف 20%کا اضافہ ہی سننے میں آیا۔ بات ابھی یہیں ختم نہیں ہوئی کیونکہ جب اس کا اپروول لیٹر محکموں کو موصول ہوگا تو صحیح حقیقت کا اندازہ ہوگا کہ یہ اضافہ موجودہ بیسک پے پر ہے یا بنیادی بیسک پے پر۔ ابھی ان ملازمین کے امتحاں اور بھی ہیں۔ اور جب اگست میں انہیں یہ اضافہ ملے گا تو ان کے منہ کھلے ہی رہ جائیں گے کیونکہ اضافہ تو ملے گا ہی مگر ساتھ ہی انکم ٹیکس بھی ان کے آڑے آئے گا کیونکہ انکم ٹیکس سلیب میں بھی کافی رد وبدل کر دیا گیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ایک طرف تو اضافہ دیا گیا ہے تو دوسری طرف سے انکم ٹیکس کی مد میں اس اضافے کو وصول بھی کر لینے کا مکمل پلان موجود ہے۔بھائی سیدھی بات یہ ہے کہ اسی حکومتی دور میں کچھ سرکاری ملازمین کو 100%اضافہ دیا جا چکا ہے(اب وہ وردی والے ہوں یا بغیر وردی والے) اور دوسرے ملازمین کو وقتاً فوقتاً 50%، 15%، کا اضافہ دیا گیاہے ۔(کئی جگہ یوٹیلیٹی الاﺅنس بھی دیا جا چکا ہے اور بہت سی جگہ پر اسے نہیں دیا گیا) آخر یہ تفریق کیوں؟ صاف لفظوں میں یہ ہونا چاہیے تھا کہ مزید 50%تنخواہوں میں اضافہ کر دیا جاتا تو شاید کوئی داد رسی ہو جاتی۔ کیونکہ اگر مہنگائی کا موازنہ تنخواہوں سے کیا جائے تو تنخواہ تو پہلی تاریخ کو ہی ختم ہو جاتی ہے۔کیونکہ روپئے کی قدر ہی کہیں کھو گئی ہے۔ ہزار کا نوٹ لیکر مارکیٹ میں جاﺅ تو ایسے ختم ہوجاتا ہے جیسے گنجے کے سر سے بال!

یہاں پر اگر ہم صرف پیٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کا ہی چارٹ شاملِ مضمون کر لیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ باقی بنیادی چیزوں کی تو خیر بات ہی کیا وہ تو غریبوں کیلئے پہلے ہی ناپید ہے۔
موازنہ چارٹ:

سال2008
سال 2012
پیٹرول
58/70
103/36
ڈیزل
41/13
107
مٹی کا تیل
38/37
99/95

اب دیکھئے کہ روپئے کی قدر 2008کے مقابلے میں 45%مزیدکم ہو گئی ہے۔ 2008میں ڈالر 62/=روپئے کا تھا اور 2012میں ڈالر 90/=روپئے کا ہے۔اس سے اندازہ کیجئے کہ ہمارا روپیہ کس قدر سستا ہو گیا ہے ۔اس کے ساتھ آٹا، دالیں، چاول، مرچ مصالحہ، سبزیاں، گوشت،غرض کہ ہر چیز کے نرخ تقریباً دُگنے ہو چکے ہیں مگر افسوس کہ اس طرف بھی کان نہیں دھرے گئے اور غریبوں کا سبزی اور دال کھانا بھی اب ممکن نہیں رہا۔ویسے بھی جس ملک میں روزآنہ کی بنیاد پر بنیادی چیز تو کُجا ہر چیز پر ہی ریٹوں میں اضافہ ہوتا ہو وہاں بجٹ پیش کیا جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ جہاں عوام ہی خوشحال نہیں ہے وہ ملک کیسے ترقی کے منازل طے کر سکتا ہے۔ ریلوے سے لیکر پی آئی اے تک جیسے بڑے ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں ۔ہمارے یہاں تو حال یہ ہے کہ صبح اگر مارکیٹ سے کوئی چیز خریدی جائے تو ریٹ کچھ ہوتا ہے اور شام کو وہی چیز خریدی جائے تو ریٹ کچھ اور؟آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ پھر ہم کیسے اپنے آپ کو ترقی یافتہ ملک کی فہرست میں شامل کریں۔
لوگ لٹنے لگیں گے پھر بجٹ کے بعد
اب کہ دوکانداروں کا دُگنا منافع ہوگیا!
پھر پسیں گے آج سے اس چکی میں ہم
لو، آج قیمتوں میں پھر سے اضافہ ہوگیا

یہاں تو سب کچھ ہی سمجھ سے بالاتر ہو تا جا رہا ہے ، چہرے تبدیل کرنے سے اور وزارت کی تبدیلی سے ملک ترقی نہیں کر سکتا اس کے لئے ٹھوس حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ یہاں تو باری کا انتظار کیا جاتا ہے ۔ تیری باری ہوگئی اب ساڈی واری آنے لگی ہے۔ عوام سے ووٹ لیکر ان کے اپنے ہی حقوق کے ساتھ پامالی حقوق کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔عوام کو اب اب اپنا حقِ رائے دہی بہت سوچ سمجھ کر استعمال کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کے فیصلے پر ہی اس ملک کی ترقی کا دارومدار ہے۔

ملک میں پچاس فیصد آبادی اب بھی ایسی ہے جنہیں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیںان میں سے اکثر کو دن بھر میں صرف ایک وقت کی روٹی ہی میسر ہوتی ہے وہ بھی بمشکل!مہنگائی کی وجہ سے ہی خودکشیاں اور جرائم کی وارداتوں میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ہر روز درجنوں ڈاکے ،قتل، ہر روز اغوا برائے تاوان کی وارداتیں لازمی ہو گئی ہیں۔ بجلی کا بحران ، گیس کا بحران ، بے روزگاری جیسے اژدھے منہ کھولے ہوئے ہے ۔ شیطانیت اپنے عروج پر ہے۔ کراچی کے حالات ویسے ہی روز بروز بگڑتے جا رہے ہیں۔ آج مہنگائی کے باعث حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ گذشتہ دنوں کئی شہروں میں گھاس کھانے جیسے فعل کے ساتھ مظاہرہ کیا گیا۔یہ لمحہ فکریہ نہیں تو اور کیا ہے۔

بجٹ میں ہوتا کیا ہے اس سے تو آپ سب بخوبی واقف ہی ہونگے جناب! جی ہاں ہندسوں کا انبار جسے لفظِ عام میں لفظوں کا گورکھ دھندہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور ہندسوں کا کیا ہے ۔ پاکستان کے قائم ہونے سے اب تک تمام ہی حکومتیں ہماری رہی ہیں اور سب ہی عوام دوست بجٹ ہی پیش کرتی رہی ہیں۔ فرق ہے تو صرف اعداد و شمار کا ، ہندسوں کا ، اور ہندسوں کا کیا ہے جیسے چاہو لکھ لو رہی بجٹ کی بات تو کیا آپ سب نہیں جانتے کہ بجٹ تو وہی ہوتا ہے جسے منظورِ نظر محکمہ تحریر کر دے۔ بجٹ پیش بھی ہوگیا اور لاگو بھی ہو جائے گا ، مرے گی عوام، مریں گے نوکری پیشہ لوگ، مریں گے اس ملک کے ناتواں لوگ! اور مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے وہ بھی ہماری عوام بخوبی جانتی ہے مگر میں یہاں بہت معذرت کے ساتھ یہ شعر تحریر کرنا چاہوں گا تاکہ سادہ طریقے سے سمجھنے میں آسانی ہو۔
ہمیں معلوم ہے مرنے کے بعد کیا ہوگا
پلاﺅ کھائیں گے احباب اور فاتحہ ہوگا

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ سیاست اور موجودہ مہنگائی کا بحران اب بھی ٹلنے والا نہیں ہے۔ اب تو ہونا یہ چاہیئے تھا کہ غیر سنجیدگی چھوڑ کر سنجیدگی کی طرف لوٹنا چاہیئے تھا آخر کو یہ آخری بجٹ بھی تھا اور الیکشن کا سال بھی! اب بھی کچھ نہیں بگڑا ابھی تو اسمبلی میں ڈیبیٹ باقی ہے اور اتحادیوں کا مشورہ بھی سامنے ہی ہے۔ بجٹ ڈیبیٹ سمیٹنے سے پہلے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔راقمِ تحریر تو مشورہ ہی دے سکتا ہے اس پر عمل کرنا یا نا کرنا اس کے اختیار سے باہر ہے۔کیونکہ اب تو عوام صبر اور برداشت کے گھونٹ پی پی کر تھک چکی ہے۔ اور قریب ہے کہ ان کے صبر کا بندھن ٹوٹ جائے ۔اس سے پہلے کہ یہ تلخ حقیقت لکھتے لکھتے قلم جواب دے دے باری تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے ملکی حالات، امن و امان، غربت، افلاس، بھوک، ختم کرے اور اس شعر کے ساتھ اس موضوع کا اختتام کہ آنے والے دن آپ کیلئے نیک شگون کے ساتھ آئے۔ (آمین)
منصف ہو تو حشر اُٹھا کیوں نہیں لیتے
مَر جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 342027 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.