مومن یا مشرک کا رد

 مومن یا مشرک کا رد
بھائیو السلام علیکم ،
میرے ایک بھائی نے ایک مضمون لکھا ہے جس میں الله کے ساتھ شرک کو عین توحید بتایا ہے اور میں یہ مضمون اس کے رد میں لکھ رہا ہوں اور ان کے دلائل کا قرآن اور سنت سے رد کروں گا و توفیق باللہ .

دلائل کا رد
(١) بھائی نے لکھا " توحید کے معنی الله کی ذات و صفات میں کسی کو شریک نہ کرنا اب سوال پیدا ہوتا ہے علم الله کی صفت ہے اگر دوسرے کے لیے ثابت کریں تو شرک ہو گا ؟ الله دیکھتا اور سنتا ہے اور ہم دیکھنے سننے کی صفت کسی دوسرے کے لئے ثابت کریں الله زندہ ہے اگر کسی اور کو زندہ کہیں تو شرک ہو گا ؟ پھر سوره الدھر کی آیت نقل کی ہے جس میں انسان کو بھی سنے والا اور دیکھنے والا کہا گیا ہے .
جواب : اس بات سے کس کو انکار ہے کہ جب الله نے انسان کو پیدا کیا ہے تو دیکھنے اور سنے علم ہر چیز سے نوازا ہے اس کی وجہ قرآن نے خود بیان کی ہے " " جس نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا وہ آزماے کون تم میں اچھے اعمال کرتا ہے (سوره الملک ٢ ) تو دنیا آزمائش کی جگہ ہے اورہر انسان کو مرنا ہے جیسا کہ بیان ہوا " اے نبی (علیھ السلام ) آپ کو بھی مرنا ہے اور ان سب کو بھی مرنا ہے (سورہ الزمر ٣٠) اور سورہ الحج میں فرمایا " الله قبر والوں کو دوبارہ زندہ کرے گا (سورہ الحج ٧ )

جب انسان کو اس دنیا سے جانا ہے تو پھر اس اسباب کی جگہ سے انسان خالی ہاتھ جاتا ہے جب وہ نہ مال لے کر جاتا ہے نہ دولت تو پھر اسی دنیا کی چیز سننا اور دیکھنا کس طرح مرنے کے بعد دنیا میں کر سکتا ہے اور اس کی دلیل قرآن میں موجود ہے " اور زندہ اور مردہ برابر نہیں ہے (سوره فاطر٢١)اور اپ ان کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں (سوره فاطر ٢٢ )تو قران کے مطابق زندہ اور مردہ برابر نہیں ہیں ظاہر ہے زندہ سنتا ہے دیکھتا کھاتا پیتا اور دنیا کے تمام امور انجام دیتا ہے اور کوئی بھی زی شعور یہ جانتا ہے کے مرنے کے بعد کوئی بھی مردہ یہ کام انجام نہیں دیتا مگر ایک بات جو اکثر مانتے ہیں وہ مردے کا سننا ہے مگر قرآن نے اس کی بھی نفی کر دی ہے تو مردہ اب اگر کوئی مردے کے بارے میں یہ گمان کرے کہ وہ زندہ کی طرح سن سکتا ہے مدد کر سکتا ہے تصرف کر سکتا ہے تو پھر وہ الله کی صفت میں ایک ایسے کو شریک کرتا ہے جس سے الله نے دنیا میں یہ سب سلب کر لیا ہے اور اسی کو قرآن میں الله نے شرک کہا ہے کہ تم الله کے ساتھ ایسوں کو شریک کرتو ہو جو زندہ ہی نہیں ہے ان سے مدد کی امید رکھتے ہو جو اب تمہارے محتاج ہو چکے ہے اور اس حوالے سے تفصیل ہم بعد میں بیان کریں گے. اب ہم دوسری دلیل کی جانب چلتے ہیں (نوٹ: زندہ سے دعا کی صرف درخواست کی جا سکتی ہے اور اسباب کے تحت مدد بھی مانگ سکتے ہے اس کی دلیل بھی قرآن اور حدیث سے ثابت کریں گے انشا الله .

دلیل (٢) بھائی نے لکھا "
واضح رہے کہ ہر کام باذن اللہ عین توحید ہے۔ اللہ جل جلالہ فرماتا ہے:
( سورۃ البقرۃ ٢٥٥ ) من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ : وہ کون ہے جو اسکے یہاں سفارش کرے بے اسکے حکم ۔ (کنز الایمان )
پتہ چلا کہ بغیر اذن کے شفاعت کا اعتقاد شرک ہے اور اذن کے ساتھ عین توحید ہے پس جب یہ عقیدہ آیا کہ فلاں شخص اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی حاجت پوری کرسکتا ہے تو شرک ہے اور جب اذن الہٰی کا عقیدہ آیا تو شرک ختم ۔

حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام نے جب قوم کے سامنے تعلیم رسالت پیش کی تو ان سے فرمایا :
( سورۃ اٰل عمران اٰیۃ نمبر ٤٩ )وابریئ الاکمہ والابرص واحی الموتی باذن اﷲ : اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اورسفید داغ والے کو اور میں مردے جلاتا ہوں اللہ کے حکم سے۔ ( ترجمہئ کنز الایمان )

اب دیکھئے شفا دینا اور مردے کو زندہ کرنا یہ اللہ تعالٰی کا کام ہے اور حضرت سیدنا عیسی علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کاموں کا دعوی فرمارہے ہیں لیکن آپ آگے فرماتے ہیں '' باذن اللہ '' یعنی میں جو کچھ کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے اذن سے کرتا ہوں پس جہاں اذن الہٰی آجائے تو شرک چلا جاتا ہے اور جہاں اذن گیاتوحید بھی گئی یہی اذن الہٰی ہونا اور نہ ہونا تو حید اور شرک کا بنیادی نکتہ ہے۔

اب اگر کوئی انبیاء و اولیاء کو باذن اللہ حاجت روا کہے، مشکل کشا کہے، دافع البلاء کہے تو شرک ختم ہوگیا یہاں مشرکین بت پرست کے معاملہ کو بھی سمجھ لیجئے مشرکین دو طرح سے گمراہی میں مبتلاہوئے، ایک تو اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر بتوں کو حاجت روا مانا دوسرا یہ کہ اگر وہ اذن کے ساتھ حاجت روا مانتے بھی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اذن دیا نہ تھا تو اسطرح بھی گمراہ ہوئے ایک تو یہ کہ وہ حاجت روائی کے اہل نہ تھے اور ان کو حاجت روا مانا دوسرا یہ کہ اذن الہٰی کا محتاج بھی نہ مانا پس وہ کفر میں بھی مبتلاہوئے اور شرک میں بھی ۔
جواب : عیسیٰ (علیھ السلام ) نے یہ سب الله کے اذن سے کیا اور یہ ان کے معجزات تھے جو انہوں نے دکھائے تھے "کسی رسول کی یہ قدرت نہ تھی کہ الله کی اجازت کے بغیر کوئی معجزہ لا سکے (سوره المومن ٧٨ )اور یہ معجزات ہیں ان سے انبیا اور اولیا کو بازن الله مشکل کشا حاجت روا ماننا درست نہیں ہے کیوں کے بقول میرے بھائی کہ حدیث قدسی کے مطابق الله نے انبیا اور اولیا کو اذن دے رکھا ہے تو پھر با اذن الله وہ اپنی تکلیف اور حاجت کو خود پورا کر سکتے تھےجیسا بھائی نے لکھا ہے کہ "جب مشکل کشائی بندے کی قدرت میں ہوگئی تو مشکل کشا نہیں تو اور کیا ہے"تو مشکل کشائی قدرت میں ہونے کے باوجود اپنی اور دوسروں کی مشکل کشائی کے لئے الله کو کیوں پکارتے تھے وہ تو با اذن الله مشکل کشائی پر قدرت رکھتے تھے یہ عقیدہ کہ انبیا مشکل کشائی پر با اذن الله قدرت رکھتے تھے قرآن اور حدیث کے نصوص کے خلاف ہے چنانچہ جب ہم قرآن اور احادیث کا مطالعہ کرتے ہے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انبیا نے چھوٹی ہو یا بڑی تمام حاجت کے لئے الله کو پکارا ہے.

(١ ) کیا تم گمان کرتے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ تم پر وہ حالت ہے آے ہیں جو تم سے پہلوں پر گزرے ان کو بیماریاں اور مصیبتیں ائی اور وہ جھنجھوڑ دئیے گئے اور رسول اور ایمان والے کہنے لگے کب آئے گی الله کی مدد سن لو الله کی مدد قریب ہے (سوره البقرہ ٢١٤ )

اس آیت میں صاف موجود ہے کہ اگر نبی با اذن الله مشکل کشائی کی قدرت رکھتے تو وہ خود ایمان والوں کو ان بیماریوں اور مصیبتوں سے نجات دلا دیتے .

(٢ ) اور( لوط)علیھ السلام نے کہا کاش مجھ میں تم سے مقابلہ کرنے کی طاقت ہوتی یا میں کسی مضبوط پناہ میں ہوتا (سوره ھود ٨٠)

اگر انبیا مشکل کشا ہوتے تو ( لوط)علیھ السلام سب سے پہلے اپنی مشکل آسان کرتے .

( ٣ ) اور ایوب علیھ السلام کی حالت کو یاد کرو جب انھوں نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے بیماری لگ گئی ہے بے شک تو رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے (سوره الانبیا ٨٣ )

ایوب علیھ السلام نے بھی الله کو پکارا اگربا اذن الله مشکل کشا ہوتے تو خود مشکل دور کرتے .

(٤) جب نوح علیھ السلام نے اپنے رب کو پکارا اور ان کی دعا قبول ہوئی اور اس کو اور اس کے گھر والوں کو اس کرب سے نجات دی( سوره الانبیا ٧٦ )

نوح علیھ السلام نے بھی اپنے گھر والوں کو مشکل سے نکلنے کے لئے الله کو پکارا اگر با اذن الله مشکل کشا ہوتے تو خود مشکل دور کرتے.

(٥ ) اور ( لوط)علیھ السلام نے کہا اے رب اس مفسد قوم کے مقابلے میرے مدد کر(سوره العنکبوت ٣٠ )

بقول میرے بھائی کے الانبیا مشکل کشا ہے جبکہ ( لوط)علیھ السلام مشکل کشائی کے لئے الله کو پکار رہے ہیں .

(٦) جب اپ علیھ السلام اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے پھر الله نے اپ کی سن لی کہ میں ایک ١٠٠٠ فرشتوں سے مدد دوں گا جو پے در پے اتر رہے ہیں .(سوره الانفال ٩ )

اورانس رضی الله عنھ سے مروی ہے "نبی علیھ السلام کسی بات میں پریشانی ہوتی تو فرماتے اے حی القیوم میں تیری رحمت کے ساتھ تجھ سے فریاد کرتا ہوں ( ترمزی کتاب الدعوات رقم ٣٥٢٤)

یہ وہ آیت اور حدیث ہے جس میں نبی علیھ السلام کا پریشانی میں الله سے دعا کرنا ثابت ہے نبی علیھ السلام بھی اپنی مشکل الله سے بیان کرتے تھے اگربا اذن الله مشکل کشا ہوتے تو خود مشکل دور کرتے اور امت کو بھی یہی تعلیم دی ہے کہ "نبی علیھ السلام نے فرمایا اگر گھر کا نمک بھی ختم ہو جائے تو الله سے مانگو (ترمزی ) اور مسند احمد میں موجود ہے " ایک آدمی نبی علیھ السلام کے خدمت میں حاضر ہوا اور کہا جو الله چاہے اور جو اپ چاہے تو نبی علیھ السلام نے اس سے فرمایا کیا تو مجھے الله کے ساتھ شریک کرتا ہے بلکہ جو صرف الله چاہے (مسند احمد رقم ١٨٣٩ ،١٩٦٤، ) تو صرف اس معمولی سے بات پر نبی علیھ السلام نے اسے شرک که دیا اور میرے بھائی تو غیر الله سے مانگنا بھی توحید که رہے ہیں اعوذ باللہ میں ھذھ جھل.

تو ان تمام آیات سے یہی ثابت ہوتا ہے کے مشکل حل کرنا الله کا کام ہے اوریہ عقیدہ رکھنا کے انبیا با اذن الله مشکل کشا ہیں ان قرانی آیات اور احادیث کے خلاف ہے تو پھر اس آیت کا کیا مفہوم ہے جو میرے بھائی نے لکھی ہے چنانچہ اس آیت میں معجزات کا ذکر ہے جو اس وقت کے لحاظ سے الله نے عیسیٰ علیھ السلام کو دے تھے ورنہ امام الانبیا نے کوئی ایسا معجزہ نہیں دکھایا حتی کہ نابینا صحابی کے لئے بھی اپ نے دعا کی اور اس سے نماز حاجت پڑھوائی تھی.

اب رہ گئی اولیا کی بات تو بھائی جب اتنے بڑے جلیل القدر انبیا کے لئے مشکل کشائی ثابت نہیں ہے تو باقی کون بچا .

ایک بات میں بارہا عرض کر چکا ہوں ایک بار پھر بیان کرتا ہوں کو مشرکین عرب نےانہی بتوں کی عبادت کی ہے جو نوح علیھ السلام کے دور میں تھے اور وہ اپنے زمانے کے اولیا الله تھے جن کے بت نوح علیھ السلام کی قوم نے بناے تھے چنانچہ صحیح بخاری میں منقول ہے .

"ابن عباس رضی الله عنھما فرماتے ہیں " جن بتوں کی نوح علیھ السلام کی قوم عبادت کرتی تھی وہی بعد میں عرب میں پکارے جانے لگے اور یہ نوح علیھ السلام کی قوم کے نیک لوگ تھے ،(بخاری کتاب تفسیر باب تفسیر سوره نوح علیھ السلام حدیث ٤٩٢٠ )

تو سوره نوح علیھ السلام کے بارے میں ابن عباس رضی الله عنھما کا قول موجود ہے جس میں صاف لکھا ہے کہ " جن بتوں نوح علیھ السلام کی قوم عبادت کرتی تھی وہی بعد میں عرب میں پکارے جانے لگے" تو مشرکین عرب انہی بتوں کو مانتے تھے جو نوح علیھ السلام کی قوم میں تھے تو میرے بھائی کا یہ کہنا کہ مشرکین الله پر بہتان باندھتے تھے کے الله نے ان بتوں کو ازن دی رکھا ہے تو اس حدیث قدسی کے مطابق اذن تو ہر اولیا الله کے لئے ہے تو نوح علیھ السلام کی قوم کے اولیا الله کے لئے بھی ہے اور یہ وہی اولیا الله ہے جن کو مشرکین پکارتے تھے تو پھر ان کو مشرک کیوں کہا ہے تو میرے بھائی نے جو اس حدیث قدسی بیان کی ہے اسے بھی اپنے مطلب کے مطابق بیان کیا ہے اس حدیث میں الله نے اس مومن کی وفات کا ذکر کیا ہے الفاظ پیش ہیں .

اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں دیتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ کا طالب ہوتا ہے تو میں اس کو پناہ دیتا ہوں اور مجھے اس مومن کی موت کے بارے میں پس و پیش ہوتا ہے جو موت کو پسند نہیں کرتا اور میں اس کی اس ناگواری کو پسند نہیں کرتا (بخاری کتاب الرقاق باب تواضع رقم ١٤٢١ )

تو اس حدیث میں بھی الله ہی سے مانگنے کا ذکر ہے اور مومن کی موت کا ذکر ہے یعنی وہ بھی وفات پایے گا اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جب تک وہ زندہ ہو گا تو اپنی اور لوگوں کی مشکل کے لئے الله سے دعا کرے گا جیسا لفظ موجود ہے " اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں دیتا ہوں" تو اس روایت میں بھی صرف الله ہی سے مشکل کشائی ثابت ہے اور مرنے کا ثبوت بھی موجود ہے . تو اس سے بھی کوئی با اذن الله ثابت نہیں ہوتا ہے .

اب وہ آیات جن میں مشرکین ان اولیا الله کو با اذن الله مشکل کشا مانتے تھے اور ان کے مرنے کے بعد بھی ان کے مشکل کشائی کا تصوررکھتے تھے وہ ان میں مشکل کشائی مانتے تھے جیسا اپ مانتے ہو جو صاف شرک ہے اب میں مردہ سے مانگنے کو قرآن شرک کہتا ہے اس پر چند آیات پیش کرتا ہوں .

غیر الله سے مانگنا شرک

اس عنوان کے تحت ہم ان آیات کو نقل کریں گے جس میں مردوں سے مانگنا شرک ہے .

(١) اور اس سی زیادہ گمراہ کون ہو گا جو الله کے سوا ایسے کو پکارے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہیں کر سکتے بلکہ وہ ان کی پکار سے بے خبر ہیں اور جس دن حشر کیے جایئں گے تو وہ ان کی عبادت کا انکار کریں گے (سوره الاحقاف ٥-٦ )
(٢) الله کے سوا تم جن کو پکارتے ہو وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے وہ خود پیدا کیے گئے ہیں مردہ ہیں زندہ نہیں ہیں ان کو یہ بھی نہیں معلوم کے کب اٹھائے جائے گے (سوره النحل ٢٠-٢١ )
(٣) اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے نہیں اگر بالفرض سن لیں تو قبول نہیں کر سکتے اور قیامت کے دین وہ تمہارے شرک کا انکار کریں گے( سورہ فاطر ١٤)
(٤) اور اس دین جب سب حشر کے جائے گے پھر مشرکین سے کہیں گے تم اور تمہارے شریک ٹھہرے رہو پھر ہم ان میں پھوٹ دل دے گے اور ان کے شریک کہیں گے تم ہماری عبادت نہیں کرتے تھے تمہارے اور ہمارے درمیان الله گواہ ہے ہم تمہاری عبادت سے غافل تھے (سوره یونس ٢٨-٢٩ )
(٥) جنھیں یہ الله کے سوا پکارتے ہے وہ اپنے رب کا قرب حاصل کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ کون ان میں سے اگے بڑھ جائے اور وو خود اس کے عذاب سے خوف زدہ رہتے ہے اور اس کی رحمت کے امید وار ہیں (سوره بنی اسرئیل ٥٧)

یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ الله کے نیک بندوں کو ان کے مرنے کے بعد پکارا گیا ہے ان کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھ کر، جس کو الله نے شرک قرار دیا ہے . اب آخر میں امام ابو حنیفہ کا قول نقل کر رہا ہوں کہ پاکستان میں اکثریت امام ابو حنیفہ کے ماننے والوں کی ہے جو میری بات نہیں ماننا چاہتے شاید اپنے امام کی بات مان لے کے ان کا عقیدہ کیا تھا اور ان کے ماننے والے کہاں جا رہے ہیں ،

امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں " کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ الله کے نام کے علاوہ کسی اور وسیلے سے اللہ کو پکارے (شرح کرخی کتاب کراہت باب کراہت )

ایک غلط فہمی کا ازالہ
میرے بھائی نے یہ حدیث پیش کی ہے "'خدا کی قسم مجھے تم پر یہ خوف نہیں کہ تم میرے بعد شرک کروگے لیکن تم دنیا کی محبت یں مبتلا ہو جاؤ گے۔'' میرے بھائی کو میں بھی ایک حدیث پیش کرتا ہوں " قیامت قائم نہ ہو گی جب تک میری امت کے چند قبیلے مشرکوں سے نہ مل جائیں اور بتوں کی عبادت نہ کر لیں (ابوداود کتاب الفتن باب ذکرہ الفتن رقم ٤٢٥٢) ان دونو احادیث میں ایک میں شرک نہ کرنا کا بیان ہے اور دوسری میں کرنے کا ہے تو اب ان دونوں احادیث میں کیا تطبیق ہو گی اس کے لئے ایک اور حدیث لینی ہو گی " نبی علیھ السلام نے فرمایا میری امت پانی میں ڈوب کر نہیں مرے گی (مسلم کتب فتن ) تو کیا مسلمان پانی میں ڈوب کر نہیں مرتے بلکل مرتے ہے اس سے مراد یہی ہے کہ مجموعی امت پانی میں ڈوب کر نہیں مرے گی اسی طرح مجموعی امت شرک نہیں کرے گی مگر چند قبائل یا لوگ کریں گے جیسا حدیث کے الفاظ ہیں "چند قبیلے مشرکوں سے نہ مل جائیں اور بتوں کی عبادت نہ کر لیں" تو اپ بھی وقت ہے الله سے توبہ کرو اور ان لوگوں میں نہ شامل ہو جو بعد میں قبر پرستی کرتے کرتے انہی نیک لوگوں کے بت بنا کر ان کی عبادت کریں گے الله ہم سب کو شرک سے محفوظ فرماے آمین .وما علینا الا بلاغ.
tariq mehmood
About the Author: tariq mehmood Read More Articles by tariq mehmood: 13 Articles with 37007 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.