تہذیبی یلغار.... اور خاموشی

ہمارا معاشرہ مغربی تہذیبی یلغار کا شکار ہے۔ ذرائع ابلاغ پوری دلیری سے فحاشی اور عریانی کو فروغ دے رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے مغربی اور بھارتی ثقافتی یلغار ہو رہی ہے۔ دشمن تو اپنے محاذ پر پوری منصوبہ بندی سے کام کر رہا ہے لیکن ہمارے معاشرے سے کوئی مزاحمت نہیں ہو رہی۔ یوں لگتا ہے کہ ہم سب نے غیر ارادی طور پر اس استعماری ایجنڈے سے اتفاق کر لیا ہے اور قوم کو گمراہی کی طرف لے جانے والی سازشوں کو خاموشی سے راستے دینے کی حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں۔ حکمران اور سیاست دان تو قوم کو خود گمراہ کر رہے ہیں اور جس قدر قوم دین اور اپنی روایات سے دور ہو گی، ان سیاستدانوں کا کام آسان ہو تا رہے گا ۔ یہ تو سارے کے سارے مغربی ایجنڈے پرکام کرنے والے ہیں۔ جھوٹ بولنا اور دھوکہ دینا اس کی سرشت میں شامل ہے۔ یہ جس سیاست پر کام کر رہے ہیں ، اس میں دھوکہ دینا کھیل کا حصہ ہے۔ ہمارے ہاں مروجہ سیاست میں جھوٹ، دھوکہ دہی اور فریب کاری کو سیاسی چال سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جو جتنا زیادہ دھوکہ باز ہے وہ اتنا ہی اچھا سیاستدان ہے۔ اس لی ان سے تو خیر کی توقع کرنا عبث ہے۔

ہماری دینی جماعتیں ، گروہ اور مساجد بھی اس استعماری ایجنڈے پر خاموش ہیں۔ ان کے علاوہ ارباب دانش، اساتذہ کرام اور معاشرے میں موجود صالح طبقہ بھی خاموش ہے۔ ہٹلر نے درست کہا تھا کہ دنیا میں دامنی اور بے چینی بدمعاشوں کی شورش کی وجہ سے نہیں نیک لوگوں کی لاتعلقی کی وجہ سے ہے۔ ہمارے معاشرے میں نیک لوگ تعداد میں زیادہ ہیں لیکن وہ ملکی معاملات سے لاتعلق رہنے میں عافیت خیال کرتے ہیں۔ کچھ مذہبی گروہ دینی لبادہ اوڑھ کر استعمار کے لیے کام کر رہے ہیں اور عوام کو قومی معاملات سے لا تعلق رکھنے کی دن رات تلقین کرتے ہیں۔ وہ عوام کو برسر زمین خرابیوں سے برسر پیکار رہنے کے بجائے چند دنوں کے لیے مساجد میں بند کرکے ان کی اصلاح کرنے کے نام پر معاشرے سے لاتعلق کرتے ہیں۔اسی طرح علماءکا ایک طبقہ حکمرانوں سے مساجد اور مدارس کے نام پر مراعات لیتا ہے، کچھ لوگ بعض حکومتی اداروں میں نمائندگی کے نام پر مراعات لیتے ہیں۔ یہ سب اپنے پیٹ کے پجاری ہیں جو اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملتے ہیں اور کسی بھی کام میں رکاوٹ بننے کے لیے تیار نہیں۔ بدقسمتی سے ہر مسلک کے مرکزی قائدین اور علماءکو یہ حکومتی مراعات کسی نہ کسی انداز میں مل رہی ہیں۔ یوں استعمار نے ان تمام افراد کو ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر موثر کر لیا ہے جو معاشرے میں کسی بھی طرح مزاہم ہو سکتے تھے۔

یہ محض ثقافتی یلغار نہیں ہے بلکہ ہمیں اپنے دین اور معاشرتی اقدار سے بیگانہ کرنے کے علاوہ فکری غلامی اور اس کے بعد مکمل طور پر غلام بنانے کا منصوبہ ہے۔ جو قومیں اپنی اقدار اور مذہبی عقائد پر سمجھوتہ کرلیں وہ کبھی بھی مزاحمت و مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتیں۔ انسان کے اندر دو ہی قوتیں ہوتی ہیں جو اسے کسی کے مقابل کھڑا ہونے کا حوصلہ دیتی ہیں، ایک مذہبی عقائد اور دوسرے معاشرتی اقدار۔ ہم سے یہ دونوں قوتیں چھینی جا رہی ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر اغیار کا قبضہ ہو چکا ہے، کیبل کے ذریعے استعمار پوری دنیا کے اخلاق کو تباہ کر رہا ہے۔ آج ہمارے ہاں گھروں، ریستورانوں، ہوٹلوں، قہوہ خانوں، سکولوں، کالجوں، کلبوں، دفتروں اور پبلک ٹرانسپورٹ سمیت ہر پبلک مقام پر حیاءکا جنازہ نکالا جا رہا ہے۔ عریانی اور فحاشی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ناچ ، گانے، ڈانس اور ڈراموں کے ذریعے دینی اور معاشرتی اقدار سے بغاوت کا درس دیا جاتا ہے۔ اگر کہیں ایمان موجود ہے تو اس کو چیلنج کیا جارہا ہے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ سو فیصد مسلم معاشرے میں کہیں سے کوئی مزاحمت نہیں ہورہی۔ کوئی برائی کا راستہ روکنے والا نظر نہیں آرہا۔ کوئی مخالفت نہیں ہو رہی۔ کہیں سے ایسا کوئی مطالبہ تک بھی سننے میں نہیں آرہا کہ یہ خرافات بند کی جائیں۔ بزرگ گھروں میں اپنے بچوں سے عاجز آکر خاموش ہو چکے ہیں۔ علماءکی زبانیں گھنگ ہو چکی ہیں۔ مذہبی لبادے میں ملبوس گروہ خرافات سے سمجھوتہ کر چکے ہیں۔ صالحین گوشہ نشینی میں عافیت تلاش کر رہے ہیں۔

یوں لگتا ہے کہ ہم کسی مردہ معاشرے کے باسی ہیں، جہاں اکثریت کوئی نصب العین نہیں رکھتی، جس کا کوئی اپنا ایجنڈا نہیں اور نہ وہ کسی مذہب کے پابند ہیں۔ وقت کا دھارا انہیں جدھر لے چلے، وہ چلنے کے تیار ہیں۔ ان کے ملک میں جو جی چاہے کھیل کھیلتا رہے۔ ان کے بچوں اور بچیوں کو جو جدھر لے جائے، ان کی عزت اور غیرت جواب دے چکی ہے اور وہ کسی کام پر مشتعل نہیں ہوتے، وہ کسی بھی برے سے برے کام کو روکنے کے لیے تیار نہیں۔ یاد رکھیے! جو قوم اپنی دینی اور معاشرتی اقدار سے بیگانہ ہو جائے اس میں قوت مزاحمت ختم ہوجاتی ہے اور وہ دشمن کے لیے تر نوالہ بن جاتی ہے۔ آج کا منظرنامہ اس کی عملی تصویر پیش کر رہا ہے کہ ہمارا معاشرہ خیر سے خالی ہوتا جا رہا ہے اور غیرت و حمیت نام کی کوئی شے موجود نہیں۔ نہ ہمارا ایمان کہیں ان برائیوں کے خلاف مزاحم ہو رہا ہے اور نہ کسی کو اپنے معاشرتی اقدار سے کوئی غرض ہے۔ ہم نے فکری طور پر دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور جب وہ چاہے گا ہمیں عملا بھی غلام بنا لے گا۔

یہ ایک پریشان کن منظر نامہ ہے، جس سے نظریں چورانا ممکن نہیں۔ جو کچھ عرض کیا ہے صرف اس غرض سے کیا ہے کہ ارباب فکرو دانش غوروفکر کریں اور کوئی راستہ نکالیں۔قارئین کو مایوس کرنا مقصود نہیں بلکہ انہیں خطرے سے آگاہ کرنا مقصد ہے۔ ہمارے ہاں امید کی ایک کرن ایسی موجود ہے کہ جس پر توجہ دی جائے حالات کا دھارا بدل سکتا ہے۔ وہ کرن ایمان کی سلگتی ہوئی وہ چنگاری ہے جو ہر دل میں موجود ہے۔ کوئی مرد مومن اٹھے، اس چنگاری کو پھونک مارے، یہ چنگاری غیرت و حمیت سے عبارت ہے۔ وہ شعلہ بن گئی تو استعمار کی ساری چالیں لمحوں میں خاکستر ہو جائیں گی۔ اہل درد کو اٹھنے کی ضرورت ہے۔ میدان میں رہنے اور دشمن کے مقابل کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ جو بھی اس ثقافتی یلغار کو ناپسند کرتاہے، وہ نکل کھڑا ہو، اس کو مسترد کرے اور اس کی پشت پر کھڑے تمام بتوں کو جوتی کی ٹھوکروں سے اس دیس سے نکال باہر کرے۔ کون چاہتا ہے کہ اس کے بچے اوباش اور اخلاق باختہ ہوں۔ کون چاہتا ہے کہ اس کی بچی رقاصہ بنے۔ کوئی نہیں چاہتا لیکن کس کو صد راہ بننے کی سبیل نظر نہیں آرہی۔ جو بھی اس راہ کی رکاوٹ بن کر اٹھے گا، مرو زن اس کے ہم رقاب ہوں گے۔ اٹھیے اور اللہ کے باغیوں کی راہ میں رکاوٹ بنا جائےے، اپنے گھروں میں، دفتروں میں، گاڑیوں میں، چوکوں اور چوراہوں میں، بازاروں اور سیرگاہوں میں ہر جگہ اور ہر مقام پر رکاوٹ بن جائیے۔ ذرائع ابلاغ کو مجبور کیجیے کہ وہ استعماری ثقافت کے فروغ کا ذریعہ نہ بنے۔ جس دن ہم سے اٹھ کھڑے ہوئے تو کسی کی جرات نہیں کہ ہمارے ملک میں فحاشی اور عریانی کے فروغ کا کاروبار چل سکے۔ بس ہر مسلمان کے اندر موجزن ایمان کی اس چنگاری کو جگانے کے ضرورت ہے۔ ہر ایک نے اٹھنا ہے اور اللہ کے باغیوں کے لیے اس ملک کو تنگ کر دینا ہے۔ جب ہم نے اپنا فرض ادا کیا تو پھر برائی کو پنپنے کا موقع نہیں ملے گا۔ ہم خاموش رہے تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ دوسروں کی طرف نہ دیکھےے، مراعات یافتہ علماءسے امید نہ رکھیے۔ سیاستدانوں کی طرف نہ دیکھیے، اٹھیے، آج اور ابھی سے اس برائی کا راستہ بند کر دیجیے۔

مسلمان ہونے کی ناطے یہ ہماری بنیادی اور اہم ترین ذمہ داری ہے ۔ یہ امت مسلمہ کا نصب العین قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں نیکی کا حکم دینا اور برائی کو روکنا امت مسلمہ کا مقصد وجود بتایا گیا ہے، جس کی ادائیگی کے بغیر وہ اپنا وجود کھو جائے گی۔ اس لیے ہر کلمہ گو کو ان برائیوں کے سدباب کے لیے اپناکردار ادا کرنے کی تیاری کرنی چاہیے۔ ہمارے سامنے تیونس کی تازہ مثال موجود ہے۔جہاں دنیا کی ہر برائی موجود تھی،یہاں تک کہ مسلمان ملک میں پردہ کرنے پر پابندی تھی۔ فحاشی اور عریانی اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ امریکہ اور یورپی ممالک تیونس کو مثالی مسلم سٹیٹ قرار دے رہے تھے۔ اس کے باوجود جب عوام نے ہوش کے ناخن لیے اور ملک کو برائیوں سے پاک کرنے کا ارادہ کرلیا تو انہوں نے ناپاک حکمرانوں کو دیس نکالا دیا اور ایک اسلامی تحریک کے حق میں رائے دے کر ملک کی سمت درست کردی۔ہمارے ہاں بھی امید کی کرن موجود ہے۔ صرف پیشہ ور مذہبی طبقے کے چنگل سے عوام کو نکال کر حقیقی اسلامی انقلاب کی طرف راغب کرنا ہے۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105471 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More