بہت اُداس ہیں ہم تیرے چُپ ہو جانے سے

آہ ! 13 مئی اتوار کا دن تھا ،زمین کی فضائیں سوگوار تھیں ،ایسا لگتا تھا زمین کو پتا چل گیا کہ آج مجھ پر پہاڑ ٹوٹنے والا ہے، سمندر ساکت تھا ،چرند و پرند خاموش تھے ،جیسے کوئی سوگ منایا جارہا ہے ،کوئی آفت ٹوٹنے والی ہے ، کوئی مصیبت آنے والی ہے ، ایسا لگتا ہے آج کوئی رخصت ہو رہا ہے ۔دوسری طرف آسمان کا ماحول اِس کے برعکس ہے ،جشن منایا جارہا ہے ۔ جنت کو دلہن کی طرح سجایا جارہا ہے ۔ خوان سج رہے ہیں ۔ حوریں سنور رہی ہیں ۔ گویا کسی کا استقبال ہورہا ہے ۔ کسی کی آمد کا جشن منایا جا رہا ہے ۔ کسی کو خوش آمدید کہنے کی تیا ری ہو رہی ہے ۔یہ کس کا استقبال ہونے والا ہے ۔؟ یہ کون دنیا چھوڑ کر جا رہا ہے۔؟ یہ کون ہمیں تنہا کر کے جا رہا ہے ؟یہ کون اپنا سایہ شفقت سمیٹ کر جارہا ہے۔ ؟دل نہیں مانتا مگر یہ داعی قرآن جارہا ہے ۔ مفسر قرآن جا رہا ہے ۔ آہ یہ ماہربیان القرآن وصاحب اللسان جارہا ہے۔یہ صاحبِ پکارجارہا ہے۔

اس کو معذور لکھوں یا معذوروں کا ڈاکٹر ؟یہ ایسا ڈاکڑ کہ اللہ ہر اتوار کو اُس کے ہاں ایسا مریضوں کا ہجوم کہ سب کے سب شفا لے کر جاتے نظر آتے ہیں ۔ قریب والے تو فیض پاتے ہی پاتے اِن کے طفیل دنیا جی ہاں ایک انٹرنیٹ کی دنیااس لاریب دوا سے مستفید ہوتی تھی ۔ خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ)کی رو سے تمام انسانوں میں سب سے بہتر توتھے ہی مگر اِس کے ساتھ ساتھ اُن کی دردِ اُمت سے نکلتی آواز کو سن کر کہا جا سکتا تھا کہ واقعی دل کی بات اثر کرتی ہے ،جیسے
نکلتی ہے جو بات دل سے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

حسب ِمعمول وہ اپنا درس سنا کر، لوگوں کے دل جیت کر ،لوگوں کو اپنی پُر اثر آواز سنا کر، رلا کر ،جانبِ منزل رواں دواں تھا کہ چند فرلانگ تک گاڑی گئی مگر ناعاقبت اندیشوں نے اس درویش ِخدا مست کو ہم سے چھین لیا ۔اُن کے سارے خوابوں کوختم کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔کسے خبر کہ یہ خواب توچودہ سو سال پہلے سے مہتاب سے زیادہ روشن ہو کر باطل کے اندھیروں میں اپنا آپ منوا چکاہے ۔ ۲دن بعد حیدرآباد جاکر اپنی آواز کا جادو جگانا تھا ،اپنی خوبصورت آواز سے لوگوں کو قرآن سے جوڑنا تھا لیکن آج اُسے یاد اور محسوس کر سکتے ہیں مگر خود کے سامنے موجود نہیں پاتے ۔کیوں کہ اُس دن ظالموں نے ،اسلام کے دشمنوں نے ، یہودیوں کے پروردہ اور اسلام و قرآن سے بغض رکھنے والوں نے اُسے شہید کردیا۔اِنّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُون۔

اب آہیں ہیں کہ بند نہیں ہوتیں ۔یا اللہ کس کے سامنے جا کر روئیں! اب تو سر پر ہاتھ رکھنے والے اور تسلیاں دینے والے بھی ایک ایک کر کے جا رہے ہیں۔ کس کو جا کر اپنے زخمی زخمی دل دکھائیں؟ کون اِس گھڑی ہمارے سر پر ہاتھ رکھے گا ؟ کون اب دلاسا دے گا؟کون آج ہمارے آنسو پونچھے گا؟یہ ایک شخص کی موت نہیں ہے ۔ یہ پورے عالم کی موت ہے۔میرے آقاﷺنےفرمایا تھا۔موت العالم موت العالم

وہ تو اپنی منزل پا گئے ہر مسلمان دعا کرتا ہے ”یا اللہ اپنی راہ میں شہادت اور اپنے نبی کے شہر کی موت نصیب فرما“ان کی دعا مقبول ٹھہری لہٰذا وہ تو اپنی منزل کی جانب چل پڑے ۔وہ تو روزِ قیامت سرخرو ہو کر کھڑے ہوں گے۔ رب کے عرشِ کے سائے میں۔وہ تو نبی کریم ﷺ کے محبوبین کی فہرست میں کھڑے ہوں گے۔ لوگوں کا حساب کتاب دیکھ رہے ہوں گے۔ رہاان کا حساب کتاب تو وہ اللہ عزوجل اپنے فضل سے حذف کردیں گے۔گولیاں تقسیم کرنے والوں کو کیا مطلب ان کا مکرو مشن پورا ہو چکا ۔موت تو قاتلوں کی آئے گی ۔وہ مرزائی جیسے دجال کی صورت آئے یا گستاخ صحابہ کی صورت آئے ۔ ”نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم“ کی طرح نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے ۔

پچھلے سال حیدرآباد میں مدرسہ میں حضرت شیخ صاحب تشریف لائے ۔اللہ اکبر! ایسا قرآن سنایا کہ پہاڑوں کا کلیجہ شق ہوجائے ۔ایسی تقریر دل پذیر کہ بس تاثیر ہی تاثیر رکھی تھی ۔اللہ نے اُن کی زبان و بیان میںایسی مٹھاس رکھی تھی کہ ایک بار سننے والا بار بار سنتا تھا ۔ انسان سننا شروع کرے تو وقت کے احساس سے بے گانہ ہوجائے آس پاس سے بے خبر ہوجائے ،دنیا ومافیہا بھول کر صرف اور صرف انکی آواز سنتا رہے۔حضرت بیچ بیچ میں کچھ چٹکلے بھی چھوڑ رہے تھے فرمایا”یہ مزاحیہ کلمات و واقعات اس لئے سنا رہا ہوں کہ اگر کسی کو نیند آرہی ہو یا غنودگی چھا گئی ہو تو وہ دور ہوجائے“حضرت کا ارادہ اُس دن اسی مدرسہ میں رات کو رکنے کا تھا اور ہماری ان کی نورِ نظر (بیٹی) سے ملاقات متوقع تھی اور ہم بہت خوش تھے کافی دیر انتظار کیا لیکن پتا چلا کہ حضرت اسی وقت لاہور کے لئے روانہ ہو چکے ہیں ۔دل اداس ہوگیاتھا۔ایک آس تھی کہ اگلی بار شاید کبھی مل پائیں گے لیکن وہ آس آس ہی رہی ۔

اب تو ہم بس یہی تمنا کر سکتے ہیں کہ اللہ ہمیں ان بزرگانِ دین کے ادھورے کام کو پورا کرنے کی سعادت و توفیق نصیب فرمائے اور ان سے محبت رکھنے اور انکی مشابہت اختیار کرنے پر اللہ عزوجل ان کا ساتھ جنت میں عطا فرما دے ۔کہ۔حدیث کے مفہوم کے مطابق ایک ایک کر کے علمائِ حق چلے جائیں گے۔دنیا اور قیامت کی سختیاں جھیلنے کے لئے ہم جیسے حقراءہی رہ جائیں گے۔اللہ ہم پر بھی اپنا فضل فرمادے اور جب تک کی زندگی لکھی ہے اپنے دین کی خدمت کا موقع دے دے ۔آخر میں حضرت شیخوپوری ؒ کے نام ایک شعر جو اس دن بے اختیار دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلا تھا۔
بہت اداس ہیں ہم تیرے چُپ ہو جانے سے
مت جا ہمیں چھوڑ کر موت کے بہانے سے
تو لاکھ ہم سے خفا سہی مگر اتنا تو دیکھ
ہم ٹوٹ جائیں گے تیرے روٹھ کے چلے جانے سے
Dr Latafat Naeem
About the Author: Dr Latafat Naeem Read More Articles by Dr Latafat Naeem: 2 Articles with 1368 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.