اسلم شیخو پوری شہید ؒ کی ”پکار“

سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ انسانی سر وںکے اوپر اپنی تپش برسا رہا تھا ۔لوگ تھے کے جمے بیٹھے تھے ۔بجلی حکومت کی نااہلی کا واضع پیغام بار بار دے رہی تھی ۔اُس کی آنکھ مچولی کا کھیل جاری تھا۔مگر کوئی ایسی چیز تھی جس کی وجہ سے یہاں بیٹھے لوگ بلکل کسی بھی قسم کی بوریت محسوس کرنے کے بجائے ہمہ تن گوش اِس گرمی کے عالم میں ”القرآن کورسز نیٹ ورک“ کے زیر اہتمام اِس ماہانہ درسِ قرآن میں شریک تھے ۔یہ ایک فطرتی عمل بھی ہے کہ جب واعظ یا مقرر بیان کر رہا ہو لائٹ چلی جائے تو طبیعت کو یہ چیز ناگوار گزرتی ہے ۔مگر کمال شخصیت تھی کہ جس طرح خوشی سے موت کو گلے لگایا اِسی طرز پر بجلی کی اِس شرارت کو بھی برداشت کیا ۔یہ کوئی پہلا دن نہیں تھا بلکہ ہر ماہ کے دوسر ے اتوار کو اِسی وقت اِسی مقام پر یہی نابغہ روزگار شخصیت منفرد انداز سے ایک اچھوتے اور وقت کے تقاضے کے عین مطابق نئے موضوع کے ساتھ درسِ قرآن دینے کے لئے حاضر ہوتی تھی ۔ انہیں سنا اور بار بار سنا ہر بارکچھ نیا ہی سنا ۔وہ بولنے لگتے تھے تو جی چاہتا کہ بولتے ہی رہیں ۔اتنی صاف اور دبنگ آواز کے سنتے ہی اپنی آواز بھول جائے ۔ایک ایک جملہ دل و دماغ میں نقش بناتا چلا جاتا ۔ایسا جامع ، مانع درس کہ انہوں نے ایک حلقہ اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا ۔مرد اور عورتیں چھٹی کے دن بھی اِس درویش ِخدا مست کی” پکار“کو سننے کے لئے کہاں کہاں سے کچھے چلے آتے ہیں۔

آج بھی اِس درس ِقرآن میں اِس بے مثال شخصیت کاخطاب ِلاجواب تھا ۔ وہ مغربی تہذیب کے تین سو سال پہلے ہونے والے نسلی اور نظریاتی ابتدا ءاور آج کے دجل کو بے نقاب کر رہے تھے ۔مگر انداز ایسا کہ ریڑی بان بھی سمجھ رہا تھا ۔اور گہرائی اتنی کہ اہل علم بھی انگشت بدنداں تھے ۔ انہوں نے یونانی تہذیب کی خصوصیات کو کھولاکہ وہ غیر محسوسات کو بے وقعت مانتے سمجھتے تھے جب کہ اسلام میں تو اِن مُغیبات کی سب سے زیادہ اہمیت ہے ۔دوسری اُن کی خصوصیت کہ اُن میں روحانیت کی کمی تھی ۔تیسری خصوصیت دنیا کی زندگی کی پرستش ،فریفتگی اور جنون کی حد تک تھی ۔چوتھی اُن کی خصوصیت کہ وطن کی محبت میں غلو ،تشدد ،افراط تھا ۔جب کہ اسلام بھی وطن کی محبت کی تعلیم سیکھاتا ہے اور خود نبی کریم ﷺاور حضرات صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں سے بھی وطن کی محبت کے بے شمار پہلو ملتے ہیں لیکن وطن کی محبت ایمان پر مقدم نہیں کی جاسکتی ۔

پھر آہستہ آہستہ رومی تہذیب یونانیوں کی جانشین بنی ۔ عیسائیت میں رہبانیت کا چرچہ ہوا ۔اہل کلیسا اور” روشن خیالوں“(رہبانیت کے مقابل) میں چپکلش شروع ہو گئی ۔اقتدار اہل کلیسا کا تھا ۔تاہم تیس لاکھ ان ”دانشوروں“ کو سزائیں دی گئیں ،32ہزار کو زندہ جلا دیا گیا ۔مگر اِن دانشوروں سے ایک غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے بھی جدید تمام چیزوں کو الحاد قرار دے دیا ۔ورنہ اُس ظلم کے بعد کے ردعمل میں موقع تھا کہ مسلمان اُٹھتے اور یورپ میں اسلام کی دعوت پھیلاتے مگر ایسا نہ ہوا اوروہاں پر مادہ پستی چھا گئی ۔اگر دانشور اُس وقت مذہب کو پرائیوریٹ زندگی تک محدود نہ رکھواتے بلکہ کوششوں اور کاوشوں سے اُسے اجتماعی زندگی تک لاتے تو منظر اور ہوتا ۔

جس طرح یونانی تہذیب کے کچھ عناصر تھے اِسی طرح دجالی تہذیب کے بھی کچھ ترکیبی عناصر ہیں ۔اِن کا سب سے بڑا عنصرخود اُس کا نام ِ”دجل“ ہے ۔یہ تہذیب ملمہ سازی ،جھوٹ ،دھوکہ دہی سے بڑی پڑی ہے ۔ایک شخص کا جھوٹ ایک دو یا کچھ لوگوں کے لئے مضر ہوتا ہے مگر اِن کا جھوٹ قوموں اور نسلوں کو تباہ کر دیتا ہے ۔مثلا اِن کا ” آزادیِ نسواں“کاپر کشش نعرہ جس نے آج ہماری مسلمان بہین کو شو پیس بنا دیا ۔خاندانی نظام کو تباہ کر دیا۔نکاح کا مقصد ختم کردیا ۔عیاشی کا ساماں بنادیا۔شادیوں کو مشکل بنا کر زنا کو عام کروا دیا۔وہ عورت جو منکوحہ بن کر حقوق کی مالکن بنتی ہے اُسے آزادی کے جھانسے میں پھنسا کر تباہ کردیا۔اِس حد تک آزادی کے نعرے کو پھیلا دیا کہ عورت یہ تک بھول گئی کہ مجھے تو اصل حقوق اسلام نے دیئے ہیں ۔

اِس دجل کا ایک اور نعرہ ”آزادی اظہار رائے “ظالم اِس نعرے کی آڑ میں شعائر اسلام کا مذاق اڑانا چاہتا تھا۔ اِس نعرے کی آڑ میں مقدس شخصیات پرجو دشنام طرازی کی جاتی ہے ظالم اُس کو عام کروانا چاہتا ہے ۔ایک اور نعرہ ”معیار زندگی کی بلندی “کا ہے ۔جھوٹ کا بانی و ماسٹر یہ دجل اِس نعرے کی آڑ میں وہ خواب دکھا رہا ہے کہ جس کے بس میں بائیسکل خریدنا ممکن نہیں وہ قرض لے کر معیار زندگی کو بلند کرنے کے لئے سودی قرضے کا خواہاں نظر آتاہے ۔جھونپڑے میں رہ کر کل تک صابر وشاکر آج محلات کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے اِس سودی قرض کے حصول کے لئے سر گرداں ہے ۔ہم جنس پرستی کو فروغ دے کر شادی کے مقصد یت کا جنازہ نکالنا چاہتا ہے ۔یہ اِس دجل کی جھلک ہے جس کا جھوٹ میری قوم کو زہر قاتل کی طرح ختم رہا ہے ۔آج کی ”پکار “ کی یہ مختصر تین جھلک ہے تفصیل پھر سہی ۔یار زندہ صحبت باقی ۔

آج کی سب سے بڑی جنگ دو تہذیبو ں کی جنگ ہے ۔ایک جھوٹ ،دجل ۔فریب،مکاری تو دوسری سچ ،حق اور اخلاص کی تہذیب ہے ۔داعی ومفسر ِقرآن معذوری کے باوجود اتنے لمبے لمبے اسفار طے کر کے لوگوں تک آواز اور قلم کے ذریعے اپنی”پکار“پہچاتے تھے ۔انٹرنیٹ کی دنیا سے قرآن کی ”پکار“کو اطراف و اکناف ِ عالم کے کونے کونے تک پہنچا دیا ہے ۔اُن کا قلم سیل ِرواں کی طرح چلتاتھا اور ہفت روزہ ضرب مومن میں اُن کی ”پکار“بہت دور دور تک پڑھی جاتی تھی۔اور اُن کی زبان سے آنے والی قرآن کی ”پکار“سے بے شمار لوگوں کے زنگ اُترے اور ایسے اُترے کہ وہ بھی اِس دعوت کو ”پکار “اُٹھے ۔بہت سارے دینی سلسلوں کی سر پرستی اُن ہی کا خاصہ تھا ۔اُن کی ”پکار“ایک شخص کی نہیں بلکہ تحریک کی ”پکار“تھی ۔وہ اپنی ”پکار“میں سوز و ساز کا جادو رکھتے تھے ۔اُن کی” پکار “دلوں کے تار ہلاتی تھی اور سوتوں کو جگاتی تھی اور جاگتے ہوﺅں کو چلاتی تھی۔اُن کی ”پکار “میں بیک وقت دل لگی اور دل کی لگی دونوں پائی جاتی تھی۔
تیری پکار سے بزم ِدہر میں ،میں نے
ذرا پھر سے آ،بڑی رونق دیکھی ہے

بہت پہلے سے اُن کی ”پکار“ کو پڑھ تو لیا تھا مگر سب سے پہلے اِس ”پکار“کو اِسی مقام ”القرآن کورسزنیٹ ورک“بہادرآباد کے ہیڈ آفس میں ماہانہ درس قرآن میں سنا تھا ۔بس پھر اِس” پکار“نے اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا کہیں بھی کسی بھی مصروفیت میں ہوں پھر یہ ”پکار “ہر ماہ کے دوسرے اتوار کو یہاں بلا لیتی تھی اورآج آخری مرتبہ بھی اِسی مقام پر شہادت کا جام پینے سے کچھ دیر پہلے اِس پکارکو سنا تو جس انداز میں وہ ”پکار “تھی اُس میں نہ سہی مگر کئی کالموں کا پیٹ اُن کی آخری ”پکار “سے بھرے جا سکتے ہیں ۔ وہ سنا کر اور ہم سن کر اپنی اپنی منزل کی طرف چلے وہ حقیقی اور بامسعود منزل پاگئے اور ہم اُن کی شہادت کی خبر سن کر نا یقینی کی صورت میں اُن کی آخری” پکار “کاایک ایک لفظ دہراتے رہ گئے ۔

بلا کسی تردد کے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اُنہی لوگوں کے ہاتھ مولانا اسلم شیخوپوری شہیدؒکے خون سے رنگین ہیں جنہوں نے چمنستان ِعلوم ِنبوت سے مولانا یوسف لدھیانوی ،مفتی نظام الدین شامزئی ،مفتی عتیق الرحمن ،مولاناحبیب اللہ مختار ،مفتی عبد السمیع ،مفتی محمد جمیل خان ،مولانا عنایت اللہ ،نذیر احمد تونوی ،احمد بخش ایڈووکیٹ،قاری شفیق الرحمن علوی ،مفتی سعید احمد جلال پوری ،عبدالغفور ندیم جیسے مایہ ناز خوشبوئیں بکھیرتے پھول چنے ہیں ۔ اگر آج بھی اہل حق ایک جگہ مل کر کوئی ٹھوس حل نہیں تلاش لیتے تو کوئی بعید نہیں کہ آنے والے کل کسی اور ”پکار “ کی قربانی دینی پڑے ۔اسلام کے لیے ”اسلم “ کی قربانی اور قرآن کے لئے اُن کی آخری ” پکار“میں ہمارے لئے ایک واضع پیغام تھا ،جسے بڑے علماءکو سوچنا ہو گا اور واضع حکمت عملی کے تحت ایک واضع راستہ اپنانا ہو گا ورنہ ہم بقول لطافت نعیم یہی کہتے رہ جائیں گے ۔ ۔ ۔ ۔
بہت اداس ہیں ہم تیرے چپ ہو جانے سے
مت جا ہمیں چھوڑ کہ موت کے بہانے سے
تو لاکھ خفا سہی مگر اتنا تو دیکھ
ہم ٹوٹ جائیں گے تیرے روٹھ کہ جانے سے
Azmat Ali Rahmani
About the Author: Azmat Ali Rahmani Read More Articles by Azmat Ali Rahmani: 46 Articles with 55168 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.