مارکیٹ کا آنکھوں دیکھا حال

جس شے کا انسان مالک نہ ہو اس کی خریدوفروخت سے شریعت نے منع فرمایا ہے،کیونکہ بیع تو تب ہوگی جب وہ انسان کے ملکیت میں ہو اور عندالوقت اسے حوالہ کرنے کی قدرت بھی ہو۔آج کل مارکیٹوں میں جتنا نقصان ہورہا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ ایک شے مارکیٹ میں موجود ہی نہیں اور نہ ہی فروخت کرنے والے کو اس پے قدرت ہوتی ہے، اس کے باوجوداس شے کو فروخت کیا جارہا ہوتا ہے اور اس کا سودا آگے لوگوں کے درمیاں طے ہوتاجاتا ہے۔اسلام ایک ایسا واحد مذہب ہے جس نے انسانوں کے لئے ہر چیز کی ایک حد مقرر کی ہے۔اسلام انسان کے جان ومال کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

کچھ دن پہلے ایک شخص سے بات ہوئی ،اس کا واسطہ مارکیٹ اور اس کے اندر ہونے والے معاملات سے بہت زیادہ تھابلکہ یوں کہہ دیتے ہیں کہ وہ مارکیٹ کا ایک خاص آدمی تھا،میں نے اس سے مارکیٹ کے لین دین کے بارے میں دریافت کیا ،تو اس نے میرے سوال کے جواب میں ایک بات کہی کہ مارکیٹ میں جتنے بھی لوگ ہیں اکثریت ان میں سے ایسی شے کی خریدوفروخت کرتے ہیں کہ جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ شخص اس پے قادر ہوتا ہے کہ اس شے کو سامنے پیش کرسکے پھر اس نے تفصیل سے بات شروع کی کہ ہوتا یوں ہے کہ ایک شخص نے بات کی کہ میرے پاس فلاں شے ہے اور اتنی اس کی قیمت ہے ،دوسرے نے پیسے دیئے اور رسید لے لی ،اب یہ دوسرا بندہ ،وہ رسید لے کر دوسرے کے پاس جاتا ہے اور اس کو کہتا ہے کہ میرے پاس فلاں شے ہے اور اتنی اس کی قیمت ہے اور اس کو اپنی رسید دیتا ہے اس طرح سے یہ معاملہ آٹھ سے دس افراد کے درمیان طے ہوجاتا ہے، لیکن جب مال دینے کا وقت آتا ہے تو مال سرے سے ہوتا ہی نہیں ،اس صورت میں سب سے آخر میں خریدنے والا آدمی اپنے خریدار سے رجوع کرتا ہے اور وہ اپنے خریدار سے ،اسی طرح یہ سلسلہ چلتے چلتے دوبارہ پہلے بندے تک پہنچ جاتا ہے ،لیکن اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے وہ بندہ تو موجود ہی نہیں ہوتا جس نے سب سے پہلے مال فروخت کیا تھا،اب یہ سارے آپس میں لڑنے لگتے ہیں اور کئی عرصے تک یہ لڑائی چلتی ہے اور اس طرح کی لڑائی روز کا معمول ہوتا ہے بسا اوقات معاملہ اتنا گھمبیر ہوجاتا ہے کہ ایک دوسرے کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے،ان سب حضرات کا پیسہ ڈوب جاتاہے،اکثر حضرات دیوالیہ ہوگئے ہیں،چلتے پھرتے کاروبار ی شخص کی حالت ایسے ہوجاتی ہے کہ وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے اوراس شخص کو دیکھو گے تو عقل یہ بات تسلیم کرنے سے قاصر ہوگی کہ یہ شخص بھی پہلے بڑا کاروباری آدمی تھا،بڑے بڑے دیندار لوگ بھی اس معاملے کا شکار ہوچکے ہیں،یہ سب کچھ شریعت کے ایک حکم کی پاسداری نہ کرنے کی وجہ سے ہوا۔

یہ بات یاد رکھو کہ شریعت نے بیع سلم کو جائز قرار دیا ہے جس میں پیسے پہلے وصول کئے جاتے ہیں اور مبیع بعد میں دی جاتی ہے ،مگر اس کے لئے بھی چند شرائط مقرر کئے ہیں،مثلاً اس مبیع کا وصف معلوم ہو، جنس معلوم ہو،قدر معلوم ہو،مبیع سپرد کرنے کا وقت معلوم ہووغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح اور بھی شرائط ہیں،اگر ان شرائط کے موافق نہ ہو تو پھر اس کی بھی اجازت نہیں ہے۔

مارکیٹ میں اس طرح کی خریدوفروخت اگر کامیاب ہوبھی جاتی ہے یعنی مال پہنچ بھی جاتا ہے تو اس میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ایک شے جسے خریدا جارہاہے اپنی قیمت سے کئی گنامہنگی خریدی جاتی ہے مثلاً ایک شے کی قیمت 5روپے ہے جب اتنے افراد کے ہاتھوںسے گزر کر جاتی ہے تو اس کی قیمت 50 روپے کو پہنچ چکی ہوتی ہے،اب اس میں نقصان عام خریدنے والوں کا ہوتاہے۔شریعت نے نفع کے لئے کوئی حد تو مقرر نہیں کی لیکن اتنانفع بھی نہیں ہونا چاہیے جس سے لوگوں کو تکلیف ہو،5روپے کی شے 50میں خریدنا اس سے اور بڑہ کرتکلیف کیا ہوسکتی ہے، اس طرح کے معاملات میں اور بھی امور فاسدہ ہیں ان امور فاسدہ کی وجہ سے شریعت نے اس طرح کے معاملات سے منع فرمایا ہے۔

بسا اوقات ایک دوکاندار اپنی اشیاء فروخت کرنے کے لئے طرح طرح کے حیلے و بہانے کرتا رہتا ہے،کبھی ایک شے کے بجائے دوسری شے فروخت کردیتا ہے ، کبھی نقل کو اصل کی صورت میں پیش کرکے فروخت کرتاہے،کبھی کہے گا کہ پوری مارکیٹ میں اعلیٰ معیار کا مال صرف اور صرف ہمارے پاس ہی فروخت ہوتا ہے باقی حضرات تو جعلی مال فروخت کرتے ہیں عام اصطلاح میں اسے دو نمبر مال سے تعبیر کیا جاتا ہے،کبھی گاہک کے پاس نزدیک آکر اس کے کان میں کہے گا کہ اصل میں اس شے کی قیمت زیادہ ہے لیکن صرف آپ کے لئے کم کردیتا ہوں حالانکہ اس کو اصل قیمت سے زیادہ بتاتا ہے اور پرانی قیمت پر فروخت کردیتا ہے،غرض طرح طرح کے جھوٹ بول کر اپنا مال فروخت کرنے کی کوشش کرتا ہے،اس سے شریعت نے منع فرمایا ہے جو رزق آپ کے مقدر میں ہوگی وہ آپ کو ملے گی اس کے لیے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیںاور سچ بولنے کے بہت سے فوائد ہیں، ایک کاروبار میں برکت ہوگی ،دوسری یہ کہ جس کو بھی آپ مال فروخت کروگے دوسری مرتبہ بھی وہ آپ ہی کے پاس آئیگااور تیسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ ثواب بھی ملے گا،کاروبار تو ایسے بھی کرنا ہے کیوں نا سچ بول کے کیا جائے۔

آپ نے دیکھا ہوگا ،دوکان کے باہر بڑے بڑے حرفوں میں لکھا ہوتا ہے کہ خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوگا،حالانکہ یہ بات بھی شریعت کے منافی ہے،جب ایک بندہ کو مال پسند نہیں آیا یا اس میں سے کوئی نقص نکل آئے تو وہ کیا کریگا اب اس کے لئے وہ چیز کسی کام کی نہیں،تو اسے اس بات کا حق ہے کہ اس شے کو واپس کرے۔باہر ممالک کے اکثر سپرسٹوروں میں لکھا ہوتا ہے کہ 3 یا 7دن کے اندر خریدی ہوئی شے واپس کرسکتے ہو ،یہاں تک کہ اگر اس میں آپ سے کوئی نقص پیدا بھی ہوا ہو تب بھی وہ اس نقصان کی قیمت وصول کرکے باقی رقم آپ کو واپس کردی جاتی ہے۔یہ ساری باتیں اسلام کی ہیں لیکن عمل ان پر غیر مسلم کررہا ہے،جس کی وجہ سے آج وہ ہم سے ہر میدان میں آگے ہیں۔آؤ سارے عزم کریں آج کے بعد جب بھی ہمیں کاروبار وغیرہ کا موقع ملا تو صرف اور صرف سچ ہی سے کاروبار چلائیں گے۔
Haseen ur Rehman
About the Author: Haseen ur Rehman Read More Articles by Haseen ur Rehman: 31 Articles with 57229 views My name is Haseen ur Rehman. I am lecturer at College. Doing Mphil in English literature... View More