بولتے فیصلے اور نواز لیگ

پروفیسر مظہر

مخنث ”تسائی لون“ چینی شہنشاہ ”ہوتی“ کے دربار کا معمولی عہدے دار تھا ۔ 105 ءمیں اس نے ”کاغذ“ ایجاد کیا اور شاہ کا مقرب ٹھہرا ۔ لیکن طبقہ اشرافیہ کو بھلا کیسے قبول ہوتا کہ ایک ”ہیجڑا“ ان کا ہمسر ٹھہرے ۔محلاتی سازشیں شروع ہوئیں اور آخر کار تسائی لون شاہ کی نظروں سے گر گیا ۔ اُمراءکے بہکاوے میں آ کر شہنشاہ نے اس کے لئے ایک انتہائی توہین آمیز سزا تجویز کرتے ہوئے اسے سرِ دربار ناچنے کا حکم دیا ۔غیرت مند تسائی لون نے شاہ سے اجازت لے کر غسل کیا ، بہترین لباس زیبِ تن کیا اور دربار میں پہنچ کر زہر پی لیا ۔تسائی لون تو اپنی غیرت پر قُربان ہو گیا لیکن چینی لوک گیتوں میں وہ آج بھی زندہ ہے ۔

اے کاش! قومی غیرت کو غیروں کے جوتوں تلے روندنے کا سبب بننے والے یہ بھکاری حکمران غیرت مند ہوتے خوا ہ ہیجڑے ہوتے ۔لیکن یہاں تو ڈھٹائی اور بے شرمی کا یہ عالم ہے کہ ”ملزم “ پر پھول نچھاور کئے جاتے ہیں اور ”مجرم“ بن جانے پر مبارک سلامت کا شور اٹھتا ہے ۔آئین سے وفاداری کا حلف اٹھانے والے آئین شکنی کا جشن مناتے ہیں اور ”عدل بنا جمہور نہ ہو گا“ کی رٹ لگانے والے آئین کی من مانی تشریح کرکےاپنے ہی منہ پر کالک ملتے ہیں ۔ استغاثہ اور صفائی کے وکلاء مل کرملزم کو بچانے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں اور عدالت کی معاونت کے لئے طلب کئے جانے والے نیب زدہ اٹارنی جنرل عدالتی فیصلے کو غیر آئینی قرار دیتے ہیں ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ جمہوری حکمران ہیں یا غنڈے موالی جنہیں ملک سے کوئی غرض ہے نہ قوم سے ۔ جو آئین کو تسلیم کرتے ہیں نہ نظامِ انصاف کو ۔ جن کا آئین ایوانِ وزیرِ اعظم سے شروع ہو کر قصرِ صدارت پہ ختم ہو جاتا ہے اور جمہوریت بے کس عوام کے لئے دو دھاری تلوار بن جاتی ہے ۔ سچ کہا تھا ولیم جیمز نے کہ ”شاید ہی کوئی درندہ ایسا ہو جو اپنی ہی جنس کو چیرتا پھاڑتا ہو سوائے انسان کے“۔

سپریم کورٹ کے فیصلے پر سجائی گئی پیپلز پارٹی کے جوکروں کی ”منڈلی“ خواہ کچھ بھی کہے لیکن یہ ثابت ہو گیا کہ ”ججز خود نہیں بولتے بلکہ ان کے فیصلے بولتے ہیں “۔ خناس کسی کے دماغ میں نہیں ، محترم گیلانی سمیت سبھی جانتے ہیں کہ عدلیہ کے فیصلے میں کوئی بھی ابہام نہیں لیکن اعلیٰ عدلیہ کے ہر فیصلے پر ”میں نہ مانوں“ کی تکرار پہلے بھی جاری تھی اور اب بھی جاری ہے ۔ عدلیہ کے غیر متوقع فیصلے سے حکمران بوکھلا گئے ۔ اعتزاز احسن تو متواتر شور مچا رہے تھے کہ اگر توہینِ عدالت پر چھ ماہ کی سزا ہو بھی گئی تو وزیرِ اعظم جیل میں بھی وزیرِ اعظم ہی رہیں گے ۔ یہ تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ عدالت توہینِ عدالت کے سیکشن 5 کے تحت تو تیس سیکنڈ کی علامتی سزا دے گی لیکن ساتھ ہی آرٹیکل 63 ون جی کے تحت ریفرنس بھی بھیج دے گی۔شاید اسی لئے بوکھلائے ہوئے اعتزاز احسن فیصلہ آنے کے کافی دیر بعد تک بھی یہ بتلانے سے قاصر رہے کہ عدلیہ ان کے ساتھ کیا ”ہاتھ“ کر گئی ہے ۔اب وزیرِ قانون یہ کہتے ہیں کہ ”Likely to be come “ کا مطلب ہے کہ نا اہلی ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ عدلیہ نے یہ بھی توکہا ہے کہ ” عدلیہ کی تضحیک کی گئی اور عدالتی فیصلوں پر جان بوجھ کر عمل نہیں کیا گیا “۔اسکے بعد سپیکر کے پاس ریفرنس الیکشن کمیشن کو نہ بھیجنے کا کیا جواز باقی بچتا ہے؟۔ کیا سپیکر صاحبہ یہ کہہ دیں گی کہ ججز جھوٹ بولتے ہیںاور ان کی تضحیک نہیں کی گئی؟۔ واضح رہے کہ چونکہ عدلیہ نا اہلی کا خود فیصلہ نہیں کر رہی تھی بلکہ ریفرنس بھیج رہی تھی اس لئے ”Likely to be come“ ہی لکھا جا سکتا تھا کیونکہ اگر عدالت نا اہلی کا فیصلہ ہی کر دیتی تو پھر عمل در آمد کے لئے کہتی ، ریفرنس نہ بھیجتی ۔ وزیرِ اعظم 26 اپریل کو نو بجکر پچاس منٹ پر مجرم قرار دیئے جا چکے اب صرف نا اہلی کا نوٹیفیکیشن باقی ہے اور گیلانی صاحب آئین و قانون سے نا بلد عوام کو یہ کہہ کر لاکھ گمراہ کرنے کی کوشش کریں کہ انہیں صرف سپیکر صاحبہ نا اہل قرار دے سکتی ہیں لیکن یہ وہ خودبھی جانتے ہیں کہ سپیکر کی حیثیت محض ”ُپوسٹ آفس“ کی سی ہے ۔

گیلانی صاحب نے واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کر دیا ہے کہ اگر وہ وزیرِ اعظم نہ رہے تو آمدہ وزیرِ اعظم بھی خط نہیں لکھے گا ۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ جو سمری ان کے پاس آئی انہوں نے اسی پر عمل کیا ۔ بجا ارشاد کہ سمری بھیجنے والوں نے انہیں گمراہ کیا لیکن جب سپریم کورٹ نے انہیں بغیر کسی سمری کے خط لکھنے کا حکم دیا تو کیا انہوں نے وہ حکم مان لیا ؟۔ وہ فرماتے ہیں کہ ”ہمارا سامنا ”سپریم کورٹ “ اور ”شریف کورٹ“ دونوں سے ہے اور نواز لیگ پہلے سے جانتی تھی کہ فیصلہ کیا آنا ہے اسی لئے پہلے الیکشن کمشنر کے ریٹائر ہونے کا انتظار کیا گیا پھر جھٹ سے سپریم کورٹ نے ایکٹنگ الیکشن کمشنر بھیج دیا “۔اس بیان سے صاف نظر آتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو عدلیہ پر سرے سے اعتماد ہی نہیں ۔ جب عدم اعتمادی کا یہ عالم ہے تو پھر فیصلے کے خلاف اپیل کا ڈھونگ کیوں ؟۔نواز لیگ پر گرجتے برستے مجرم وزیرِ اعظم نے فرمایا کہ ” نواز شریف دو بار موقع ملنے کے باوجود حکومت نہیں چلا سکے “۔بجا ارشاد لیکن کیا محترمہ بینظیر چلا سکیں ؟۔پہلی بار تو دونوں کا ”پھڈا“ غلام اسحاق خاں سے پڑا جس نے انہیں چلتا کیا لیکن دوسری بار تو فاروق لغاری ان کا اپنا صدر تھا پھر اس نے بینظیر کی حکومت کا خاتمہ کیوں کیا ؟۔

یہ بھی عین حقیقت ہے کہ نواز شریف صاحب کی حکومت کے خاتمے کا سبب دونوں بار ہی ان کی معروف ”کچن کیبنٹ “ بنی جس کے مشوروں کو میاں صاحب صحیفہ آسمانی سمجھتے رہے اور اب بھی ان کے بزرجمہروں نے چار سال گزار دیئے اور پایا صرف ”فرینڈلی اپوزیشن“ کا طعنہ۔ دیر سے سہی لیکن بہرحال محسوس یوں ہوتا ہے کہ جیسے میاں صاحب کو اپنی غلطیوں کا ادراک ہو چکا ہے ۔انہوں نے پہلے دن ہی فرما دیا کہ وہ مجرم وزیرِ اعظم کو نہیں مانتے اور تیس اپریل کو پریس کانفرنس میں پوری قطعیت سے یہ کہہ دیا کہ ” اب do or die" " والامعاملہ ہے اور اگر اب بھی ہم باہر نہ نکلے تو یہ ملک و قوم سے غداری ہو گی ۔ “ سب کچھ بجا لیکن انہوں نے تحریک کا لائحہ عمل پھربھی نہیں دیا ۔ یہ تو وہ جانتے ہی ہوں گے کہ بجٹ سیشن سر پر ہے اور بجٹ سیشن کے دوران نہ تو کوئی تحریک چلائی جا سکتی ہے اور نہ ہی آئینی طور پر وزیرِ اعظم تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔اس لئے ان کے پاس گنے چُنے چند دن باقی ہیں ۔ نواز لیگ کو یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ عدلیہ کے پاس اپنی عزت و توقیر بچانے اور فیصلوں پر عمل درآمد کروانے کے لئے آرٹیکل 190 کے تحت سوائے فوج کو بُلانے کے کوئی آپشن باقی نہیں بچا ۔کیانی صاحب بھی یومَ شہداءکے موقعے پر خطاب کرتے ہوئے اشاروں کنایوں میں یہ وارننگ دے گئے ہیں کہ ’ ’ آئین میں واضح طور پر قومی اداروں کی ذمہ داریوں کا تعین کر دیا گیا ہے ۔ آئین کے مطابق حالات ایسے نبھائیں کہ ملک اور اداروں کے وقار میں اضافہ ہو “۔ اب یہ تو طے ہے کہ پیپلز پارٹی سیاسی شہادت کے لئے ”گند“ مچا رہی ہے اور مچاتی رہے گی اس لئے اگرعدلیہ کے طلب کرنے پر فوج آتی ہے تو پھرزیادہ سے زیادہ کیا ہو گا سبھی جانتے ہیں لیکن کم از کم انتخابات کا ڈول تو فوج کی زیرِ نگرانی ہی ڈالا جائے گا جو نواز لیگ کے لئے سرا سر گھاٹے کا سودا ہو گا ۔میں سمجھتا ہوں کہ نواز لیگ کے لئے ہر لحاظ سے بھر پور تحریک چلانے اور اپنی ساکھ بچانے کا یہی آخری موقع ہے۔۔۔۔میاں صاحب نے تحریکِ انصاف کو بھی اس احتجاجی تحریک میں شمولیت کی دعوت دی ہے لیکن کپتان صاحب تو پہلے ہی حسبِ عادت فرما چکے کہ ابھی پیپلز پارٹی نے فیصلے کے خلاف اپیل کرنی ہے اور اپیل پر عدلیہ کا فیصلہ آنے کے بعد وہ اپنے ”سونامی“ کو آواز دیں گے ۔ فی الحال تھکا ہارا سونامی استراحت فرما رہا ہے ۔گویا ”ہنوز دلی دور است“۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 867 Articles with 563844 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More