بلوچستان بارے

یہ بات اب ہر ایک قوم اور فرد کوسمجھ لینی چاہئے کہ کشور کشائی کا زمانہ گزر گیا ہے- حالات بدل گئے ہیں‘ جنگوں کے طریقہ کار اور قبضہ کرنے کے حربے تبدیل ہو گئے ہیں-مال غنیمت اور عورتوں کو لونڈیاں بنانے اور کثرت ازدواج کا زمانہ ختم ہو گیا- اب زبردستی نہ تو کسی کو غلام اور لونڈی بنایا جاسکتا ہے اور نہ مال غنیمت سے بھوک ہی دور ہو سکتی ہے-

آلات حرب ہی تبدیل نہیں ہوگئے انداز فکر بھی تبدیل ہے- اسی تبدیلی کو مد نظر رکھتے ہوئے اب یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ کوئی ادارہ خواہ پاکستان کی عسکری قوت ہی کیوں نہ ہو بغیر عوامی حمایت کے کسی بھی سطح پر جنگ نہیں جیت سکتی- جب ملکی سطح پر فوجی آپریشن ہوتے ہیں جبکہ آج کے زمانہ میں نہایت نامناسب ہیں تو ایک فوجی کے ذہن میں قوت سے فیصلہ حاصل کرنے کی نفسیات کارفرما ہوتی ہے- جب ایک بارقوت کا استعمال شروع ہوتا ہے تو پھر اس سے اگلی بار اس کے استعمال میں اضافہ ناگزیر ہو جاتا ہے- عسکری ادارہ کے افراد کے پاس اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہوتے ہیں تو وہ فرد اس وقت یہ بھول جاتا ہے کہ اس کا سامنایا واسطہ کسی دشمن ملک کی فوج کے ساتھ نہیں- وہ عوام کے ساتھ وہ رویہ اختیار کرتا ہے جو ایک دشمن کے ساتھ روا رکھنا اس کو سکھایا گیا ہوتا ہے-

فوج کسی بھی ملک کی ہو تقریبا تقریبا ان کی نفسیات ایک ہی ہوتی ہے فرق اتنا ہی پڑتا ہے کہ اگر کسی مہذہب ملک کی فوج ہو گی تو مہذب ہو گی اور اگر وہ کسی غیر مہذب ملک کی فوج ہو گی تو وہ اتنی ہی غیر مہذب ہوگی-

عسکری قوتوں سے ہمیشہ ہی یہ غلطی ہوتی ہے کہ وہ جب بھی اپنے ہم وطنوں پر فوج کشی یا فوجی آپریشن کرتے ہیں تو آپریشن کیلئے عسکری قوت کے ان افراد کا انتخابات کیا جاتا ہے جو دوسری رنگ ونسل کے ہوتے ہیں تو اس کی وجہ سے رابطوں کا فقدان یعنی کمیونیکیشن گیپ(Communication Gap) آجاتا ہے- قوت کا استعمال کرنے والے افراد کے کلچر اور روایات میں اور مفتوح افراد کے کلچر اور روایات میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے چنانچہ اس وجہ سے نفرت بڑھنا شروع ہوتی ہے اور آخر اس کا نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں نکلتا ہے-

بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد ہم نے اس موضوع پر کام کرنے والے یا اس کاذکر کرنے والوں کو غدار بنا کر رکھ دیا اور شجر ممنوعہ کے بارے بات کرنا آج بھی ایک سنگین جرم سمجھا جاتا ہے- کسی بھی مسئلہ کے حل کیلئے یہ بات ضروری ہوتی ہے کہ اس کے بارے میں مکمل آگاہی ہو-اس سے بھی پہلے یہ ضروری ہوتا ہے کہ کسی مسئلہ کو مسئلہ سمجھا جائے- ہماری سیاسی قوتیں ہر مسئلہ کو انصاف اور دانشمندی سے نہیں بلکہ سیاست یعنی ٹال مٹول اور انکار کر کے اس کا حل نکالنا چاہتی ہیں- بلوچستان کا مسئلہ آج کا نہیں ہے یہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کے ساتھ ہی اس مسئلہ نے جنم لے لیا تھا- ہم حسب روایت اور حسب عادت”سب اچھا ہے“ کی رپورٹ کے سہارے چلتے رہے- کسی بھی حکومت کے کسی بھی فرد نے یہ تسلیم نہ کیا اور اظہار نہ کیا کہ بلوچستان کا مسئلہ حل طلب ہے اس کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے- موجودہ حکومت تو جھوٹ کے پل باندھنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی اس لیے اس سے بلوچستان کے مسئلہ کے حل کی توقع عبث ہے- کل تک ان کے سیاسی عہدیدار پریس کلبوں میں سینکڑوں صحافیوں کے منہ پر کہتے تھے کہ بلوچستان میں کوئی ایسا علیحدگی پسندی والا مسئلہ نہیں ہے- چند لوگ ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں-

اب جبکہ یہ مسئلہ عالمی سطح سے اٹھایا گیا تو ہمیں ہوش آنا شروع ہوا کہ اس کے بارے غور کرنا چاہئے- خطرے کے نشان سے جب پانی اوپر چلا گیا ہے تو ہم بلوچوں کو منانے جا رہے ہیں-

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ایسے حالات میں روٹھنے والوں کو منایا جاسکتا ہے جبکہ ان کے سینوں میں دکھوں کے پہاڑ سمٹ کر جا بیٹھے ہیں- دوسرے ایسے وقت میں مذاکرات جب کئی غیر ملکی طاقتیں مبینہ طور پر بلوچوں کی امداد کرتی دکھائی دیتی ہیں یا اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ بلوچوں کو امید بندھ گئی ہے کہ دنیا میں کچھ لوگ ان کی مدد کو آسکتے ہیں ظاہر ہے اب مفادات کو مدنظر رکھ کر بلوچ بات کریں گے-

ایک اور پہلوبھی بلوچ مسئلہ کا کچھ اس طرح سے سامنے آیا ہے کہ کہنے والے کہتے ہیں کہ سرکاری سردار یعنی وہ سردار جو حکومت میں وہ ہر گز ہر گز نہیں چاہتے کہ بلوچستان کا مسئلہ حل ہو جائے- اسی طرح کی بدانتظامی میں ہی ان کی خوشحالی ہے- اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کروڑوں روپے کے فنڈز بلوچستان کے خرد برد کر لیے جاتے ہیں- حد یہ ہے کہ کوئٹہ شہر کی ایک سڑک بھی سلامت نہیں ہے- سیورج کا نظام نہ ہونے کے برابر- کوئی ترقیاتی کام بلوچستان میں شروع نہ ہو سکا- انتہا یہ ہے کہ پورے بلوچستان میں ایک بھی پراجیکٹ ایسا شروع نہیں ہو سکا جس کا براہ راست فائدہ عوام کو پہنچتا- ذاتی مفادات کی ایک ایسی جنگ میں بلوچستان اتر چکا ہے کہ جس میں غریب عوام کے ہاتھ بھوک‘ ننگ‘ ناداری اور مفلسی ہی آئے گی- جن سرداروں کو حکومتی سرپرستی اور مفادات کا حصول میسر ہے وہ نوجوانوں کو بھڑکاتے رہیں گے تاکہ بدانتظامی قائم رہے اور ان کی خوشحالی برقرار رہے- اس طرح یہ سردار حکومت کو بھی بلیک میل کر رہے ہیں اور دوسری طرف غریب جوانوں کو گمراہ بھی کر رہے ہیں- ان بچوں کے ذہن بھی اس طرح فریم ہورہے ہیں کہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ زور اور طاقت سے اپنی خواہشات پوری کر لیں گے- ان نوجوانوں کو بھی سمجھ لینا چاہئے کہ جس طرح کشور کشائی کا زمانہ گزر گیا ہے اسی طرح انقلابات کے زمانے بھی گزر گئے ہیں- مسائل کے حل اب مذاکرات میں ہی ہیں- ورنہ نقصان دونوں اطراف کا ہوتا ہے اور کوئی تیسرا اس تصادم کا فائدہ اٹھاجاتا ہے- اس کی سب سے بڑی مثال امریکہ اور روس کا تصادم جو افغانستان میں ہوتا رہا اس دوران چین نے فائدہ اٹھایا اور دونوں بڑی طاقتیں اپنے زخم ابھی تک چاٹ رہی ہیں-

ہمارے اس تصادم میں کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی غیر فائدہ اٹھا جائے اور ہمیں اس وقت ہوش آئے جب نقصانات کی تلافی ممکن نہ ہو-

اس وقت دنیا کے ہرشخص کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ روزی روٹی کا حصول صرف اورصرف امن کا مرہون منت ہے- جنگ وجدل اور بدانتظامیاں بے روزگاری اور بھوک و افلاس کوجنم دیتی- آج کا دور سرمایہ کاری کا دور ہے اور سرمایہ کاری اسی وقت وجود میں آتی ہے جب وہ دیکھتی ہے کہ علاقے میں سرمایہ محفوظ بھی ہے یا نہیں- اس میں شک نہیں کہ بلوچستان معدنی دولت سے مالا مال ہے لیکن اس دولت کے حصول کا ایک ہی راستہ ہے جس سے بلوچستان خوشحال ہو سکتا ہے اور وہ ہے امن کا راستہ اور مذاکرات- حالیہ زمانہ جس کو عصر جدید کہتے ہیں اس کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ علاقے جو بدامنی کا شکار ہیں وہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہوتے ہوئے بھی مفلسی اور بھوک ننگ کا شکار رہتی ہیں-
Ahmed Ghulam Daud
About the Author: Ahmed Ghulam Daud Read More Articles by Ahmed Ghulam Daud: 14 Articles with 10451 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.