تھانہ کلچر کی تبدیلی مگر کس طرح

کسی بھی ریاست کانظم ونسق چلانے کیلئے کئی ادارے اپنا فعال کرداراداکرتے ہیں ۔فوج سرحدوں کی محافظ ہے جبکہ پولیس اہلکار شہریوں کی جان ومال اورقومی املاک کی حفاظت کرتے ہیں جبکہ عدلیہ کاکام انصاف کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔فوجی دشمن ملک سے جبکہ پولیس اہلکار سماج دشمن عناصر سے لڑتے لڑتے جام شہادت نوش کرتے ہیں ،فوج کے شہیدوں کانشان حیدرسمیت کئی اعلیٰ اعزازات ملتے ہیں جبکہ پولیس کے شہیداہلکاروں کوصرف چندلاکھ روپے کے ساتھ ایک سندملتی ہے۔ہرانسان خواہ اس کاتعلق کسی بھی ادارے سے ہووہ اپنے خاندان کاکفیل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کیلئے ناگزیرہوتا ہے ۔کوئی انسان اپنے ادارے یاعہدے کی بنیادپرچھوٹایابڑانہیں ہوتابلکہ صرف اس کاکرداراورکام اسے دوسروں سے ممتاز بناتا ہے ۔مگربدقسمتی سے ہمارے ہاں بعض اداروں کے ساتھ امتیازی سلوک کامظاہرہ کیا جاتا ہے۔

دنیا کاکوئی ملک اورکوئی ادارہ کرپشن سے سوفیصد پاک نہیں ہے ۔ہمارے ہاں بھی سبھی ادارے کرپشن میں ملوث ہیں مگر''بدسے بدنام برا''کے مصداق پولیس کاادارہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بدنام ہے ۔پولیس سمیت ہرادارے میں بہتری اوراصلاحات کی گنجائش موجود ہے۔پولیس والے بھی ہمارے معاشرے میں سے ہیں جس طرح ایل ڈے اے اورواسا سمیت دوسرے اداروں کے اہلکاروں کاتعلق بھی اسی معاشرے سے ہے ۔جہاںاینٹی کرپشن کوآنٹی کرپشن کی صورت اختیار کرجائے وہاں کرپشن کس طرح ختم ہوگی ۔ماتحت عدالتوں میں ہونیوالی کرپشن بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔پولیس والے تشدد کے حوالے بھی مشہور ہیں توکیا وکلاءتشدد نہیں کرتے ۔ہمارے ہاں عام لوگ اپنے حقوق یامسائل کے حوالے سے احتجاج کرتے وقت توڑ پھوڑاورتشدد کرتے ہیں ،درحقیقت ہم من حیث القوم تشدد پسند ہوتے جارہے ہیں۔بات بات پرجھگڑنااورمرنے مارنے پراترآناہماری عادت ہوگئی ہے۔اگرایک شہری دوسرے شہری پرتشدد کرے تویہ معمولی بات ہے مگرجس وقت پولیس والے لاٹھی چارج کرتے ہیں تووہ ایشوبن جاتا ہے۔ہم پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں میں لاٹھی تودیکھتے ہیں مگر لاٹھی چارج کے پیچھے کس کاحکم تھا اس پرغورنہیں کرتے۔معاشرے کی بااثرشخصیات پولیس کواپنے مقاصداورمفادات کیلئے استعمال کرتی ہیں تاہم اس آڑ میں بعض پولیس آفیسراوراہلکار اپناذاتی فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔پولیس ایک ڈسپلن فورس ہونے کی حیثیت سے اپنے ارباب اقتدارواختیار کے احکامات کی پابندہے ۔ارباب اقتداراورمختلف بااثرشخصیات کے دباﺅاورسفارش پرپولیس حکام کواپنے ضمیر کی آوازکیخلاف کئی کام کرنے پڑجاتے ہیں ۔بلاشبہ پولیس میں کرپشن عا م ہے ، شریف شہریوں کوبہیمانہ تشدد کانشانہ بنایا جاتا ہے ،تھانوں میںجرائم پیشہ افرادکو وی آئی پی پروٹوکول دیاجاتا ہے ،کئی بیگناہ انسان بھی جعلی پولیس مقابلے میں مارے جاتے ہیں ،ضمنی اورچالان میں سقم کے نتیجہ میں خطرناک مجرم عدالت سے چھوٹ جاتے ہیں مگراس کے باوجود پولیس کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری پرسکون نیند کیلئے انہیں رات بھر گشت کر ناپڑتی ہے،عید سمیت کوئی بھی تہوار ہووہ اپنے اہل خانہ سے دورڈیوٹی پرہوتے ہیں۔اگرپنجاب کادوسرے صوبوں کے ساتھ موازنہ کیا جائے توپنجاب پولیس کی کارکردگی تسلی بخش ہے۔ شہرقائدؒ میدان جنگ بناہوا ہے جبکہ لاہور میں اس قسم کی صورتحال نہیں ہے ،اس پربلاشبہ لاہورپولیس شاباش کی مستحق ہے ،ہم انہیں سلیوٹ کرتے ہیں۔

اس کے باوجودتھانہ کلچر کی تبدیلی یہ وہ خواب ہے جو نہ جانے کب اورکس حکمران کے ہاتھوں شرمندہ تعبیر ہوگا۔ماضی میں بھی کئی بارپولیس کی کارکردگی بہتر بنانے اورعوام کاپولیس پراعتماد بحال کرنے کیلئے اصلاحات کی گئیں مگر ''ہنوزدلی دوراست ''کے مصداق پولیس کے مزاج ،رویے ،روش اورسوچ میں کوئی خاص فرق دیکھنے میں نہیں آیا۔ان دنوں پنجاب پولیس کی قیادت حاجی حبیب الرحمن کے ہاتھو ں میں ہے ،وہ ایک ایمانداراورفرض شناس پولیس آفیسر کے طورپر جانے جاتے ہیں۔انہوں نے مختلف صوبوں اورشہروں میں مختلف عہدوں پرکام کیا ہے وہ اس آئی جی پنجاب کیلئے وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف کابہترین انتخاب ہیں ۔مگریہ اوصاف حمیدہ ان کی ذات کامعاملہ ہیں دیکھنا یہ ہے وہ اپنے ادارے میں ایمانداری اورفرض شناسی کوکس طرح فروغ دیتے اورکرپشن کاسدباب کرتے ہیں۔اگرایک ادارے کے سربراہ کادامن کرپشن سے پاک ہومگراس کی ناک کے نیچے کرپشن کی گنگا رواں دواں ہوتواس کی قابلیت ایک سوا لیہ نشان بن جاتی ہے۔سی سی پی اولاہوراسلم خان ترین کاٹریک ریکارڈ اچھا ہے وہ اس سے پہلے بھی سی سی پی اولاہور کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں ۔ وہ اپنے پاس آنیوالے شہریوں اورسائلین کے ساتھ کافی نرمی اورخوش مزاجی سے پیش آتے ہیں جبکہ اپنے ماتحت اہلکاروں کے ساتھ ان کارویہ انتہائی سخت ہوتا ہے۔وہ اپنے ماتحت آفیسرزاوراہلکاروں کی اچھی کارکردگی پران کی حوصلہ افزائی جبکہ نااہلی پران کی سخت بازپرس بھی کرتے ہیں۔انہوں نے اس سے پہلے بھی سی سی پی او لاہور کی حیثیت سے اپنی قابلیت کالوہامنوا یاہے ،تاہم اُن دنوں شہرلاہورمیں امن وامان کے حوالے سے اِس قسم کے مسائل نہیں تھے جس طرح کے چیلنجز آج کل درپیش ہیں۔سی سی پی اولاہور اسلم خان ترین بلاشبہ ایک پیشہ وراورانتھک آفیسر ہیں ۔ جس طرح قانون کے شکنجے کاڈرانسانوں کو گناہ اورجرم سے بچاتا ہے اس طرح ایک آفیسر کادبدبہ بھی اس کے ماتحت اہلکاروں کواپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران مجرمانہ غفلت ،بدنیتی اوربددیانتی سے روکتا ہے۔ا مید ہے وہ عنقریب لاہور کے مختلف تھانوں میں اچانک چھاپوں کاسلسلہ شروع کریں گے۔ ماضی کی طرح اب بھی اسلم خان ترین ڈسپلن اورکارکردگی پرکمپرومائز نہیں کرتے۔وہ اپنے ماتحت آفیسرزاوراہلکاروں کی مثالی کارکردگی کیلئے سزاورجزاکے سنہری اصول پرکاربندہیں۔قائداعظم ؒ کافرمان''کام ،کام اورکام''ان کاماٹوہے۔ اس بار سی سی پی اولاہورکاقلمدان ملنے کے بعدان کا کئی ایک نئے مگر دوررس تجربات کرنے کاارادہ ہے جس کے یقینامثبت نتائج برآمدہوں گے ۔وہ پولیس اورشہریوں کے درمیان اعتماد کافقدان دورکرنے اورعوام کاپولیس پراعتماد بحال کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔اسلم خان ترین کافلسفہ ہے کہ پولیس اورعوام کے درمیان حائل دوریاں ختم کرنے سے تلخیاں اوربدگمانیاں بھی دورہوجائیں گی مگرظاہرہے اس کیلئے کچھ وقت درکار ہے۔شہریوں کوبھی پولیس کے مسائل اورمجبوریوں کوسمجھنا ہوگااورپولیس کوبھی قانون کے دائرہ کار میں رہ کرکام کرناچاہئے۔

تھانہ کلچر اورپولیس کامزاج بدلنا ہے تومحض آئی جی یا سی سی پی او کی تبدیلی سے کچھ نہیں ہوگابلکہ ارباب اقتدارکواپنامائنڈسیٹ بدلنا ہوگا۔سی سی پی اولاہوراسلم خان ترین ،ڈی آئی جی آپریشن رائے محمدطاہر،ڈی آئی جی انوسٹی گیشن ملک علی عامر،ایس پی سی آئی اے کیپٹن (ر)لیاقت اوران کے ٹیم ممبرڈی ایس پی سی آئی اے عاطف حیات کومجرمانہ سرگرمیوں کے سدباب اورخطرناک اشتہاریوں کی گرفتاری کا ٹاسک دینے سے کچھ نہیں ہوگا ۔وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف انہیں اختیارات اورفری ہینڈ بھی دیں اوراپنے ٹیم ممبرز منتخب کرنے کی آزادی بھی دیں ،اگراس کے بعد بھی کوئی آفیسرڈیلیور نہ کرے توپھراس کی بازپرس ضرورہونی چاہئے۔آرگنائزکرائم کیخلاف سی آئی اے کی کارکردگی کوسراہاجاناچاہئے ،پچھلے دنوں ڈی ایس پی سی آئی اے ماڈل ٹاﺅن عاطف حیات کوان کی اعلیٰ کارکردگی پرسابقہ سی سی پی اولاہورملک احمدرضاطاہر نے نقدانعام اورسند سے نوازاتھا،عاطف حیات ایک منجھے ہوئے پولیس آفیسر ہیں۔ اگر اسلم خان ترین شہرلاہور کے تھانوں میں قابلیت اوراہلیت کی بنیاد پراپنے باعتماد ایس ایچ اوتعینات کریں گے تو یقیناان کی اچھی اوربری کارکردگی کاکریڈٹ اورڈس کریڈٹ بھی انہیں ملے گااوروہ ارباب اقتدارکوجواب دہ ہوں گے لیکن اگرسفارش اورسیاسی وابستگی کی بنیاد پرایس ایچ اوزکالگایا جاتا رہا توپھر تھانہ کلچر قیامت تک نہیں بدلے گا۔وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف سچے دل اورسنجیدگی سے تھانہ کلچر کوتبدیل کرنے کیلئے کوشاں ہیں مگر ابھی تک انہیں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی ۔ملک احمدرضاطاہر ایک باصلاحیت اوردبنگ پولیس آفیسر ہیں ،انہیں ان کی درخواست پرسی سی پی اولاہورکے منصب سے تبدیل کردیا گیا ہے ،انہیں کسی اہم سیٹ پرلگایاجائے کیونکہ ان سے کوئی بڑاکام لیا جاسکتا ہے۔ڈی آئی جی آپریشن رائے محمدطاہر ڈیلیورکرنے کاعزم رکھتے ہیں ، اگروہ دباﺅاورسفارش کے بغیر اپناکام کریں گے تویقینا ان کی کارکردگی کوسراہاجائے گا۔ڈی آئی جی انوسٹی گیشن ملک علی عامر بھی لاہورپولیس کی کارکردگی میں بہتری کیلئے ٹیم ورک کے حامی ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف، حاجی حبیب الرحمن ،اسلم خان ترین، را ئے محمدطاہراورملک علی عامر کی طرف سے تھانہ کلچر کی تبدیلی کیلئے اٹھائے گئے اقدامات خوش آئندمگر ابھی ناکافی ہیں۔سٹیشنری اورگاڑی کی مرمت اورپٹرول سمیت تھانوں کے دوسرے اخراجات پولیس اہلکاروں کو اپنی جیب سے برداشت کرناپڑتے ہیں ۔ تھانوں میں نفری کی کمی اوراہلکاروں کے ڈیوٹی اوقات کاایشوابھی حل طلب ہے۔تھانوں میں تعینات ایس ایچ اوزاوردوسرے اہلکاروں کاکوئی ہفتہ وارڈے آف نہیں ہوتااوران سے 24/7 کام لیا جاتا ہے جوکوئی بھی نارمل انسان نہیں کرسکتا۔ایک انسان پر ایک دن میں آٹھ یادس گھنٹوں سے زیادہ کام کابوجھ ڈالنا سخت زیادتی ہے،اس کاانسان کی صحت کے ساتھ ساتھ اس کی نفسیات پربھی منفی اثرپڑتا ہے ۔ایس ایچ اوآپریشن سمیت تھانے کی پوری نفری کووی آئی پی شخصیات کی حفاظت پرلگاکرعوام کوڈاکوﺅں اوررہزنوں کے رحم وکرم پرچھوڑدیاجاتا ہے ۔ضرورت اس امرکی ہے کہ وی آئی پی موومنٹ کیلئے پولیس لائنزمیں تعینات آفیسرزاوراہلکاروں سے ڈیوٹی لی جائے ۔وہ اہلکارجوپولیس لائنزکے ڈیوٹی منشی کی ملی بھگت سے اپنے گھروں میں بیٹھے بیٹھے تنخواہ وصول کرتے ہیں ان کیخلاف سخت کاروائی کی جائے اورجواہلکارتنخواہوں کی تقسیم کے وقت فی اہلکار ریزگاری ادانہیں کرتے اوراس طرح ہرماہ لاکھوں کروڑوں روپے ہڑپ کرتے ہیں ان کامحاسبہ بھی ازبس ضروری ہے۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126739 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.