توبہ توبہ میری صلاحیتوں کا امتحان نہ لیا جائے

توبہ توبہ میری صلاحیتوں کا امتحان نہ لیا جائے، جھوٹ پکڑنے والا آلہ بھی پاکستان میں ناکام ہوگیا..؟

لو سنو...!!ایک خبر یہ ہے کہ ہمارے تفتیشی ادارو ں کو خطرناک دہشت گردوں سے دوران تفتیش جھوٹ پکڑنے کے جو دو آلے گزشتہ دوسالوں کے دوران اقوام متحدہ اور امریکا سے ملے تھے وہ بھی ہمارے یہاں ناکام ہوگئے ہیں اِس کی کیا وجہ ہے...؟؟ یہ تو ہم اگلی سطور میں بیان کریں گے مگر پہلے ہم یہ عرض کرناچاہیں گے کہ ممکن ہے کہ ہماری طرح آپ بھی اِس بات سے مفتق ہوں کہ جھوٹ ،فریب اور دھوکہ بھی قوموں اور معاشروں کی زوال کا سبب ہوتے ہیں اور دنیا کے جن معاشروں کی بنیاد ایمانداری اور سچ پر قائم ہوں تو وہاں جھوٹ کا گمان نہیں ہوتااور صحیح معنوں میں یہی اپنا معیارِ زندگی بہتر طور پر گزار کر امر ہوتے ہیں ۔مگر اِس کے برعکس دنیا کے جن معاشروں میں یہ دونوں مفقود ہوں تو وہاں ہر قسم کی برائیاں جڑ پکڑ لیتیں ہیں اور یہ ہی معاشرے گندگی و غلاظت کے ڈھیر میں بدل جاتے ہیں جبکہ دوسری جانب یہ بھی کہاجاتا ہے کہ جھوٹ کے پاؤں تو نہیں ہوتے لیکن اِس کی تیز رفتاری میں کوئی کلام بھی نہیں ہے یہ ہواسے زیادہ تیز رفتاری سے پھیلتا ہے اور ہر فرد کو اپنا جلد اسیر بنالیتاہے اور اِسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ جھوٹااور مردہ یکساں ہیں کیوں کہ مردہ بولتانہیں ہے اور جھوٹے کی کوئی سُنتانہیں ہے اور دنیابھر کے اہلِ دانش اِس بات پر بھی پوری طرح متفق دکھائی دیتے ہیں کہ ”بات بات پر قسم کھانے والے لوگ جھوٹے ہوتے ہیں۔“تو پھر ایسے میں ہمیں اپنااحتساب خود کرلیناچاہئے کہ ہم اپنی بات کو سچ ثابت کرنے اور کرانے کے لئے کیا کچھ نہیں کرگزرتے ...؟؟

قارئین حضرات ...!ہماری بات یہیں ختم نہیں ہوگئی یہاں ہم ایک نقطہ یہ بیان کرناچاہیں گے کہ ایک زمانہ یہ بھی تھاکہ جب ہر معاشرے میں دانا یہ نصیحتیں کیاکرتے تھے کہ سچ بولو چاہئے جان ہی کیوں نہ چلی جائے اوراِس کے ساتھ ساتھ اِن کا یہ خیال بھی عام تھا کہ”اخبارات، کتابوں، ریڈیو، ٹیلی ویژن، گفتگو اور تقریروں سے جھوٹی اور غلط باتیں پکڑنے کی کوشش کریں“ مگرآج جیسے جیسے یہ چیزیں ہماری زندگی کی ضروتوں کا حصہ بنتی گئیں تو ہم نے اِن سے و ہ کام لیناچھوڑ دیا جس کے لئے ہمیں تاکید کے ساتھ کہا گیاتھامگراَب ہمیں یہاں افسوس کے ساتھ یہ کہناپڑرہاہے کہ ہم نے خود کو اتنامصروف کرلیاہے کہ ہم نے اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن ، گفتگو اور تقریروں سے جھوٹی اور غلط باتیں پکڑنے کے بجائے اِن کی ہر بات کو سچ مانناشروع کردیاہے اورآج جس کا نتیجہ یہ نکل رہاہے کہ ہمارا معاشرہ پوری طرح برائیوں کا شکار ہوکر رہ گیاہے یعنی جھوٹ اتنا عام ہوگیاہے کہ اِس میں سے ہمیں سچ کی تلاش مشکل ہوکر رہ گئی ہے یعنی یہ کہ آج ہمارے معاشرے کے ہر فرد نے زمین پر اپنی گردن اُونچی رکھنے اور سینہ پھولاکر چلنے کے خاطر جھوٹ کا سہارالے کر دوسروں کو متاثرکرنے کی ایسی عادت بنالی ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں سچ بولناہی نہیں چاہتاہے بس آج اِس کا کام اپنی جھوٹی شان وشوکت کو بڑھانے کے خاطرجھوٹ کو اپنے سینے سے لگانااور سر پر چڑھانارہ گیاہے۔

آج یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاکستانی معاشرے میں جھوٹ کلچرل کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابوپانے اور ہماری قوم کوسچ کی راہ پر چلانے اور سچ کا پرچم بلندکرنے کے لئے ہمارے ساتھ اظہارِ ہمدردی کے طور پر اقوام متحدہ اور امریکا کی طرف سے دوسالوں کے دوران کراچی پولیس کو جھوٹ پکڑنے کے 2عددVoice Stress Analyzer،آلات دیئے گئے تھے مگر یہ بھی کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ امریکا اور دنیا کے دیگر ممالک میں جھوٹ پکڑنے والے اِس جدیدآلے نے بھی ہماری سرزمینِ پاکستان پر قدم رکھتے ہیں چیخ چیخ کر ہم سے یہ فریادیں کرنی شروع کردیں کہ ” گاڈ کے واسطے مجھے اقوام متحدہ اور امریکا واپس بھیج دو ... توبہ توبہ یہاں(پاکستان میں)میری صلاحیتوں کا امتحان نہ لیاجائے میں اِس سرزمین پر بسنے والے انسانوں کے لئے نہیں ہوں میں یہاں ناکام ہوجاؤں گا اور پھر وہی ہواجس کا خدشہ تھا یعنی یہ کہ اِس حوالے سے گزشتہ دنوں آنے والی ایک خبر نے ہمیں آج اپنا یہ کالم تحریر کرنے پر متحرک کیا وہ خبر کچھ اِس طرح سے تھی کہ” ایک سینئر پولیس افسر کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ اور امریکا کی جانب سے کراچی پویس کو جھوٹ پکڑنے کے لئے دیئے گئے 2اینالائزر ملزمان کے سامنے بے بس ہوگئے یہ آلات پاکستانی ملزمان کے لئے قطعاََ نہیں ہیں اِن کا کہنا تھا کہ جھوٹ بولنا اور مکروفریب ہمارے معمولات کا حصہ بن چکاہے اِ س لئے یہ آلات پاکستانی ملزمان کا جھوٹ پکڑنے میں ناکام رہے ہیں اورپولیس نے خطرناک دہشت گردوں سے تفتیش کے دوران اِن کااستعمال ترک کردیاہے۔اَب اِس سارے منظر اور پس منظر میں ہماراملزمان کو ہمدردانہ مشورہ یہ ہے کہ آپ لوگوں نے اپنے جرائم اور کرائم سے پاکستان کا نام تو ساری دنیامیں بدنام کرہی دیاہے اَب اِنہیں اپنے جرائم کی پردہ پوشی کرنے کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہے یہ ایساکریں کہ کم اَز کم اِس آلے کے سامنے ہی بغیر کسی ہیل حجت کے سچ بول کر اپنے تفتیشی اداروں کے روائتی طریقوں سے اپنی جان چھڑالیا کریںاور اِس جدید آلے کے پوچھے جانے والے ہر سوال کا ٹھیک ٹھیک جواب دے کر تفتیشی اداروں کے افسران اور اہلکاروں کے ساتھ اپنے تعاون کو یقینی بناکر اپنے ملکِ پاکستان کا امیج ہی بڑھادیاکریں تا کہ دنیا کو یہ معلوم ہوسکے کہ پاکستانی قوم میں بھی ایک مہذب قوم بننے کی صلاحیت موجود ہے اور پاکستانی تفتیشی اداروں کے افسران اور اہلکاربھی دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ممالک کے تفتیشی اداروں سے کم نہیں ہیں مگر اِس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی کہیں گے کہ اللہ کے واسطے ہماری قوم میں سچ کو پروان چڑھانے کے لئے سرزمینِ پاکستان میں بسنے والے ہر فرد کوخواہ وہ کوئی حکمران ،پولیس افسر ، استاد ، عام شہری ، سیاستدان یا بیوپاری ہی کیوں نہ ہو سب کو اپنا دینی ، اخلاقی، معاشی ،معاشرتی اور سیاسی فریضہ اداکرناہوگاتاکہ ہماری نئی نسل کو جھوٹ سے نفرت اورسچ سے محبت کا رجحان عام ہو اور آئندہ ہمارے معاشرے کی بنیاد ایمانداری اور سچ پر قائم ہو اور پھر ہمیں جھوٹ کو پکڑنے والا کوئی آلہ اقوام متحدہ اور امریکا سے نہ لیناپڑے۔اور ہمارا پوراکا پورا معاشرہ حق اور سچ اور ایمانداری پر قائم ر ہ کر ساری دنیا میں پاکستان کا نام ایک منفرد اور چمکدار ستارے کے مانند روشن کرے اورپھر دنیاحیرت سے یہ کہہ اُٹھے کیا یہ وہی پاکستان ہے جو ماضی میں جھوٹوں کا گہوارہ تھا..؟(ختم شد)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 893345 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.