احتیاط کریں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کلمۂ حق: مولانا محمد منصور احمد

گزشتہ دنوں میرے جوّال﴿موبائل فون﴾پر ایک تحریری پیغام آیا ۔ میں نے فرصت ملتے ہی اسے پڑھا تو مجھے شدید صدمہ بھی پہنچا اور حیرت کا جھٹکا بھی لگا ۔ صدمہ اس لئے پہنچا کہ کسی ظالم نے حدیث پاک کی طرز پر ایک عربی عبارت بنائی تھی ، جس میں زرداری، گیلانی ، بلاول اور نواز شریف کے نام تھے اور ان کے کچھ کرتوتوں کو دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا تھا ۔ ظاہر ہے کہ یہ حدیث پاک کے ساتھ ایک سنگین مذاق کے مترادف تھا ۔ حیرت اس لئے ہوئی کہ یہ پیغام کسی ان پڑھ یا بے دین شخص کی طرف سے نہیں آیا تھا بلکہ اس کے بھیجنے والے ایک دیندار اور نیک شخص تھے ۔میں نے جب انہیں اس طرف توجہ دلائی، تو اللہ انہیں جزائے خیر دے۔ انہوں نے فوراًغلطی تسلیم کی اور کہا کہ جتنے دوستوں کو میں یہ پیغام بھیج چکا ہوں ،ان سب کو میں مطلع کردوں گا کہ وہ اسے ختم کردیں اور آگے کسی تک نہ پہنچائیں۔

’’جوّال‘‘آج کل ہماری زندگیوں کا لازمی حصہ بن چکا ہے اور ایک عالم دین کے بقول کہ پہلے زمانے میں انسان کی آزمائش کے لئے دو چیزیں تھیں ،ایک نفس اور دوسرا شیطان ۔ اب اس میں تیسری چیز ’’جوال‘‘کا بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ مادی ترقی کے دور کی یہ ایک ایسی ایجاد ہے ، جس سے انسان بہت سے دینی اور دنیاوی فوائد بھی حاصل کرسکتا ہے اور اگر چاہے تو اپنے آپ کو غلطیوں اور گناہوں کی دلدل میں بھی دھکیل سکتا ہے ۔

اگر انسان اس سائنسی آلے کو اپنی ذاتی ضروریات یا کاروباری مصروفیات کے لئے استعمال کرے تو یہ دنیاوی فائدہ ہے ۔ اگر اس نعمت سے فائدہ اٹھا کر انسان اس کے ذریعے کسی مسلمان کی عیادت یا تعزیت کرلے، کسی کو اس کے ذریعے امر بالمعروف یا نہی عن المنکر کر دے تو بہت سی نیکیاں سمیٹ سکتا ہے جو یقینا بہت بڑا دینی فائدہ ہے۔ ان چند فوائد کے ساتھ ساتھ اس کی خرابیوں ، نقصانات اور تباہیوں کی فہرست بہت طویل ہے ۔ کتنے ہی لوگ اس کے ذریعے گمراہیوں کا شکار ہوگئے ، کتنے ہی گھر اس کے ذریعے اُجڑ گئے اور کتنی ہی جوانیاں اس کی بھینٹ چڑھ گئیں ، شاید یہ باتیں سوچنے کے لئے کسی کے پاس وقت ہی نہیں ۔

میں توان خرابیوں کی طویل فہرست میں سے صرف ایک برائی کی طرف توجہ دلانا چاہتاہوں اور وہ ہے تحریری پیغامات کے ذریعے شعائر اسلام کی توہین۔ ایک وقت تھا جب سوویت یونین کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اور آج کے امریکی گماشتے اس وقت اپنے آپ کو فیشن کے طور پر ترقی پسند اور کامریڈ کہلاتے تھے ۔ اس زمانے میں کمیونسٹوں کے زیر اثر ان ظالموں نے جن میں کئی نامور شعرائ بھی تھے اور معروف نثر نگار بھی ، دینی احکامات کا دل کھول کر مذاق اڑایا ۔

یہ جنت، جہنم پر لطیفے بناتے ، فرشتوں اور جنات کا مذاق اڑاتے اور پردہ، داڑھی پر آوازیں کستے۔ آپ نے یقینا ایسے بہت سے لطائف اور اشعار سنے ہوں گے ، جن میں نماز ، روزہ اور حج جیسے عظیم فرائض اسلام کا مضحکہ اڑایا جاتا تھا ۔ جہاد افغانستان کی برکت سے کیمونزم اور کیمونسٹ تو ایک گالی بن چکے ہیں لیکن ممکن ہے کہ آپ نے دوسروں کو بھی یہ سب کچھ مزے لے کر سنایا ہو۔ اگر آپ یہ غلطی کرچکے ہیں تو فوراًتوبہ استغفار کریں ۔ کیونکہ یہ پکے منافقوں والا عمل ہے اور کبھی تو یہ انسان کو کفر تک پہنچادیتا ہے ۔ قرآن مجید میں تو ایسی مجلس میں بیٹھنے سے بھی منع کیا گیا ہے جس میں ایسی باتیں کی جارہی ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ترجمہ’’اور جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کو برا بھلا کہنے میں لگے ہوئے ہیں تو ان سے اس وقت تک کے لئے الگ ہوجاؤ جب تک وہ کسی اور بات میں مشغول نہ ہوجائیں ۔ اور کبھی تمہیں شیطان یہ بات بھلادے تو یاد آنے کے بعد ﴿ان﴾ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھو‘‘۔﴿سورۃ الانعام :۸۶﴾

اسی حکم کی مزید تاکید اور اس کی مخالفت پر سخت تنبیہ یوں فرمائی گئی:
ترجمہ’’اور اس ﴿اللہ تعالیٰ﴾نے کتاب﴿قرآن مجید﴾میں تم پر یہ حکم نازل کیا ہے کہ جب تم اللہ کی آیتوں کو سنو کہ ان کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے تو ایسے لوگوں کے ساتھ اس وقت تک مت بیٹھو جب تک وہ کسی اور بات میں مشغول نہ ہوجائیں ،ورنہ تم بھی انہیں جیسے ہوجاؤگے ۔ بے شک اللہ تعالیٰ تمام منافقوں اور کافروں کو جہنم میں اکٹھا کرنے والا ہے‘‘۔﴿سورۃ النسائ:۰۴۱﴾

جب شعائر اسلام کی توہین پر مبنی لطیفے سنے سنائے جارہے ہوں تو تنبیہ کرنے پر بیشتر لوگ غلطی مان جاتے ہیں اور انہیں اپنی کوتاہی کا احساس ہوجاتا ہے لیکن چند لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ضد اور ہٹ دھرمی میں کہدیتے ہیں کہ جی ہم دل سے تو نہیں سمجھتے ، بس مجلس گرم کرنے ، وقت گزارنے اور محفل آرائی کے لئے ایسا کررہے ہیں ۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ شعائر اسلام ہنسی مذاق کے لئے نہیں ہیں ۔ یہ تو اپنے ادب اور احترام کا تقاضہ کرتے ہیں ۔ اپنی مجلس کے لطف کو دوبالا کرنے کے لئے تو اور بہت سے مشغلے ممکن ہیں ۔ قرآن کریم کی یہ ہدایت غور سے پڑھنی چاہیے:
ترجمہ’’اور اگر تم ان سے ﴿یعنی منافقوں سے دین کی باتوں کا مذاق اڑانے کے بارے میں ﴾پوچھو تو وہ ضرور کہیں گے کہ ہم تو یونہی بات چیت اور دل لگی کررہے تھے ۔ کہہ دو!کیا اللہ تعالیٰ سے اور اس کی آیتوں سے اور اس کے رسول سے تم ہنسی کرتے تھے ۔ تم بہانے مت بناؤ ۔ تم ایمان کا اظہار کرنے کے بعد کفر کا ارتکاب کرچکے ہو ‘‘۔﴿سورۃ التوبۃ :۵۶،۶۶﴾

تفسیر ماجدی میں اسی آیت مبارکہ کے تحت بڑی وضاحت سے لکھا ہے کہ:
﴿منافق کہا کرتے تھے ہم تو یوں ہی بات چیت اور ہنسی مذاق کررہے تھے ﴾یہ عذر آج کتنا چلا ہوا ہے ، شعر وادب کے پردے میں کیسی گستاخی اللہ تعالیٰ اور اس کی شریعت اور اس کے فرشتوں اور حوروں کے ساتھ اٹھ رہی ہے اور جواب ہر مرتبہ یہی ملتا ہے کہ یہ تو محض شعری اور ادبی دلچسپیوں کے لئے تھا ، کہیں واقعی مذہب پر تعریض تھوڑے ہی منظور تھی ﴿ان منافقین کو جواب دیا گیاکہ ﴾یعنی بالفرض تمہاری غرض محض تھوڑی دیر کے لئے خوش طبعی ہی تھی، جب بھی تو یہ سوچا ہوتا کہ استہزائ کن چیزوں سے کررہے ہو ، اللہ سے؟ اس کے احکام سے؟ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے؟یہ چیزیں محل استہزائ کسی صورت میں بھی ہوسکتی ہیں؟ آج کے ادیب اور شاعر ایک دو نہیں صدہا کی تعداد میں ذرا ان پہلوؤں کو بھی سوچ رکھیں۔ فقہائ نے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ حکم شرعی کے اعتبار سے استہزائ ﴿یعنی مذاق اڑانے﴾کی یہ تینوں قسمیں ﴿یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ استہزائ، اللہ تعالیٰ کے احکام کے ساتھ استہزائ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ استہزائ ﴾برابر ہیں ۔
’’دل علی ان الاستہزائ بایات اللہ وبشئی من شرائع دینہ کفر فاعلہ ‘‘۔﴿جصاص﴾

فقہائ نے یہ مسئلہ بھی مستنبط کیا ہے کہ کلمۂ کفر خواہ قصد اور سنجیدگی سے ادا کیا جائے ، خواہ محض ایک لطیفہ وخوش طبعی کے طور پر حکم شرعی کے اعتبار سے دونوں برابر ہیں، اس لئے کہ قرآن نے ان کے لہو ولعب کو بالکل مسترد کردیا اور حکمِ کفر ان پر باقی رکھا .ہاں حالت جبر واکراہ اس سے الگ ہے۔
’’فیہ الدلالۃ علی ان اللاعب والجاد سوائ فی اظہار کلمۃ الکفر علی غیر وجہ الاکراہ ‘‘۔﴿جصاص﴾﴿تفسیر ماجدی بحوالہ فتح الجواد ج ۳/۶۱﴾

اسی طرح الدر المختار ﴿۵/۴۷۴ ایچ ایم سعید کمپنی﴾میں صراحت ہے کہ :
’’شریعت کی باتوں میں سے کسی بات کا استہزائ کرنا بھی کفر ہے‘‘

فتاویٰ عالمگیری﴿۲/۶۷۲ مکتبہ رشیدیہ﴾ میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ:
’’مذاق کرنے والے نے اگر کوئی کفریہ بات استخفاف ، استہزائ یامزاح کے طور پر کہی تو یہ تمام علمائ کے نزدیک کفر ہے، اگر چہ کہنے والے کا عقیدہ غلط نہ ہو ‘‘

فتاویٰ بزازیہ ﴿۶/۸۲۳ مکتبہ رشیدیہ﴾کی یہ بات خاص طور پر حدیث پاک کی طرز پر بنائی ہوئی غلط عبارتوں پر تقریبا ًصادق آتی ہے ، لکھا ہے :
’’خلاصہ یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بھی سنت یا حدیث کی تحقیر کفر ہے‘‘

جو حضرات حلال وحرام کی تمییز کو بھلا چکے ہیں ، ان کی نظروں میں شاید ان عبارتوں کی کوئی اہمیت نہ ہو لیکن وہ مخلص مسلمان جو آج بھی جائز وناجائز کا خیال رکھتے ہیں ،اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کو دل وجان سے بجالاتے ہیں اور شعائر اسلام کا تہہ دل سے احترام کرتے ہیں ، وہ یقینا ان آیات اور عبارات سے اس مسئلہ کی سنگینی اور اہمیت کو سمجھ چکے ہوں گے ۔

یہ تو ’’جوال‘‘کے مختصر تحریری پیغامات سے پھیلنے والی ایک غلطی کے بارے میں چند باتیں عرض کی گئیں ۔ ان کے علاوہ دومزید غلطیوں کی مختصر نشاندہی بھی یقینا فائدے سے خالی نہیں ہوگی ۔

٭آپ کو ایسے بہت سے پیغام ملیں گے جن میں من گھڑت فضائل یا وعیدیں بیان کی گئی ہوں گی ، کچھ پیغامات میں تو آپ کو راتوں رات خوشخبری ملنے کی خبر بھی دی گئی ہوگی ۔ یہ سب عوام کے کمزور عقیدے سے فائدہ اٹھانے والوں کے کھیل ہیں ۔ بھلا کسی پیغام کے آگے دوسروں تک بھیجنے سے کوئی فضیلت یا اس کے نہ بھیجنے پر وعید کسی آیت ، حدیث یا فقہ کی کتاب میں لکھی ہوئی ہے ؟۔ یہ محض توہمات اور خیالات ہیں ، جن کی کوئی اصل نہیں ۔

٭کچھ حضرات نیکی کے شوق میں قرآن مجید کی آیت یا حدیث پاک کا عربی متن ، انگریزی کے الفاظ میں لکھ کر بھیجتے ہیں ۔ یاد رکھیں!اس طرح آیات قرآنی یا احادیث مبارکہ لکھنا غلط ہے ۔ عربی الفاظ رومن رسم الخط میں ادا نہیں ہوسکتے ۔ البتہ ان کا صحیح اور مستند ترجمہ بھیجنے میں شرعاًکوئی برائی نہیں ہے۔

اگر آپ تحریری پیغامات کے سلسلے میں ان تین اصولی غلطیوں پر غور کریں تو اکثر وبیشتر غلط پیغامات ان میںشامل ہوجاتے ہیں ۔ باقی جھوٹ ، غیبت ، بہتان اورایسے دیگر کبیرہ گناہ جیسے زبان سے کرنا ممنوع ہیں ، ویسے ہی ان مذموم مقاصد کے لئے تحریری پیغام بھیجنا بھی ناجائز ہے ۔

یاد رکھیں!زندگی بہت مختصر ہے اور اس کے قیمتی لمحات ان خرافات میں ضائع کرنے کے لئے نہیں ہیں، جن میں دین کا کوئی فائدہ ہے نہ دنیا کا کوئی نفع ۔ یہ اوقات زندگی تو صرف مفید کاموں میں ہی خرچ ہونے چاہئیں۔ ایک حدیث پاک میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د ہے :
’’آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ بے کار ﴿کاموں اور باتوں﴾کو چھوڑ دے‘‘

اگر ہم روزانہ جتنا وقت جوال پر ضائع کرتے ہیں ، اگر اتنی دیر ہم ذکر، تسبیح، درود شریف پڑھ لیں ، دین کی کوئی بات سیکھ لیں یا کسی تک دین کا پیغام پہنچادیں تو ہماری زندگیوں میں کتنا بابرکت اور خوشگوار روحانی انقلاب آسکتاہے ۔

اللہ کریم ہم سب کو اعمال صالحہ کی توفیق سے مالا مال فرمائے ۔﴿ آمین ثم آمین﴾
usama hammad
About the Author: usama hammad Read More Articles by usama hammad: 22 Articles with 45799 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.