اوبامہ کی صدارت اورمسلمانوں کی تاریخ

حالیہ امریکی انتخابات میں بارک اوبامہ کی کامیابی سے لیکر صدارت کا حلف اٹھانے تک ایک بات کا بہت زور وشور سے تذکرہ کیا جارہا ہے کہ وہ امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر ہیں اور بی بی سی نے تو ان کے حلف اٹھانے کے اگلے روز ایک خبر جاری کی جس کی سرخی تھی کہ یہ امریکہ ہی میں ممکن تھا کہ ایک سیاہ فام امریکہ کا صدر بن گیا اور خلاصہ اس خبر کا یہ ہے کہ دراصل یہ امریکہ کی جمہوریت، روادری، اور انصاف پسندی کے باعث یہ ممکن ہے کہ کوئی فرد اپنی محنت اور قابلیت کی بنیاد پر بالکل نچلی سیڑھی سے ابتدا کرنے کے باوجود آخری سیڑھی یعنی صدارت تک حاصل کرسکتا ہے۔

ہمیں اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ محنت اور قابلیت کے بل پر کوئی بھی انسان تاریخ میں اپنا نام لکھوا سکتا ہے، ہمارا اختلاف اس جملے پر ہے کہ صرف امریکہ ہی میں یہ ممکن تھا کیوں کہ جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ سے ناواقف ہیں شاید وہ تو اس بات پر بڑے خشوع وخضوع سے سر ہلا کر اس کی تائید کریں گے اور کر بھی رہے ہیں لیکن جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ سے معمولی سی بھی واقفیت رکھتے ہیں وہ اس سے اتفاق نہیں کریں گے۔ دراصل آج میڈیا کا دَور ہے کیبل کا دَور ہے اور ہماری نئی نسل کتابوں سے دُور ہونے کے باعث میڈیا کے پروپگینڈے سے بہت جلد متاثر ہوجاتی ہے اور اسی بات نے مجھے مجبور کیا کہ میں اپنے بھائیوں کو تصویر کا دوسرا رخ دکھاؤں تاکہ وہ اپنی تاریخ اور روایات سے واقف ہوسکیں اور جب کبھی کہیں بات کریں تو اپنی تاریخ اور اپنے اسلاف کا ذکر فخریہ انداز میں کریں۔ قدیم زمانے سے ہی سیاہ فاموں کی تجارت کا سلسلہ جاری تھا اور سیاہ فاموں کی کوئی عزت، کوئی حقوق نہیں تھے اور موجودہ مغربی اقوام کے آباؤ اجداد منظم طریقے سے ان سیاہ فاموں کی بستیوں پر حملہ کرکے ان کو اٹھا کر لے آتے تھے اور پھر ان کو منڈیوں میں جانوروں کی طرح فروخت کیا جاتا تھا۔اور ان سیاہ فام غلاموں کو انسان کے بجائے حیوان سمجھا جاتا تھا

نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور غلاموں سے حسن سلوک
اسلام سے پہلے اہل عرب جس قسم کی جاہلیتوں میں مبتلا تھے ان میں سے ایک غلاموں سے ساتھ غیر انسانی سلوک بھی تھا۔ عرب سردار ان غلاموں سے سخت محنت اور مشقت کا کام کرواتے تھے۔اور ان کو معاوضہ میں صرف دو وقت کا کھانا اور سال میں دو جوڑے کپڑے ملتے تھے۔ان کی عورتوں کو حرم میں شامل کیا جاتا تھا ۔اور دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی ایک بات تھی کہ غلام کا بیٹا پیدائیشی غلام ہوتا تھا۔

اس پس منظر میں نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دین کی دعوت کا آغاز کرتے ہیں اور صرف ٢٣ سالوں میں عرب معاشرے کی کایا پلٹ دیتے ہیں۔ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غلاموں سے ساتھ بہتر سلوک کا حکم دیا آپ نے فرمایا کہ اپنے غلاموں کا خیال کرو۔ جو خود کھاؤ وہی ان کو بھی کھلاؤ، اور ان غلاموں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔اسلام کی انہی تعلیمات کا اثر تھا کہ یہ حبشی غلام آگے چل کر اسلام کے دست وبازو بنے۔اور تاریخ میں نام کمایا(ان کا ذکر آگے کیا جائے گا )

خود نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے غلاموں سے ساتھ برتاؤ اتنا بہتر تھا کہ حضوراکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں آنے کے بعد آپ کے غلاموں نے اپنے ماں باپ کے ساتھ آزاد زندگی گزارنے کے بجائے نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کو ترجیح دی۔ حضرت انس اس کی مثال ہیں۔اسلام نے حبشی غلاموں کو کیا عزت دی ہے اسکا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ مسجد نبوی کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے اور یہ طے ہوگیا کہ نماز کی طرف بلانے کے لیے اذان کا طریقہ رائج کیا جائے گا صحنِ مسجد میں حضرت ہمزہ رضی اللہ عنہ بھی موجود ہیں،جناب شیخین بھی رونق افزاء ہیں لیکن اسلام میں پہلی اذان کا شرف حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حاصل ہوتا ہے۔ یہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کون ہیں۔ایک حبشی غلام جن پران کا آقا امیہ نے اسلام لانے کی پاداش میں ظلم وستم کے پہاڑ توڑا کرتا تھا اور ان کو مکہ کی گلیوں میں تپتی ریت پر لٹایا جاتا تھا، گلے میں رسی باندھ کر گھسیٹا جاتا تھا اور اسلام نے ان کو یہ عزت و تکریم عطا کی کہ بڑے بڑے سردار صحابہ کی مجودگی میں ان کو مؤذن ہونے کا شرف عطا کیا گیا

اسی طرح نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے غلام حضرت زید کو اپنا بیٹا بنایا اور ان سے نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا یہ عالم تھا کہ جب ایک مہم کے دوران ان کو شہید کیا گیا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ان کی شہادت کا انتقام لینے کے لیے ایک لشکر ترتیب دیا اور وہ لشکر اسلامی تاریخ میں لشکرِ اسامہ کے نام سے مشہور ہے اس لیے کہ اس لشکر کی قیادت آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نامی گرامی سپہ سالر صحا بہ کرام کے بجائے حضرت زید کے صاحب زادے حضرت اسامہ بن زید کو دی۔

مشہور مسلمان بادشاہ جو کہ درحقیقت غلام تھے
مسلمان بادشاہوں کی تاریخ میں سلطان محمود غزنوی کا بڑا نام ہے اور سلطان محمود غزنوی ہندوستان پر سترہ حملوں کی وجہ سے مشہور ہے۔سلطان محمود غزنوی نے بائیس سال تک ہندستان پر حکومت کی ۔لیکن شائد یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ سلطان محمود غزنوی کے والد سبگین بھی ایک غلام تھے جو کہ اپنی محنت اور قابلیت کی بناء پر غزنی کے حکمراں بن گئے تھے یعنی سلطان محمود غزنوی ایک غلام زادے تھے

سلطان محمود کی وفات کے کچھ عرصے کے بعد حکومت اس کے خاندان سے نکل کر غوری خاندان کے ہاتھوں میں آگئی۔ معز الدین محمد غوری جس نے پرتھوی راج کو شکست دی تھی اور جس کے نام پر پاکستان کا پہلا میزائل غوری رکھا گیا ہے۔ معز الدین محمد غوری غلاموں کی بہت قدر منزلت کرتا تھا اور اس نے اپنے دربار میں غلاموں کو کلیدی عہدے دیے تھے۔اور اسکے غلاموں میں ایک نام قطب الدین ایبک کا ہے۔ معز الدین نے قطب الدین ایبک نہ صرف یہ کہ اپنی فوج کا سپہ سالار مقرر کیا بلکہ اسے ہندوستان میں اپنا نائب بھی مقرر کیا اور معزالدین محمد غوری کے بعد قطب الدین ایبک اپنی قابلیت کی بناء پر بادشاہ بنا

اتفاق کی بات کہ چار سال کی حکومت کا بعد قطب الدیین ایبک کا انتقال ہوگیا اور اسکے جان نشینوں کی نااہلی کے باعث اس
 کے تمام امراء نے اسکے ہی ایک غلام شمس الدین کو اسکی لیاقت اور محنت کے باعث متفقہ طور پر بادشاہ مقرر کیا جو کہ تاریخ میں التمش کے نام سے مشہور ہوا۔اور اس نے چھبیس سال تک حکومت کی۔

فیصلہ خود کریں
ذرا غور کریں کہ امیر سبگتگین، معز الدین غوری، قطب الدین ایبک،اور شمس الدین التمش یہ ایسے نام ہیں کہ جنہوں نے دنیا کی تاریخ میں اپنا نام لکھوایا اور جن کے بغیر مسلمان بادشاہوں کی تاریخ نامکمل رہے گی، اور یہ تمام نامور بادشاہ دراصل غلام تھے۔ جو کہ محض اسلام کی رواداری اور مساوات کے باعث اپنی محنت اور قابلیت سے بادشاہی تک پہنچ گئے۔ان صفحات کی تنگی ہمیں مزید تفصیل میں جانے سے روکتی ہے ورنہ تاریخ میں خاندانِ غلامان اور دیگر تذکرے باقی ہیں۔اسلام نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ان غلاموں کو پستی سے اٹھا کر بلندی کی انتہاؤں تک پہنچا دیا اور اس کے بر عکس مغرب اور امریکہ کا رویہ رہا ہے وہ بھی ملاحظہ ہو

جس امریکہ کی جمہوریت، رواداری، اور انصاف پسندی کے راگ گائے جارہے ہیں وہاں انیسویں صدی کے نصف تک غلاموں کی تجارت ہوتی تھی۔ جس کو امریکی انقلابی صدر ابراہام لنکن نے ختم کرایا۔اور انہی سیاہ فام غلاموں کی اولادوں کو بیسویں صدی کے وسط تک انسانی حقوق حاصل نہ تھے۔ وہ سفید فاموں کے ساتھ سفر نہیں کر سکتے تھے،انہیں ووٹ کا حق حاصل نہیں تھا اور آج جس طرح امریکہ کی صدارت پر ایک سیاہ فام براجمان ہے نصف صدی قبل تک کوئی سیاہ فام صرف وہ تقریب دیکھنے بھی جاتا تھا تو اس کو تشدد کو نشانہ بنایا جاتا تھا۔اور امریکہ کے اکثر ریسٹورنٹ اور بارز میں باہر ڈوگز اینڈ نیگروز آر ناٹ الاوڈ کی تختیاں لگی ہوتی تھیں

اب آپ خود فیصلہ کریں کہ اس نظریہ(یہ صرف امریکہ ہی میں ممکن تھا ) سے ہمارا اختلاف درست ہے یا نہیں
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1458037 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More