فیصلے کا انتظار

گندم کی کٹائی کا موسم تھا، گرمی کی شدت اپنا رنگ دکھا رہی تھی، کسان کھیتوں میں بکھرا ’سونا‘ سمیٹ رہے تھے، بیسویں صدی کی ساتویں دہائی کا کوئی سال تھا۔ دور نہر کے کنارے سے کوئی اجنبی کھیتوں میں اترا، کام کے دوران کسان اس مسافر کو بھی دیکھ رہے تھے، قریب آیا تو وہ واقعی اجنبی تھا، وہ کسی کے نام یاشکل سے واقف نہ تھا۔سلام دعا کے بعد اس نے کسی شخص کے بارے میں معلومات مانگیں ، اسے بتایا گیا کہ وہ مطلوبہ مقام پر پہنچ چکا ہے۔ اس اجنبی مسافر سفید ریش بزرگ نے بتایا کہ 32ایکڑ زمین جھنگ کے علاقہ اٹھارہ ہزاری میں موجود ہے، جس پر کسی نے قبضہ کررکھا ہے، جبکہ سرکاری کاغذات میں وہ آپ لوگوں کے نام ہے۔ بزرگ اجنبی نے تعاون کی یقین دہانی کرائی، بعد میں یہ ثابت ہوا کہ ان کی تمام کاوشیں بے لوث ہی تھیں۔

کسان کا تو کل اثاثہ زمین ہی ہوتا ہے، اسے گمشدہ یا نامعلوم اثاثہ مل جائے تو اور کیا چاہیئے، اگلی صبح وہ اپنے کچھ کام سمیٹ کراور کچھ موخر کر کے مسافر کے ساتھ خود بھی سفر پر چل نکلا، تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ بزرگ کی بات سچ تھی، زمین میں تین حصہ دار تھے ، ایک حصہ دار نے اجتماعی حصے میں سے 12ایکڑ اونے پونے فروخت کردیئے تھے۔ کسان نے تیسرے حصے دار کو اطلاع کی اور زمین کے حصول کے لئے قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ ہوا۔ قانون کی لڑائی میں قبضہ کی بہت زیادہ اہمیت ہے، فیصلہ آنے تک وہی مالک ہوتا ہے جو قابض ہوتا ہے، چنانچہ کسان کی پہنچ احاطہ عدالت تک محدود رہی ، اور نامعلوم پارٹی لاوارث زمین کے مالک کی حیثیت سے فصلیں کاشت کرتی رہی۔

قبضہ نہ ہو تو مقدمہ بے جان ہی ہوتا ہے، دوسری طرف قبضہ لینا نہ صرف بہت مشکل ہوتا ہے بلکہ خطرات سے خالی نہیں ہوتا، تیسری طرف پیشیوں کا ایسا چکر چلتا ہے کہ انسان چکرا کر رہ جاتا ہے ، کسان کی تو گزر اوقات ہی کاشت کاری سے ہوتی ہے، اس دوران اسے دور دراز شہر میں پیشیاں بھگتنے میں سارا سارا دن گزارنا پڑجائے تو نقصان دو چند ہوجاتا ہے، لیکن حق چھوڑ دینا کوئی قابل فخر عمل نہیں۔ کسان نے قانونی جنگ کے ساتھ ساتھ قبضہ لینے کا بھی فیصلہ کیا۔ اب کی بار وہ پیشی پر گیا تو کئی روز تک نہ لوٹا، تشویش میں اضافہ ہوتا گیا، آخر آٹھ دس روز بعد وہ پلٹا تو کپڑے میلے کچیلے ہورہے تھے، گریبان پر کالی میلی سلوٹیں بتا رہی تھیں کہ کسی سے دست وگریبان ہوا ہے، حال احوال بیان ہوا تو معلوم ہوا کہ قبضہ کی کوشش میں نوبت تھانے تک بھی آئی ، ملزم کسان نے رات تھانے بسر کی ، نہ جانے کس نے چھڑوایا۔

پیشیوں کے چکر سے عاجز آکر تیسرے حصہ دار نے بھی اپنا حصہ معمولی قیمت پر فروخت کردیا، اب ایک کسان ہی تنہا رہ گیا، جو پیشیوں کے چکر سے بھی مایوس نہ ہوا، آخر اس کی محنتیں رنگ لائیں اور ضلعی عدالت نے کسان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ حساب کون لگاتا ہے، اور حساب کون دیتا ہے کہ نصف صدی وہ زمین کسی اور کے قبضے میں رہی ، اسی نے اس کی کوکھ سے برآمد ہونے والی فصلوں کی خوشہ چینی کی ، آمدنی کا حقدار بھی وہی تھا۔ مگر یہ خوش فہمی کا چراغ زیادہ عرصہ نہ جلا کہ قابضین نے اعلیٰ عدالت سے” انصاف“ کی اپیل کردی۔ ایک مرتبہ پھر پیشیوں کا چکر چلا، پہلے تو قریبی ضلع کا معاملہ تھا اب لاہور کی مسافت تھی۔

اس دوران کسان آج سے 17برس قبل ایک حادثے میں اپنی زمین کی ملکیت حاصل کرنے کی حسرت دل میں لئے اپنے خالق حقیقی سے جاملا، وہ اجنبی رہنما بزرگ اب زندگی کی آخری منازل پر ہے۔ میں کبھی کبھار اپنے برادر بزرگ کو فون کر کے حالات جاننے کی ہمت کرتا ہوں، ہر مرتبہ امیدافزا جواب ملتا ہے کہ” اب پیشی کی تاریخ بہت جلد مل جاتی ہے، کیس بھی اوپر ہی ہوتا ہے، بس جس روز بھی بحث ہوگئی فیصلہ ہو جائے گا“ 65برس ہونے کو ہیں، ابھی تک تو وہ زمین اس کے حقداروں کو نہیں ملی ، امید ہے کسی روز بحث ہوجائے گی، مقدمہ کا فیصلہ ہوجائے گا، اگر پہلی دو نسلیں محروم رہ گیئںتو یقینا تیسری نسل تو اس سے ضرور ہی مستفید ہوجائے گی، 65سالہ حق تلفی کا کیا ہوگا؟؟؟ وزیراعظم کی توہین عدالت کا فیصلہ آیا تو دل ودماغ میں بجلی سی کوند گئی، کیا کسانوں کی قسمتوں کے فیصلے بھی ہوجائیں گے ؟؟یا وہ بھی اپنے بڑوں کی طرح انتظار کی سولی پر لٹک کر قبروں میں اتر جائیں گے؟؟
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 434089 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.