اے ارضِ پاک تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم

ایک بار پھر یومِ شہدا آگیا پاک فوج تیس اپریل کو اپنے شہیدوں کو یاد کرتے ہوئے چار سال سے مسلسل یوم شہدا منارہی ہے۔ یہ ایک اچھی روایت ہے کہ ان شہیدوں کی قربانیوں کو یاد کیا جائے جواِس ملک کی خاطر اپنے سر ہتھیلی پر لیے جنگلوں، میں آگ شبیں گزارتے ہیں اور پھر اپنی جانیں اس مٹی پر قربان کردیتے ہیں اور اس کے لیے دعا کرتے ہیں کہ میں رہوں نہ رہوں اس کو بار ور کردے اور اب کی بار تو اِن شہیدوں میں گیاری کے ایک سو انتالیس شہدا کی قربانی اور خون بھی شامل ہو گیا ہے یہاں شہیدوں کا وہ مزار بن گیا ہے جس کی حرمت ہر پاکستانی پر لازم قرار پائی ہے۔ سیا چین کا محاذ لیا جائے یا وزیرستان اور سوات کا کبھی یہ مجاہد ملکی سرحدوں کی اور کبھی ملکی مفاد کی حفاظت کرتے ہوئے جان جانِ آفرین کے سپرد کردیتے ہیں اور نہ کوئی شکوہ نہ شکایت نہ مقدمہ نہ سمن بس صرف قربانی۔ لیکن کیا قوم کو صرف اِن جوانوں کے خون کی ضرورت ہے اِن کی صلاحیتوں کی نہیں؟جہاں تک دشمن کے خلاف جنگ کی بات ہے تو اس سے اِن ماتھوں پر شکن بھی نہیں آتی اور یہ سوئے دار چل پڑتے ہیں لیکن آخر کسی اور کی مسلط کردہ جنگ یہ قوم کب تک لڑتی رہے گی۔ جس ملک کے لیے ہم یہ جنگ لڑے جارہے ہیں یعنی امریکی مفاد کی خاطر آخر ہماری حکومتیں کب اپنے رویوں اور پالیسیوں پر نظر ثانی کریں گی اور اپنی پہلی ترجیح پاکستان اور اس کے عوام کو قرار دیں گی۔ شہادت اگرچہ مطلوب ومقصود ِمومن ہے لیکن جس طرح اس ملک کی فوج اور اس کے عوام کا قتلِ عام کیا گیا اور وہ دہشت گردوں کی نظر ہو ہو کر شہید ہوتے جارہے ہیں اسے اب بند ہو جانا چاہیے۔ دھماکوں ا ور دہشت گردی کی لہر اگر کچھ دنوں کیلئے رُک بھی جائے تو دوبارہ شروع ہوجاتی ہے اور شہیدوں کی فہرست لمبی ہوتی جاتی ہے ۔ ابھی عوام مطمئن ہوبھی نہیں پاتے کہ ان کا سکون اور زندگی چھین لی جاتی ہے آخر اس سب کچھ کے پیچھے کون سے ہاتھ ملوث ہیں ،کیا القاعدہ اور طالبان اتنے طاقتورہیں کہ ایک نہیں بلکہ دنیا کے پینتیس ممالک بشمول امریکہ اُن کی کمر نہ توڑ سکے ہیں اور وہ جدید ترین اسلحے کے استعمال کے بعد بھی ان کے سامنے بے بس ہیں اور اگر پاکستان نے نیٹو سپلائی بند بھی رکھی ہوئی ہے توپھر کون سے عناصر ہیںجواب بھی پاکستان کے خلاف سرگرم عمل ہیں یا انہیں ایسا کرنے کیلئے مدد فراہم کی جارہی ہے تاکہ پاکستان اور افغانستان میں موجودگی کا جواز مہیارہے اور امریکیوں اور امریکہ کی حفاظت کی خاطر ان ملکوں کے عوام کی قربانی دی جاتی رہے۔

یہاں چند سال میں بے شمار تنظیموں کا بن جانا ان کے عہداروں اور اہلکاروں کی تنخواہوں اور ان کے اخراجات آخر کہاں سے پورے ہو رہے ہیں کیا ان پتھریلے پہاڑوں میں رہنے والے ان لوگوں کے ایسے ذرائع آمدن ہیں جو ان کا پیٹ بھرنے کے علاوہ انہیں تنخواہ دار ملازم رکھنے کی اجازت دے سکیں۔ ان کو کمپیوٹر ماہرین کہاں سے مہیا ہو جاتے ہیں؟ بلوچستان میں، سوات میں، وزیرستان حتٰی کہ بڑے چھوٹے تمام شہروں میں جس طرح ان دہشت گردوں نے امن و امان تباہ کر کے رکھ دیا ہے کوئی جان محفوظ ہے نہ مال۔ وہ جان جس کا کوئی نعم البدل نہیں اور وہ مال وہ سڑکیں وہ عمارتیں جس کو بناتے بناتے پاکستانی عوام اپنا خون پسینہ بہا دیتے ہیں سب ان کی نظر ہو رہا ہے، باپ بچوں کا رزق روزی گھر پہنچانے کی بجائے اپنے ارمانوں سمیت ان عمارتوں کے نیچے دفن ہو جاتے ہیں ۔ ہماری پولیس اپنی ڈیوٹی پر کھڑے کھڑے جان دے رہی ہے اور ہماری خاک سے جڑی خاکی فوج اس زمین پر اپنی جان قربان کر دیتی ہے اور یہی ان کا فخر ہے اور مقصد بھی اوریوں یہ خود قوم کا فخر بن جاتے ہیں لیکن آخر کب تک ہم مسائل سے دوچار رہیں گے ہم دہشت گردوں کے خلاف لڑ تورہے ہیں لیکن جو انہیں مدد فراہم کر رہے ہیں بلکہ دراصل ان کی ڈور جس کے ہاتھ میں ہے اس اصل دشمن سے نمٹنا ضروری ہے۔ اگر ہم صرف شاخ تراشی کرتے رہیں گے تو درخت تو نہ سوکھے گا بلکہ اور ہرا بھرا ہو گا۔ لہٰذا ان دہشت گردوں سے جنگ تو لڑنی ہے جب تک کہ یہ ختم نہ ہو جائیں ، لیکن آج اگر اصل وجہ امریکہ یہ خطہ چھوڑ دے تو ہماری جانیں اور ہمارے مال محفوظ ہو جائیں ۔ یہ صرف ایک خوش فہمی نہیں بلکہ حقیقت ہے کیونکہ 2001 میں امریکی آمد سے پہلے کیا یہاں یہ دہشت گردی ، خود کش حملے یا تباہی و بربادی تھی اگر نہیں تھی تو پھر اصل مجرم کون ہوا؟ ظاہر ہے امریکہ۔ اگر وہ اپنی حفاظت کی جنگ اپنی زمین پر لڑتا تو شاید اب تک محفوظ ہو چکا ہوتا۔

مجھے اپنی قوم کے ہر شہید پر فخر ہے لیکن ان کا خون بہت قیمتی ہے، بہت قیمتی اور یہ صرف اپنی جنگ اور اپنی زمین کیلئے محفوظ ہو جانا چاہییے تاکہ میرا ملک دشمن کی بد نظر سے محفوظ رہے ۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 509671 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.