عوامی بکرے

لگتا ہے کہ اپنے بلوچ سردار صاحب نے بہت سے ”عوامی بکرے“ پال رکھے ہیں اور ان کا جب جی چاہتا ہے کسی ایک بکرے کو قُربان کرکے اپنے خاندان کا صدقہ اتار لیتے ہیں ۔ ”ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات“ کے مصداق ”خاندانِ زرداریہ“ کے ”وارثانِ نیک نام“ کے مُنہ کو ابھی سے ان معصوم بکروں کے لہو کی چاٹ لگ گئی ہے ۔ اب تو وہ بھی اپنی اپنی بولیوں میں ان بکروں کو قُربانی کے لئے تیار رہنے کا حکم صادر فرماتے رہتے ہیں ۔جنابِ صدر کا طریقہ واردات اب کچھ کچھ میری سمجھ میں بھی آنے لگا ہے ۔ وہ پہلے ان بکروں کو اِدھر اُدھر مُنہ مارنے کی کھُلی چھٹی دے دیتے ہیں پھر جب بد ہضمی کی بدولت ان سے تعفن اُٹھنے لگتا ہے توحکم دیا جاتا ہے کہ ”چڑھ جا بیٹا سولی رام بھلی کرے گا“ ۔ یہی طریقہ اپنے بھولے بھالے گدی نشین پر بھی آزمایا گیا ۔مجھے یقین ہے کہ اگر گیلانی خاندان اپنی کرپشن کی طفیل چاروں طرف سے گھِر نہ چُکا ہوتا تو گیلانی صاحب کا فیصلہ مختلف ہوتا ۔لیکن انہوں نے عافیت اسی میں جانی کہ اپنی قُربانی دے کر بڑی محنتوں سے چار سالوں میں کمائی گئی اربوں کی جائیداد کو بچایا جائے لیکن وہ بھولے بادشاہ نہیں جانتے کہ اب ایسا ہونا ممکن نہیں نظر آتا کیونکہ اب عوام میں کچھ کچھ شعور جاگنے لگا ہے جس کی ایک جھلک تو قوم نے کل دیکھ لی کہ ملزم سے مجرم بن جانے والے وزیرِ اعظم صاحب کی حمایت میں چندشہروں میں ننھی مُنّی ”احتجاجیاں“ نظر آئیں ۔کہیں بھی کسی بھی ریلی میں سو ، پچاس سے زیادہ افراد نہیں تھے اور وہ بھی غنڈے جو سندھ کے مختلف شہروں میں جدید ترین اسلحے کے زور پر خاموش تماشائی بنی پولیس کے سامنے دوکانیں بند کرواتے رہے ۔ بلوچستان بھی خاموش رہا اور خیبر پختونخواہ بھی اور پنجاب نے تو خاموش ہونا ہی تھا کہ وہاں تو تھانیدار شریف برادران نے دینا ہوتا ہے گیلانی صاحب نے نہیں جب کہ پیپلز پارٹی تھانیدار کے بغیر کبھی احتجاجی جلوس یا ریلی نکالنے کی حماقت نہیں کرتی البتہ استقبالی جلوسوں کی الگ بات ہے ۔ ایسا ہم نے بھٹو مرحوم کے دور میں بھی دیکھا جب پی۔این۔اے کی تحریک کے خلاف ایف۔ایس۔ایف اور ”نتھ فورس“ کی حفاظت میں ”بھٹو حمایت “ جلوس نکلا کرتے تھے۔ تحقیق کہ اگر جیالے سڑکوں پر نکل آتے تو بھٹو کو کبھی پھانسی نہ ہوتی ۔قُربانیاں دینے کا شور مچانے والی پیپلز پارٹی سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ بھٹو مرحوم کی پھانسی کے خلاف کتنے لوگوں نے کوڑے کھائے اور خود سوزیاں کیں؟۔ کوئی تاریخ کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش کرے تو الگ بات ہے لیکن سچ تو یہی ہے کہ وہ انگلیوں پہ گنے ہوئے چند لوگ تھے ۔

میں سیاستدان ہوں نہ سیاسی تجزیہ نگار ۔ مجھے تو سیاست کی نہ صرف یہ کہ کوئی شُد بُدہی نہیں بلکہ اتنا بھی نہیں پتہ کہ بھارت کے وزیرِ اعظم کا نام من موہن سنگھ ہے اور امریکی صدر کا اوباما۔ پھر بھی میں اتنا ضرور جان گئی ہوں کہ اعلیٰ عدلیہ کے موجودہ فیصلے میں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ضرور ہے ۔تفصیلی فیصلہ تو خیر ابھی آیا نہیں لیکن تفصیلی فیصلے کا ”عرق“ تو یہی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے بھی سیاست کھیلتے ہوئے بال پارلیمنٹ کی کورٹ میں پھینک دی ہے حالانکہ محترم جج صاحبان خوب جانتے ہیں کہ وہاں ”بال“ بیچاری کا کیا حشر ہو گا۔ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ عدلیہ کی تضحیک ہوئی جب کہ دوسری طرف سزا توہینِ عدالت کے سیکشن 5 کے تحت دی جاتی ہے حالانکہ یہ سزا آئین کے آرٹیکل 63-1G کے تحت دی جانی چاہیے تھی جس کا ذکر تو ضرور ہے لیکن محض ڈرانے کے لئے یہ کہہ دیا گیا ہے کہ اس آرٹیکل کے تحت وزیرِ اعظم نا اہل بھی ہو سکتے ہیں ۔ شاید تفصیلی فیصلے میں یہ عُقدہ وا ہو جائے کہ اس آرٹیکل پر عمل در آمد کے لئے سپیکر کو حکم دیا جائے گا یا الیکشن کمشن کو۔فی الحال تو پیپلز پارٹی خوش ہے کہ سیاسی شہید بن گئے اور وہ بھی مفت ۔ جب کہ دوسری طرف اپوزیشن بھی بغلیں بجا رہی ہے کہ گیلانی جی نا اہل ہو گئے ۔ اب اگلے چند دنوں تک دونوں جانب ”ٹھا ٹھا “ ہو گی اور پھر ”ٹائیں ٹائیں فش“ ۔

قوم کو خوشی اس بات کی ہے کہ عدلیہ نے اسے گھر بیٹھے ایک ایسا وزیرِ اعظم عنایت کر دیا جس کی نظیر پوری دنیا میں نہیں ملتی ۔ اب دُنیا کو بڑے فخر سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں دہشت گرد قرار دینے والو ! اب شرم سے ڈوب مرو کیونکہ ہم نے اپنے عمل سے اپنے آپ کو دُنیا کی ایسی شریف ا لنفس قوم ثابت کر دیاہے جو مجرم وزیرِ اعظم کو بھی سر آنکھوں پہ بٹھاسکتی ہے ۔اب ہم بڑے ارمانوں سے اپنے مجرم وزیرِ اعظم کو 5 مئی سے محض اس لئے غیر ملکی دوروں پر بھیج رہے ہیں کہ ہر کوئی ہماری سادگی اور نرم دلی پر ایمان لے آئے۔

بات کہیں سے کہیں نکل گئی ، آمدم بر سرِ مطلب اپنے یوسف رضا گیلانی صاحب نے کم از کم یہ تو ثابت کر دیا کہ کوئی پنجابی کسی سندھی کی پیٹھ میں چھُرا نہیں گھونپ سکتا ۔ بِلا شبہ کل کے دُلہا گیلانی صاحب تھے اور باراتی اتحادی۔ ان پر جب گلاب کے پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جا رہی تھیں تو میں سوچ رہی تھی کہ اگر ساتھ ڈھولک کی تھاپ پر ”ہم دُولہے والے۔۔“ بھی گا دیا جاتا تو مزہ دوبالا ہو جاتا ۔ویسے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں تھا اگر اتحادی اور حواری بھنگڑا بھی ڈال دیتے ۔یہ میاں نواز شریف صاحب تو بس ”ایویں ای“ رنگ میں بھنگ ڈالنے آ جاتے ہیں ۔وہ فرماتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کے ساتھ آئے ہوئے اتحادیوں سے قوم کو سوال کرنا چاہیے کہ وہ سپریم کورٹ کی حمایت میں آئے تھے یا زرداری کے پانچ سو کروڑ بچانے کے لئے ؟۔ خیر جانتے تو میاں صاحب بھی ہیں لیکن اگر نہیں جانتے تو دست بستہ عرض ہے کہ کوئی کسی کی حمایت میں آیا تھا نہ کسی کی دولت بچانے کے لئے ۔وہ تو محض اپنے چور بھائیوں کی مدد کے لئے آئے تھے کہ کل کلاں ان پر بھی ایسا کڑا وقت آ سکتا ہے۔ اگر چوہدری شجاعت نہ آتے تو کتنے احسان نا سپاس ٹھہرتے کہ ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب اسی حکومت نے ان کے بھتیجے اور سیاسی وارث کو صاف بچا لیا۔ اے۔این۔پی کی بلور فیملی کو اسی حکومت نے ریلوے سونپ کر ان کی نسلیں سنوار دیں ، وہ بھلا کیسے نہ آتے ؟۔اور ایم۔کیو۔ایم نے بھی اپنا حصّہ ڈالنا ضروری سمجھا کہ اگر حکومت بچ گئی تو وہ حکومت کے ساتھ اور اگر کوئی ”ہتھ“ ہو گیا تو عدلیہ زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے حکومت سے الگ ہو جائیں گے کہ انہیں تو اب حکومت میں ”آنے جانے“ کی عادت سی ہو گئی ہے۔

کل جب لارجر بنچ نے گیلانی صاحب کو کٹہرے میں آنے کا حکم دیا تو ان کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔تبھی اُن کا ایک ہاتھ اعتزاز احسن اور دوسرا فاروق ایچ نائیک نے ایسے تھام لیا جیسے قصائی بکرے کوقابو کرتا ہے ۔ شاید انہیں خطرہ ہو کہ کہیں گیلانی صاحب ایسے ہی اُٹھ کے بھاگ نہ جائیں جیسے عیدِ قُربان کے موقع پر کئی قُربانی کے جانور نہ صرف بھاگ جاتے ہیں بلکہ لوگوں کو زخمی بھی کر دیتے ہیں ۔حالانکہ ایسا کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ گیلانی صاحب تو اپنی قُربانی کا ”رولا“ بڑی دیر سے ڈالتے چلے آ رہے ہیں ۔ لیکن جب اعلیٰ عدلیہ نے انہیں ساڑھے ستائیس سیکنڈ کی سزا سُنائی تو وہ کھِلکھلا اُٹھے ۔ ان کا جی تو یقیناََ قہقہہ لگانے کو چاہتا ہو گا لیکن مصلحت آڑے آئی کہ کہیں اعلیٰ عدلیہ ناراض ہو کر سزا میں مزید دس سیکنڈ کا اضافہ نہ کر دے ۔بہر حال جو ہوا سو ہوا لیکن سچی بات ہے کہ ہمارا کل کا دن بڑا خوشگوار گزرا اور اُمید یہی ہے کہ اگلے چند دنوں تک یہ میلہ لگا رہے گا اور زرداری صاحب اپنے ”عوامی بکرے“ قُربان کرتے رہیں گے ۔ذو الفقار مرزا اور بابر اعوان کی قُربانی کے بعد گیلانی صاحب ”نیم قُربان“ ہوئے ۔اب پتہ نہیں کس کی باری ہے ۔لیکن یہ طے ہے کہ رحمٰن ملک کی باری ابھی دور ہے ۔قوم کو یقیناََ اس وقت بہت راحت محسوس ہو گی جب یہ ”کالی ماتا کے بھگت“ پلے پلائے ملک صاحب کی ”بھینٹ“ کا ارادہ کر لیں گے ۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 867 Articles with 563845 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More