صدر زرداری کی نئے صوبوں کی سیاست

وطنِ عزیز کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے اور اس کے حصے بخرے کرنے کے لیے مخالفین کی سازشیں بامِ عروج پر پہنچتی نظر آرہی ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری قیادت دانستہ یا غیر دانستہ ان سازشوں کو پنپنے کا موقع دے رہی ہے، جس کے باعث ملک کے حالات دن بدن دگرگوں ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارے رہنماﺅں نے عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے خلوصِ دل سے اقدامات کرنے کی بجائے انہیں نت نئے مسائل میں الجھادیا ہے۔ لسانی بنیادوں پر نئے صوبوں کے قیام کے شوشے نے ملک کی بنیادیں کمزور کردی ہیں اور آج برسراقتدر ٹولے نے وطنِ عزیز میں لسانی فسادات کی راہ ہموار کردی ہے اور یہ آگ مسلسل بھڑکتی جارہی ہے۔ اس کے شعلے اتنے بلند ہوگئے ہیں کہ آج ہم پہلے مہاجر، پٹھان، پنجابی، بلوچی اور سرائیکی ہیں اور بعد میں مسلمان۔

اقتدار میں رہنے کی خواہش اور خود کوقومی وفاقی پارٹی کا ٹائٹل دینے والے گروہ نے ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے حصے بخرے کرنے میںہمیشہ ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔ آپ غور کریں 1971ءمیں جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن رہا تھا تو وزارت عظمیٰ کی مسند پر ذوالفقار علی بھٹو متمکن تھے جب کہ صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے خیبر پختونخوا رکھ کر ہزارہ صوبے کی تحریک کھڑی کرنے کا سہرا بھی پیپلز پارٹی کے سر ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک زوروں پر ہے۔ کہیں سرائیکی صوبے کی گونج بلند ہوتی محسوس ہوتی ہے اور اب مہاجر صوبے کے قیام کا پرچار کیا جارہا ہے۔ ملک کے چاروں صوبوں میں نئے صوبوں اور علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے جس میں پیپلزپارٹی کی دوغلی پالیسیوں اور منافقانہ روش کا سب سے اہم کردار ہے۔

صدر آصف علی زرداری نے گزشتہ دنوں بیان داغا کہ سرائیکی صوبہ اسی سال بنے گا اور یہ سال سرائیکی صوبے کا سال ہے، انہوں نے سرائیکی بینک کے قیام کا اعلان کرکے گورے انگریز کی دیرینہ حکمت عملی ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کواپنالیا، صدر زرداری پنجاب پر سیاسی قبضے کے لیے لسانی بنیادوں پر سرائیکی صوبہ بنانا چاہتے ہیں۔ بالفاظ دیگر اپنی سیاست چمکانے اور اقتدار کے لیے عوام کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اُنہیں مُہرے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اس روش کے مضر اثرات قوم کے سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں اور آنے والے دنوں میں حالات مزید مخدوش ہوسکتے ہیں۔

پیپلزپارٹی کے ان اقدامات کے بعد کراچی کے در و دیوار پر مہاجر صوبے کے مطالبے لکھ دئے گئے ہیں۔ سندھ میں بھی آج علیحدہ صوبے کی تحریک شروع ہوچکی ہے جس میں کراچی، حیدرآباد اور میر پور خاص ڈویژن کو ملاکر ایک صوبہ بنانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ اس کے لیے پمفلٹ اور نقشے بھی تقسیم کیے گئے ہیں جب کہ گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی کے متعدد ارکان کو دھمکی آمیز خطوط ملے جس میں ان سے کراچی کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہنے کا مطالبہ کیا گیا بصورت دیگر عبرت ناک انجام کے لیے تیار رہنے کا انتباہ کیا گیا تھا۔

اگرچہ متحدہ قومی موومنٹ آن دی ریکارڈ اس تحریک سے وابستگی کی تردید کرتی رہی ہے تاہم اس حوالے سے جو لوگ سرگرم ہیں یا جن علاقوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں وہ متحدہ قومی موومنٹ کے زیر اثر سمجھے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ اس بات پر شک و شبے کا اظہار کررہے ہیں کہ اس تحریک کے پس پردہ ایم کیو ایم کی قیادت کا کردار ہے۔ اس کے پیچھے چھپے مقاصد اپنی جگہ، لیکن مہاجر صوبے کے قیام کے لیے تحریک چلانے والوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اندرون سندھ بالخصوص سکھر، نواب شاہ اور اس سے ملحقہ اضلاع میں بہت بڑی تعداد میںمہاجر قیام پذیر ہیں، جو یہاں رچ بس گئے ہیں، جن کے گھر بار، کاروبار اور سب کچھ یہاں ہے۔

مہاجر صوبہ بننے کی صورت میں اندرونِ سندھ مقیم مہاجروں کا کیا بنے گا اور یہ لوگ کہاں جائیں گے؟ انہیں ایک اور ہجرت پر مجبور نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی یہ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوں گے۔ جس کی وجہ سے ایک بہت بڑا لسانی فساد کھڑا ہوجائے گا اور یہ لوگ مکمل طور پر سندھیوں کے رحم و کرم پرہوں گے اور ان کے درمیان شدید لسانی فسادات کی آگ بھڑک اٹھے گی جس سے اعراض کرنا مہاجر صوبے کے قیام کا خواب دیکھنے والوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔ لہٰذا انہیں اندرونِ سندھ مقیم مہاجروں کے مفادات بھی دیکھنے چاہئیں۔

بعض لوگ کراچی میں حالیہ بدامنی اور فسادات کو بھی مہاجر صوبے کے مطالبے سے جوڑتے ہیں تاہم اس تحریک کے پیچھے جو بھی پارٹی یا لوگ ہوں، اُنہیں کھل کر عوام کے سامنے آنا چاہیے۔ اس سارے منظر نامے کی ذمہ داری پیپلزپارٹی کی قیادت پر بھی عاید ہوتی ہے کہ اس نے ہی لسانی بنیادوں پر صوبے کے قیام کا شوشا چھوڑا۔ اگر واقعتاً نئے صوبوں کے قیام کی ضرورت ہے تو یہ لسانی نہیں، انتظامی بنیادوں پر بننے چاہیں کہ یہی قومی مفاد کا تقاضا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک عام آدمی کو اس بات کا ادراک تھا کہ ملک کے کسی بھی حصے میں لسانی بنیادوں پر صوبے کے قیام کی تحریک یا اقدام کے اثرات سے سندھ بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا تو ایسے میں پیپلزپارٹی کی قیادت اس نکتے سے لاعلم کیسے ہوسکتی ہے اور کیا یہ قضیہ پی پی کی موجودہ قیادت کی نااہلی پر دلالت نہیں کرتا؟ جن لوگوں کی قومی ایشوز پر یہ حالت ہو، جو اپنے مضبوط ووٹ بینک رکھنے والے صوبے کو بھی علیحدہ صوبے کی تحریک اور اس کے اثرات سے بچانے کا ادراک نہ کرسکیں، جن کے لیے ملک و قوم سے بڑھ کر ذاتی مفادات عزیز ہوں ان سے خیر و بھلائی اور رہنمائی کی کیا توقع کی جاسکتی ہے؟
Usman Hassan Zai
About the Author: Usman Hassan Zai Read More Articles by Usman Hassan Zai: 111 Articles with 78124 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.