وزیر اعظم کادورہ راولاکوٹ اور 9ماہ کی حکومتی کارکردگی

آزاد کشمیر کی حکومت قائم ہوئے ابھی سال پورا ہونے میں بھی 3ماہ باقی ہیں اور پہلے بجٹ کی تیاریاں بھی شروع کر دی گئی ہیں ،اس مختصر دورانیے میں وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید نے 10مرتبہ کا بینہ میں توسیع کر دی ہے لیکن مسائل ہیں کہ حل ہونے کو نہیں آ رہے جس کی واضح مثال موجودہ 31 ممبران اسمبلی میں بھی گروپ بندیاں ہیں جو کہ موصوف وزیر اعظم صاحب سے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی اور اکثر و بیشتر وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی باتیں بھی میڈیا میں آ رہی ہیں،اہم حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم ایک کمزور اعصاب کے مالک شخص ہیں گروپننگ کی وجہ سے وزیر اعظم کو ممبران اسمبلی بلیک میل کر رہے ہیں جس کی وجہ سے موصوف وزیر اعظم صاحب چڑ چڑے پن کا شکار ہو رہے ہیں جس کی واضح مثال ہم نے گزشتہ دنوں ان کے دورہ راولاکوٹ میں ضلعی محکمہ جات کے جائزہ اجلاس کے بعد منعقدہ صحافیوں کے ساتھ ایک نشست کے دوران دیکھی ،موصوف نے انتہائی روکھے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی حکومتی کارکردگی پر کیے جانے والے سوالات پر انتہائی برہم انداز میں ڈانٹ پلاکر صحافیوں کومحدودکرنے کی کامیاب کوشش کی ،حکومتی مالیاتی بحران کے حوالے سے جب سوال کیا گیا تو موصوف نے توقع کے انتہائی برخلاف انتہائی گرجدار آواز میں اس سوال کے جواب میں کہا کہ خاموش۔۔۔۔۔کون کہتا ہے یہ۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔۔ حکومت مالیاتی بحران کا شکار ہر گز نہیں ہے انہوں نے میڈیکل کالجز اور دوسرے پراجیکٹ کے حوالے باتیں کر کہ مالیاتی خسارے کے سول کو گول مول کر لیا ۔آج کے دور میں مفادات اور حق حقوق کی جنگ تو سب ہی لڑتے ہیں اسی تناظر میں جب وزیر اعظم صاحب کو میڈیا کے نمائندگان کیلئے ہاﺅسنگ سوسائیٹی کے حوالے سے ہونے والی محکمہ جنگلات کی طرف سے رکاوٹوں کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے اپنے آپ کو انتہائی مظبوط ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا کہ '' میں'' جنگلات کی زمین میں ایک انچ بھی نہیں دوں گا ان کی اس '' میں '' سے جو تاثر مل رہا تھا اس میں موصوف حاکم اور وہاں موجود دیگر لوگ محکوم معلوم ہو رہے تھے کیونکہ اس وقت ضلعی محکمانہ جائزہ اجلاس میں اسپیکر اسمبلی غلام صادق ،چیئرمین پبلک اکاﺅنٹ کمیٹی عابد حسین عابد ، دیگر وزیر جن میں پرویز اشرف،میاں عبدالوحید اور محترمہ فرازانہ یعقوب کے علاوہ مسلم کانفرنس کے ممبر اسمبلی سیاب خالد بھی ان کے ساتھ شریک مجلس تھے جس وجہ سے ان کو اپنے اوپر زیادہ ہی اعتما د ہو گیا جس وجہ سے موصوف '' میں '' کااستعمال با ر بارکرتے رہے ،خیر موصوف اس وقت وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں اور مجھ جیسے ہزاروں کو ایک قلمی مار سے کہیں سے کہیں پہنچانے کی طاقت بھی رکھتے ہیں لیکن ابھی موصوف سے ایسے عمل کی ان سے توقع نہیں ہے ۔خیر بات چل رہی تھی ہاﺅسنگ سوسائیٹی کی تو موصوف اس کو صھافیوں کیلئے مزید کٹھن اور طول دے کر چلے گئے اور جاتے جاتے صحافیوں کو مخاطب کر کہ یہ بھی کہہ گئے کہ آپ جو کچھ بھی لکھ سکتے ہیں لکھ لیں مجھے آپ کے لکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس میں 'شامل محفل' تمام قلمکار بھی داد کے مستحق ہیں کہ کسی نے بھی وزیر اعظم صاحب کے ایسے الفاظ کی دبے الفاظ میں بھی مذمت نہیں کی ،موصوف کے دورہ راولاکوٹ میں انکے شیڈول پروگرام کے آخر میں پونچھ ٹورازم فیسٹیول کی اختتامی تقریب تھی موصوف وزیر اعظم صاحب نے نمائش کا دورہ کیا انہوں نے جو الفاظ تاریخی ہتھیاروں کے سٹال پر ان کو دیکھتے ہوئے ادا کیے ان کو نمائش منعقدین اور وہاں موجود لوگ بھول نہیں پائیں گے ،اس کے علاوہ بھی بہت سے لوگ ایسے تھے جو موصوف کو شائد نرم گوشہ یا سوج بھوج نہ رکھنے والا سمجھنے کی بھول میں تھے ان کو بھی اپنی رائے میں فوراً تبدیلی لانا پڑی ، ان کے اس دورہ میں مقامی صحافیوں سے کی جانی والی غیر معیاری گفتگو نے مقامی صحافیوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا ہے خاص کر اس پہاڑی علاقے میں پرنٹ میڈیا کی ابھی سہولت موجود نہ ہونے سے موصوف نے فائدہ اٹھایا ہے ورنہ بڑے شہروں میں اس طرح کے انداز گفتگو کے چرچے بھی فوری عام ہو جاتے ہیں اور بڑے بڑوں کو صحا فیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے الفاظ کا چناﺅ کرنا پڑتا ہے۔ اس دورہ میں موصوف کیلئے ایک مشکل یہ بھی تھی کہ پونچھ میں ایک تو صدر ریاست کی مقبولیت اور ان کے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے موصوف کو وہ پذیرائی نہیں مل سکی جو وزارت عظمیٰ کے قلمدان سنبھالنے والوں کو دی جاتی ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی پونچھ میں پایا جانے والا آپسی گہرا اختلا ف جو پہلے سے گروپنگ کا شکار ہے موجودہ سیاسی ایڈجسٹمنوں کی وجہ سے اختلاف شدت اختیار کر چکا ہے اس کو بھی وزیر اعظم صاحب جو پارٹی سربراہ بھی ہیں اس آپسی ناراضگی کوتاحال حل نہیں کر واسکے یہ تو وزیر اعظم صاحب کے دورہ راولاکوٹ کا انتہائی مختصراً احوال قارئین کو پیش کیا ہے اب موصوف کی حکومتی کارکردگی کا جائزہ بھی لے لیتے ہیں چوہدری عبدالمجید صاحب کو اقتدار ملے 9 ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے اس مختصر عرصہ میں وہ متعدد بارحکومتی سیکریٹریز ،سربراہان محکمہ جات اور بیوروکریٹس کو اس برق رفتاری سے تبدیل کر رہے ہیں کہگزشتہ تمام ریکارڈ بھی ٹوٹنے کا خدشہ ہے موصوف جو صحافیوں پر گرج اور برس رہے تھے کی حاکمیت کا اصل حال یہ ہے کہ ایک دن تبادلے کا حکم نامہ جاری کرتے ہیں اور کچھ ہی لمحوں میں اس حکم نامے کی منسوخی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جاتا ہے بلدیاتی ادارہ جات اور دیگر ترقیاتی ادارہ جات میں سیاسی ایڈجسٹمنٹوں کا انبار لگا دیا گیا ہے جب کہ تمام ترقیاتی کاموں جن میں سڑکوں،ہسپتالوں ،سکولوں اور دیگر ترقیاتی کاموں کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے روک دیا گیا ہے جو سمجھداروں کیلئے لمحہ فکریہ ہے ۔کشمیر لبریشن سیل جس کو 24 سال قبل سابق صدر و وزیر اعظم سکندر حیات نے جہاد کشمیر کیلئے قائم کیا تھا اس فنڈ کو آج سیاسی جیالوں کو نوازنے کیلئے استعمال کیا جار ہا ہے اس فنڈ کوسرکاری ملازمین کی تنخواہوں ،بجلی ،پانی سمیت دیگر منصوبہ جات کی رقوم سے کٹوتی کر کے بھرا جا تا ہے اس فنڈ کی شفافیت پر خدشہ کا اظہار کرنا اصولی اس لیے بھی معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کو ایک ایکٹ کے تحت کنٹرول کر لیا گیا تھا کہ جس میں واضح ہے کہ اس فنڈ کے بارے میں کوئی بھی پوچھ کچھ نہیں کر سکتا۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی آزادی کیلئے قائم ہونےوالے اس فنڈ کو خفیہ فنڈ بھی کہنا درست ہے عوامی خون پسینہ سے کی گئی کٹوتی جو ایک اندازے کے مطابق سالانہ 1ارب سے زاید بنتی ہے اس بھاری رقم میں سے جس کو مرضی جتنانواز دو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ موصوف وزر اعظم صاحب کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اپنی اکھڑ مزاجی سے باہر نکلیں اور حقیقت کا اصل رخ بھی دیکھ لیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ 40لاکھ نفوس پر مشتمل اس آزاد کشمیر میں سے 10لاکھ کے قریب لوگ بیرون ملک روزگار حاصل کر رہے ہیں 1 لاکھ کے قریب سرکاری ملازم ہیں اور پاک فوج میں بھی 1 لاکھ کے قریب کشمیری فوجی خدمات سرانجام دے رہے ہیں گو کہ آج تک قائم ہونے والی کوئی بھی حکومت ان تمام حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے بہتر حکمت عملی بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی جبکہ اگر ایک مناسب حکمت عملی سے فرض شناس لوگ ان لوگوں سے فائدہ اٹھائیں تو یہی آزاد کشمیر دنیا کیلئے ایک بہتریں ماڈل بن سکتا ہے گزشتہ اور موجودہ حکومت ان حقائق سے فائد نہیں اٹھا سکی ہیں جس کی بے شمار وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ بھی حکومتی سیٹ اپ میں آتے ہیں سوائے چند گنے چنے افراد کے وہ بھاری رقم خرچ کر کہ حکومتی سیٹ اپ میں آتے ہیں اور حکومت میں آنے پر وہ اپنی مرضی سے وزارتوں کی تقسیم میں بھی بھاری رقوم خرچ کرتے ہیں اب فیصلہ قارئین ہی کر سکتے ہیں کہ یہ لوگ حکومت میں وزارتیں لے کر عوامی خدمت کریں گے یا اپنی رقوم کو ڈبل کرنے کے بعد مستقبل کی حکومت میں شامل ہونے کیلئے باربار ڈبل کرنے کی مشق کریں گے ۔ایسا عمل صرف پیپلز پارٹی کی حکومت ہی نہیں کر رہی بلکہ وفاق میں بھی جو حکومتیں قائم ہوتی ہیں وہ یہی پیسہ کی گیم پے بنتی اور ٹوٹتی ہیں ان کی ہی دیکھا دیکھی آزاد کشمیر کے حکومتی لوگ بھی خربوزے کی طرح رنگ پکڑتے ہیں ۔موصوف وزیر اعظم صاحب کو کیا یہ نہیں معلوم کہ حصول اقتدار کیلئے اربوں کی بولی لگتی ہے ۔۔؟تمام ایسے لوگ جو سیاسی ہیر پھیر سے واقفیت رکھتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ گزشتہ دو عشروں سے آزاد کشمیر میںجو بھی حکومتیں قائم ہوتی ہیں ان میں جو جتنی بھاری رقم خرچ کرتا ہے اس کو اسی رقم کے معیار کے مطابق عہدے دیئے جاتے ہیں ۔یہ سب کچھ اگر پیسوں نہیں ہوتا تو گزشتہ حکومت کے پانچ سالوں میں چار وزیر اعظم صاحبان کیسے تبدیل ہو گئے ۔۔؟کشمیر کونسل کیلئے جن لوگوں کو منتخب کیا جاتا ہے ان کی بولیوں سے کون نا واقف ہے؟ ان سوالات کے جوابات تو متعلقین ہی کو بہترمعلوم ہیں لیکن وہ جوان آخر کس کو اور کیوں دیں۔۔؟احتساب بیورو آزاد کشمیر کے نے کرپشن کے خلاف جو کام شروع کیا اس کو بھی کنٹرول میں لانے کیلئے متعلقین نے حکمت عملی وضح کر کہ اس پر کام شروع کر دیا ہے ۔اب اقتدار اور وزارتوں کیلئے ہی پیسہ کا خرچ نہیںکیا جارہا بلکہ اب تو جو حکومتی مشیر لگائے جاتے ہیں ان کی قیمتیں بھی کروڑوں میں کی جاتی ہے اور ضلعی محکمانہ چارج سنبھالنے کیلئے بھی بڑی بڑی بولیاں لگتی ہیں وزیر اعظم صاحب کو غور کرنا چاہیے کہ ان کو اپنے اس مختصر مدت اقتدار پر نظر دوڑانی چاہیے تو ان پر واضح ہو جاتا ہے کہ 9ماہ کے عرصہ میں 8 مشیر حکومت تعینات ہو چکے ہیں اور بہت سے لوگ ابھی اس لائن میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں،موصوف وزیر اعظم صاحب کی حکومت پر نظر دوڑائیں کہ 49ممبران کے ایوان میں ان کے پاس 31 ممبران کی نمائیندگی موجود ہے جن میں سے 24 وزراءحکومت ، ایک اسپیکر ایک ،ڈپٹی اسپیکر ایک چیئرمین پبلک اکاﺅنٹ کمیٹی اور پارلیمانی سیکریٹری کے علاوہ دو ممبران جن میں سابق وزیر اعظم سلطان محمود چوہدری اور پیر عتیق الرحمان شامل ہیں ان میں سے بھی سلطان محمود چوہدری صاحب کی نظری اقتدار کی کرسی پر جبکہ پیر صاحب اپنی من پسند وزارت کا قلمدان جلد سنبھالتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اب موصوف وزیر اعظم صاحب کو اپنے رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور وزارتیں اور مشاورتیں بانٹنے کے بجائے حقیقی معنوں میں عملی کام کرنا ہونگے ورنہ ان کا موجودہ مذاج انہیں بھی گزشتہ حاکموں کی طرح غرق کر سکتا ہے ۔یہ تو آزاد کشمیر میں موجود حکومتی کی کارکردگی پر مختصرسی رپورٹ ہے آئیندہ آنے والی تحریر میں اپوزیشن جماعتوں کی کارکردگی کو قارئین کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔
Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 59808 views Columnist/Writer.. View More