ایک فعال شہری بننا ہم سب کا فرض ہے

میانوالی میں رہنے والے کل لوگوں کی تعداد کوئی 8یا 10لاکھ کے قریب ہوگی۔لیکن اگر اس میں سے فعال شریوں کی تعداد کو گنا جائے تو وہ کل آبادی کا ایک فیصد حصہ ہوں گے ۔اور شائد اس سے بھی کم ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ اس بات سے ہی آگاہ نہیں کہ دراصل فعال شہری کسے کہتے ہیں۔بہت سے لوگوں کے مطابق وہ شخص یا وہ محترمہ جو ہر وقت کسی نہ کسی کام کے لیے بھاگتے دوڑتے نظر آئے وہ ایک فعال شہری ہے۔کچھ لوگ تو اس حد تک بھی سوچتے ہیں کہ اگر کسی شخص کی بات حکومتی سطح پر سنی جاتی ہے تو وہ ایک فعال شہری ہے۔لیکن حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے۔ہم جہاں بھی رہتے ہیں خواہ وہ ہمارا گھر ہو ، ہمارا سکول یا کالج ہو، ہمارامحلہ ہو ، ایک شہر ہو یاایک ملک ہو وہاں رہنے والے ہر مرد و زن پر کچھ نہ کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور اس میں رہتے ہوئے اس معاشرے یا اس جگہ سے اس کے حقوق بھی وابستہ ہوتے ہیں۔ایک فعال شہری ہونے کا اصل مقصد اپنے فرائض کی سہی طرح سے نشاندہی اور پھر ان فرائض کی احسن طریقے سے بجاآوری ہے۔ایک فعال شہری اس شخص کو بھی کہا جا سکتا ہے کہ جو اپنے معاشرے میں پیدا ہونے والے مسائل کا اپنے علاقے کے لوگوں کے ساتھ ملکر ایک حل تلاش کرتا ہے اور اس پر عمل پیرا بھی ہوتا ہے۔اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہم میں سے ہر شخص کو ایک فعال شہری ہونا چاہیے۔اس امر کی آگاہی کے لیئے ملک بھر میں کئی تنظیمیں کام کر رہیں ہیں اور اس سے مثبت نتائج بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔گذشتہ دنوں اپنے میانوالی میں ہی ایک غیر سرکاری تنظیم کے تحت ہونے والے چار دن کے ایک بیداری شعور پروگرام میں بیٹھنے کا موقع ملا۔میانوالی کے گردونواح سے لوگ اس میں شریک تھے لوگوں کے رویے کے ساتھ ساتھ عوام کے مسائل کو سمجھنے کا بھی ایک شاندار موقع ملا۔وہاں جا کر اس بات کا علم ضرور ہوا کہ ہم میں سے ہر کوئی ایک فعال شہری کی تعریف سن کر فعال شہری تو بننا چاہتا تھ ا۔مگر ضرورت اس بات کی تھی کہ اس بات کی آگاہی کہاں سے اور کیسے ملے کہ ہم ایک فعال شہری کیسے بن سکتے ہیں ۔برداشت اور مذاکرات کے لیئے تیار ہونا ایک اہم عنصر جانا جاتا ہے فعال شہری میں اگر وہ برداشت کے مادہ سے خالی ہے تو بھی وہ ایک فعال شہری نہیں بن سکتا اور اگر وہ بات چیت نہیں کر سکتا تو بھی وہ ایسا نہیں کر سکتا۔خود غرضی کا خاتمہ ،دوسروں کا احساس اور معاشرے سے ایک رشتہ قائم کر نا جس سے نہ اس شخص میں بلکہ جس معاشرے میں وہ رہتا ہے اس میں بھی ایک اعتماد کی فضاءقائم ہوگی۔میرا یہ یقین ہے کیہ ہمارے معاشرے کے بیشتر مسائل ہمارے ہی پیدا کردہ ہیں ۔اور اگر ہم ہی ایک ہو کر اس کو حل کرنے کے لیئے چل پڑیں گے تو مجھے نہیں لگتا کہ ہمارے ملک میں کوئی بھی مسئلہ باقی رہ جائے گا۔ہمیں اب مزید یہ نہیں سوچنا کہ یہ تو حکومت کا کام ہے وہ جانے ہمارا کیا ہمارا فرض بنتا ہے ہم اس کو اپنے طور پر حل کریں اور اگر ایسا ہم نہیں کر پا رہے تو ایک باضابطہ طریقہ کار سے متعلقہ حکام تک اس بات کو پنہچائیں۔صرف تنقید کرنا چھوڑ دیں مسئلے کا حل بھی تجویز کریں اور اگر ہم سب ایسا کرنے لگ جائیں تو یہی اصل کامیابی ہو گی کیونکہ تب حکمران بھی ہمارے ساتھ ایسا ہی تعاون کریں گے جیسے ہم ان کی معاونت کریں گے ۔تو آئیں آج سے عہد کریں کہ ہم ایک فعال شہری بنیں گے اور اردگرد کے مسائل کی نشاندہی کر کہ اس کے حل کی کوشش کریں گے اور اگر حل نہ ہوا تو ایک منظم طریقہ سے حکام سے مدد لیں گے۔
Zia Ullah Khan
About the Author: Zia Ullah Khan Read More Articles by Zia Ullah Khan: 54 Articles with 47693 views https://www.facebook.com/ziaeqalam1
[email protected]
www.twitter.com/ziaeqalam
www.instagram.com/ziaeqalam
ziaeqalam.blogspot.com
.. View More