تعلیم اور سیاسی جماعتیں

ہماری تعلیم کو جتنا سیاسی تنظیموں نے ناقص کیا ہے ،شاہدہی کسی اور چیز سے اس میں بگاڑ آیا ہو ،تصادم ،شوروغوغہ یہ روز کا معمول ہے اور تصادم ہونے کے بعد ہفتوں تک یونیورسٹیوں کا بند ہونا عام ہے۔ استاد جسے روحانی باپ کہا جاتا ہے اور جس کا درجہ حقیقی باپ سے زیادہ ہوتا ہے ،اس کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، گویا ایسا سلوک کرتے ہیں کہ وہ ان کے روحانی باپ نہیں بلکہ ان کے ماتحت ہوں۔ پڑھائی کے دوران کلاس میں آکر استاد کو باہر نکالنا ، پھر اپنی من مانی کرنا ، اپنی جماعت کا رعب جھاڑنا اور طالبعلموں کو تنگ کرنا ان کا پسندید ہ مشغلہ ہے ،جس کی وجہ سے اکثر طلباء تعلیم سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں اور جو تعلیم جاری رکھے ہوئے ہوتے ہیں وہ بھی ذہنی تناﺅ اور خوف کا شکار ہوتے ہیں کہ نجانے کس وقت کیا ہو جائے اور اپنے آپ کو کوستا رہتا ہے کہ یہاں داخلہ کیوں لیا ۔
اب درندوں سے نہ حیوانوں سے ڈر لگتا ہے،
کیا زمانہ ہے کہ ا نسانوں سے ڈر لگتا ہے،
عزت نفس کسی شخص کی محفوظ نہیں ،
اب تو اپنے نگہبانوں سے ڈر لگتا ہے،

چند روز قبل کی بات ہے ایک دوست نے بتایا جو اردویونیورسٹی میں پڑھتے ہیں کہ ہمارے ڈرامے کے پرچے کا ڈراما بن گیا کچھ لوگ کلاس میں آئے اور ہماری کاپیاں ہی پھاڑدی اس کے بعد اب تک پرچوں کا دوبار ہ شیڈول نہیں بنا۔اب یہ کوئی بتائیں،یہ کونسی جہالت ہے کہ کلاس میں پرچہ کے درمیان داخل ہونا ،استاد کے ہوتے ہوئے امتحانی کاپیوں کو پھاڑنا ،اس طرح کے حرکات کرنے والے کو تعلیم کہاں فائدہ دے گی۔اس کی نظیر اب سے کچھ قبل دور تک نہیں ملتی تھی، لیکن ہماری سیاسی جماعتوں کی بدولت اب اس کی نظیر ہر دوسرے اور تیسرے روز مل ہی جاتی ہے اور اخباروں و ٹی وی چینلز کی ہیڈ لائنز بن جاتی ہے ۔

سیاسی تنظیم اور تعلیم کے درمیان کونسی مطابقت پائی جاتی ہے۔ جو ایک دوسرے سے تعلق رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ ان دونوں کے درمیان تو تضاد ہے لیکن اس کے باوجود تمام سرکاری یونیورسٹیوں میں ان تنظیموں کی بھر مار ہے ،ہر تنظیم چاہتی ہے کہ ان کا نام روشن ہو جس کے لئے آئے دن تنظیموں کے درمیان تصادم ہوتا نظر آتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس تصاد م کے بعد چارسے پانچ دن یونیورسٹی سے آرام مل ہی جاتا ہے۔اب سیاسی تنظیموں کایونیورسٹیوں میں کیا کام ؟ یونیورسٹی تو تعلیم کے حاصل کرنے کی جگہ ہوتی ہے ۔لیکن یہاں تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد کم اور تنظیموں سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے ۔

باہر ممالک کی یونیورسٹیوں کا ماحول اٹھا کے دیکھو شاید ہی بمشکل کوئی واقعہ نظر آئے ،وہاں بھی ہوتے ہونگیں مگر کیا ان کی تعلیم کا معیاربھی ہماری طرح ہے؟وہاں کے ماحول کو دیکھو گے تو واقعی لگتا ہے کہ کسی تعلیم حاصل کرنے والے ادارے میں آگئے ہیں،اس کے برعکس ہمارے اداروں کی حالت دیکھو گے تو رونا آئیگا۔وال چاکنگ سے پوری یونیورسٹی رنگی ہوتی ہے،ہر جماعت والوں نے اس میں اپنی پینٹنگ کی ہوتی ہے۔اس کو دیکھ کر ہر کوئی اپنے دل میں سوچ سکتا ہے کہ پتا نہیں کہا ں آگئے۔ہاں بعض ادارے اب بھی ہیںجو واقعی تعلیم کے لحاظ سے آگے اور مثالی ہیں،اس سے انکار نہیں مگر ان کی تعداد دوسروں کے مقابلے ،آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔

ملک میں جہاں بھی کوئی گڑبڑ ہوتی ہے اس کا اثر یونیورسٹی تک ضرور پہنچتا ہے،اگر کہیں سوگ کا اعلان ہوتا ہے تو یونیورسٹی میں بھی سوگ منایا جاتاہے،اگر تین دن سوگ ہوگا شہر میں،تو یہاں بھی تین دن سوگ ہوگا،اگر شہر میں کسی تنظیم کا بڑا آیا ہوگاتو اس کی حفاظت کے لئے تعلیم نظام بھی بند ہوگا۔اب ذرا غور کرو کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کا اثر اگر تعلیمی نظام پے پڑیگا تو تعلیم کہاں سے ترقی کریگا ،تعلیم کے معیار اور نظام میں کیسی بہتری آئیگی؟یہی وجوہات ہیں جسکی بناء پر ہمارے ملک کی تعلیم ،خاص طور پر سرکاری اداروں کی تعلیم کا معیار اورنظام بےکار ہوچکا ہے۔جب آپ کے ملک میں آپ کے یونیورسٹی کی ڈگری قابل قبول نہیں تو اس ڈگری اور تعلیم کا کیا کرنا،بہت سے ادارے ایسے ہیں جہاں سرکاری اداروں سے حاصل کی گئی ڈگری کو قبول نہیں کرتے اور پرائیویٹ اداروں کو سرکاروں اداروں کے بنسبت زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔جب تک تعلیمی نظام خالص نہیں ہوجاتا،یعنی سیاسی جماعتوں سے پاک نہیں ہوجاتا ،تب تک نظام تعلیم اور معیار تعلیم میں بہتری لانا ممکن نہیں۔
Haseen ur Rehman
About the Author: Haseen ur Rehman Read More Articles by Haseen ur Rehman: 31 Articles with 56634 views My name is Haseen ur Rehman. I am lecturer at College. Doing Mphil in English literature... View More