محدث کبیر ابوالعرفان ابراہیم بن حسن کردی

مسندالہندحضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی(رح) نے سفرحجاز میں جن اکابرمحدثین سے علوم حاصل کیے اُن میں ایک نمایاں ترین نام محدث جلیل ابوطاہرمحمد بن ابراہیم کردی(رح) کا ہے بلکہ شیخ کردی سے ہی حضرت شاہ صاحب نوراللہ مرقدہ نے سب سے زیادہ استفادہ کیا حتی کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کاسلسلہ سندحدیث انہی کے واسطے سے عام طور پر مشہور ومعروف ہوا ہے۔محدث کبیرابوالعرفان ابراہیم بن حسن کردی ،انہی الشیخ ابوطاہرکردی کے والدمحترم اورحضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے دادااستاذ ہیںجو نہایت بلندپایہ عالم دین تھے۔ وہ جس طرح ظاہری علوم وفنون میں یدطولیٰ رکھتے تھے اسی طرح باطنی علوم وفنون سے بھی بخوبی آگاہی رکھتے تھے اور ہر دو جانب کے علمائ کے دل وجان سے قدردان تھے اور ان سے محبت وعقیدت کے ساتھ ان کی طرف منسوب غلط افکار ونظریات کی تردید بھی کیا کرتے تھے اور یہی جامعیت آگے چل کر ان کے صاحبزادے میں منتقل ہوئی اوران کے واسطے سے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اس مزاج کے حامل ہوئے اوریہی وصف جامعیت اور راہ اعتدال علماء دیوبندکثراللہ سوادہم کا طغرائے امتیازہے۔آج کی محفل میں اسی عظیم محدث کا تذکرہ پیش کیا جارہاہے۔

موصوف کا نام نامی ابراہیم ،ابوالعرفان کنیت اور برہان الدین لقب ہے۔ سلسلۂ نسب یوں ہے:
ابراہیم بن حسن بن شہاب الدین الشہرزوری الکردی الکورانی الشافعی۔

1065ھ میں پیدا ہوئے ۔ پدر بزگوار کے علاوہ اس عہد کے دیگر نامور علمائ سے علوم دینیہ کی تکمیل کی پھر بغداد میں دو برس قیام کیا اور بڑے بڑے علمائ ومشائخ سے اکتساب فیض کیا،پھر چار سال شام میں گزار کر مصر ہوتے ہوئے حرمین پہنچے یہاں ان کی شیخ قشاشی(رح) سے ملاقات ہوگئی اور جب ایک پر دوسرے کے جوہر کھلے تو تعلقات استوار تر ہوتے چلے گئے شیخ قشاشی(رح) نے ان کو خرقہ پہنایا اور تمام مرویات کی اجازت دی نیز اپنی دختر نیک اختر سے ان کا نکاح کردیا سید محمد جلیل مرادی﴿سلک الدرر ج ۱ ص ۵﴾پر آپ کی تعلیم کا حال تحریر فرماتے ہیں:

’’طلب العلم بنفسہ ورحل الی المدینۃ المنورۃ وتوطنھاواخذ بھاعن جماعۃ من صدورالعلمائ کالصفی احمدبن محمدالقشاشی والعارف ابی المواھب احمدبن علی الشناوی وملامحمدشریف بن یوسف الکورانی والاستاذعبدالکریم بن ابی بکرالحسینی الکورانی واخذبدمشق عن الحافظ النجم محمدبن محمدالعامری الغزی وبمصرعن ابی العزائم سلطان من احمدالمزاحی ومحمدبن علائ الدین البابلی والتقی عبد الباقی الحنبلی وغیرھم.‘‘
ترجمہ:’’آپ اپنے شوق سے طلب علم میں نکلے اور مدینے کی طرف کوچ فرمایا اور اسی کو وطن بنا لیا اور وہاں اکابر علمائ کی ایک بڑی جماعت سے استفادہ فرمایا مثلاً شیخ احمد قشاشی(رح)،ابوالمواہب احمد بن علی شناوی(رح)،ملا محمد شریف کورانی(رح)،استاذ عبدالکریم بن ابوبکر حسینی کورانی(رح) اور دمشق میں حافظ نجم محمد بن محمد عامری(رح) سے اور مصر میں ابوالعزائم سلطان بن احمد مزاحی(رح) اور محمد بن علائ الدین بابلی (رح)اور تقی عبدالباقی حنبلی (رح)وغیرہ حضرات سے علم حاصل کیا‘‘۔

آپ عربی،کردی زبان کے علاوہ فارسی اور ترکی زبانیں بھی خوب جانتے تھے، فن حدیث میں یکتائے زمانہ تھے اور حرم شریف میں آپ کادرس ہی سب سے زیادہ مقبول تھا۔

شاہ ولی اللہ دہلوی قدس سرہ پوری مدح وتوصیف کے ساتھ آپ کاتذکرہ فرماتے ہیں اورلکھتے ہیں:
ترجمہ:شیخ ابراہیم کردی قدس سرہ عالم وعارف تھے، فنون علمیہ،فقہ شافعی،حدیث ،عربیت، اصول فقہ اور علم کلام میں ان کی یدطولیٰ حاصل تھا،ان میں سے ہر فن میں ان کی تالیفات موجود ہیں۔ موصوف نے اپنے وطن میں علم حاصل کیا اس کے بعد حج کے ارادے سے قدم باہر نکالا اور کم وبیش دو برس بغداد میں قیام کیا شیخ عبدالقادر قدس سرہ کے مزار پر متوجہ رہے اور تصوف کا مذاق یہیں سے پیدا ہوا ،چار سال شام میں گزارے اور مصر ہوتے ہوئے حرمین آئے اور شیخ قشاشی سے ملے ،ان کو قشاشی سے اور قشاشی کو ان سے خاص تعلق پیدا ہوگیا ۔ آپ نے ان سے احادیث روایت کیں اور خرقہ ٔخلافت پہنا،ان کی صحبت میں بلند مراتب اور کمالات عالیہ کو پہنچے موصوف فارسی ،کردی،ترکی اور عربی سب زبانیں جانتے تھے۔روشن دماغی،تبحر علمی ،زہد ،تواضع اورصبر وحلم سے متصف تھے . شیخ ابراہیم کی سیرت یہ تھی کہ وہ اس زمانے کے نام نہاد فقیہ اور صوفیہ سے جو بڑے بڑے عمامے باندھتے اور لمبی لمبی آستین کے کرتے پہنتے،ان سے بیزار تھے،خواجگان وکاوک کے لباسوں سے متنفر تھے ،متوسط درجے کے کپڑے،عمامہ منقاریہ ادنیٰ درجے کی اون کی دھاری دار اور کوفیہ لاطیہ جو عام اہل حجاز کی عادت تھی زیب تن فرماتے تھے،مجلس میں صدر بن کر بیٹھنے اور گفتگو میں پہل کرنے یا اسی طرح کی باتیں بنا کر موصوف ہرگز اپنی حقیقت کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ اپنے شاگردوں کو بھی بحث ونظر اور باہمی گفتگو کے ذریعہ مستفید کرتے اور کہتے کہ بات اِس اِس طرح ہے اور میں اِس کو ایسا ایسا سمجھا ہوں،اور جب کوئی ان سے کوئی بات پوچھتا تو موصوف توقف فرماتے پھر تحقیق اور انصاف کے ساتھ اس اشکال کو رفع فرمادیتے تھے۔ عبداللہ عیاشی کا بیان ہے کہ موصوف کی مجلس گویا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ تھی جب وہ حکمت کے مسائل کی تقریر فرماتے تو اس کے ضمن میں متصوفانہ نکات اور حقائق بھی بیان کرتے تھے ۔ نیز صوفیہ کی باتوں کے فلاسفہ کی تحقیقات پر قابل ترجیح ہونے کو ثابت کرتے اور فرماتے تھے کہ فلسفی لوگ حقائق پر آگاہی کے قریب ترآچکے تھے لیکن اس کی طرف ہدایت نہیں پائی‘‘۔﴿انفاس العارفین﴾

شاہ صاحب ایک دوسری جگہ اپنی کتاب الانتباہ میں موصوف کے کمالات علمیہ اور مقام ومرتبہ کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
ترجمہ:’’شیخ ابراہیم کردی اصول وکلام ،فقہ وحدیث اور تصوف میں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے اور ہرفن میں ان کے رسالے موجود ہیں ان کی قوت تحریر وتقریر کا اندازہ انہی رسالوں سے ہو سکتا ہے جو روایت حدیث کے فن میں خصوصی رسالے ہیں اور بڑے بے نظیر ہیں جیسے امم اور رسالۂ مسلسلات اور رسالۂ تصحیح احادیث وغیرہ ۔جن میں انہوں نے ان روایات کی صحت سے بحث کی ہے جوصوفیہ کی زبان زد ہیں ،ان کے زمانے میں تصوف،اصول،فقہ شافعی اور علم حدیث میں تمام بلاداسلامیہ کی نظر انہی پر تھی۔ مشرق ومغرب سے ان کے پاس سوالات آتے تھے اور موصوف ان کے جوابات دیتے تھے اور ان ہی جوابات کے رسالے بن جاتے تھے ۔آپ نے سب سے پہلے علوم کی تحصیل اپنے شہر کے علمائ سے کی تھی‘‘۔

شیخ ابوسالم عیاشی موصوف کے حافظہ سے متعلق رقمطراز ہیں:
’’موصوف شیخ ابراہیم کردی حافظہ کے ایسے مرتبے کو پہنچے ہوئے تھے اگر کسی کتاب میں کوئی مسئلہ نظر سے گزر جاتا اور وہ کتاب سات برس تک ان کی نظر سے اوجھل ہو جاتی اور ان سے اس مسئلہ کے متعلق پوچھا جاتا تو وہ فرمادیتے یہ مسئلہ فلاں کتاب کے فلاں صفحہ اور فلاں سطر میں ہے ۔فن حدیث کی تحصیل میں لوگ ہر طرف سے ان پر ٹوٹے پڑتے تھے‘‘۔

حافظ سید مرتضیٰ بلگرامی ثم الزبیدی تاج العروس مادہ﴿ش ہ ر﴾میں تحریر فرماتے ہیں:
’’شہر زور ،فتح کے ساتھ،زور بن الضحاک کا شہر تھا جس کو اس نے بسایا تھا اس کی طرف شہرزوری نسبت ہے۔ یہ اب اربل اور ہمدان کے درمیان پہاڑوں میں ایک وسیع قصبہ ہے اور یہاں تمام تر کُردآباد ہیں .اس شہرکی طرف علمائ کی ایک جماعت منسوب ہے .متاخرین میں سے ہمارے شیخ الشیوخ ابوالعرفان ابراہیم بن حسن بن شہاب الدین کردی ،شہرانی ہیں‘‘۔

حافظ بلگرامی مادہ﴿ک و ر﴾ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’کوران ’’ضمہ کے ساتھ‘‘ کُردوں کا ایک قبیلہ ہے ان میں سے علمائ اور محدثین کی ایک بڑی جماعت نکلی ہے جن میں خاتم العلمائ والمحدثین ہمارے شیخ الشیوخ ابوالعرفان ابراہیم بن حسن بھی ہیںجومدینہ منورہ میں قیام فرماہیں‘‘ ۔

حافظ بلگرامی کی ان دونوں تصریحات سے معلوم ہوا کہ شہرزوری ،علاقے کی طرف اور کورانی قبیلے کی طرف نسبت ہے۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی(رح) قدس سرہ کے حوالے سے تو آپ بہت کچھ پڑھ چکے ہیں اب چند اور علمائ کے اقوال درج کیے جاتے ہیں۔
﴿۱﴾حافظ شیخ محمد عابد سندھی(رح) حصر الشارد میں رقمطراز ہیں:
’’شیخ علامہ ابراہیم بن حسن کردی کی تالیفات گوشہ گوشہ میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ شیخ کُردی امام، محقق، جامع معقول ومنقول ،اور حاوی فروع واصول تھے ۔حکمت نظریہ اور عملیہ میں پختہ کار اور ان کے اَسرار پر حاوی تھے۔ اسی طرح ابن عربی،جیلی،قاشانی،قونوی،قیصری کی حقائق کی کتابوں کے ماہر تھے اور یہی ان علوم میں حرف آخر سمجھے جاتے تھے۔ علم حدیث پر توجہ فرمائی تو یہاں تک کیا کہ اس کے موتیوں اور جواہرریزوں کو نکالا ۔شیخ کی تصانیف مشہور اور ان کے مناقب کتابوں میں مذکور ہیں‘‘۔
﴿۲﴾ قاضی محمد شوکانی المتوفی ۰۵۲۱ھ نے البدر الطالع میں لکھا ہے:
’’وہ تمام علوم وفنون میں اور عربی، فارسی اور ترکی زبان کے پڑھانے میں ممتاز تھے ۔موصوف نے تحصیل علم کے بعد مکہ مکرمہ میں سکونت اختیار کی لوگوں کو ان کی ذات سے بڑا فائدہ پہنچا آپ کی وفات تک طلبہ ان کے پاس سفر کرکے آتے رہے اور ہر علم کی تحصیل کرتے رہے‘‘۔

موصوف چونکہ جامع بین الشریعت والطریقت عالم تھے اور اللہ تعالیٰ نے علوم ظاہرہ اور حقائق باطنیہ سے وافر حصہ عطا فرمایا تھا اس لئے آپ میں عجیب جامعیب کی شان پیدا ہو گئی تھی ایک طرف اگر ابن تیمیہ جیسے حضرات کا دفاع فرماتے تو دوسری طرف حضرات صوفیائ سے بھی دفاع فرماتے تھے۔

مولانا محمود حسن خان ٹونکی فرماتے ہیں:
’’وکان رحمہ اللہ تعالی سلفی العقیدۃ ذاباعن ابن تیمیۃ وغیرہ عن الائمۃ وکذایذب عماوقع فی کلمات الصوفیۃ‘‘
’’ان پر اللہ کی رحمت ہو یہ سلفی عقیدہ رکھتے تھے ابن تیمیہ وغیرہ ائمہ فن کی طرف سے مدافعت کرتے تھے اسی طرح جو کلمات صوفیہ کی زبان سے نکلے ہیں ان کی طرف سے﴿بھی﴾جواب دہی کرتے تھے﴿معجم المصنفین ج ۳ ص ۸﴾

علم وعمل کا یہ آفتاب وماہتاب نصف صدی سے زیادہ عرصے تک علوم ومعارف کی ضیائ پاشیاں کرتا ہوا اور ایک عالم کی اپنے فیوض سے نفع اندوزکرکے ۱۰۱۱ھ ۸۲ جمادی الاولیٰ کو راہ گیر عالم آخرت ہوئے اور بقیعِ غرقدمیں مدفون ہوئے۔

شیخ محمد عابد سندھی(رح) تحریر فرماتے ہیں:
موصوف 28 جمادی اولیٰ1110ھ میں اللہ کو پیارے ہوگئے اور بعد مغرب بقیعِ غرقد میں سپرد خاک کر دیئے گئے اللہ تعالیٰ ان پر رحمت فرمائے ۔آپ کی تاریخ وفات اس زمانے کے ایک خطیب نے اس طرح نکالی ہے:
’’واللہ انا علی فراقک یاابراہیم لمحزونون‘‘

آپ کی وفات پر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ان کے صاحبزادے اوراپنے استاذ شیخ ابوطاہرمحمد کردی کو ایک دردانگیز تعزیتی خط بھی تحریرکیا تھاجو اس بات کاغماز ہے کہ حضرت شاہ صاحب کے حجاز سے واپس آجانے کے بعد بھی ان سے بہت قریبی اور محبت بھرے تعلقات قائم تھے۔ یہ تفصیلی خط مولانانسیم احمد فریدی(رح) کی ترتیب وترجمہ کے ساتھ شائع شدہ کتاب’’ نادرمکتوبات شاہ ولی اللہ‘‘ میں طبع ہوچکاہے۔ ﴿نادرمکتوبات شاہ ولی اللہ دہلوی(رح) ،ص۳۲۵تا۵۲۵﴾

اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین فرزند عطا فرمائے جن میںہر ایک کا نام محمد تھااورپہچان کے لیے کنیت الگ الگ تھی۔﴿۱﴾ابو سعید محمد﴿۲﴾ابوالحسن محمد﴿۳﴾ابوطاہر محمد﴿یہی شیخ ابوطاہرکردی ہیں جو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی(رح) کے استاذ ہیں﴾

شیخ ابراہیم کردی قدس سرہ کو جس طرح ان کے شیخ احمد قشاشی(رح) نے خرقۂ خلافت سے نوازا اور جانشینی عطائ فرمائی اس طرح موصوف نے اپنے چھوٹے فرزند سعادت مند شیخ ابوطاہر محمد کردی مدنی کو خرقۂ خلافت سے نوازا اور اپنی جانشینی کیلئے نامزد فرمایا۔

آپ کی تصانیف بہت زیادہ ہیں جن میں سے چند مشہور تصانیف کے نام درج ذیل ہیں:
﴿۱﴾الامم لایقاظ الہمم ﴿۲﴾ابدا النعمۃ بتحقیق سبق الرحمۃ ﴿۳﴾ اشراق الشمس بتعریف الکلمات الخمس﴿۴﴾اقتفائ الآثار﴿۵﴾جواب العتید لمسئلۃ اول واجب ومسئلۃ التقلید ﴿۶﴾المسک الجلی فی حکم شطح الولی﴿۷﴾ مجلی المعانی علی عقیدۃ الدوانی﴿۸﴾الجواب الکافی عن مسئلۃ احاطۃ العلم المخلوق بالغیرالمتناہی۔

مضمون کے ماخذ:انفاس العارفین، شاہ ولی اللہ دہلوی(رح).نادرمکتوبات شاہ ولی اللہ دہلوی(رح).فوائدجامعہ شرح عجالہ نافعہ ، مولانا عبدالرحلیم چشتی مدظلہ.
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 346754 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.