تلخ یادیں جو آج بھی دلوں میں تازہ ہیں

تقسیم برصغیرجِسے تقسیم ہندبھی کہاجاتاہے سے متعلق اہلِ قلم نے بہت کچھ تحریرہے اوریہ سلسلہ تاہنوزجاری ہے۔ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ سانحہ تقسیم نے نہ صِرف لاکھوں لوگوں کے دِلوں کومجروح کیابلکہ خون کے رشتوں کوایک دوسرے سے جُدابھی کردیا۔1947ءمیں جب ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کررہاتھااُسی اثنامیں چندافرادکی ناعاقبت اندیشی اورغلط پالیسیوں کی وجہ سے انسان‘ انسان کابیری ہوگیاجس کے نتیجے میں لاکھوں انسانوں کی جانیں تلف ہوئیں۔مذہب کی بناءپرقتل عام ہوا،سانحہ تقسیم اسقدرالمناک تھاکہ اس کے گہرے نقوش ابھی بھی انسانی ذہنوں سے مٹ نہیں پائے ہیں۔1947ءکے سانحہ تقسیم ملک کے دردوآلام کااحساس تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی سے بخوبی ہوجاتاہے۔ بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں دوقومی نظریہ کے تحت پاکستان وجودمیں آیا، لاکھوں ہندوستانی نقل مکانی کرکے پاکستان چلے گئے اوراتنی ہی تعدادمیں لوگ پاکستان سے ہندوستان منتقل ہوئے۔اس سانحہ سے جموں وکشمیر کے لوگوں کو بھی شدیدنقصان جھیلناپڑا۔یہ کہنابھی بے جانہ ہوگاکہ بے شک سانحہ کانام تقسیم ہِندسے منسوب کیاگیامگراصل میں ہندوستان کی دیگرریاستوں کے مقابلے سب سے زیادہ نقصان ریاست جموں وکشمیر کے لوگوں کوہی برداشت کرناپڑا۔1947ءمیں چند افرادکی تنگ نظری سے ملک کے ٹکڑے توہوئے ہی مگرریاست جموں وکشمیرسے ہجرت کرکے پاکستان کے مختلف شہروں میں آبادافرادیاپاکستان سے نقل مکانی کرکے ریاست جموں وکشمیریاہندوستان کی کسی دوسری ریاست میں مقیم افرادکے دِلوں پرجوزخم لگے ہیں اُن کادردوہ آج بھی محسوس کررہے ہیں۔ریاست جموں وکشمیر کے صوبہ جموں سے پاکستان ہجرت کرنے والے مسلمان خاندانوں جن میں بیشترگوجربکروال طبقہ سے تعلق رکھنے والے خاندان بھی شامل تھے نے پاکستان کے شہرسیالکوٹ کواپناٹھکانہ بنایا، کیونکہ فرقہ وارانہ فسادات کے پرآشوب حالات میں جب جانوں کے لالے پڑے ہوئے تھے ‘ اس دوران جموں سے نقل مکانی کرنے والوں نے پاکستان کے قریبی شہرکی سرحدسچیت گڑھ ۔سیالکوٹ کی طرف ہی رُخ کیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ جموں سے سب سے نزدیک پاکستانی شہرسیالکوٹ ہی ہے جس کی دوری جموں سے محض 35 کلومیٹرہے ۔جانیں بچاتے بچاتے لوگوں نے ایک یادوگھنٹوں کے دوران ہی اس مسافت کوطے کرلیااوروہاں پراپنے آپ کومحفوظ پایا۔

چندروزقبل(یکم اپریل،2012)کو راقم الحروف کاچھوٹابھائی محمدعارف ایک مہینہ پاکستان کے شہرسیالکوٹ میں گذارکراپنے عزیزواقارب سے ملاقات کرکے جب واپس لوٹاتواُس نے اپنے دورہ پاکستان کے مختلف پہلوﺅں سے مجھے روشناس کرایا، اوروہاں پر1947ءمیں ہجرت کرکے گئے افرادکی آبائی وطن سے محبت وعقیدت سے متعلق اپنے تاثرات بیان کیے۔

عارف مجھے شہرسیالکوٹ کی گلیوں ،نظاروں ، دیہات اورمشہورمقامات سے متعلق جانکاری د ے رہاتھااورمیں ذہنی طورپراُن نظاروں،گلیوں، مشہورمقامات کی سیرکررہاتھا ۔عارف کاکہناتھاکہ سیالکوٹ میں جموں سے 1947ءمیں ہجرت کرکے گئے گھرانوں کی اچھی خاصی تعدادآبادہے اورجوچاہ ومحبت اُن کے دِلوں میں اپنے آبائی وطن کے تئیں میں نے دیکھی اُس کاجواب نہیں۔

میں نے عارف سے پوچھاکہ آپ کوکس چیزنے وہاں پرسب سے زیادہ متاثرکیا؟اُس نے جواب میں کہاکہ سیالکوٹیوں کی مہمان نوازی اورخاطرتواضع اورخاص طورسے اُن لوگوں نے جوتقسیم ملک کے وقت ہجرت کرکے اپنے پیچھے آباواجداداورماضی کی شیریں وتلخ یادوں کوچھوڑکرگئے ہیں۔ اُن لوگوں کی اپنے آبائی وطن سے حددرجہ عقیدت ومحبت کوبیان کرپانامشکل ہے ۔وہ جب یہ خبرسنتے ہی کہ کوئی نوجوان اُن کے آبائی وطن ریاست، ریاست جموں وکشمیرسے یہاں آیاہے توفوراًمیرے چچاجان کے ہاں جہاں میراقیام تھا،دوڑے چلے آتے اوراپنے رشتہ داروں وعزیزوں کے احوال کے بارے آگاہی حاصل کرنے کی خاطرمجھ پرسوالوں کی بوچھاڑکردیتے۔عارف نے اپنے دورہ سیالکوٹ کی چندجھلکیوں کے بعد مُجھ سے کہاہے کہ میں نے بھی بہت سی ایسی کتابوں کامطالعہ کیاہے جن میں 1947ءکے ہولناک ودردناک واقعات کادردوکرب ہے اورایسے واقعات نے میرے دل کوبھی کئی مرتبہ چھلنی کیا،لیکن جن لوگوں نے تقسیم وطن کے وقت ہجرت کی اوراب سانحہ تقسیم کے65 سال گذرنے کے باوجودچندلوگ جوابھی باحیات ہیں اورزندگی کے آخری پڑاﺅمیں ہیں سے اپنے وطن سے جُداہونے کادرد، اپنے علاقہ ، اپنی بستی ، اپنے گاﺅں، اپنے شہر، کی ایک ایک چیزکودیکھنے کی غیرمعمولی چاہت وتمناکااظہاروبیان اُن ہی کی زبان سے دُکھ ودردبھرے جذبات سُننامیرے لیے مشکل توتھاہی لیکن اس سے بھی زیادہ مجھے دُکھ اس بات کاہواکہ ریاست جموں وکشمیربالعموم اورصوبہ جموں سے بالخصوص تعلق رکھنے والے ان معصوم بھولے بھالے لوگوں کودونوں ممالک کی حکومتیں انہیں ویزے نہ دے کراپنے عزیزواقارب واحباب سے ملاقات اوراپنی آبائی وراثت کودیکھنے کاموقعہ فراہم نہ کرکے ظلم وستم کی پالیسی پرگامزن ہے۔یہ لوگ اندرہی اندرکڑھ رہے ہیں ، اپنے عزیزوں سے ملاقات کوتڑپ رہے ہیں مگرسیاست ! کے شکارہیں اورمجبورہیں؟اِن کی فریاد سننے والاکوئی نہیں۔عارف نے کہاکہ اِن لوگوں کے ذہنوں میں 1947ءکے فسادات کے واقعات آج بھی زندہ وجاویدہیں اورجب وہ اپنی دُکھ بھری حقیقی کہانی سنارہے تھے تولگتاتھاکہ یہ ابھی تازہ واقعات ہیں۔ اِن لوگوں کے دِلوں میں موجوداِن خوفناک واقعات کاکرب والم ابھی بھی ان کےلئے ذہنی کوفت وپریشانی کاسبب ہے۔ عارف نے کہاکہ ان کے دلوں سے آج بھی ویزے نہ ملنے کے سبب اپنے آبائی وطن ریاست کی ایک ایک مقدم چیزکی زیارت کاموقعہ نصیب نہ ہوناباعث تشویش ہے ۔اُس نے کہاکہ 1947ءکے سانحہ کی چیخیں اُن کی دردناک حقیقی واقعات سننے سے آج بھی محسوس ہوتی ہیں۔

عارف نے مجھ سے کہاہے جب میں اُن کے دردبھرے جذبات میں آبائی وطن کی محبت کااظہاردیکھتاتو مجھے سیاست سے گن آتی ! کہ آخرکیوں؟ اِن لوگوں کوکیوںسرکارویزے نہیں دیتی ، جب میں اُن سے حقیقی واقعات کوسنتاتواُن کی آنکھوں سے آنسوﺅں کاسمندراُمڈکربہناشروع ہوتا لیکن میری آنکھیں بھی نم ہوجاتیں۔اُس نے بتایاکہ ہندوستان میں پھربھی ویزے تھوڑی بہت دوڑدھوپ کرکے مِل جاتے ہیں لیکن پاکستان میں 1000 درخواستوں کے عوِض 10 خوش نصیبوں کوہی ویزے نصیب ہوتے ہیں اورانہیں ریاست جموں وکشمیرمیں اپنے آباواجدادکے پرانے رہائشی مکانات اوراپنے خاندان سے تعلق رکھنے والے احباب سے ملاقات کاشرف حاصل ہوتاہے ۔

واضح رہے کہ راقم کاخاندان بھی 1947 ءکے سانحہ کی زدمیں آیاتھا،خاندان سے تعلق رکھنے والے کچھ افرادکوجموں کے ہزاروں مسلمانوں کی طرح بلوائیو ں نے اکھنورپُل پرشہیدکیا۔ بزرگوں سے سُناہے کہ جب یہ دردناک سانحہ ہورہاتھاتودریائے چناب میں پانی نظرنہ آتابلکہ لال خون کی دھارائیں بہتی ہوئی نظرآتی تھیں، ہرطرف خوف وہراس کے بادل چھائے ہوئے تھے ۔ان پرآشوب حالا ت میں داداجی اوراُن کاایک بھائی اپنی جانیں بچانے میں مشکل سے کامیاب ہوگئے ، نہ جانے کیسے وہ بچیں ہوں گے۔داداجی کے چاربھائی ہجر ت کرکے پاکستان کے شہرسیالکوٹ چلے گئے ۔ جموں سے گوجربکروال طبقہ سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگ دوگھنٹے میں اس سفرکوطے کرکے جانوں کوبچاتے بچاتے سیالکوٹ پہنچ گئے تھے جن میں میرے داداجی کے چاربھائی بھی تھے، اب اُن کاپوراپریوارسیالکوٹ میں زندگی بسرکررہاہے اورمیراچھوٹاعارف بھی اپنے ان ہی رشتہ داروں سے ملاقات کےلئے گیاہواتھا۔

عارف نے مزیدبتایاکہاکہ دونوں ملکوں کی حکومتیں کی ستم ظریفیوں کے شکارہوکرلاتعدادافراداپنے آبائی وطنِ عزیزمیں رہ رہے احباب سے ملاقات کی تمنائیں لیے دُنیائے فانی سے کوچ کرچکے ہیں تاہم جموں سے تعلق رکھنے والے سیالکوٹ میں ابھی بھی کچھ بزرگ زندگی کے آخری دنوں کوگذاررہے ہیں اوراس اُمیدمیں ہیں کہ شایدویزہ کےلئے راستہ نکل آئے جس سے اُن کی تمناپوری ہوجائے۔عارف کے مطابق اِن لوگوں کی تمناﺅں کواُس وقت اپنی تمناپوری ہوتی ہوئی نظرآنے لگتی ہے جب وہ اخبارات میں یہ سُرخیاں پڑھتے ہیں کہ ہندپاک مذاکراتی عمل جاری ہے ، مسئلہ کشمیرکے حل میں اہم پیش رفت ہونے کاامکان ودیگرپُرامیدخبروں کی سُرخیوں سے اُن کی تمنائیں کروٹیں بدلتی ہیںکیونکہ وہ امن چاہتے ہیں وہ سرحدوں کی بندش میں قیدہوکررہنے کوترجیح نہیں دیتے ۔عارف نے لمبی سانس لیتے ہوئے آہ ! نکالتے ہوئے کہاکہ اللہ بہترجانے کے سیاستدانوں کی طر ف سے چلائے جارہے مذاکراتی عمل سے متعلق اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کی سُرخیاں کب سچ ہوں گی؟ اوران لوگوں کی تمناپوری ہوگی ۔

میں نے عارف سے کہاکہ ایسی بات نہیں ہے کہ ہندپاک مذاکراتی عمل میں پیش رفت نہیں ہوئی ہے کیونکہ مذاکرات کے عمل سے ہی تو2007 میں امن بس سروس کاآغازہوا، مظفرآباد۔اُوڑی بس سروس ، پونچھ راولاکوٹ بس سروس ، دہلی بس سروس اوردوسری ٹرینیں جوہندوستان وپاکستان کے مابین چل رہی ہیں۔ عارف نے کہاکہ کشمیروالوں کومظفرآبادبس سروس سے سرحدکے دوسری طرف آباداپنے رشتہ داروں وعزیزواقارب سے ملنے کاموقعہ سرکارنے فراہم کیا ، پونچھ راجوری کے لوگوں کےلئے چکاں داباغ ۔راولاٹ سروس شروع کی گئی مگرجموں والوں کےلئے سچیت گڑھ۔سیالکوٹ سرحدکوکیوں نہیں کھولاجاتا، کیونکہ جموں سے سچیت گڑھ۔سیالکوٹ سرحدمحض 35کلومیٹرکی دوری پرہے ۔میں نے عارف سے کہاکہ آپ کی بات صدفی صددرست ہے کیونکہ جموں کے لاکھوں لوگ سیالکوٹ میں آبادہیں ۔عارف نے کہاکہ مجھے جب دہلی سے ویزہ مل گیاتومیں نے سوچاکہ اب میں ‘کس راستے پاکستا ن جاﺅں کیونکہ راجوری پونچھ یاکشمیروالوں کوتوپرمٹ سسٹم کے ذریعے آنے جانے کی اجازت ہے لیکن جموں والوں کوتوویزہ اگرمل جاتاہے اُن کے پاس پاکستان جانے کےلئے 2ہی راستے ہیں،ایک دہلی ۔لاہوربس سروس کے ذریعے یاپھرامرتسرپنجاب سے بذریعہ اٹاری ٹرین یاواہگہ بارڈرسے بس سروس کے ذریعے۔ اٹاری اورواہگہ بارڈرتوامرتسرمیں ہیں جوکہ جموں سے 600-700کلومیٹرکی دوری پرہے اوردہلی بھی اس سے زیادہ مسافت طے کرکے ہی پہنچاجاسکتاہے۔ میں نے آخرکار فیصلہ لیاکہ دہلی۔لاہوربس سروس کے ذریعے پاکستان جاﺅں گااورپھرمیں دہلی ۔لاہوربس سروس کے ذریعے پاکستان گیا۔

دیکھیے جناب ! جموں کے مسلمانوں کے ساتھ حکومت ہنداورخصوصی طورپرریاستی سرکارکتنی ناانصافی کررہی ہے۔سرکارکوجموں کے مسلمانوں کوبھی پونچھ راجوری اورکشمیرکے مسلمانوں کی طرح سچیت گڑھ اورسیالکوٹ کے راستے آنے جانے کی اجازت دینی چاہیئے اوریہ سرحدتجارت اورآواجاہی کےلئے کھول دینی چاہیئے ۔غورطلب ہے کہ اگرحکومت ہنداورپاکستان سرکارافہام وتفہیم کے ذریعے مذاکراتی عمل کوآگے بڑھارہی ہیں اوردونوں ملکوں کے درمیان پائے جانے والے تنازعات کے حل کےلئے کاوشو ں میں مصروف ہیں تواگرجموں اورسیالکوٹ کے لوگوں کے دِلوں کوجوڑنے کےلئے سچیت گڑھ۔سیالکوٹ سرحدآواجاہی اورتیارکےلئے کھول دے توکوئی حرج نہیں؟ کیونکہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں ایک خوشگوارفضاقائم ہوگی جوکہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

عارف کی بتائی ہوئی باتوں جواُس نے اُن لوگوں سے متعلق بتائیں جولوگ یہاں سے ہجرت کرکے گئے سیالکوٹ میں زندگی کے آخری ایام گذاررہے ہیں کے احساس وجذبات کااندازہ اوراپنے آبائی ملک ریاست اوراپنے عزیزواقارب سے ملنے کی تمناوآرزوکاانداہ راقم الحروف کے ناناجوسیالکوٹ کے فتاح گاﺅں میں آبادہیں کی جانب سے میری چھوٹی بہن کے نام لکھے ایک خط سے ہوجاتاہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”بیٹی کاش! میں پرندہ ہوتا، آپ کی دہلیزپہ ہوتا۔میں الفاظ کے ذریعے جذبات کااحساس کیسے کروں ، بیٹی نہ عمرہے نہ تعلیم، لیکن بیٹی مجبورہوں۔
لکھاپردیس قسمت میں وطن کویادکیاکرنا
جہاں بے دردحاکم ہوں وہاں فریادکیاکرنا“
ایک اوراقتباس میں لکھتے ہیں کہ
”بیٹی! زندگی گذرجائے گی
یادتمہاری قبرمیں بھی آئے ۔لیکن بیٹی آپ کی دُعائیں ضرورمنظورہوں گی۔

بیٹی نمازکوقائم فرمائیں۔ دُعاﺅں میں یادفرمائیں۔ اللہ تعالیٰ کریم ہے۔ کرم فرمائے گا۔ ذراحوصلہ رکھیں۔ میری التجامالک سے ۔یامیرے اللہ ! مجھے پیاروں سے ملنے کی مہلت عطافرماتاکہ چاہنے والوں کومیں بہ شکل چہرہ دکھاکرمروں تاکہ قیامت کے دن وہ مجھے پہچان سکیں ۔

مزیدلکھتے ہیں کہ
پردیسی تومنزل مقصودپہ پہنچے گاضرور
عزم صادق گرچہ تیرے مقدرنے کیا
”سوسوجوڑسنگت دے ڈِٹھے آخروِتھاں پیاں
جنہاں دے واج ایک پل نہیں جیوندے شکلاں یادنہ رہیاں“(پنجابی شعر)

واضح رہے کہ اس شخص کوریاست جموں وکشمیرکی سرکارنے 1947 سے قبل ریاست کے بہترین کسان کے ایوارڈسے نوازاتھا۔ اُس نے اپنے ایوارڈکوبڑی احتیاط سے سنبھالے رکھاہے۔ وہ اس سے متعلق خط میں لکھتے ہیں کہبیٹی ! برخوردارنورچشم سے یعنی محمدعارف سے دریافت کرنامیں نے اُسے پراناسرٹیفکیٹ دکھایاتھااُس نے سرٹیفکیٹ کوپڑھ کرمجھے بتایاکہ نانوں جان آپ کی عمر87 سال ہوچکی ہے۔

سانحہ کے مزید دردناک حالات کوبیان کرنامقصودنہیں ‘نہ ہی کسی شخص کوسانحہ کے ہولناک واقعات کی یاددِلاکردِل آزادی کرنے کی کوشش کروں گا۔سانحہ تقسیم برصغیرکے ذمہ دارکون لو گ تھے؟ ، یہ طویل بحث ہوگی ۔لہذامضمون مختصرہے اس لیے طوالت سے بچنے کےلئے اس پہلوپرکسی اوردِن بات کروں گا۔اللہ تعالیٰ سے دُعاگوہوں کہ سیاستدانوں کوہدایت فرمائے تاکہ و ہ نیک نیتی سے مذاکراتی عمل میں اہم پیش رفت کریں اوردونوں ملکوں کے جدُاہوئے دِلوں میں پیداہوئی دوری مٹ سکے۔
Tariq Ibrar
About the Author: Tariq Ibrar Read More Articles by Tariq Ibrar: 64 Articles with 53727 views Ehsan na jitlana............. View More