فرعون کا انجام - قسط نمبر2

 (موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی جیسے ہی زمیں پر ڈالی تو وہ ایک بہت بڑے اژدھے میں تبدیل ہوکر پھنکارنے لگی)

مدین میں جب موسیٰ ؑ ایک میدانی علاقے میں پہنچے تو دیکھا کہ دو لڑکیا ں چند بکریاں لے کر وہاں ایک کنوئیں کے پاس کھڑی ہوئی ہیں، آپ نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو اور یہاں کیوں کھڑی ہوئی ہو۔لڑکیوں نے جواب دیا ہ ہم اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لئے آئی ہیں لیکن کنوئیں کے منہ پر ایک پتھر رکھا ہوا ہے جو بہت وزنی ہے اس کو ہٹانا ہماری طاقت سے باہر ہے ، ہمارا باپ بھی بے حد ضعیف ہے اس میں اب اتنی قوت نہیں رہی وہ یہاں آکر انھیں پانی پلادیں۔ ہم یہاں اس لئے کھڑی ہیں ، چرواہے یہاں آکر اپنے جانوروں کو پانی پلانے کے لئے کنوئیں پر سے یہ پتھر ہٹائیں گے تو ہم بھی اپنی بکریوں کو پانی پلائیں گے۔ جب موسیٰ ؑ نے یہ بات سنی تو ازراہ ِہمدردی کنوئیں پر سے اس بھاری پتھر کو ہٹادیا اور پھر کنوئیں سے پانی بھر کر ان بکریوں کو پانی پلادیا۔اس کے بعد آپ چونکہ بے حدتھکے ماندے اور بھوکے پیاسے تھے ایک درخت کے سائے میں جاکر بیٹھ گئے اور اللہ سے دعا کرنے لگے یا اللہ مجھے کچھ کھانے کو دے میں اسوقت شدید بھوک میں مبتلا ہوں۔

وہ دونوں لڑکیا ں جو حضرت شعیب ؑ کی بیٹیاں تھیں انھوں نے گھر جاکر اپنے با پ کو بتایا کہ آج ایک اجنبی نوجوان نے آکر کنوئیں پر سے اکیلے ہی اس بھاری پتھر کو ہٹادیا اور ہماری بکریوں کو پانی پلادیا۔اور پھر جاکر ایک سایہ داردرخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ حضرت شعیبؑ نے جب اس نوجوان کے طاقت کی تعریف سنی تو بولے بیٹی جلدی سے جاکر اس نوجوان کوبلا کر لے آﺅ تاکہ میں اس کو پانی پلانے کی اجرت دیدوں۔ تو حضرت شعیب ؑ کی بڑی لڑکی جس کانام صفورا تھا حضرت موسیٰ ؑ کو بلانے کےلئے چلی گئیں ، اور جاکر ان سے کہا کہ میرا باپ تم کو بلاتا ہے تاکہ تمہیں اجرت دے کیو نکہ تم نے ہماری بکریوں کو پانی پلایا ہے۔ یہ سن کر حضرت موسیٰ ؑ چونکہ تقریبا سات دن کے بھوکے پیاسے تھے۔ اٹھے اور اس لڑکی صفورا کے پیچھے چلنے لگے لیکن تھوڑی دور جاکر اس لڑکی سے کہا کہ میں آگے آگے چلوں گا ، لڑکی نے کہا کہ تم میرے گھر کا راستہ نہیں جانتے اس لئے میں تم سے آگے چلتی ہوں۔ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا کہ اگر میں راستہ بھولوں تو مجھے پیچھے سے اشارہ کرکے بتاتی جانا۔یہ بات سن صفور ا نے دل میں خیال کیا کہ یہ شخص تو بڑا ہی نیک اور پارسا ہے چنانچہ حضرت موسیٰ ؑ آگے آگے چلنے لگے اور صفورا ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگیں اور راستہ بتاتی جاتی تھیں۔کچھ دیر کے بعد دونوں حضرت شعیب ؑ کے پاس پہنچ گئے اورانھیں سلام کیا حضرت شعیب ؑ نے نہایت خندہ پیشانی سے ان کے سلام کا جواب دیا اور پھر انکو اپنے پاس بٹھاکر حال احوال پوچھنے لگے۔ حضرت شعیب ؑ کے دریافت کرنے پر حضرت موسیٰ ؑ مصر کے تمام حالات بیان کئے اور فرعون ، مصری کا تذکرہ بھی دوران گفتگو بیان کردیا۔ یہ سن کر حضرت شیعب ؑ نے حضرت موسیٰ ؑ سے کہا کہ تم اب محفوظ جگہ پر آگئے ہو لہٰذ ا اب گھبرانے اور ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ان دونوں میں باتیں ہورہی تھیں کہ ان لڑکیوں میں سے ایک نے اپنے باپ سے کہا کہ ا با اس نوجوان جانے نہیں دیجئے گا اس کو ملازم رکھ لیں کیونکہ یہ طاقتور بھی ہے اور ایماندار بھی ہے حضرت شعیبؑ نے فرمایا بیٹی اس کی طاقت کا زور تو تم نے دیکھا کنوئیں پر سے بھاری پتھر ہٹاکر پانی پلانے پر، لیکن اس کی امانتداری کا تم نے کس طرح اندازہ لگایا۔تو صفورا نے راستے کا حال اور ہونے والی گفتگو کے بارے بتا یا ۔ تو حضرت شعیبؑ نے اس بات کو تسلیم کرلیا۔

حضرت شعیبؑ نے حضرت موسیٰ ؑ سے کہامیں چاہتا ہوں میں اپنی ایک بیٹی کو تم سے بیاہ دوں لیکن اس کی ایک شرط ہوگی کہ بطور مہر تم آٹھ سال میرے گھرکا کام کروگے اور میری بکریاں چراﺅ گے۔اور اگر تم دس سال رک جاﺅ تو یہ تمہار ا احسان ہوگا۔میں تمہیں تکلیف دینا نہیں چاہتا انشااللہ تم مجھے اچھا پاﺅ گے۔حضرت موسیٰ ؑ نے یہ تجویز مان لی اور شادی کی بات پکی ہوگئی۔چنانچہ حضرت موسیٰ ؑ نے دس سال بطور مہر کے حضرت شعیب ؑ کی بکریوں کو چرایا اس کے بعد حضرت شعیبؑ نے فرمایا اے موسیٰ ؑیہ سب بکریا ں اور مال و نوکر اور میری بیٹی صفورا کو میں نے تمہاری ملکیت میں دے دیا تم جہاں چاہو جاسکتے ہو اور ان سب کو بھی اپنے ہمراہ لے جاسکتے ہو اب میں تمہیں نہیں روکوں گا۔ اللہ سب کو خیریت سے رکھے۔

مصر چونکہ حضرت موسیٰ ؑ کا آبائی وطن تھااس لئے اس سے انسیت بھی بہت زیادہ تھی ۔ ایک دن آپ کے دل میں تمنا ہوئی کہ اپنے ملک مصر جاﺅں اور وہاں جاکر اپنی والدہ کی خدمت کروں اور اپنے بھائی ہارون سے بھی ملاقات کروں۔ چنانچہ انھوں نے حضرت شعیب ؑ سے مصر جانے کی اجازت لی اور مصر کے لئے روانہ ہوگئے۔ یہ سخت سردیوں کا موسم تھا ۔ جب طور پہاڑ پر پہنچے دور ایک آگ سی دکھائی دی، آپ نے اپنی بیوی سے کہا تم یہیں ٹہرو میں میں نے ابھی آگ دیکھی ہے شاید وہاں کوئی آبادی مل جائے تووہاں سے آگ لیکر آتا ہوں تاکہ تم اسکو تاپ سکو۔

موسیٰ ؑ کو جہاں آگ نظر آئی تھی ، وہ مقدس اور مبارک جگہ تھی، جب موسیٰ ؑ وہاں پہنچے تو آواز آئی اے موسیٰ میں ہی اللہ ہوں ، سب جہانوں کا پالنے والاپھر حکم ہوا کہ اپنے دونوں جوتے اتار ڈال، اور اپنے ہاتھ کی لکڑی زمین پر ڈال دے۔ آپ نے لکڑی جیسے ہی زمیں پر ڈالی تو وہ ایک بہت بڑے اژدھے میں تبدیل ہوکر پھنکارنے لگی حضرت موسیٰ ؑ ڈرکر بھاگے اور ڈرنے والی بات بھی تھی کیوں جہاں آپ نے لکڑی ڈالی تھی وہاں ایک بہت بڑا اژدھا پڑا بل کھا رہا تھا۔ لیکن فوراََ حضرت موسیٰ ؑ کے کان میں آواز گونجی اے موسیٰ کیوں بھاگتا ہے ، واپس آ ، اس کو پکڑ لے اور اس سے مت ڈر ،میرے سامنے پیغمبر ڈرا نہیں کرتے۔ تیرے پکڑتے ہی میں اس کو اسی حالت میں کردوں گا جو اس کی پہلی حالت تھی یعنی لاٹھی بن جائے گا۔جب موسیٰ ؑ نے اس کو پکڑا تووہ اژدھا ، اللہ کے حکم سے لاٹھی بن گیا۔جب موسیٰ آگے آگئے تو اللہ کی طرف سے حکم ملا اچھا اب اپنا ہاتھ تو گریبان میں ڈال۔ موسیٰ ؑ نے جب اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر باہر نکالا تو وہ برف کی طرح سفید اورآفتاب کی طرح روشن ہورہا تھا۔اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑکو دو معجزے عطا کئے جس میں ایک عصا کا جس سے ہزاروں قسم کے معجزے ظاہر ہوتے تھے اور دوسرا معجزا (ید بیضا)چمکنے والاہاتھ دیا تھا اس معجزے سے سارا عالم روشن ہوجاتا تھا۔

نبوت اور معجزے عطا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ اب تم فرعون اور اس کے درباریوں کے پاس جاﺅ کیونکہ اس نے بہت سر اٹھا یا ہے اسے نصیحت کرو کہ مجھ سے ڈرے ۔ موسیٰ ؑ نے عرض کیا اللہ میں تو ہکلا کر بولتا ہوں ، فرعون کے دربار میں تقریر کیسے کروں گا ۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا اے موسیٰ بے فکر رہ ہم تیرے بھائی ہارون کو بھی تیرے ساتھ کردیں گے۔اور اپنے معجزوں اور نشانیوں کے
ساتھ تم دونوں کو ایسا مضبوط بنادیں گے کہ دشمن تمہارا اور تمہارے ایمان لانے والوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔(جاری ہے)
M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 303748 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.