جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں شعوری یا لا شعوری طور پر اپنی روایات کھو دیتی ہیں یا تکبر میں مبتلا ہو جاتی ہیں یا احساسات سے عاری ہو جاتی ہیں وہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔

1940 کی قراردادِ پاکستان میں ایک آزاد اسلامی مملکت حاصل کرنے کی داغ بیل ڈالی گئی تھی پھر برصغیر میں مسلمانوں کے جدا وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی تھی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب بھی ہوئے۔

1947 میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے معرضِ وجود میں آنے والی مملکتِ خداد کی بنیادوں میں ہر مخلص اور محبِ وطن کا خون شامل تھا ۔ پاکستان بنتے وقت نہ کوئی شیعہ تھا نہ کوئی سنی نہ دیوبندی نہ بریلوی نہ کوئی جھنگوی ۔ اگر تھا تو صرف اور صرف مسلمان تھا ایک ایسا مسلمان جس کے بارے میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔

علامہ محمد اقبال نے کیا خوب کہا تھا
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

یہی وجہ تھی کہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شامل ، بچہ بوڑھا جوان عورت مرد غرض ہر کوئی ھمدرد اور ملنسار تھا صرف دشمنی تھی تو اسلام دشمن عناصر سے اور ان سے جو پاکستان کے دشمن تھے۔ کوئی فرقہ بندی نہیں تھی کوئی مذہبی گروہ بندی نہیں تھی ۔ 1965 کی جنگ میں کامیابی صرف اور صرف اتحاد اور ایمان کی برکت سے ہوئی ، دشمن کو منہ کی کھانی پڑی۔ ملت کا اتحاد کچھ نادیدہ شخصیات کو پسند نہیں آیا لہٰذا پہلی جمہوری حکومت ختم کرنے کے بعد سرکاری سطح پر ملت کا شیرازہ بکھیرنے کا عمل شروع کردیا گیا ۔ 1980 سے 1982 تک مذہبی کشیدگی پیدا کی گئی اور شیعہ اور سنی (جو ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور کبھی الگ نہیں ہوسکتے) فرقوں میں نفرتیں پیدا کی گئیں ایک دوسرے سے متنفر کیا گیا اور اسی پر بس نہیں کیا گیا شیعوں کو چن چن کر مارا گیا اور ان کی مذہبی عبادات کو روکا گیا ، ظلم بڑھتا گیا یہاں تک کہ ظالم کے ختم ہونے کا وقت آگیا اور پروردگارِ عالم نے ظالم و جابر فرماں روا کو فضأ ہی میں تحلیل کردیا نشانی کے طور پر دانت ہی ملے اس کے بعد آنے والی حکومتوں میں قدرے افاقہ ہوا۔ مشرف دورِ حکومت میں اچانک ہی شیعہ مساجد اور امام بارگاہوں میں بم پھٹنے لگے پھر طالبان کی شکل میں نمودار ہونے والا گروہ مسلمانوں ہی کا دشمن نکلا پورے ملک میں صرف مساجد اور امام بارگاہوں کو ہی دہشت گردی کا نشانہ بنایا جانے لگا، کبھی کراچی میں تو کبھی کوئٹہ میں اور کبھی گلگت اور پاراچنار میں ، کبھی پنجاب کے مختلف شہروں میں اور کبھی اسلام آباد میں یہ خون کی حولی کھیلی جاتی رہی مگر ہر دور کے حکمراں چین کی بانسری بجاتے رہے۔

2008 میں موجودہ جمہوری حکومت کے منتخب ہونے کے بعد مذہبی کشیدگی پھیلانے کے عمل میں یک بہ یک تیزی آگئی اور ٹارگٹ کلنگ کے نام پر شیعوں کا قتلِ عام کیا جانے لگا ، کبھی کوئی ڈاکٹر توکبھی کوئی وکیل اور کبھی کوئی عالم اس دہشت گردی کا نشانہ بنتا رہا ۔ 2009 اور 2010 میں کراچی میں لگاتار دو بڑے مرکزی جلوسوں پر خود کش حملے کیے گئے اور اس میں سینکڑوں افراد شہید ہوئے ، کوئٹہ میں بڑے پیمانے پر قتلِ عام کیا اور اس خونریزی میں زیادہ تر شیعہ مسلمان ہی کام آئے۔

2012 میں ٹارگٹ کلنگ میں 200 افراد شہید کیے گئے
جنوری 2012 میں 58 افراد
فروری 2012 میں 73 افراد
مارچ 2012 میں 30 افراد اور
اپریل 2012 میں صرف 9 دن میں 39 افراد شہید کیے جاچکے ہیں
گلگت بلستان میں گذشتہ 7 دن سے کرفیو نافذ ہے اس کے باوجود کلنگ ہو رہی ہے
کوئٹہ میں خون کا بازار گرم ہے

حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور اس سے بڑھ کر اس بات کا المیہ ہے کہ میڈیا جو خود کو غیر جانبدار کہلواتا ہے اور حق اور سچ کا علمبردار ہونے کا دعوے دار ہے ایک مخصوص طبقہ کے لوگوں کے مارے جانے پر خاموش کیوں ہے؟ اور جو لوگ اس کشت و خون کے خلاف مسلسل احتجاج کررہے ہیں میڈیا اس کو بھی کوریج نہیں دے رہا ،گذشتہ کئی دنوں سے ایوانِ بالا (اسلام آباد ) کے سامنے لوگ سراپا احتجاج میں مشغول ہیں مگر ملک کا کوئی بھی سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا نے اس کی کوریج نہیں کی اور مسلسل اس بات کو دبایا جارہا ہے سوال یہ ہے کہ یہ خاموشی کیوں ہے اور یہی خاموشی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے ؟

کیا شیعہ پاکستانی عوام نہیں ہیں؟
کیا شیعہ حکومت کو ٹیکس نہیں دیتے؟
کیا شیعہ ووٹ نہیں دیتے؟
کیا شیعوں کو جینے کا حق نہیں؟

اگر ہے تو پھر یہ تضاد کیوں ہے؟ کیوں اس قوم کو دیوار سے لگایا جارہا ہے کیوں عدالتِ عظمیٰ کے منصفِ اعلیٰ کو یہ سب دکھائی نہیں دیتا؟

اس کے بعد ھم تو صرف یہی کہ سکتے ہیں کہ :
کہتا ہے کون ختم ہوئی کربلا کی جنگ
ہم لڑ رہے ہیں آج بھی فوجِ یزید سے
(صفدر ھمدانی)
جعفر حسین
About the Author: جعفر حسین Read More Articles by جعفر حسین: 12 Articles with 16392 views I live in Karachi, I am a banker.. View More