اے میری قوم

محمد منصوراحمد

اللہ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی اور مظلوم مسلمانوں کی آزادی کے لئے کفار سے بر سر پیکار ہونا ، اسلام کے عظیم ترین اور اہم ترین فرائض میں سے ہے۔ راہ خدا میں اپنے وطن کو چھوڑنا، دوست احباب سے جدا ہونا اورپھر اپنے تن من دھن کو اپنے خالق ومالک کے حکم پر نچھاور کردینا ، ایسی اعلیٰ عبادت ہے کہ رب کائنات خود ایسے لوگوں سے اپنی محبت کا اظہار فرماتے ہیں ، چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(بے شک اللہ تعالیٰ اُن لوگوں سے محبت سے کرتا ہے جو اُس کے راستے میں صف بنا کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔)(الصّف :۴)

سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاد سے جو تعلق اور وابستگی تھی، اُس کا اندازہ غزوات وسرایا کی اُس غیر معمولی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے جو زیادہ نہیں صرف مدینہ منورہ کے دس سالہ دور میں پیش آئے۔ احادیث رسول اور سیرت نبوی کی کتابوں کے سینکڑوں صفحات ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت ، دلیری اوربہادری پر گواہ ہیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر صحابہ کرام ؓ نے جس سر فروشی اور اعلیٰ ترین جنگی مہارت کے نمونے پیش کئے، وہ نہ صرف آج کے مسلمانوں کی غفلت اور بزدلی کے لئے تازیانہ ہیں بلکہ جنگی تاریخ کے نادر اوربے مثال واقعات بھی ہیں ۔

ماہر القادری مرحوم نے بلاشبہ حرف بحرف سے اس کی صحیح تصویر کشی کرتے ہوئے کہا ہے:
سلام اُس پر، شکستیں جس نے دیں باطل کی فوجوں کو
سلام اُس پرکہ ساکن کردیا طوفاں کی موجوں کو
سلام اُس پرکہ جس نے زندگی کا راز سمجھایا
سلام اُس پرکہ جو خود بدر کے میدان میں آیا
سلام اُس پر جس کا نام لے کر اُس کے شیدائی
اُلٹ دیتے ہیں تخت قیصریت، اَوجِ دارائی
سلام اُس پر کہ جس کے نام لیوا ہر زمانے میں
بڑھا دیتے ہیں ٹکڑا سر فروشی کے فسانے میں
سلام اُس ذات پر،جس کے پریشاں حال دیوانے
سنا سکتے ہیں اب بھی خالد ؓ و حیدرؓ کے افسانے

جنگ اور لڑائی انسانیت کی تاریخ میں کوئی نایاب اور انوکھی چیز نہیں ۔ جب سے انسان نے اس سر زمین پر قدم رکھا ہے، باہمی کشمکش اور زور آزمائی کے مناظر دیکھتا آیا ہے۔تاریخ کو وہ وقت یاد ہے جب بخت نصر اُٹھا اور بیت المقدس کو برباد کردیا، ایرانی آئے اور بابل کے تمدن کو تاخت وتاراج کر کے چلے گئے، روچی نکلے اور کار تھیج کی سرزمین کو آگ اور خون سے بھر دیا، سکندر یونان سے نکلا اور ایران کے درودیوار سے زندگی کے ایک ایک نقش کو مٹا ڈالا، تاتاری ابھرے اور بغداد کے قدیم آثار کو دجلہ میں ڈبودیا۔ یہ سب مشہور فاتحین کس مقصد کے لئے میدانوں میں اُترے، انہوں نے کس غرض سے لاکھوں انسانوں کا خون بہایا اور انہوں نے کس ارادے سے انسانی بستیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کیا؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر بچہ دے سکتا ہے کہ ان جنگجو بادشاہوں کے پیش نظر انسانیت کی کوئی فلاح وبہبود یا انسانوں کے لئے بلند مقصد حیات نہیں تھا، یہ تو محض اپنے اقتدار کو وسعت دینے کے لئے ہوس ملک گیری میں مبتلا ہو کرانسانوں کا خون بہاتے رہے۔

لیکن رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والے جب ظلم اور کفر سے بر سر پیکار ہوئے اور انہوں نے معرکہ آرائیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی تو اُن کے سامنے کیا عزائم تھے؟ اقبال مرحوم کی زبانی اس کا جواب یہ ہے:
تھے وہی ایک ترے معرکہ آراؤں میں
خشکیوں میں کبھی لڑتے کبھی دریاؤں میں
دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساوں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
شان آنکھوں مےں نہ جچتی تھی جہانداروں کی
کلمہ پڑھتے تھے وہ چھاوں میں تلواروں کی
وہ جو جیتے تھے توجنگوں کی مصیبت کے لئے
اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لئے
تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لئے
سربکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لئے؟
کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کر ھواللّٰہ احد کہتے تھے

پھر ایک طرف دنیاوی بادشاہوں کی جنگیں ہیں، جن میں بے دریغ انسانی خون بہایا جاتا ہے۔ گنہگار اور بے گناہ میں کوئی فرق روانہیں رکھا جاتا۔ عراق اور افغانستان کی سرزمین پرامریکہ نے انسانیت کے خلاف جن جرائم کا ارتکاب کیا، اُس نے گزشتہ زمانوں کے ظالم فاتحین کے مظالم کو مات کر دیا ہے۔ بہر حال یہ ظلم وستم عام جنگوں کی خصوصیت ہے لیکن اس کے برعکس نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی لشکر کو روانہ فرماتے تو یہ ہدایات جاری ہوتی تھیں : ”میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی اوراپنے اہل لشکر کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی نصیحت کرتا ہوں، اللہ کے نام پر قتال کرنا اور اللہ ہی کے راستے میں اُس شخص سے قتال کرنا جس نے اللہ تعالٰی کے ساتھ کفر اختیار کیاہو۔ غدّاری نہ کرنا ، مال غنیمت میں چوری نہ کرنا، کسی بچے، عورت اور بے کار بوڑھے یا کسی عبادت گاہ میں بیٹھے گوشہ نشین کو قتل نہ کرنا، کسی کھجور کو ہاتھ نہ لگانا، کسی درخت کو نہ کاٹنا ، کسی عمارت کو نہ گرانا۔“ (نبی رحمت بحوالہ واقدی۷۹۴)

حیرت اور تعجب تو اُس پڑھے لکھے طبقے پر ہے جو اسلامی غزوات اور جہاد کے بارے میں اُس قوم کو صفائی پیش کرتا رہتا ہے،جس کے اپنے ہاتھ انسانیت کے خون سے رنگین ہیں اور اُس کے جبڑوں سے معصوم مسلمان بچوں کے لہو کی بو آرہی ہے۔ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے دس سالہ مدنی دورِحیات میں جتنے غزوات وسرایا پیش آئے، ان سب میں شہید ہونے والے مسلمانوں کی کل تعداد ۷۸۳ہے جبکہ ہلاک ہونے و الے کفار کی تعداد۹۵۷ ہے، گویا صرف ۸۱۰۱ انسانی زندگیوں کے خاتمے کے نتیجے میں عرب کے ریگزاروں میں اقوام کو آزادی اور حریت کا پیغام دیا اور بدامنی کے گڑھ عرب میں جہاں بڑے بڑے کارواں بھی غیر معمولی حفاظتی اقدامات کے بغیر نہیں چل سکتے تھے، اب یہ حالت ہوگئی کہ”ایک خاتون حیرہ سے چلتی اورکعبہ کا طواف کر کے واپس چلی جاتی اور اللہ کے سوا اس کو کسی کاڈرنہ ہوتا (بخاری)“اور”ایک اکیلی عورت قادسیہ سے اپنے اونٹ پرچلتی اوربیت اللہ کی زیارت کرتی اوراس کو کسی کا خوف نہ ہوتا(سیرت ابن ہشام)“

اس کے مقابلے میں جنگ عظیم اول ودوم کے اعداد وشمار پر ایک نظر ڈالیں تو روح کانپ اٹھتی ہے۔ جنگ عظیم اول (۴۱۹۱ءتا۸۱۹۱ئ) میں صرف مقتولین کی تعداد ۴۶لاکھ تھی اور جنگ عظیم دوم (۹۳۹۱ءتا۵۴۹۱ء) میں ساڑھے تین کروڑ سے چھ کروڑ کے درمیان انسان اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے۔ پھر تباہی اوربربادی کی اس ہوش ربا تعداد کے باوجود ان جنگوں نے انسانیت کو عمومی طور پرغلامی اور محکومیت کے سوا کچھ نہیں دیا۔

آج انسانیت پر جس لوٹ کھسوٹ کا دور دورہ ہے اور مسلم ممالک باوجود اپنی عددی برتری کے یکے بعد دیگرے جس طرح دشمنوں کے لئے لقمہ تربنتے جارہے ہیں ، اس کا علاج صرف اور صرف یہی ہے کہ مسلمان قرآن مجید اور سیرت طیبہ کی روشنی میں جہاد کا علم تھا میں اور ایسے راستے کا انتخاب کریں جس میں ناکامی اور نامرادی کا کوئی تصور نہیں بلکہ اس راہ کا ہرقدم ہی خود منزل ہے۔ اس مجرب علاج کے بغیر مرض بڑھتاہی چلاجائے گا اور مسلمان اپنے مال ودولت اور وسائل ترقی سمیت غلامی کی گہری کھائیوں اور خوفناک گھاٹیوں میں گرتے چلے جائیں گے۔

پس اے میری قوم!
یہ جہاد ہی ہے، جنت اور کامیابی کا راستہ، فوزوفلاح کا راستہ، رحمتوں ،برکتوں کا راستہ، ابدی سعادتوں اور لازوال ترقیوں کا راستہ!

جہاد رب کا فرمان ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقدس طریقہ ہے، حضرات صحابہ کرامؓ کا اس پر اجماع ہے، چودہ سو سال کے اسلاف اُمت اور اخیار ملت اس کے قرآنی ونبوی حکم ہونے پر متفق ہیں، پھر اس کے بعد کونسی دلیل ہمیں درکارہے؟ کونسی حجت ہمیں چاہئے ؟ کس کے قول کی سند کی ضرورت ہے؟

اگر ان سب دلائل ، کھلے ہوئے اور واضح دلائل ، دوٹوک اور ناقابل تردید دلائل کے بعدبھی ہمیں جہاد کا شرعی اور قرآنی فریضہ سمجھ نہیں آتا تو....انتظار کرنا چاہئے کہ اللہ تعالی اپنا حکم لے آئے۔

اے میری قوم!
جہاد کوئی سیاسی ایشو نہیں!
جہاد کوئی وقتی اور عارضی کام نہیں!
جہاد کسی حکومت یا حکمران کا فیصلہ نہیں!
جہاد اہل اقتدار اور حزب اختلاف کی باہمی جنگ نہیں!
جہاد ووٹ لینے اور نوٹ لینے کا بہانہ اور ذریعہ نہیں!

جہاد تو خالصتاً شرعی مسئلہ ، قرآنی فریضہ ، نبوی سنت اور تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے۔ جہاد کا پشتیبان کوئی پاکستانی یا غیر ملکی حکمران نہیں، جہادی پالیسی کا خالق کوئی فوجی جنرل یا امریکی مفکر نہیں، مجاہدین کا حامی وناصر کوئی مادی طاقت یا دنیاوی حکومت نہیں۔

یہ جہاد تو ہمارے رب کا حکم ہے؟ وہ ہی اس کا پشتیبان ہے اور وہ ہی اس کا حامی وناصر ، وہ ہی دنیا بھر کے اتفاق واتحاد، اپنوں اور غیروں کے گٹھ جوڑ اور دوستوں اور دشمنوں کی سازشوں کے باوجود اس جہاد کا جلوہ ساری دنیا کو دکھا رہا ہے۔ آج ساری کفریہ طاقتیں یکجا ہو کر آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان عالی شان کا اقرار کررہی ہے:
”بے شک جہاد جاری رہے گا، جہاد جاری رہے گا“
Usama Hammad
About the Author: Usama Hammad Read More Articles by Usama Hammad: 22 Articles with 45217 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.