کیا یہ مسئلہ کبھی حل ہوگا؟

ہمارے معاشرے میں جو ایک اخلاقی زوال آیا ہوا ہے اور اقدار بدل گئی ہیں، معاشرہ میں بے راہ روی، اخلاقی گراوٹ، اور کرپشن عام ہوگئی ہے، اور اس اخلاقی انحطاط نے جہاں سب تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا ہے وہاں محکمہ پولیس کا نام کرپشن میں سر فہرست ہے اور عام پولیس اور ٹریفک پولیس دونوں ہی اس معاملے میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ فی الحال ہم اپنے آپ کو صرف ٹریفک پولیس تک محدود رکھتے ہوئے اس کے کردار پر بات کریں گے۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور گنجان آبادی والا شہر ہے جس کی آبادی کم و بیش ڈیڑھ کروڑ سے تجاوز کرگئی ہے، اور آبادی کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ ٹریفک میں بھی اسی حساب سے اضافہ ہوتا گیا۔ آج کراچی کی سڑکوں پر لاکھوں گاڑیاں رواں دواں ہیں۔ ٹریفک پولیس کا کام ان گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کرنا اور چیک کرنا، دورانِ سفر ٹریفک کر کنٹرول کرنا تاکہ ٹریفک کی روانی میں خلل واقع نہ ہو،اور سڑک پر گاڑیاں رواں دواں رہیں۔الغرض ٹریفک اور روڈ سیفٹی کے حلوالے سے تمام اصول ضوابط پر عمل درآمد کی ذمہ داری ٹریفک پولیس پر عائد ہوتی ہے

لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج ٹریفک پولیس کے اہلکار اپنے فرائض کی بجاآوری کے بجائے صرف اپنی جیبیں گرم کرنے میں مشغول ہوتے ہیں ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ٹریفک کی کیا صورتحال ہے، جو بسیں، کوچز، مزدا روڈ پر چل رہی ہیں،کیا ان کے حالت تسلی بخش ہے؟ان تمام گاڑیوں کے ڈرائیورز کے پاس لائسنس بھی ہے یا نہیں؟اور آیا یہ تمام گاڑیاں ٹریفک کے اصولوں کی پابندی کر رہی ہیں؟ان تمام چیزوں کے بجائے ان کی دلچسپی صرف رکشہ، ٹیکسی، موٹر سائیکل،اور سوزوکی پک اپ کو روک کر رشوت طلب کرنا اوران کا مطالبہ پورا نہ کرنے پر ان کو گاڑی بند کرنے کی دھمکیاں دینا، اور بسا اوقات تو یہ غریب رکشہ ٹیکسی ڈرائیورز پر تشدد بھی کرتے ہیں۔

ایک بات اور بھی توجہ طلب ہے کہ کراچی میں سبزی اور پھل کی مہنگائی میں ایک حد تک ٹریفک پولیس کا بھی ہاتھ ہے کیوں کہ نئی سبزی منڈی جو کہ سپر ہائی وے پر واقع ہے۔ وہاں سے غریب سبزی فروش صبح صبح منڈی سے سبزی اور فروٹ لیکر نکلتے ہیں تو پہلے تو سپر ہائی وے پر ہی ان کو روک کر رشوت طلب کی جاتی ہے۔ پھراس کے بعد جب گاڑیاں سہراب گوٹھ یا ملیر جانے کے لیے واحد راستہ جو کہ سپر ہائی وائے کے پل کے نیجے سے گزرتا ہے وہاں مستقل بنیادوں پر یہ راشی اہلکار کھڑے ہوتے ہیں۔اور سبزی منڈی سے آنے والی ہر گاڑی جی ہاں ہر گاڑی کو روک کر ان سے بھتہ لیتے ہیں۔اور اس کے بعد ہر سگنل ہر تعینات اہلکار اپنی استعداد کے مطابق ان گاڑی والوں سے رشوت لیتے ہیں اور گاڑی والا رشوت کی یہ تمام رقم سبزی فروشوں سے وصول کرتا ہے اور سبزی فروش یہ رقم سبزی اور فروٹ کی قیمت بڑھا کر عوام سے لیتے ہیں اور یوں صرف ان راشی اہلکاروں کی رشوت ستانی کی بدولت عوام مہنگی سبزی خریدنے پر مجبور ہیں، انکی کمائی کی مشہور جگہوں میں سپر ہائی وے، سہراب گوٹھ، لیاقت آباد نمبر دس کا سگنل، سائٹ ایریا میں حبیب بینک کا سگنل، شیر شاہ اور دیگر علاقے شامل ہیں۔

یہاں میں بطور خاص سخی حسن پر واقع ٹریفک پولیس کی چوکی کاذکر کرونگا اس چوکی کے باعث اکثر رکشہ ٹیکسی والے اس علاقے میں آنے سے گریز کرتے ہیں، یہاں کے اہلکار رشوت ستانی میں تمام ریکارڈ توڑ چکے ہیں۔ان کا کام ٹریفک کے کنٹرول کرنے کے بجائے، یہاں سے گزرنے والی کمرشل گاڑیوں کو روک کر بھتہ لینا، موٹر سائیکل سواروں کو تنگ کرنا شامل ہیں۔ اور ان کو ٹریفک کے نظام کی درستگی کی کوئی فکر نہیں ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کراچی کے عوام اپنے بچوں کو اسکول لانے اور لیجانے کے لیے اسکول وینز کا استعمال کرتے ہیں اور یہ سفاک اہلکار ان اسکول وینز کو بھی نہیں چھوڑتے اور ان سے بھی رشوت طلب کرتے ہیں اور جب تک وین ڈرائیور ان کو کچھ نہ کچھ رقم نہ دیں تب تک یہ معصوم بچوں سمیت ان گاڑیوں کو روک کر رکھتے ہیں اور ان کے اس تمام سسٹم کا سرغنہ اس چوکی کا ایک اہل کار جعفر عباس ہے۔ جعفر عباس کے بارے میں معلوم ہوا ہےکہ یہ اہلکار انتہائی راشی،اور سفاک ہے اور یہ بالخصوص طلبہ و طالبات کو اسکول لانے لیجانے والی گاڑیوں کو تنگ کرتا ہے۔اور اس نے دیگر اہلکاروں کی طرح یہاں ٹوکن سسٹم رائج کر رکھا ہے،آج کل چونکہ سخی حسن تا قلندریہ چوک تک کی سڑک زیر تعمیر ہے جس کے باعث یہاں سنگل روڈ پر ٹو وے ٹریفک ہوتا ہے اور تعمیراتی کام کے باعث گاڑیاں یہاں سے بہت آہستگی سے گزرتی ہیں جس کا فائدہ اٹھا کر یہ راشی اہلکار گاڑیوں سے رشوت طلب کرتا ہے اور نہ دینے کی صورت میں گالم گلوچ اور تشدد تک سے گریز نہیں کرتا۔

ٹاؤن کی انتطانیہ نےاس پوری صورتحال سے چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہے حالانکہ موجودہ سٹی گورنمنٹ کو کراچی کی نمائندہ قیادت ہونے کا دعویٰ ہے اس کے باوجود عوام یہ عذاب جھیلنے پر مجبور ہیں اور اس صورتحال میں عوام بجا طور پر یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ مسئلہ کبھی حل ہوگا؟

میری اپنے تمام قارئین سے گزارش ہے کہ یہ مضمون پڑھنے کے بعد زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں اور اگر آپ کو اللہ نے لکھنے کی صلاحیت دی ہے تو اس کے خلاف لکھیں تاکہ ارباب اختیار تک یہ بات پہنچ جائے۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1458115 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More