اے مسلم تدبر سے کام لے

اگر تم نے تدبر سے کام نہ لیا تو تباہی اور ذلت و خواری تمہارا مقدر ہوگی۔ اللہ نے تمہیں غیر مسلموں کی غلامی سے نجات دی، اگر اللہ کا فضل نہ ہوتا تو پاکستان میں آج بڑے عزت دارپہلے کی طرح انگریز کے جوتے صاف کررہے ہوتے، دن رات انگریز کے احکامات کی بجاآوری میں بس رہے ہوتے،انکی بیگمات انکے گھروں کے فرش رگڑ رہی ہوتیں اور دیگر ناقابل تحریر فرنگی کی خواہشات کی تکمیل کررہی ہوتیں، کچھ ہندو کے بچے ہوئے ہندے( روٹی کے ٹکڑے) کھارہے ہوتے، نان شبینہ کے محتاج ہوتے، بنیا کھلیانوں سے انکی محنت بیاج میں اٹھا کر لے جاتا، انکی جائیدادیں قرق ہورہی ہوتیں، انگریز برسر مسند ہوتا، ہندو اسکا مشیر خاص ہوتا، کئی غلام احمد قادیانی(لعنة اللہ علیہ وعلی المتبعین اجمعین) پیدا ہوتے، گائے کے ذبیحہ پر مسلمان ذبح ہوتے غرضیکہ ان پر ایسا عذاب ہوتا جیسا کہ فرعون نے بنی اسرائیل پر کیا تھا۔ یہ تو اللہ کا عظیم احسان ہے کہ کچھ بیدار اور باغیرت حساس مسلمان میدان میں اترے اور جن کے سامنے بڑے بڑے شاطر وں کی زبانیں گنگ ہوگئیں۔ تمہیں پاکستان اس لیئے بنا کر دیا کہ تم ریاست مدینہ کی یاد تازہ کرو مگر تم نے تو بعثت نبوی سے قبل کی جہالت کو نافذ کررکھا ہے۔ جب انسان کی کوئی قدر نہ تھی،پاکستان تو اسلامی بھائی چارہ کے لیئے بنا تھا، پاکستان اسلامی مساوات کے لیئے بنا تھا، پاکستان تو ا س لیئے بنا تھا کہ المسلم اخوالمسلم مسلمان ، مسلمان کا بھائی تھا، قرآن میں اللہ کا فرمان ہے انما المﺅمنون اخوة بے شک مسلمان تو آپس میں بھائی ہیں۔

اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں جسے مسلمان کہا جاسکتا ہے وہ ہم لوگ نہیں، جو لوگ اپنے آپکو مسلمان کہلاتے ہیں اور ان کی سوچ ، فکر اور عمل دشمن اسلام ہونے کی عکاسی کرے تو اسے سراسر منافقت سے تعبیر کیا جائے گا۔

کراچی میں مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا قتل عام اس بات کا مظہر ہے کہ قہر الہی نے پاکستانیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کون کیا کررہا ہے اور کون ابلیسی کردار اداکررہا ہے، اس پر بات کرنے سے قبل میں اسلام کے معاشرتی اور تمدنی خدوخال پر طائرانہ گفتگو کروں گا۔ اسلام سے قبل کئی تہذیبوں نے جنم لیا، انسان حضرات انبیاءکرام علیہھم الصلوة والسلام کی تعلیمات سے بھی مستفیذ ہوتے رہے، مگر حالات کے دھارے ابلیسی قوتوں نے ہلاکتوں اور بربادیوں کی طرف پھیرے۔ سرور کون و مکاں رحمة اللعلمین ﷺ کی تشریف آوری کے لیئے اللہ تعالٰی نے دنیا کے اس خطے کو منتخب فرمایا جو جہالت اور انسانیت سوز کردار میں بے مثل تھا۔ دیگر خباثتوں میں سرفہرست قبائل میں تعصب، خود نمائی، تفاخر جیسی خباثتیں تھیں، زبان، رنگ و نسل پر برتری کا انحصار تھا۔ اور یہی چیز آج کراچی میں پھل پھول گئی۔ حلقہ بگوش اسلام ہونے والے تو بھائی بھائی بن گئے اور انہیں ایک دوسرے سے اپنی جان، مال یا عزت کے بارے کسی قسم کے خطرات نہ تھے۔ فرمان نبوی ﷺ کے مصداق ایک خاتون نے حضر موت سے صنعا (یمن) تک تن تنہا سفر کیا اور انہیں کسی قسم کا دوران سفر تکلیف دہ واقعہ پیش نہ آیا۔ نبوت و رسالت کی برکتوں سے مسلمان مالا مال ہوگئے، دشمنان اسلام کہ جن سے عرب میں مسلمانوں کو خطرہ تھا اللہ تعالی نے انہیں اسلام کی دولت سے نواز کر بھائی بنا دیا۔

قرآن کریم میں اللہ پاک کا ارشاد ہے: من قتل مﺅمنا متعمدا فجزاءہ جہنم : جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا اس کا صلہ جہنم ہے۔( مسلمان کا target killing کرنا جہنم کی سند حاصل کرنا ہے)۔ مسلمان اس دور میں جہالت و ظلمت کا شکار ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے اعلٰی ڈگریوں کے حامل ہیں لیکن اپنے خالق اور اپنے پیارے رسول کی تعلیمات سے یکسر بے بہرہ اسلام کے تقاضوں کو کیا جانیں؟ پاکستان بننے سے پہلے کا شعور اب ختم ہوتا نظرآتا ہے۔ میری مراد اس سے مسلمانوں کا دین سے لگاﺅ اور دین کا علم ہے۔ اگرچہ فرنگی نے ہمارے تعلیمی اداروں کو بری طرح ختم کیا تھا لیکن علماء ربانی نے بڑے صبر آزما حالات کا سامنا کرتے ہوئے نبوت کی شمع روشن رکھی اور آج کے دینی مدارس کا وجود انہی درویشوں کی فاقہ مستی کا نتیجہ ہیں۔ لوگوں میں دین کا جذبہ تھا اور مسلمان مسلمان کا ہمدرد تھا۔ عوام کی نگاہیں خلافت راشدہ کا دور دیکھنے کی منتظر تھیں۔ مگر آج کے مسلمان کا یہ حال ہے کہ اذان تو رہ گئی روح بلالی نہ رہی۔ مسلمان ہونا ہی بڑا اعزاز ہے۔ رنگ، نسل، زبان یا علاقہ انسان کو کوئی اعزاز نہیں دیتا۔

اے مسلمان تو اپنے پیارے نبی ﷺ کے فرامین کی طرف کیوں متوجہ نہیں ہوتا؟

سید العالمین ﷺ ۹ ذوالحجہ کو میدان عرفات میں کمبل کے ایک خیمے میں قیام فرمارہے ہیں سورج ڈھلتے ہی اللہ کے محبوب اور قاسم تخت و تاج اپنی اونٹنی قصوی پر سوار ہوکر کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار اسلام کے علمبرداروں سے خطاب فرماتے ہیں اور آخری تربیتی نصاب شروع فرماتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ آج کے بعد اپنی امت کے ایسے اجتماع سے میرا خطاب نہ ہوگا۔ فرائض نبوت کی تکمیل ہورہی ہے۔

زبان رسالت سے ارشاد ہوتا ہے: الا کل شئی من امر الجاہلیة تحت قدمی موضوع ( سن لو جاہلیت کے تمام دستور میرے قدموں کے نیچے پامال ہیں ( ابوداﺅد، مسلم شریف باب حجة النبی )

جاہلیت میں لوگ اپنے خاندانی تفاخر اور رنگ و نسل کی برتری کے توہمات کا شکار تھے، محسن انسانیت ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
ایھا الناس الا ان ربکم واحد و ان اباکم واحد لافضل لعربی علی عجمی ولا لاحمر علی اسود ولا اسود علی احمر الا بالتقوی (مسند اما احمد)
اے لوگو : بے شک تمہارا رب ایک ہے، اور بے شک تمہارا باپ آدم علیہ السلام ایک ہے سن کسی عربی کو کسی عجمی پر کسی سرخ کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگرتقوی کے سبب سے۔

انسانیت کی فلاح کے لیئے امن و امان کو دائمی قیام دیتے ہوئے ارشاد تاجدار عالمین ﷺ ہوتا ہے:
ان دماءکم و اموالکم علیکم حرام کحرمة یومکم ھذافی شھر کم ھذا فی بلدکم ھذا یوم تلقون ربکم
( تمہارا خون اور تمہارا مال تم پرتا قیامت اسی طرح حرام ہے جس طرح تمہارا یہ دن تمہارا یہ مہینہ تمہارا یہ شہر محترم ہے۔(بخاری،مسلم ، ابوداﺅد)

قرآن وسنت کی تعلیمات میں ہرجگہ تمام انسانوں کی برابری کا اعلان کیا گیا ہے اگر کسی کو دوسروں پر برتری حاصل ہے تو از روئے تقوی۔ یعنی جو اللہ اور رسول کے احکامات پر زیادہ عمل کرنے والا اور اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہے اسے دوسروں پر برتری حاصل ہے۔ آقائے نامدار تاجدار نبوت و رسالت ﷺ سب سے زیادہ علم و حکمت والے، اللہ سے ڈرنے والے اور اللہ کے احکامات پر عمل کرنے والے کہ انبیاءکرام میں کوئی بھی آپ ﷺ کی برابری نہیں کرسکا۔ ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں اخوت کا آفاقی نظام قائم ہوا۔ بے سروساماں مہاجرین حضرات کو انصار نے بھائی بنایااور عملی طور پر دکھایا کہ بھائی کے لیئے جان و مال سبھی کچھ حاضر ہے۔ قیام پاکستان کے موقع پر موجودہ بھارت میں فرنگی کے اشاروں اور اسکی سرپرستی میں ہندوﺅں اور سکھوں نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا تھا ۔ مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام شروع ہوا تو لاکھوں کی تعداد میں مسلمان اپنے گھر بار ، مال اسباب اور جائیدادیں چھوڑ کر بے سروسامانی کے عالم میں پاکستان پہنچے ۔ ان میں ہندوستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔ ان میں پنجابی بولنے والے، رہتکی بولنے والے ، اردو بولنے والے اور دیگر کئی زبانیں بولنے والے لوگ شامل تھے۔ جس طرح مہاجرین پاکستان مختلف الزبان تھے اسی طرح انصار پنجاب، سرحد، بلوچستان اور سندھ بھی کئی زبانیں بولنے والے تھے۔

مہاجرین کے ساتھ نہائت ہمدردانہ سلوک ہوا ۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہم اردو بولنے والے ،سندھی بولنے والے، پنجابی،پشتو یا بلوچی بولنے والے بڑے ہیں۔ پاکستان میں سبھی پیارومحبت سے بھائی بھائی بن کر رہ رہے تھے کہ الطاف حسین نے لسانییت کی بنیاد رکھ دی ۔ پاکستانکے تمام شہر امن کے گہوارے تھے، کوئی فرقہ بندی نہ تھی۔ ضیاءالحق صاحب کے دور میں اس خباثت نے جنم لیا۔ پاکستان کے باشعور عوام اس تاریخ کو نہیں بھولے ہوں گے کہ جب آرمی ایکشن میں عقوبت خانوں کی حقیقتیں عوام کے سامنے آئیں، دیواروں پر خون، ہڈیوں میں سوراخ کرنے والی ڈرل مشینیں، پھانسی کے پھندے اور انسانی اعضاءمیڈیا نے دکھائے تھے۔ وہ سب کچھ کن لوگوں کی کارستانی تھی؟ سب سے پہلے دکانداروں اور کھاتے پیتے لوگوں سے جبرا بھتے ایم کیو ایم کے غنڈوں نے لینا شروع کیئے۔ سیاستدانوں کی سیاست کا تحفظ آڑے آجاتا ہے، انہیں اپنی مخصوص جمہوریت خطرے میں نظر آنے لگتی ہے۔ پاکستانی فوج کو وہ آپریشن مکمل کرنے دیاجاتا توآج بھتہ خوری اور ٹارگٹڈ کلنگ نہ ہوتی۔ الطاف حسین قتل، اقدام قتل اور ڈاکوں کے لاکھوں کیسوں کا مجرم پاکستان سے بھاگا ہوا برطانیہ میں بیٹھا ہے۔ اور ہماری موجودہ حکومت ایسی لولی لنگڑی ہے کہ الطاف حسین متعدد مرتبہ اسے بلیک میل کرچکا ہے۔ زرداری و گیلانی حکومت جب اسے بھتہ نہیں دیتی تو وہ حکومتی ساتھ چھوڑنے کی دھمکی دیتا ہے، اوربات نہ بننے پر کئی مرتبہ حکومتی ساتھ چھوڑ بھی دیا۔ انہیں معلوم ہے کہ زرداری صاحب کو لوٹ مار کے لیئے انکی بیساکھیوں کی ضرورت ہے۔ عوام کو معلوم ہے کہ لندن میں الطاف حکومت مذاکرات اور یہاں حکومتی کلیدی لوگ نائن زیرو کی یاترا کرتے رہتے ہیں۔ ایسے مفاد پرست لوگ اپنے مفادات و مراعات حاصل کرتے ہیں جبکہ ان لوگو ں کے تعاون سے زرداری اور اسکے ساتھی اس ملک کے عوام کا مزید خون نچوڑتے ہیں۔ میں یہ سوال کرتا ہوں کہ جو شخص بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومت کر رہا ہو اور وہ کسی مقدمے میں ریاست کو مطلوب ہوتو پھر انصاف کے تقاضے کیا ہیں؟چند دن قبل الطاف حسین نے ٹی وی چینلوں پر جو بڑھکیں ماریں، جو نازیبا الفاظ استعمال کیئے میں انکی بھرپور مذمت کرتا ہوں ۔ ایک طرف وہ اپنے آپکو کو قومی لیڈر گردانتا ہے اور دوسری طرف مکے دیکھا کر اردو بولنے والوں کی قیادت کرتے ہوئے لسانی بنیادوں پر فرقہ واریت ، تعصب اور مسلمانوں کے مابین نفرت اور انتقام کی آگ جلارہا ہے۔ الطاف اور اسکے ہمخیال سن لیں پاکستان اسلام اور مسلمانوں کے لیئے بنا ۔ کسی زبان کے لیئے نہیں بنا۔ اگر زبان کی بات ہوتی تو سب زبانوں میں اعلٰی مقام قرآن کی زبان کو ہے ۔ 1947 میں ہجرت کرکے آنیوالے کیا اردو زبان کے لیئے اتنی بڑی قربانیاں دے کر آئے تھے؟ یہ سوچ نہیں چلے گی۔ پاکستان میں رابطہ کے طور پر قومی زبان کے طور پر اردو اور بنگالی کو آئین میں شامل کیا گیا تھا۔ اب بنگالی زبان کا مسئلہ ختم ہوگیا موجودہ آئین میں اردو قومی زبان ہے اور اسے ملک میں ہرجگہ نافذ ہونا چاہیئے تھا۔ مگر الطاف جیسے بھائیوں کو اسکی کیا ضرورت ہے ۔ وہ تو اردو کا نام صرف فساد کے لیئے استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ پنجابی، پشتو، سندھی اور بلوچی بولنے والے بھی اردو بولتے ہیں ۔ اب اردو سپیکنگ والا ڈھونگ رچانا بند کریں۔ الطاف صاحب اتنی بڑی پارٹی کے سربراہ بننے کا دعوی کرتے ہیں تو اپنے اس پیارے ملک میں تشریف کیوں نہیں لاتے؟ پارٹی کے لوگ یہاں اور قائد سات سمندر پار؟ یہ بھی کوئی تک ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہماری قیادتیں علاج معالجہ کے بہانے اپنے آقاﺅں کے پاس وہیں جاتے ہیں۔ وہیں سب کچھ پکتا ہے ۔ انہیں سے رہنمائی حاصل کرکے اس ملک کو تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔ میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ ہمارے ملک کے نام نہاد سیاستدان اور خودساختہ قومی رہنما اپنی موت کو یاد کریں، جب موت کا فرشتہ آئے گا تو یہ اسکے ساتھ سیاسی داﺅ پیچ نہ چل سکیں گے، پھر قبر کا اندھیرا ،تنگ جگہ اور تنہائی اس پر طرہ یہ کہ اپنے کرتوتوں اور بداعمالیوں کا خمیازہ بھگتنے کا عمل شروع ہوگا۔ قیامت کے روز اللہ کے جلال کا کون مقابلہ کرسکے گا۔

ابھی موقع ہے ، استغفار کریں، قوم کا لوٹا ہوا مال واپس کریں، یہودو نصاری کی دوستی سے توبہ کریں، قتل و غارتگری پر توبہ کریں، دوسروں کا حق ادا کریں۔ اللہ بڑا کریم ہے وہ سبھی گناہوں کو معاف فرمانے والا ہے۔ اپنے ملک اور قوم کے ساتھ قفاداری کا عہد کرلیں۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 129361 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More