ہم غر ض کے مارے لوگ۔۔۔۔

 ہم سب لوگ غرض کے مارے ہیں،زندگی اخلاص کا نام ہے لیکن کہیں یہ اخلاص ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔۔۔مِل بھی کیسے سکتا ہے ،یہ اپنے اندر پیدا کرنا پڑتا ہے اور پُر خلوص ہونا کبھی آسان نہیں ہوتا۔۔۔۔۔آج ہم جب خود سے پُر خلوص نہیں تو دوسروں کی بات تو اور غیراہم ہو جا تی ہے،زندگی کے معاملات میں ہم کب ،کس کام میں اخلاص سے کام لیتے ہیں کب بِنا کسی غرض ،مطلب کے ،کسی سے کوئی تعلق استوار کرتے ہیں؟ دوستی سے لے کر ہمارا ہر رشتہ،ہر تعلق کسی نہ کسی صورت،کسی نہ کسی بڑی چھوٹی”غرض“سے جُڑا ہوا ہے۔۔۔۔لیکن کبھی کچھ اغراض کی نوعیت کسی اور طرح کی ہوتی ہے ،عجیب وغریب سی۔۔۔۔نہ سمجھ میں آنے والی۔۔۔۔لگتا ہے کہ کوئی غرض ہے ہی نہیں،پر غرض کسی نہ کسی شکل میں،کہیں نہ کہیں ،ہماری سوچ میں،ہماری تلاش میں،ہماری ضرورت میں،ہماری محبت و نفرت میں یا ان سب سے الگ ،ماورا بھی موجود ہوتی ہے،اس کا موجود ہونا ہی اخلاص کے”ہونے“کو نگل جاتا ہے۔۔۔اخلاص بیچارا دَبکا پڑا رہتا ہے اپنا رستہ ہی تلاش کرتا رہتا ہے،اپنی نمو کی رہیں مسدود ہوچکنے پر بھی ،پنپنے کی آرزو میں پڑا پڑا سوگھ جا تا ہے اور غرض وغایت سرسبز و شاداب ہو جاتی ہے۔۔۔!!

میں بھی مُخلص نہیں دوسروں کی طرح،نہ خود سے نہ دوسروں سے۔۔۔۔ناہی اس سے جس سے ہونا شرطِ بندگی ہے،حُسنِ زندگی ہے لیکن میں جانتی ہوں کہ جب میں کسی سے کہتی ہوں کہ ”میں آپ سے مخلص ہوں“تونہ جانے کیوں اپنی کسی غرض کی راہ استوار کر رہی ہوتی ہوں۔۔۔نہ جانے کیوں سا منے والے کو بتا رہی ہوتی ہوں کہ” میں بے غرض نہیں“۔۔۔۔”میں بھی خود غرض ،ضرورت مند ہوں“۔۔۔میں بھی جھوٹ کی زمین پر ،غرض کا آسمان رکھتی ہوں۔۔۔میں اتنی باظرف نہیں کہ خود غرضی کی راہ چھوڑ کر بے غرض ہو جاﺅں۔۔۔مجھ عاصی میں اتنا جوہر آگہی کب کہ بے نیاز ہو کر خلق سے تعلق رکھوں یا خالق کے آگے جُھک سکوں؟؟؟بے نیازی ،بے غرضی تو صانع کی صِفت ہے ۔۔۔کسی چیز کی نفی ،اس کے موجود ہونے کا ایک رُخ ہوتا ہے،جب کوئی شے ہو ہی نہ تو اُس کی نفی کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔۔۔۔جب انسان کسی شے کی نفی کرتا ہے تو وہ اس کے ہونے کاایک لحاظ سے اقرار کر رہا ہوتا ہے پر بِنا ادراک کے،اس بات کو چھوڑئیے اپنی بصیرت سے دیکھئے جب لوگ کہتے ہیں کی وہ جھوٹ نہیں بولتے ،تو کیا وہ سب سے بڑامضحکہ خیز جھوٹ نہیں بول رہے ہوتے؟؟یا اپنی سچائی کا اعلان کے اپنے جھوٹے ہونے کا اقرار نہیں کر رہے ہوتے؟؟عجیب سائیکی ہے ہماری۔۔۔۔۔خدا نظر نہیں آتا لیکن وہ ہے،جو اُسکی موجودگی سے انکاری ہیں وہ نہیں جانتے کہ وہ اپنے انکار میں اُس کا ”اقرار“ کر رہے ہیں۔۔۔بات تو یک رنگی کی ہے۔۔۔کثرت میں وحدت کی اور وحدت میں کثرت کی۔۔۔۔اقرار میں انکار کی ۔۔انکار میں اقرار کی۔میں اور آپ ہمیشہ خدا کو اپنی کسی نہ کسی غرض ،ضرورت ،خواہش ،طلب ،تمنا وغیرہ وغیرہ کے لیے پکار رہے ہوتے ہیں،کچھ نہ کچھ مانگ رہے ہوتے ہیں،کچھ نہ کچھ چاہ رہے ہوتے ہیں۔۔۔ہوتے ہیں ناں؟؟؟یہ کیا عبادت ہوئی؟؟پتہ نہیں کیوں عبا دت کو ہم تجارت بنا ڈالتے ہیں۔۔۔جب ہمیں یقین ہوتا ہے کہ ہم مالکِ انس و جاں سے کچھ نہیں مانگ رہے تب بھی (افسوس) بہت کچھ مانگ رہے ہوتے ہیں تب ہمیں یقین ہوتا ہے کہ ہماری عبادت ،ہمیں بدلے میں اللہ کی خوشنودی دے گی،ہمیں اپنی عبادت کے عوض ثواب کا حصول تو بہرحال رہتا ہے۔۔۔۔محض غرض پوشیدہ ہے ہماری عبادتوں میں،ہمارے رکوع و سجود میںصرف اپنا کوئی سوال۔۔۔۔۔۔۔۔!!

بہت سے احباب کہیں گے کہ بندہ اللہ سے نہ مانگے تو کس سے مانگے؟اپنی ضرورت اس سے نہ طلب کر ے تو پھر کس کے آگے جا کر اپنا دامن پھیلائے؟؟اور تو اور اپنی عبادت کے بدلے محض اللہ کی خوشنودی نہ چاہے تو کیا چاہے؟؟ہم بڑے عجیب لوگ ہیں ہر جگہ اور ہر شے میں اپنی غرض ،ضرورت اور مطلب کی راہ نکال لیتے ہیں اور اپنے حق بجانب ہونے کو دلیلیں بھی پکڑ لاتے ہیں،اللہ کی عبادت سے لے کر زندگی کا ہر کام خود غرضی اور مطلب پرستی کا لبادہ پہنے ہمیں باور کرواتا ہے کہ ہم غرض کے مارے لوگ اندر سے کتنے ”خالی“ہیں ایک ایسا خلاءجہاں کوئی حق آواز نہیں،اگر ہے تو وہ خاموش ،سناٹے میں بولتی ہوئی گونگی آواز۔۔۔جس کو سنناہم غرض کے ماروں کی سماعتوں کے بس میں کہاں؟؟؟ویسے بھی ہماری سماعتیں اپنی من چاہی آوازیں سننے میں مشغول ہیں ۔۔۔ہمارے لفظ اپنی ہی ضرورتوں کے چہرے تراش رہے ہیں۔۔۔ہم خود غرضی کا چرخہ کاٹتے جا رہے ہیں اور پھر ایک دن اپنے ہی بنائے ضرورتوں کے سُوت میں سو جاتے ہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔۔جاگنے سے پہلے ہی،ابدی نیند ہمیں آ لیتی ہے۔

کچھ دن پہلے تک مجھے گمان تھا کہ میں کسی حد تک بے غرض ہوں،کسی حد تک سچی اور کسی حد تک پُرخلوص،لیکن اب مجھے خود سے زیادہ کوئی خود غرض ،جھوٹا اور ریا کار نظر نہیں آتا۔۔۔ایسا اکثر ہوتا ہے انسان کے اندر کا انسان نیڈر ہوکر اُسے آئینہ دکھاتا ہے پر انسان دیکھتا ہی نہیں۔۔۔۔میں اپنے کالموں میں اپنی ہی فکر کے پہلوﺅں سے جڑی باتیں کرتی ہوں ،اور سچ تو یہ ہے کہ میں اپنی اُلجھے سوالوں کے جواب ڈھونڈ تی ہوں شائد آپ میں سے بھی کسی کو ،میری طرح جواب کی تلاش ہو،اور یہ تلاش مل کر کسی سوال کا جواب دے سکے،کسی سوچ کا آہنگ سنوار نے کا باعث بنے۔۔۔یہ ارتقاءہے،کسی مبہم جواب تک رسائی کا اُنوکھا پر سادہ سا سفر۔۔۔ہر جواب تک رسائی ارتقائی عمل سے گزرتی ہے غیر واضح سے واضح تک کا سفر طے کر تی ہے۔۔۔۔ہم میں سے کچھ لوگ اسی ارتقائی سفر میں کسی نئی تلاش کے مسافر ہو جاتے ہیں،کچھ رستے کو ہی منزل سمجھ لیتے ہیں ،بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو اپنی تلاش کے پہلے مقام کوبرقرار رکھ پاتے ہیں متزلل نہیں ہوتے اپنے سفر میں۔۔۔۔سفر بھی اخلاص کا متقاضی ہوتا ہے لیکن ہم اپنے سفر کو اپنی لا محدود اغراض کی سُولی چڑھا دیتے ہیں سفر کا سارا حسن سچائی سے ہے جب قدم سچائی کی زمین چھوڑ دیتے ہیں تو سفر محض مسافت بن جا تا ہے تھکا دینے والی مسافت۔۔۔۔۔۔۔اسی طرح جب زندگی خود غرضی کا استہ چُن لے تو پھر نہ تو مسافت ختم ہوتی ہے اور ناہی کسی موڑ پہ سکون ہی میسر آتا ہے۔۔۔جب آپ کو زندگی میں بے سکونی کا سامنا ہو یا کہیں کوئی جائے اَمان نے ملے تو سمجھ لیجئے گا کہ آپ نے اخلاص کا رستہ چھوڑ دیا ہے،سچ کی زمین سے اپنے پاﺅں اُکھاڑ لئے ہیں۔۔۔آپ کی نظر کا ،نظارہ حقیقی سے مجازی ہو گیا ہے۔۔۔نظر اہم ہوتی ہے نظارے کے مقابلے میںلیکن ہم انسان نظر سے زیادہ نظارے کو اہمیت دیتے ہیں حالانکہ نظر سے نظارہ ہے،نظارے سے نظر نہیں۔۔۔اگر نظر سے نظارہ ہوتا تو سارے اَنے(اندھے)لوگ کہاں جاتے۔۔۔۔مخلص ہونا مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں،سچ کی زمین پر کھڑا انسان خود غرضی کا آسمان خود نوچ پھینکتا ہے بس پہلا قدم اٹھانا ہے ہمیں۔۔۔یہ قدم کل کے بجائے آج اٹھ جائے تو بہت اچھا ہے ورنہ اگلے لمحے کی کسے کیا خبر۔۔۔!!میری باتیں ،میری سوچ کی طرح منتشر ہیں جس میں آپ کو ربط خود تلاش کرنا ہے کیونکہ کبھی کبھی بے ربط جملے،بے ربط سوچیں مل کر کسی بڑے ربط کا باعث بن جایا کرتی ہیں۔
اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
Sumaira Malik
About the Author: Sumaira Malik Read More Articles by Sumaira Malik: 24 Articles with 26597 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.