“کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا “

ذرائع ابلاغ کی تیز رفتار ترقی نے جہاں ایک جانب انسانی زندگی پر بڑے مثبت اثرات مرتب کئے ہیں وہاں دوسری جانب اعلٰی انسانی اقدار اپنی قدر و قیمت کھو بیٹھی ہیں- بلا شبہ لفظ عشق ، عاشق اور معشوق کا استعمال اتنا ہی قدیم ہے جتنی کہ اردو زبان کی تاریخ۔ یہی وجہ ہے کہ اردو اور سندھی شعرا نے اپنے کلام میں ان الفاظ کا استعمال بکثرت کیا ہے۔ بیشتر اردو شعرا کی شاعری اسی لفظ کے گرد گھومتی ہے-لہٰذا شاعر کے اسی ایک شعر پر مضمون آپ کی خدمت میں حاظر ہے:۔
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دما غ کا

لہٰذا ہم اس کالم کے ذریعہ مندرجہ بالا شعر کی روشنی میں یہ بات سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ شاعر نے جو بات کہی ہے کہ “ کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دما غ کا “ تو اس کی سائنس اور مذہبی تعلیمات کی روشنی میں کیا حیثیت ہے اور کیا شعرا کرام نے اس لفظ کو درست طور پر استعمال کیا ہے۔ جہاں تک قدیم عربی کلام کا تعلق ہے تو اس لفظ کا کسی مقام پر ذکر نہیں ہے۔ لیکن عربی لغت میں عشق ایک ایسے لیس دار پودے کے لئے استعمال کیا گیا ہے جو کسی چیز میں چمٹ جائے تو اسے اتارنا اتنا ہی مشکل امر ہوتا ہے۔ شاید شعرا کرام نے اس لفظ کو عربی لغت کی حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ابتدا میں ایک استعار ے کے طور پر استعمال کیا ہوگا- خود شاعروں کے امام مرزا غالب نے بھی ایک شعر میں تسلیم کیا ہے کہ “عشق“ کا لفظ انتہائی مضر رساں اثرات کا حامل ہے جب ہی تو وہ کہتے ہیں کہ :-
عشق نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

یہ غالب کی شاعری پر ہی منحصر نہیں اکثر و بیشتر شعرا نے اپنے کلام میں متنبہ کیاہے کہ جس کو بھی عشق نامی ییماری لگ گئی وہ اس کے لئے جان لیوا ثابت ہوتی ہے- حالیہ سروے رپورٹ کے مطابق خودکشی اور اقدام خودکشی اور کسی مخصوص کام میں ناکامی کے ٥٠ فیصد سے زائد کیس میں وجہ متحرکہ یہی بیماری ہوتی ہے جو کہ سب سے زیادہ نوجوانوں کو لگ جاتی ہے اسی لئے کئی دوسرے شعرا نے بھی اپنے کلام میں کہا ہے کہ :-
عا شقی کا ہو برا اس نے بگاڑے سارے کام
ہم تو اے بی میں رہے اغیار بی اے ہوگئے
-----------------
قہر ہے ،موت ہے، قضا ہے عشق
شچ تو یہ ہے بری بلا ہے عشق

نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں کی تحقیق کے لئے سائنس نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے- اس کی ایک شاخ انسانی رویوں سے تعلق کا سائنس ہے -جس میں تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بیماری میں مبتلا لوگوں کے دماغ جینیات بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔- یہی وجہ ہے کہ دماغی امراض کے ماہرین نے اس مرض کو جنون کی ایک قسم قرار دے دیا ہے- یہ ایک ایسا مرض ہے جس میں مبتلا شخص خود کو بیمار تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا- شروع میں اس مرض میں عموما دل کی رفتار تیز اور فشار خون بلند ہوجاتا ہے لیکن جب عشق میں ناکامی ہوجائے ایسے مریض کے فشار خون کی شرح گر جاتی ہے اور پھر دل اور نبض کی دھڑکن سست پڑجاتی ہے اور مریض خفقا ن میں مبتلا ہوجاتا ہے- شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:-
ہو کے عاشق وہ پری رو اور نازک بن گیا
رنگ کھلتا جائے ہے جتنا کہ اڑتا جائے ہے
----------------
کہاں کے عشق و محبت کدھر کے ہجر و وصال
ابھی تو لوگ ترستے ہیں زندگی کے لئے

(مضمون کا بقیہ حصہ اگلے دن۔۔۔۔ اس لئے کہ اس وقت لا ئٹ ، کراچی میں جانے والی ہے -حصہ دوئم کل ملاحظہ فرمائیں-شکریہ)
Haji Abul Barkat,Poet/Columnist
About the Author: Haji Abul Barkat,Poet/Columnist Read More Articles by Haji Abul Barkat,Poet/Columnist: 13 Articles with 47078 views AUTHOR OF 04 BOOKS:-
1. ZAOQ - E -INQILAB
2.IZN - E - INQILAB
3.NAWED - E - INQILAB
4. QAHQAHE - HE - QAHQAHE
************************
MEMBER A
.. View More