پانی ہے زندگی

مجھے ہمیشہ سے پا نی کی یہ خاصیت بہت بھلی لگتی ہے کہ یہ ہرمیلی اور گندی شے کو صاف اور پاک کر دیتی ہے قدرت نے اس میں یہ صلاحیت بھی رکھی ہے کہ اسے جس رنگ میں ملا یا جا ئے وہ اسی میں رنگ جا تا ہے اس میں کو ئی انا نہیں کو ئی تکبر نہیں ہوتالیکن حضرت انسان اسے بھی اپنے اختیار میں رکھنے کی کو ششوں میں مصروف ہے پا نی جیسی اہم ضرورت پر قبضے کی کہا نی بہت پر انی ہے جو لوگ دنیا کی تما م وسائل اپنے قبضے میں رکھنے کے خوا ہش مند ہو تے ہیں وہ اس با ت سے ضرور آگا ہ ہیں کہ پا نی انسان کی بنیا دی ضرورتوں میں شامل ہے اگر ہم اسلا می تاریخ پر بھی نظر ڈا لیں تو اوائل اسلا م کے زمانے میں بھی مسلما ن ودیگر قبا ئل کے لو گ کس طرح پا نی کے حصول میں سر گرداں رہتے تھے اور حضرت عثما ن غنی رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی ایک روایت بیحد مشہور ہے جس میں انھوں نے مکہ کے سب سے بڑے (آبی ذخیرہ )کنواں کو ایک یہودی سے منہ ما نگے داموں خرید کراسے بلا مذہب وتفریق تما م مکہ والوں کے لیے وقف کر دیا تھا یہ ان کی سخاوت کی بے شما ر بے مثالوں میں سے ایک خو بصورت مثال ہی۔

۲۲ مارچ کو پوری دنیا میں آبی وسائل کا دن منا یا جارہا ہے اس دن پا نی کے حوالے سے در پیش مسا ئل کے حل کے لیے ورلڈ فورم کا انقعاد کیا جا تا ہے دنیاکو صاف پا نی مہیا کر نے کا خواب دیکھنے والوں کا سب سے بڑا اجتماع’’ ورلڈ وا ٹر فورم ‘‘ جس کا اجلا س ہر تین سال بعد ہو تا ہے اس فورم کی خصو صیت یہ ہے کہ اس میں 180 ممالک کے 20 ہزار افراد حصہ لیتے ہیں جن میں 90 وزراُ ‘250 ارکا ن پا رلیمنٹ ‘ سا ئنس دانوں اور پا نی فروخت کر نے والے پیشہ ور شامل ہو تے ہیں2009ء میں اس کا آخری اجلاس تر کی کے شہرمار سیلی میں ہواا س سال 2012ء میں ہو نے والے اجلا س کی میز بانی فرانس کے حصہ میں آئے گی آبی ما ہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ آنے والی دھا ئیوں میں ملکوں کے درمیا ں جنگ آبی وسائل کے حصو ل کے لیے ہو گی اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ یہ کس قدر گھمبیر مسئلہ ہے پا کستا ن جیسے ترقی پذیر ملک جہا ں کروڑوں لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہوں جہا ں خون پا نی سے بھی ارزاں ہو گیا ہو وہا ں لوگ آنے دنوں کی منصوبہ بندی پر کس طرح صرف نظر کر سکتے ہیں بیشترترقی یافتہ ممالک آنے والے دنوں کی جامع حکمت عملی میں مصروف عمل ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ دوسرے ترقی پذیر ممالک کے آبی ذخائر پر قبضے کی کوششیں بھی جا ری ہیں جس طرح اسر ئیل نے فلسطین اور اردن کا پانی روک رکھا ہے اسی طرح ہر سال بھارت پاکستان کے آبی حصہ داری پر ڈاکہ ڈالتا رہا ہے ۔

آج کی دنیا میں پا نی کے حوالے سے بہت گرما گرمی پا ئی جاتی ہے خصو صا وہ ترقی یا فتہ ممالک جہا ں پانی کے مسائل نہیں وہ بھی دوسرے تر قی پذ یر ممالک کے آبی ذخا ئر پر حر یصا نہ نظر یں جما ئے ہو ئے ہیں یہ ترقی یا فتہ ممالک ورلڈ بنک کے مضبو ط رکن کی حیثیت رکھتے ہیں اور ترقی پذیر ممالک کو دیے گئے قرضے کی کڑی شرائط میں سیا ہ وسفید کے مالک ہو تے ہیں غریب ممالک کی بقاء کا دارو مدار اسی قرضے اور غیر ملکی امداد پر ہو تا ہے لہذایہ کسی دباؤ اور شرائط کو نہ کہنے کی پو زیشن میں نہیں ہو تے ان کی مجبوریوں کا فا ئدہ اٹھا تے ہو ئے ورلڈ بنک نے پانی کی نجکا ری کی پا لیسی متعارف کر ائی ہے جس کے تحت پا نی کی پوری پوری قیمت وصول کی جائے گی اس کی ایک مثال ورلڈ بنک نے 2005ء میں اپنے مقروض ملک بو لیویا (جنو بی امریکہ) میں ورلڈ بنک کے احکام نے حکومتی کابینہ کے اجلا س میں شرکت کی اوربو لیویا کے تیسرے بڑے شہر’’ کوچابا ما‘‘ میں صاف پانی کی فراہمی کے لیے 25 ملین امریکی ڈالر قر ضہ دینے سے انکا ر کر دیا شرط یہ رکھی گئی کہ حکومت جب تک پہلے پا نی کے نظام کو نجی ملکیت میں نہیں دے دیتی اور اسکے اخراجات صا رفین پر نہیں ڈالے جا تے یہ قرضہ نہیں دیا جا سکتا اس ضمن میں ہو نے والی نیلا می میں صرف ایک ٹینڈر کو منظور کیا گیا جس کی سربراہی بد نا م زما نہ ایک بڑی انجینئر کمپنی کے پا س تھی جس نے چین میں تین بڑ ے ڈیموں کی تعمیر میں بڑی کرپشن کی تھی لیکن ورلڈ بنک کے دباؤ میں آکر اس کمپنی کو کا م سونپادیا گیا اس کمپنی نے ابھی کا م شروع بھی نہیں کیا تھا کہ پا نی کی قیمتیں دوگنی کر دی گئی بو لیویا کے عوام کے لیے اب پا نی کا حصول غذا سے بھی مہنگا ہو گیا تھا ان لو گوں کے لیے جو کم آمدنی رکھتے تھے یا جن کا کو ئی ذریعہ معاش نہ تھا ان کے لیے اس طرح زندگی گزارنا قابل برداشت ہو گیا پانی کے بل ان کے گھریلو بجٹ کی آدھی رقم بہا لے جا تا عوام کی زندگی مزید اجیرن بنا نے کے لیے ورلڈ بنک نے مر اعات یا فتہ طبقے کو پا نی کے نرخ مقر رکرنے کا مکمل اختیار دے دیا نیز حکومت کو تنبیہ کی گئی کہ اس کی قرضے دی گئی رقم پا نی کے غریب صارفین کو سبسڈی دینے کے لیے استعمال نہیں کی جا ئے گی کسی بھی ذریعے سے حاصل ہو نے والے پا نی کو خواہ وہ کمیو نٹی کنو یں سے ہی کیو ں نہ نکالا گیا ہو اس کے حصول پر پا بندی لگا دی گئی ان تما م شرائط کی ورلڈ بنک یہ دلیل دیتا ہے کہ غریب حکومتیں اکثر بد عنوانی کا شکا ر ر ہتی ہیں لہذا غریب عوام کو پا نی کے نظام کو بہتر طور پر چلا نے کے مو ثر انتظام اور آلا ت سے قا صر رہتی ہیں اس ضرورت کوپورا کر نے کے لیے ورلڈ بنک سرما یہ کاری اور ہنر کے نئے راستے کھو لتا ہے یہ الگ با ت ہے کہ پا نی کی قیمت میں اضافے سے غربت کی شرح میں مز ید اضافہ ہو تا ہے پانی کے حوالے سے ورلڈ بنک نے جو کڑی شرائط رکھ کر ترقی پزیر ممالک کو اپنے بس میں کیا ہوا ہے ا س میں ارجنٹائن ،کو لمبیا ، چلی، ایکواڈور ، مر اکش اور فلپا ئن شامل ہے اگر ہم اپنے ملک کی پا کستا ن کی با ت کریں تو ہم بھی اس وقت ورلڈ بنک کے شکنجے میں پھنسے ہو ئے ہیں لیکن خداکا شکر ہے کہ حالات اس نہج پر نہیں پہنچے کہ ورلڈ بنک ہمارے آبی وسائل کی بابت فیصلے کرنے کا مجا زہو لیکن یہ ہماری بد قسمتی بھی ہے کہ پاکستان اپنے بیش بہا وسائل کے باوجود مشکلا ت کا شکار ہے جب بارش نہ ہو تو ہم قحط سالی کا شکا ر ہوجا تے ہیں اور اگربا ران رحمت برس پڑے تو ہم اس ذخیرے کو محفو ظ کر نے بجا ئے سیلا ب کے ہا تھوں ہلا کتوں سے پریشان ہو تے ہیں ہرسا ل ایک نیا سیلاب ہمیں معاشی مسائل کے گرداب میں کئی دھائی پیچھے کر دیتا ہے اس مسئلہ سے نبٹنے کے لیے ہماری حکومت کو مو ثر حکمت عملی کی ضرورت ہے بھارت ہما رے آبی وسائل پر قا بض ہو نے کے لیے در جنوں ڈیمز بنا رہا ہے تا کہ ہما ری زرعی زمینوں کو بنجر کر سکے ہمیں بھی نئے ڈیمز بنا نے اشد ضرورت ہے موسمیا تی تبدیلیوں کے با عث آئیندہ آنے والے سالوں میں آبی مسا ئل کی ٹھوس منصوبہ بندی کر کے ہم آزاد اور ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں شامل ہو سکتے ہیں ۔
Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 148383 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.