لیسنتین - Liechtenstein

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

(19مارچ:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)

لیسنتین( Liechtenstein )وسطی یورپ کا چھوٹا سا ملک ہے۔اسکا کل رقبہ 62مربع میل یا 160مربع کلومیٹر سے بھی کم ہے۔اسکادارالخلافہ”وڈز“ہے۔یہ ملک سوئیزرلینڈ اور آسٹریا کے درمیان واقع ہے۔اسکی کل آبادی 35,000نفوس پر مشتمل ہے۔تقریباََ تمام ملک ہی پہاڑی علاقے پر مشتمل ہے۔یہاں کوئی ایسے قدرتی وسائل نہیں جن کی کوئی تجارتی حیثیت ہو یہاں تک کہ پہاڑی سطح ہونے کے باعث یہاں کاشتکاری بھی ممکن نہیں اور لکڑی تک باہر سے درآمد کی جاتی ہے۔پورے ملک میں کوئی بڑے کارخانے نہیں ہیں تاہم چھوٹے چھوٹے کارخانے مشرق سے مغرب تک پوری مملکت میں پھیلے ہیں اور سیاحت یہاں کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے،شاید اسی وجہ سے یہ ملک بہت خوشحال ہے اور یہاں شرح خواندگی مردوں عورتوں میں 100%ہے۔جانوروں کی پرورش بھی یہاں وسیع پیمانے پر کی جاتی ہے۔یہاں کی دفتری زبان جرمن ہے۔بہت مختصر سی پولیس ہے جو اس چھوٹے سے ملک کا امن و امان قائم رکھتی ہے ،جب سے سوئزرلینڈ نے یہاں کا دفاع اپنے ذمہ لیا ہے تب سے فوج ختم کر دی گئی ہے۔یہاں آبادی میں اضافے کاتناسب0.713%ہے،آبادی میں65%مقامی لوگ آباد ہیں جبکہ35%غیرمقامی ہیں۔آبادی میں اکثریت عیسائی مذہب کے پیروکاروں کی ہیں جن کی شرح 90%تک ہے اور اس میں بھی اکثرےت رومن کیتھولک چرچ کی ہے جبکہ مسلمان 4%ہیں اور یہ سب سے بڑی اقلیت ہے،2001میں مسلمانوں کو مستند اجتماعیت تسلیم کرلیاگیاہے اورمسجد میں امام رکھنے کی اجازت بھی مل گئی جبکہ رمضان المبارک میں دو امام بھی تعینات کیے جا سکتے ہیں۔۔سردیوں میں درجہ حرارت -15ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے اور گرمیوں میں 20سے 28ڈگری تک ہی رہتاہے۔بارش اور برف باری بہت ہوتی ہے اور تقریباََ ساراسال بادل چھائے رہتے ہیں۔

سولھویں صدی میں یہاں روس اور فرانس کی فوجوں کا قبضہ رہا اس کے بعد یہ ملک جرمن یونین کا حصہ بن گیا۔ پہلی جنگ عظیم میں جب جرمن یونین بکھر گئی تویہ ملک بھی آزاد ہوگیا۔آسٹریااگرچہ اس ملک سے قریب تر ہے لیکن سوئزرلینڈ کے ساتھ معاشی تعلقات کی مضبوطی کی وجہ سے یہاں کا سیاسی و عسکری جھکاؤ بھی اسی طرف ہی ہے۔یہاں آئینی بادشاہت کا نظام رائج ہے اور ایک شہزادہ یہاں کا حکمران ہے تاہم 1921کے آئین کے تحت اس نے سیاسی انتظام کے لیے قدیمی طور پر مملکت کے دو حصوں ہیں ایک ملک بالا اور دوسراملک زیریں کو دو انتخابی حلقے قرار دے رکھے ہیں۔18سال سے زائد عمر کے مردوخواتین اپنا جمہوری حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔پچیس منتخب افراد کی پارلیمان ہوتی ہے جس کی سفارش پروہاں کا حکمران شہزادہ ایک وزیراعظم اورچار وزرا،ہر انتخابی حلقے سے دو وزراکاتقررکرتا ہے۔پارلیمان چار سالوں کے لیے منتخب کی جاتی ہے۔مقامی حکومتوں کو بھی منتخب نمائندے چلاتے ہیں لیکن انکی مدت انتخاب تین سال ہی ہوتی ہے۔یہاں کی اعلٰی عدلیہ سپریم کورٹ ہے اور ایک محتسب بھی اپیلوں کی سماعت کے لیے بیٹھتاہے۔1990ءمیں یہ ملک اقوام متحدہ کارکن بھی بن گیا۔

سڑکوں کا بہت عمدہ نظام ہے اور ریلوے بھی ہمسایہ ملکوں کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں کو باہم ملاتی ہے،ریلوے لائین کی کل لمبائی نو کلومیٹر ہے جو بنیادی طور پر آسٹریا اورسوئزرلینڈ کو ملانے کے لیے یہاں سے گزرتی ہے۔ پورے ملک میں کوئی ہوائی اڈاہ نہیں ہے اوریہاں کوئی مقامی ٹیلی ویژن ینل بھی نہیں ہے۔۔یہاں کی دلچسپ بات پبلک باتھ ہے جس کی فراہمی حکومت کی ذمہ دارہ ہے اور حکومت نے اس مقصد کے لیے باقائدہ ایک کمیٹی بنا رکھی ہے جوعوام کو یہ سہولت فراہم کرتی ہے۔نیشنل بورڈ آف ایجوکیشن کے تحت یہاں کا تعلیمی نظام چلایا جاتا جس میں ابتدائی،ثانوی اور فنی تعلیم دی جاتی ہے۔اعلٰی تعلیم کا کوئی انتظام یہاں موجود نہیں ۔اچھے علاج کے حصول کی طرح اعلٰی تعلیم کے لیے بھی لوگ سوئزرلینڈ کی طرف سفر کرتے ہیں۔Alpenrhein Riverکے نام سے ایک طویل دریا اس ملک میں بہتا ہے جو بعد میں سوئزرلینڈ میں داخل ہوجاتاہے۔ایک طویل عرصے سے آئیس لینڈ،سوئزرلینڈ اور ناروے کے ساتھ اس مملکت کا آزادتجارت کا معاہدہ ہے جس کے تحت یہ ممالک باہمی اشیا کاتبادلہ کرتے ہیں ۔
Dr. Sajid Khakwani
About the Author: Dr. Sajid Khakwani Read More Articles by Dr. Sajid Khakwani: 470 Articles with 529253 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.