فری لانسر کالم نویس

ویسے دفتر کے لئے گھر سے ساڑھے سات بجے تیار ہو کے نکلنا پڑتا ہے لیکن اس دن طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے میں سستی کا شکار تھا لیکن سر پر باس کی طرف سے "Dent"پڑ جانے کا خوف سوار تھا۔اگرچہ یہ جرمانہ اتنا زیادہ نہیں ہوتا لیکن دفتر کا ٹائم آٹھ بجے ہے اور دفتر پندرہ منٹ تاخیر سے داخل ہونے پر جب "Late commers"کی لسٹ میں نام آ جائے تو بہت ہی شرمندگی ہوتی ہے۔میرے بڑے بھائی اور میں ایک ہی دفتر سے تقریباً 9سال سے جاب کرے رہے ہیں۔بھائی کو ڈرائیونگ سیٹ پر دیکھ کر اس لئے خوشی او ر اطمینان ہوتا ہے کہ وہ ڈرائیونگ میں میرے استا د ہیں اور جب استاد ساتھ موجود ہو توسیانے فرماتے ہیں کہ شاگرد کو ڈرائیونگ ہرگز نہیں کرنی چاہیئے۔

عموماً ٹینچ روڈ پر سکول کالج کی وین اور بسوں کا رش شروع ہو جاتا ہے اس رش کا اختتام عابد مجید روڈ پر میڈیکل کالج کے قریب ہوتا ہے لیکن وہاں پر ”سرکار“ نے خود ساختہ رکاوٹیں لگا کر ٹینچ کے رش کا ریکارڈ برابر کیا ہو اہے۔میری کوشش ہوتی ہے کہ ٹینچ سے قاسم مارکیٹ پہنچنے تک اپنے موبائل پر کم از کم پانچ آیات تلاوت کر لی جائیں اور قاسم مارکیٹ تک میرا یہ مقصد الحمد للہ پورا ہو ہی جاتا ہے۔خیر قاسم مارکیٹ کراس کرنے کے بعد ہم لوگ تیزی سے گولڑہ موڑ کی طرف رواں دواں ہو گئے۔چوہڑ چوک پر ٹریفک کی بھرمار کی وجہ سے اور مین سگنل کی وجہ سے ہمارے مزید پانچ منٹ صرف ہو گئے۔جیسے ہی اشارہ کھلا گاڑیاں روایتی طور پر بے لگام گھوڑے کی مانند اوور سپیڈ ہونے لگیں۔پیرودھائی موڑ کراس کرتے ہی ہمارے سامنے سامنے چلتی ہوئی ایک ڈبل کیبن گاڑی نے اچانک بریک لگائی اور ساتھ ہی چلتی بنی۔اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور بھائی کی تجربہ کاری بچا گئی ورنہ ہم بھی ”شدت“ سے اس گاڑی میں جا ٹکراتے اور پھر شاید خدانخواستہ یہ قلمی رابطہ بھی ٹوٹ جاتا۔بہر حال بھائی نے گاڑی کی فل بریک لگائی۔ہمارے پیچھے آنے والی چار پانچ گاڑیاں بریک لگاتے لگاتے آپس میں ٹکرا گئیں اور ہماری پچھلی سمت سے آنے والی ایک اور ڈبل کیبن گاڑی اس شدت سے ٹکرائی کہ اس نے نہ صرف ہماری گاڑی کا بمپر توڑا بلکہ اس کا اپنا فرنٹ بھی شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔

ہمارے سمیت تمام حادثے کا شکار ہونے والی گاڑیاں اور اس میں موجود ڈرائیورز اور سوار سڑک پر اتر گئے۔سب سے پہلے سب نے اپنی اپنی گاڑیاں چیک کیں۔ہم نے اپنے پیچھے ”ٹھُک“ جانی والی گاڑی کے ڈرائیور کا ”بغور“ جائزہ لیا مگر جناب وہ تو گویا کسی پرائم منسٹر کی گاڑی کا ڈرائیور لگ رہا تھا۔اس حادثے کے بعد نہ صر ف جناب ڈرائیور صاحب بلکہ اس کے ساتھ با وردی آفیسرز بھی ہمیں ہی گھور رہے تھے۔بحث کا ایک نیا دور کھُل گیا۔پچھلی گاڑی والے تمام حضرات کے مطابق گاڑی ”لگ“ جانے کا سبب اگلی گاڑی ہی ہوتی ہے اور ہماری گاڑی کا بمپر ٹوٹنے میں ان کو کوئی قصور ہی نہیں بنتا۔

تھوڑی دیر بعد معلوم ہو ا کہ”چِٹا کاں“ کہنے اوررکھنے والے حضرات ایک ”حساس ادارے“ سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ اس قصور کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔چوک میں موجود تمام ٹریفک کانسٹیل اور ایک فرلانگ دور پکٹ پر موجود تمام سیکورٹی حضرات نے ان کی وجہ سے حادثے والی جگہ کئی دلچسپی ہی نہیں دکھائی۔اس ٹائم میرا خون کھول اٹھا اور میں نے ان سب کے ”انچارج“ کو کہا کہ ”بھائی صاحب آپ ہوں گے اس ملک کے کرتا دھرتا لیکن میں تمہاری اور تمہاری اس بے ایمان ٹیم کو ہی قصور وار ٹھہراﺅں گا اگرتم لوگ اپنا قصور نہیں مانتے تو آج میں بھی یہاں سے نہیں جاﺅں گا اور دیکھتا ہوں کہ تم کس طرح اپنے آپ کو بری الزمہ قرار دیتے ہو“

اس پر وہ صاحب بھی چِلا اٹھے”جناب آپ کو نہیں پتہ آپ کس سے بات کر رہے ہیں، ہم لوگ جس ادارے کے ملازم ہیں ہمارا تو کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور اس وقت آپ پاکستانی آفیسرز کی انسلٹ کر رہے ہیں“

”آپ اپنا قصور نہ مان کر بڑا پاکستان کا وقار بلند کر رہے ہیں؟“ میں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا

بڑے بھائی نے مجھے گاڑی میں بیٹھ جانے کا اشارہ دیا اور میں بڑے بھائی کی لاج رکھتے ہوئے گاڑی میں سر جھکا کر بیٹھ گیا اور سوچا کہ ایک فری لانسر کالم نویس کی بھلا کیا ویلیو ہوتی ہے۔ورنہ میرا دل بھی چاہ رہا تھا کہ ان سے ٹکرا جاﺅں اور انہیں بتا دوں کہ میں 1997سے پاکستانی عوام کے لئے خون جگر سے لکھنے والا فری لانسر کالم نویس ہوں، اور کہوں کہ ”تمہارے گھر گورنمنٹ کی طرف سے ہر انٹرٹیمنٹ پٹرول،گیس،گھر اور گاڑی “ فری ہو گی لیکن میرے گھر میں ایک بھی فری اخبار نہیں آتا۔تم لوگ بے گناہوں اور گناہ گاروں کو بغیر نوٹس کے اٹھا کر لے جاتے ہو گے اور میں نے آج تک کالم نویس ہونے پر کسی کو بلیک میل نہیں کیا۔تم اس وردی میں بے ایمانی کرتے ہو گے اور میں قومی ترانہ سن کر وطن کی محبت میں سرشار ہو جاتا ہوں اور سبز ہلالی پرچم ہر وقت میرے دل پر لہراتا رہتا ہے۔تم لوگ اپنے آپکو ملک کا ٹھیکیدار سمجھتے ہو گے اور دفتر میں ماتحتوں کا خون پیتے ہو گے اور میں آٹھ گھنٹے ایمانداری سے ڈیوٹی کرتا ہوں اور اپنا خون پسینہ صرف کرتا ہوں۔تم لوگ پیسے ”لے“ یا” دے“ کر ملکی سیاست پر اثر انداز ہوتے ہو گے اور میں بلامعاوضہ ایمانداری سے بے ایمان سیاستدانوں کی کلاس لیتا ہوں“

جب بھی گاڑی کا ٹوٹا بمپر دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ چند ظالم اورکرپٹ آفسیرز اور نام نہاد سیاستدانوں نے اس ملک کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے اس قسم کے بے ایمان اور نوسر باز افراد نے ایماندار لوگوں کا جینا بھی حرام کر رکھا ہے اور قائد کا یہ ملک بھی کسی لاوارث گاڑی ایک ٹوٹے ہوئے بمپر کی طرح چل رہا ہے جس پر اس طرح کے بااثر اور لاپرواہ افراد ٹھوکریں مارتے رہتے ہیں۔
mumtazamirranjha
About the Author: mumtazamirranjha Read More Articles by mumtazamirranjha: 35 Articles with 35264 views I am writting column since 1997. I am not working as journalist but i think better than a professional journalist. I love Pakistan, I love islam, I lo.. View More