ٓٓٓانا کی جنگ اور کرک یونیورسٹی

کرک یونیورسٹی کا آخر کار اعلان ہوگیا خٹک قوم آج رات چین کی نیند سوئے گی اور ساتھ میں وہ سیاست دان بھی چین کی نیند سوئیں گے جن کہ وجہ سے یونیورسٹی کا اعلان ہوگیا اور آج ہم بھی ایک عدد یونیورسٹی کے مالک بن گئے ہماری قوم کے ساتھ بہت پہلے سے مذاق جاری تھا کہ یونیورسٹی نہیں بلکہ کیمپس بنے گا کبھی یونیورسٹی کی بات سامنے آجاتی کہا گیا کہ ولی خان یونیورسٹی کا کیمپس جلد کام شروع کردے گا پھر یہ بات زبان زدعام ہوگئی کہ کوہاٹ یونیورسٹی کیمپس کاکرک میں بہت جلد افتتاح ہوجائے گا یونیورسٹی کے نام پر سیاست شروع ہوگئی ہر پارٹی نے اس پر سیاست شروع کردی جس میں کچھ پارٹیوں نے تو اپنا منشور ہی کرک میں یہی بنا لیا کہ جو بھی ہو کرک میں یونیورسٹی ہی بنے گی کیونکہ کرک کے لئے پینے کے پانی اور صحت کے بنیادی ضروریات سے بڑھ کر کرک کی خوشحال خان خٹک یونیورسٹی ہے باقی کام آخر میں آتے ہیں اگر اتنی ہی صوبائی حکومت یعنی عوامی نیشنل پارٹی کرک کے ساتھ مخلص ہوتی تو یونیورسٹی کا اعلان بہت جلد کرتی اس کا ڈھنڈورا نہ پیٹتی جس طرح چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی کا پراجیکٹ دیکھتے ہی دیکھتے منظور ہوگیا اور ولی خان یونیورسٹی کے 9کیمپس منظور ہوگئے کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی اور یونیورسٹیوں کا جال بچھتا گیا جب بات کرک میں یونیورسٹی بنانے کی آئی تو ٹال مٹول سے کام کیا جاتا رہا اگر کیمپس پر کام شروع کرنا ہی تھا تو بہت پہلے کر لیتے اتنا واویلا کرنے کی کیا ضرور ت تھی کیمپس شروع ہوجاتا تو یونیورسٹی بھی بن جاتی اس میں کوئی ایسی خاص بات بھی نہیں تھی ویسے بھی خٹک قوم کی رائلٹی کی مد میں کافی رقم بنتی ہے جو کسی نہ کسی طور کرک کے باسیوں کو مل رہی تھی وہ الگ بات کہ ہمارے لیڈران وہ روپے اپنے حواریوں کے کاموں میں لگا رہے تھے ان کے بنک بیلنس بن گئے 80کروڑ کی خطیر رقم گزشتہ دوسالوں میں رائلٹی کی مد میں کرک کے ایم این اے اور ایم پی اے صاحبان کو ملی ان میں سے کتنا کرک کی ترقی پر خرچ ہوا یہ ہم ضلع کرک کا دورہ کرکے دیکھ سکتے ہیں ہمارے مسائل کتنے حل ہوئے اس کا ہمیں اندازہ ہوگا مگر ہم نے ہر جگہ پر سیاست کی اور یونیورسٹی کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا کیمپس کے لئے ہمیں 37کروڑ روپے ملنے تھے مگر ہم نے کرک میں فل فلیج یونیورسٹی کا راگ آلاپا اور ہمارے ساتھ ہمارے سیاست دان بشمول میاں نثار گل کاکاخیل ، فرید طوفان، ملک قاسم ، محسن علی خان اور خٹک قوم کے جیالے شامل ہوگئے جنہوں نے پشاور میں پریس کلب کے سامنے مظاہروں کا اعلان کیا اور حتٰی کہ یہ خبریں بھی آئیں کہ اسلحہ بردار جلوس نکالے جائیں گے یہ سوچ کر ہنسی بھی آئی اور رونا بھی آیا کہ کرک کے جوان اسلحہ لے کر آئیں گے وہ بھی کیمپس کو نامنظور کرتے ہوئے صرف یونیورسٹی کی خاطر اور رونا اس بات پر کہ یونیورسٹی سے پہلے کرک کے کتنے مسائل ہیں کبھی ہمارے نوجوانوں کو یہ خیال نہیں آیا کہ ہماری مائیں اور ہماری بہنیں جو میلوں دور سے سروں پر پانی بھر کر لاتی ہیں یہ بھی ہمارا مسئلہ ہے ہماری عورتیں جو زچگی کے باعث اموات کا شکا ہوتی ہیں جن کو ہمیں کوہاٹ یا پھر پشاور منتقل کرنا پڑتا ہے ہمارے سیریس مریض جو سڑک پختہ نہ ہونے کے باعث راستے میں ہی سسک سسک کر مرجاتے ہیں کرک میں بجلی کی لوڈشیدنگ کا کتنا برا حال ہے اور ہمارے کتنے ان گنت مسائل ہیں جو حل طلب ہیں جن کے لئے ہمیں مظاہرے کرنے کی ضرورت ہے مگر ہم نے یہ سوچنا بھی گوارہ کبھی نہیں کیا کہ یہ مسائل ہیں جب بات یونیورسٹی کی آئی تو ہم نے آسمان سر پر اٹھا لیا کرک کالج میں چار ڈیپارٹمنٹ پہلے سے کام کر رہے تھے مزید چار ڈیپارٹمنٹ شروع ہونے والے تھے جس سے یونیورسٹی کیمپس شروع ہوجا تا مگر ہمارے سادہ لوح عوام کو ہمارے لیڈران نے لولی پاپ کھلادیا ان کے کان ایسے بھر دیئے کہ جیسے یہ کرک کے عوام کے ساتھ بڑی زیادتی ہے صورتحال بنگال جیسے بن گئی تھی کہ اسلام آباد سے پٹ سن کی بوآرہی ہے خٹک قوم کو سیاست کی نظر کرتے ہوئے وزیرا علی خیبر پختونخواہ سے یونیورسٹی کا اعلان کر ہی ڈالا گیا حالانکہ وہ اس کے حق میں ہر گز نہیں تھے اسکا وژن وسیع تھا وہ چاہتے تھے کہ کیمپس کا علان کرکے اس کو فنکشنل کردیں گے جبکہ یونیورسٹی کا اعلان کردیں گے جس پر بھی کام جلد شروع کردیا جائے گا مگر ہماری نادان قوم سیاست دانوں کے جھانسے میں آگئی اور کیمپس کی مخالفت شروع کردی اور یوں وزیراعلٰی نے مجبورہوکر کیمپس کو گولی مار کر کرک میں یونیورسٹی کا اعلان کر ڈالا اور زمین خریدنے کے لئے 25کروڑ روپے منظور کر دیئے حالانکہ کیمپس کے لئے 37کروڑ روپے کی منظوری ہوگئی تھی اب کرک کے عوام خوش ہیں خٹک قوم آج خٹک ڈانس کرے گی سیاست دانوں کی بانچھیں کھل گئی ان کی سیاست کام آگئی جس پر یہ سیاست کر رہے تھے اب یہ سیاست دان وزیراعلٰی کا شکریہ ادا کرنے کے لئے پریس کانفرنسیں کریں گے اور ہمارے جیالے بھنگڑے ڈالیں گے کیونکہ ہم نے کشمیر فتح کر لیا ہے ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کیا ہم نے اچھا کیا واقعی ہم انا کی جنگ جیت گئے ہیں مگر انا کی جیت کے بعد بندہ بہت دیر تک نڈھال بھی رہتا ہے اور آج وہی حال ہمارا ہے کہ
انا کی جنگ میں ہم جیت تو گئے لیکن پھر اس کے بعد بہت دیر تک نڈھال رہے-
A Waseem Khattak
About the Author: A Waseem Khattak Read More Articles by A Waseem Khattak: 19 Articles with 20560 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.