احادیث مبارکہ میں ذکر اللہ کی فضیلت

اللہ تعالیٰ کا ذکر اطمینان قلب اور راحت جاں کا سبب ہے ۔نبی کریم ﷺ نے بار بار ارشادات سے ذکر اللہ کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے ۔ذیل میں سب سے پہلے ذکر کے معنی ،مفہوم بیان کیا جاتا ہے اور بعدہ ذکر کے بارے احادیث بیان کی جاتی ہیں تاکہ اہل ایمان احکامات نبوی پر عمل کر کے محافل ذکر کا اہتمام کریں۔

ذکر الہٰی کا معنی و مفہوم:ذکر عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معانی یاد کرنا ،یاد تازہ کرنا ،کسی شئے کو بار بار ذہن میں لانا ،کسی چیز کو دہرانا اور دل و زبان سے یاد کرنا ہیں۔(ابن منظور،لسان العرب ،جلد4صفحہ308 ،311)

امام راغب اصفہانی (م 502ھ ) نے ذکر الہٰی کے درجہ ذیل معانی بیان کئے ہیں۔۱۔وحی ربانی ۔۲۔یاد دہانی ۔۳۔قصہ بیان کرنا ۔۴۔نصیحت۔۵۔نام پکارنا۔۶۔تذکرہ

ذکر الہٰی یادِ الہٰی سے عبارت ہے :ذکر الہٰی کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ ہر وقت اور ہر حالت میں ۔اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے اپنے معبود حقیقی کو یاد رکھے اور اس کی یاد سے کبھی غافل نہ ہو ۔صوفیاءکرام کے ہاں ذکر الہٰی کا مفہوم بہت بلند ہے ،سلطان العارفین حضرت سلطان باہو رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جو دم غافل سو دم کافر
سانوں مرشد اے پڑھایا ہو
(انسان کا ایک ایک سانس اللہ تعالیٰ کی یاد میں صرف ہو ،اس کا ایک لمحہ بھی غفلت کی نذر نہ ہو ورنہ کفر لازم آئے گا۔یہی سبق ہمیں مرشد کامل نے پڑھایا ہے۔)

حضور غوث الاعظم سیدنا عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ (561-470ھ) لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ذکر کا مفہوم بیان فرماتے ہیں:”اے سامعین ! تم اپنے اور خدا کے درمیان ذکر سے دروازہ کھول لو ،مردانِ خدا ہمیشہ اللہ کا ذکر کرتے ہیں یہاں تک کہ ذکر الہٰی ان سے ان کے بوجھ کو دور کر دیتا ہے ۔“ (الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ41)

حاصل کلام یہ ہوا کہ ”ذکر“ یاد الہٰی کا وہ طریقہ ہے جس سے انسان کو اپنے خالق و مالک حقیقی کی معرفت اور پہچان نصیب ہوتی ہے ۔

ذکر الہٰی کی اہمیت و فضیلت :اس دورِ مادیت میں ہمارے احوالِ زندگی مجموعی طور پر بگاڑ کا شکار ہیں ۔ہماری روحیں بیمار اور دل زنگ آلود ہو چکے ہیں ۔اللہ تعالیٰ سے ہمارا تعلق بندگی حقیقتاً معدوم ہو چکا ہے ۔ہمارے باطن کی دنیا کو حرص و ہوس،بغض و عناد ،کینہ و حسد ،فخر و مباہات ،عیش و عشرت و سہل پسندی ،خود غرضی و مفاد پرستی اور انا پرستی و دنیا پر ستی کی آلائشوں نے آلودہ کر رکھا ہے ۔لہٰذا ان بگڑے ہوئے احوال کو درست کرنے ،بیمار روحوں کو صحت یاب کرنے ،آئینہ دل کو شفاف کرنے ،قلب و باطن کو نور ایمان سے منور کرنے ،احوالِ حیات کو روحانی انقلاب کی مہک سے معمور کرنے اور محبو ب حقیقی سے ٹوٹے ہوئے تعلق کو دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت ناگزیر ہے اور اس کا واحد ذریعہ ذکر الہٰی ہے ۔

ذکر الہٰی ہر عبادت کی اصل ہے :تمام جنوں اور انسانوں کی تخلیق کا مقصد عبادت الہٰی ہے اور تمام عبادات کا مقصودِ اصلی یادِ الہٰی ہے ۔کوئی عبادت اور کوئی نیکی اللہ تعالیٰ کے ذکر اور یاد سے خالی نہیں ۔سب سے پہلی فرض عبادت نماز کا بھی یہی مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کو دوام حاصل ہو اور وہ ہمہ وقت جاری رہے ۔نفسانی خواہشات کو مقررہ وقت کے لئے روکے رکھنے کا نام روزہ ہے ۔جس کا مقصد دل کو ذکر الہٰی کی طرف راغب کرنا ہے ۔روزہ نفس انسانی میں پاکیزگی پیدا کرتا ہے اور دل کی زمین کو ہموار کرتا ہے تاکہ اس میں یاد الہٰی کا ہی ظہور ہو ۔قرآن حکیم پڑھنا افضل ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور سارے کا سارا اسی کے ذکر سے بھرا ہوا ہے ،اس کی تلاوت اللہ تعالیٰ کے ذکر کو تر و تازہ رکھتی ہے ۔ معلوم ہوا کہ تمام عبادات کی اصل ذکرِ الہٰی ہے اور ہر عبادت کسی نہ کسی صورت میں یادِ الہٰی کا ذریعہ ہے ۔مردِ مومن کی یہ پہچان ہے کہ وہ جب بھی کوئی نیک عمل کرے تو اس کا مطمعِ نظر اور نصب العین فقط رضائے الہٰی کا حصول ہو ۔یوں ذکرِ الہٰی رضائے الہٰی کا زینہ قرار پاتا ہے ۔اس اہمیت کے پیش نظر قرآن و سنت میں جابجا ذکر الہٰی کی تاکید کی گئی ہے ۔

کثرت ذکر محبت الہٰی کا اولین تقاضا ہے :انسانی فطرت ہے کہ وہ اس چیز کو ہمیشہ یاد کرتا ہے جس کے ساتھ اس کا لگاﺅ کی حدتک گہرا تعلق ہو ۔وہ کسی صورت میں بھی اسے بھلانے کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔اہل محبت کے ہاں یہ عام قاعدہ ہے کہ جس شے سے محبت ہو اسے اٹھتے بیٹھتے یاد کیا جاتا ہے ۔محبوب جس قدر صاحب عظمت و شان اور حسن و جمال کا پیکر ہو گا محب کی زبان پر اسی قدر اس کا ذکر کثرت سے آئے گا ۔ایک مومنِ کامل کی دلی محبت ، مخلصانہ الفت اور جذباتی تعلق کا مرکز و محور صرف ذات باری تعالیٰ کا ذکر ہی ہو سکتا ہے اور جس بندے کو محبت الہٰی کی کیفیت نصیب ہو جائے اس کی دیوانگی اور اس کے جوش محبت کا عالم کیا ہو گا ؟اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔حقیقت یہ ہے کہ جس کو بھی محبت الہٰی کے اس بحر بیکراں سے کوئی قطرہ نصیب ہو جائے اس کی نظر میں پوری دنیا کی نعمتیں پیچ ،بے اثر اور بے وقعت ہو جاتی ہیںاور وہ پوری دنیا اپنے محبوب کے نام پر قربان کر دیتا ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنے محبین کی بنیادی شرط بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے ۔وَالَّذِینَ اٰمَنُوا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ ۔”اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر ) اللہ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں ۔“(البقرہ پارہ 2،آیت نمبر165)

صرف اس ذات کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے جس سے شدید محبت ہو ۔ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:مَن اَحَبَّ شَیاً اَکثَرَ مِن ذِکرَہ۔”انسان کو جس چیز سے محبت ہوتی ہے وہ اس کا ذکر بڑی کثرت سے کرتا ہے ۔“(کنز العمال جلد1صفحہ525)

اللہ تعالیٰ کی محبت کا اولین تقاضا یہ ہے کہ ہر پل اسی کا نام ور د زبان رہے ،ہر لمحہ دل میں اس کی یاد بسی رہے اور ہر گھڑی اس کے ذکر میں تمام ہو ۔کثرتِ ذکر کے باب میں بے شمار احادیث بیان ہوئی ہیں ،ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:کَانَ النَّبِیُّ ﷺ یَذکُرُو اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ اَحیَانِہِ ۔”حضور نبی اکرم ﷺ ہر وقت ذکرِ الہٰی میں مشغول رہتے تھے۔“(صحیح مسلم جلد 1صفحہ282)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے ۔رَبِّ اجعَلنِی لَکَ شَکَارًا ،لَکَ ذَکَّارًا ،لَکَ رَھَابًا ،لَکَ مَطوِاعًا ،لَکَ مُخبِتًا اِلَیکَ اَوَّاھًا مُنِیبًا ۔”اے پالنہار !تو مجھے اپنا کثرت سے شکر گزار ،ذکر کرنے والا ،بہت ڈرنے والا ،نہایت فرما بردار ،خوب اطاعت کرنے والا ،بہت عاجزی کرنے والا ،بہت گریہ و زاری کرنے والا اور تیری ہی جانب رجوع کرنے والا بنا دے۔“(ترمذی شریف )

حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا :”جو شخص با وضو ہو کر اپنے بستر پر لیٹے اور نیند آنے تک ذکر الہٰی میں مشغول رہے ۔وہ رات کی جس گھڑی میں اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگے اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا۔“(ترمذی شریف)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اَکثَرُوا ذِکرَ اللّٰہِ حَتّٰی یَقُولُو ا مَجنُون۔”اللہ کا ذکر اتنی کثرت سے کیا کرو کہ لوگ تمہیں مجنون کہنے لگیں۔“(احمد بن حنبل ،المسند جلد3صفحہ71)

پس اللہ کی یاد اپنے دل میں بسانے اور اس سے ٹوٹے ہوئے تعلق کو بحال کرنے کا واحد ذریعہ ذکر الہٰی کی کثرت ہے ۔اگر یہ ذکر ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائے تو نگاہوں کے پردے اٹھ جائیں گے اور محبوب حقیقی کے حسن لا زوال کے جلوے بے نقاب ہو جائیں گے ۔جب آنکھوں کے پردے اٹھ جائیں اور حسنِ مطلق کا نظارہ آنکھوں کے سامنے ہو تو پھر ذاکر اپنے آپ کو بھول کر ان جلووں میں کھو جاتا ہے ۔

ذکر قرب الہٰی کا بہتر ذریعہ ہے :جب بندے کی یہ کیفیت ہو جائے کہ اس کی زبان ہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تر رہے، وہ تمام دنیوی محبتوں سے کنار اکش ہو کر صرف اللہ تعالیٰ کی محبت میں ڈوب جائے ،اُسی کو پکارے ،ہر شے سے کٹ کر اسی کا ہو جائے اور اس کے رگ و ریشے میں اسی محبوب حقیقی کی یاد سما جائے تو اسے ذکر الہٰی کی ساری حلاوتیں اور برکتیں یوں نصیب ہوں گی کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے قرب خاص سے نوازے گا۔

بندہ جب اللہ کی یاد کو حرزِ جان بنا لے اور اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہو تو اسے قرب الہٰی کی دولت نصیب ہو تی ہے ۔پھر وہ اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے تو وہ اس کی پکار کو سنتا ہے اور اس کے دامن کو رحمت کی خیرات سے بھر دیتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کی بے پایا ںرحمت کے قربان جائیں کہ اس کا جب ادنیٰ سے ادنیٰ بندہ بھی اسے یاد کرتا ہے تو وہ اپنی شانِ کریمی اور رحیمی کے ساتھ اسے یاد فرماتا ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث قدسی میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:”میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتا ہوں اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے دل میں یاد کرتا ہوں ۔اگر وہ مجھے مجمع کے اندر یاد کرتا ہے تو میں بھی اس سے بہتر مجمع کے اندر اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ بالشت بھر میرے قریب ہو تا ہے تو میں گز بھر اس سے قریب ہوجاتا ہوں ،اگر وہ گز بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میں دونوں ہاتھوں کے پھیلاﺅ کے برابر اس سے قریب ہو جاتا ہوں ،اگر وہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں۔“(صحیح بخاری شریف جلد 2 )

اس حدیث نبوی ﷺ سے معلوم ہوا کہ ذاکر جب تنہا ذکر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کا ذکر تنہا کرتا ہے اور جب وہ زمین پر مخلوق کا اجتماع منعقد کر کے خود بھی ذکر کرتا ہے اور بندوں سے بھی ذکر کرواتا ہے تو اللہ بھی عرش پر ارواح ،ملائکہ اور انبیاءعلیہم السلام کے اجتماع میں اس کے نام کا ذکر کرتا ہے ۔بندہ اپنی استطاعت اور طاقت کے مطابق انسانوں کے مجمع میں فرش زمین پر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور شان کے مطابق اس سے بدرجہا بہتر و بلند تر قدسیانِ فلک کے مجمع میں عرش بریں پر اس بندے کا ذکر فرماتا ہے ۔

اب سوال یہ پید اہوتا ہے کہ بندہ تو اللہ کا ذکر کرتے ہوئے ۔اللہ اللہ ،اللہ ھو ،لا الہ الا اللہ ،سبحان اللہ ،وغیرہ کلمات کے ذریعے اس کی الوہیت ووحدانیت اور قدوسیت و سبوحیت کے نغمے الاپتا ہے ،اس کی عظمتیں ،رفعتیں ،حسن و جمال اور جبروت و جلال کو بیان کرتا ہے ،مگر اللہ تعالیٰ اس بندے کا ذکر کیسے کرتا ہو گا اور جواب میں اجر کے طور پر ملائکہ کے اجتماع میں عرش معلی پر کیا پکارتا ہو گا؟ اس کا جواب یہ ہے۔ کہ جب اللہ بندے کا ذکر کرتا ہے تو اس ذکر کو زمین پر اتار دیتا ہے اور اسے لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے ۔لوگ اس بندہ خدا سے محبت کرنے لگتے ہیں حتیٰ کہ وہ مرجعِ خلائق بن جاتا ہے ۔

اولیاءاللہ جو عمر بھر اللہ تعالیٰ کے ذکر و فکر میں مشغول رہے اور ایک پل بھی اس کی یاد سے غافل نہیں رہے اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر اہل زمین پریوں پھیلا دیا کہ ان کے وصال کے سینکڑوں سال بعد آج بھی کو بہ کو ان کا چرچا ہے ۔جیسے حضرت سلطان باہو رحمة اللہ علیہ (م1040ھ) کے وصال کو تقریباًچار صدیاں گزرنے کے بعد بھی ان کا ذکر یا باہو ،حق باہو آج تک ہو رہا ہے ۔ حضرت بابا فرید گنج شکر رحمة اللہ علیہ (م 579ھ)تقریباً8سوسال قبل اس دنیا میں زمین پر تھے اور اللہ کا ذکر کرتے تھے مگر آٹھ صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی ان کے دربار پر دنیا لاکھوں کی تعداد میں آکر یا فرید ،حق فرید کہتی ہے ۔حضرت غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے وصال کو تقریباً ایک ہزار سال بیت گئے مگر ان کا جو ذکر اللہ تعالیٰ نے مخلوق میں جاری فرمایا آج بھی یا غوث الا عظم کی صورت میں پورے عالم میں اس کی دھوم ہے ۔حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمة اللہ علیہ کے وصال کو تقریباً ہزار سال سے اوپر گزر گئے مگر آج تک لاکھوں کی تعدد میں لوگ صبح و شام ان کے دربار پر آتے ہیں اور یاداتا گنج بخش کا ذکر کرتے ہیں ۔گویا ان اولیاءو صلحاءاور اتقیاءو اصفیاءکے ذکر کی مقبولیت عام سے اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کا ذکر کرنے کا نظارہ زمین پر دکھا رہا ہے ۔حضرت سلطان باہو رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
نام فقیر انہاں دا باہو قبر جنہاں دی جیوے ہو
یعنی جو لوگ اللہ کا ذکر کرتے ہیں ان کے ذکر کو یوں دوام ملتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی وہ زندہ رہتے ہیں ۔ان کا ذکر لوگوں کے دلوں میں یوں سرایت کرجاتا ہے کہ ان کے مزارات پر ہر وقت انسانوں کا ایک جھرمٹ رہتا ہے جو ان کے واسطے سے بارگاہ ایزدی میں دست بد عا ہوتے ہیں۔

ذکر الہٰی افضل ترین عبادت ہے :ذکر الہٰی افضل ترین عبادت ہے کیونکہ یہ تمام عبادات کی اصل اور روح ہے ۔اگر یہ نہ ہو تو ساری کی ساری عبادات بے کیف و سرور اور بے معنی و بے مقصد ہو کر رہ جائیں۔

حدیث مبارکہ کی رو سے انسان کے بہترین اعمال میں سے ذکر الہٰی سب سے افضل و اعلیٰ ہے ۔حضرت ابو درداءرضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا :”کیا میں تمہیں تمہارے بہترین اعمال (میں سب سے بہتر عمل) کی خبر نہ دوں جو تمہارے اب کے نزدیک مقبول تر ہو اور تمہارے درجات کو سب سے زیادہ بلند کرنے والا ہو اور وہ عمل تمہارے لئے سونا چاندی اللہ کی راہ میں خیرات کرنے سے بھی بہتر ہو ،اور تمہارے لئے اس سے بھی بہتر ہو کہ اپنے دشمنوں کے مقابلے میں جہاد کے لئے آﺅ پس تم ان کی گردنیں اتارو اور وہ تمہاری گردنیں ماریں۔صحابہ نے عرض کیا کیوں نہیں (یا رسول اللہ ﷺ ضرور ایسا عمل بتائیے) تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:ذِکرُ اللّٰہِ تَعَالیٰ (ایسا عظیم عمل) اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے ۔“(ترمذی شریف، مسنداحمد بن حنبل)

حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث یوں مروی ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا :یَا رَسُولَ اللّٰہِ (ﷺ) اِنَّ شَرَائِعَ الاِسلَامِ قَد کَثرَت عَلَیَّ فَاَخبَرنِی بِشَی ئٍ اَتَثَبَّتُ بِہِ ۔”یا رسول اللہ !(ﷺ) اسلامی احکام مجھ پر غالب آگئے ہیں ۔آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں ،جسے میں انہماک سے کرتا رہوں ۔ “

حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:لَا یَزَالُ لِسَانُکَ رَطُبًا مِن ذِکرِ اللّٰہِ۔”تیری زبان ہر وقت ذکر الہٰی سے تر رہنی چاہیے۔“(ترمذی ،ابن ماجہ ،احمد بن حنبل)

حضرت مالک بن یخامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے انہیں فرمایا:آخری وصیت جس پر میں حضور نبی اکرم ﷺ سے جدا ہوا وہ یہ ہے کہ میں نے (رسول اللہ ﷺ سے ) عرض کیا:”اعمال میںسے کونسا عمل اللہ کو زیادہ محبوب ہے؟“

تو آپ ﷺ نے فرمایا:”تجھے اس حال میں موت آئے کہ تیری زبان اللہ کے ذکر سے تر ہو ۔“(ابن حبان ،طبرانی ،بیہقی)

ذکر الہٰی عذاب الہٰی سے نجات کا ذریعہ ہے :ذکر الہٰی گناہوں کی بخشش کا موجب اور عذاب الہٰی سے نجات کا بہترین ذریعہ ہے ۔

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:مَا عَمِلَ امرُو بِعَمَلِ اَنجَی لَہُ مِن عَنَابِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ مِن ذِکرِ اللّٰہِ ۔”ذکر الہٰی سے بڑھ کر آدمی کوئی عمل ایسا نہیں کرتا جو اسے سب سے زیادہ عذاب سے نجات دلانے والا ہو۔“صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا :”اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں؟“آپ ﷺ نے فرمایا:” راہِ خدا میں جہاد بھی نہیں چاہے تو اپنی تلوار سے اتنا جہاد کرے کہ وہ ٹوٹ جائے ،پھر اس (ٹوٹی تلوار) سے اتنا جہاد کرے کہ وہ بھی ٹوٹ جائے ۔“(ابن ماجہ ،ابن ابی شیبہ)

ذکر الہٰی سے بندے کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت پیدا ہوتی ہے اور جس کے دل میں یہ دونوں صفات یکجا ہوں وہ عذاب الہٰی سے محفوظ رہتا ہے ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” جس شخص نے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور اس کی آنکھیں اللہ کے خوف سے بہہ نکلیں یہاں تک کہ اس کے آنسو زمین پر جا گر ے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو عذاب نہیں دے گا۔ “(حاکم ،المستدرک )

جس گھر میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے ۔اس میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہونے لگتا ہے اور وہ گھر انوار الہٰیہ کا مخزن بن جاتا ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔آسمان والے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والوں کے گھر وں کو ایسے روشن دیکھتے ہیں ۔جیسے زمین والے چمکتے ہوئے ستاروں کو دیکھتے ہیں ۔“(ابن ابی شیبہ )

ذکر الہٰی بیمار دلوں کی شفا ہے :تمام روحانی او ر اخلاقی بیماریوں کا علاج جن کا تعلق دل سے ہے ذکر الہٰی میں مضمر ہے ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :ذِکرُ اللّٰہِ شِفَائُ القُلُوبِ ۔”اللہ کا ذکر دلوں کی شفاءہے ۔“(مناوی ،فیض القدیر)

بے شک دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے جس طرح تانبا اور چاندی وغیرہ زنگ آلود ہو جاتے ہیں ،اس کو جلا دینے والا اللہ کا ذکر ہے ۔یہ دل کو شیشے کی مانند صاف و شفاف اور چمکدار کر دیتا ہے ۔

ذاکرین کے فضائل:ذاکرین اللہ تعالیٰ کے وہ محبوب اور مقرب بندے ہیں جو ہمہ وقت ذکر الہٰی میں مگن رہتے ہیں اور ہر لحظہ اپنے محبوب حقیقی کا نام جپتے رہتے ہیں ۔انہیں کارخانہ قدرت کی ہر چیز میں اسی محبوب کا جلوہ حسن نظر آتا ہے ۔وہ صبح و شام اسی جلوے کی ایک تجلی کے منتظر رہتے ہیں۔کثرت ذکر انہیں مقام معرفت تک پہنچا دیتاہے جہاں وہ ہر چیز کو چھوڑ کر اپنے مولا کی یاد میں کھو جاتے ہیں ،پھر انہیں مقام مشاہدہ نصیب ہوتا ہے اور لذت دید کی نعمت سے شاد کام ہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو مغفرت و بخشش اور اجرِ عظیم کی بشارت دی جاتی ہے ۔قرآن و حدیث میں ذاکرین کے احوال و واقعات اور صفات و خصوصیات کا بیان کثرت سے موجود ہے ۔یہاں ہم ان کے چند فضائل درج کر رہے ہیں۔

اہل ذکرمعیت خدا وندی سے سرفراز ہوتے ہیں:اس طرح محبوب کی یاد میں ہر لمحہ محورہنے والوں کو جو معیت نصیب ہوتی ہے وہ عبادت سے حاصل ہوتی ہے نہ کسی اور وصف سے بلکہ یہ ذوق و وجدان کی مرہون منت ہوتی ہے ۔ایک حدیث قدسی میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے :”میں اپنے بندے کے اس گمان کے مطابق ہوتا ہوں جو وہ میرے متعلق رکھتا ہے اور اس کے ساتھ ہوتا ہوں جس وقت وہ میرا ذکر کرتا ہے ۔“(صحیح بخاری شریف)

اہل ذکر اللّٰہ تعالیٰ کے محبوب ترین ہوتے ہیں: اللہ کی یاد ذاکر کو محبوب ترین بندہ بنا دیتی ہے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :(جب) موسیٰ علیہ السلام طور سینا پر تشریف لے گئے تو بارگاہِ الہٰی میں عرض کی :”اے پروردگار !تجھے بندوں میں سب سے زیادہ محبت کس سے ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:” وہ جو ہر وقت میرا ذکر کرتا رہتا ہے اور مجھے بھولتا نہیں ۔“(صحیح مسلم شریف)

حضرت عمر و بن الحمق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :”بندوں میں میرے دوست اور میرے پیارے وہ بھی ہیں جو میرے ذکر کی وجہ سے یاد کئے جاتے ہیں اور ان کے ذکر کی وجہ سے میںیاد کیا جا تا ہوں (گویا میرا اور ان کا ذکر لازم و ملزوم ہے ۔)“(ترمذی شریف)

اہل ذکر اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں مستحاب الدعوات ہوتے ہیں:اللہ تعالیٰ ان بندوں کو اتنا محبوب جانتا ہے کہ ان کی دعاﺅں کو ہمیشہ شرف قبولیت عطا کرتا ہے اور کبھی رد نہیں فرماتا :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضو ر نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:”تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن کی دعا اللہ (تعالیٰ) رد نہیں فرماتا :کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرنے والا ،مظلوم کی پکار ،عادل حکمران۔“

اہل ذکر اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک زندہ دل ہوتے ہیں:ذکر الہٰی دلوں کی زندگی کی علامت ہے جو دل ذکر سے غافل ہے وہ زندہ نہیں مردہ ہے ۔سو ذاکرین ہی وہ بندے ہیں جو حقیقت میں زندہ ہیں کیونکہ ان کے دل ذکرِ الہٰی سے شاد و آباد ہوتے ہیں ۔حدیثِ مبارکہ میں ذاکر کو زندہ اور ذکر الہٰی سے محروم شخص کو مردہ کہا گیا ہے ۔حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :”اپنے رب کا ذکر کرنے والے اور اپنے رب کا ذکر نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے ۔“(صحیح بخاری شریف)

ایک حدیث مبارکہ میں غافل بندوں کے درمیان ذکر کرنے والے کو سر سبز و شاداب درخت سے تشبیہ دی گئی ہے ۔امام مناوی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت نقل کرتے ہیں۔”غافلوں کے بیچ میں ذکر کرنے والا ایسا ہے جیسے سوکھے اور ٹوٹے ہوئے درختوں کے درمیان سبز درخت ہوتا ہے ۔“(مناوی شریف)

اہل ذکر گناہوں کے بوجھ سے چھٹکارا پائیں گے:اللہ تعالیٰ کی یاد میں سرمست رہنے والے بندوں سے روزِ قیامت گناہوں کا بوجھ ہٹا دیا جائے گا اور وہ اللہ کی بارگاہ میں تمام آلودگیوں سے پاک و صاف ہو کر حاضر ہوں گے ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:”مفرد ون سبقت لے گئے ۔“صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا :” یا رسول اللہ (ﷺ)! مفردون کون ہیں؟“آپ ﷺ نے فرمایا:” مفردون وہ لوگ ہیں جنہیں ذکر الہٰی کے نشہ نے فریفتہ اور دیوانہ بنا دیا ہے ،ذکر ان کے بوجھ اتار دے گا اور وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے پاس ہلکے پھلکے ہو کر آئیں گے ۔“(ترمذی شریف)

اہل ذکر روزِ محشر سایہ ایز دی میں جگہ پائیں گے :خشیت الہٰی سے آنسو بہانے والے ذاکرین وہ خوش نصیب ہیں جنہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سایہ عاطفت میں جگہ عطا ہو گئی ۔چنانچہ قیامت کی سختیوں کا ان کے قریب سے گزرتک نہیں ہوگا ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :”سات شخص ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنے سایہ میں جگہ عطا فرمائے گا ،اس روز کہ جب سوائے اس کے سائے کے اور کوئی سایہ نہ ہو گا اور ان میں سے ایک شخص وہ ہے جس نے اللہ تعالیٰ کو تنہائی میں یاد کیا اور اس کے خوف سے اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے ۔“(بیہقی شریف )

اہل ذکر روزِ محشر درجہ میں افضل ترین ہوں گے :ذکر دیگر عبادات سے افضل ہے اور ذاکرین قیامت کے دن درجہ میں دیگر بندوں سے افضل ہوں گے ۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا :”کون لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی ہاں درجہ میں افضل ہوں گے ۔فرمایا:کون لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے اور کرنے والیاں ہیں۔راوی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:”یا رسول اللہ ﷺ ! اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے بھی ؟“آپ ﷺ نے فرمایا:”اگر کوئی شخص اپنی تلوار کافروں اور مشرکوں پر اس قدر چلائے کہ وہ ٹوٹ جائے اور خون آلود ہو جائے پھر بھی اللہ کا ذکر کرنے والے درجہ میں افضل ہیں۔“(ترمذی شریف)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”دنیا میں کچھ لوگ بچھے ہوئے پلنگوں پر اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں گے ،وہ انہیں جنت کے بلند درجات میں داخل کرے گا۔“(مسند ابو یعلیٰ)

اہل ذکر مسکراتے ہوئے جنت میں داخل ہوں گے :یہ اللہ کے وہ مقرب بندے ہیں جو روزِ قیامت ہر قسم کے غم و حزن سے آزاد مسکراتے ہوئے جنت میں جائیں گے ۔حضرت ابو درداءرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:”جن لوگوں کی زبانیں ذکر الہٰی سے ہمیشہ تر رہتی ہیں وہ جنت میں مسکراتے ہوئے داخل ہو نگے۔“(صحیح ابن حبان)

اہل ذکر نورِ خدا کے حامل ہوتے ہیں:ذکر کرنے والے کا چہرہ دنیا میں بھی پر رونق ہوتا ہے اور آخرت میں بھی اس پر نور ہو گا اور یہ نور آخرت میں پل صراط پر روشنی مہیا کرے گا۔ قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :ہم نے اس کے لئے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب)وہ اس کے ذریعے (بقیہ ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لئے ) چلتا ہے ۔“(سورة الانعام)

ذاکرین کے دل اپنے محبوب کی یاد میں ہر لحظہ مگن رہتے ہیں ۔ان کی زبانیں حالتِ بیداری میں دنیوی امور کی انجام دہی کے وقت تو شاید اللہ تعالیٰ کے ذکر سے رک سکیں لیکن ان کے دل سوتے جاگتے کسی حالت میں بھی غفلت کا شکار نہیں ہوتے ۔قرآن مجید میں ان کے متعلق یوں شہادت فراہم کی گئی ہے ۔

”(اللہ تعالیٰ کے اس نور کے حامل وہی مردان (خدا )ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰة ادا کرنے سے (بلکہ دنیوی فرائض کی ادائیگی کے دوران بھی ) وہ (ہمہ وقت ) اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں (خوف کے باعث) دل اور آنکھیں (سب ) الٹ پلٹ ہو جائیں گی۔“(سورة النور)

اس آیہ کریمہ کا اشارہ اس طرف ہے کہ جب لوگ کاروبار اور تجارتی لین دین میں مصروف ہوتے ہیں اور دنیوی معاملات نبٹاتے ہوئے ان کا دل و دماغ ،سوچ اور جسم دنیاداری میں مگن ہو جاتے ہیں تو اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہو کر دنیوی کاروبار کو دین اور یادِ الہٰی سے الگ سمجھتے ہیں ۔مگر وہ مردانِ حق جن کا ایمان پختہ ہو جاتا ہے وہ ذکرِ الہٰی کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی بندگی کے سمندر میں غوطہ زن ہوتے ہیں اور بندگی کا حق ادا کرتے ہیں ۔ان کا جسم اگر چہ معاملاتِ دنیا میں مصروف رہتا ہے لیکن وہ یادِ خدا سے بے خبر نہیں ہوتے ۔جب بندے کو ذکر کا یہ مقام نصیب ہو جاتا ہے تو وہ جو کام بھی کرے اس کا دل اللہ کی یاد میں مست و بے خود رہتا ہے ۔گویا جب بندے کی یہ حالت ہو جائے تو ”ہاتھ کار ول دل یار ول “ کا مصداق بن جاتا ہے ۔اس کا دنیاوی کام بھی عبادت بن جاتا ہے ،اس کی زندگی کا ہر لمحہ بندگی قرار پاتا ہے ۔اس تصورکو سمجھنے کے لئے ہم یہاں بطور مثال ایک واقعہ نقل کرتے ہیں۔

خواجہ نظام الدین اولیاءرحمة اللّٰہ علیہ کے ذکر و عبادت کا حال:حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءرحمة اللہ علیہ کے پاس ایک مرتبہ عالم دین حصول فیض و برکت کے لئے حاضر ہوا ۔ انہوں نے دیکھا کہ حضرت نظام الدین اولیاءرحمة اللہ علیہ اور ان کے دربار کے اکثر حضرات بڑے وقار اور شان و شوکت کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔یہ دیکھ کر وہ حیران ہوا اور یہ قیاس کرتے ہوئے دل ہی میں بیزاری ظاہر کی کہ کہاں درویشی اور کہاں یہ شاہانہ آن بان ،اس کے خیال میں درویش وہ ہوتا ہے جس کے کپڑے پھٹے پرانے ،لنگوٹا کسا ہوا ہو ،ہاتھ میں لوٹا اور مصلیٰ ہو اور کھانے پینے کے لئے کچھ پاس نہ ہو ۔اس کی نظر میں ایسا شخص جو بظاہر ٹھاٹھ باٹھ سے رہتا ہو اور اسے زندگی کی ہرسہولت میسر ہو وہ درویش کا دعوے دار کیونکر ہو سکتا تھا ۔

غرضیکہ وہ عالم دین حضرت کا یہ حال دیکھ کر ان سے باغی ہو گیا اور یہ سوچ کر واپس جانے لگا کہ ایسے لوگوں سے فیض کہاں مل سکتا ہے ۔حضرت خواجہ نظام الدین اولیا ءرحمة اللہ علیہ اس کی باطنی حالت سے بخوبی آگاہ تھے ۔اس لےے آپ رحمة اللہ علیہ نے انہیں روک لیا اور اس کا بستر اور مصلیٰ آپ کے کمرے میں بچھا دیا گیا ۔آپ نے نمازِ عشاءادافرمائی ،حسبِ معمول کچھ وظائف پڑھے اور بستر میں جا کر آرام فرما ہو گئے ۔پچھلی رات اٹھے ،نمازِ تہجد ادا فرمائی اللہ کو یاد کیا اور دوبارہ اپنے بستر پر لیٹ گئے نماز فجر کے وقت پھر بستر سے اٹھے اور نماز ادا فرمائی۔

ادھر وہ عالم دین نمازِ عشاءپڑھ کر اپنے مصلیٰ پر بیٹھا ،رات بھر تسبیح و منا جات کرتا ،نوافل پڑھتا رہا ۔اب تک تو اس نے حضرت کو دن میں دیکھا تھا ۔جب رات بھی اچھی طرح ملاحظہ کر لی تو رہی سہی عقیدت اور امید بھی ختم ہو گئی ۔وہ مزید بدظن ہو گیا اور سوچنے لگا کہ ”یہ عجیب اللہ کا ولی ہے ولایت میں اس کی شہرت دور دور تک ہے اور اس کی زندگی کا یہ عالم کہ دن بادشاہوں کی طرح گزارتا ہے اور رات مزے سے خواب استراحت کے مزے لوٹتا ہے ۔ایسا شخص بھلا ولایت کی بلندیوں کو کیسے حاصل کر سکتا ہے ؟ وہ جب اپنی عبادت گزاری پر نگاہ ڈالتا تو یہ سوچتا کہ اس سے تو ہم لوگ بہتر ہیں جو اگر چہ شہرت اس قدر نہیں رکھتے مگر ان سے عبادت و ریاضت میں کہیں بڑھ کرہیں۔میں نے ساری رات مصلیٰ پر گزاری ہے جبکہ وہ صرف نمازِ عشاءاور نمازِ تہجد کے وقت تھوڑی دیر کے لئے مصلیٰ پر بیٹھے ۔

انہی خیالات اور قیاس آرائیوں میں اس کو نیند آگئی در اصل اللہ نے دونوں عبادتوں کا فرق سمجھانے کے لئے اس کی عبادت و بندگی کو خواب میں اس کے سامنے ایک نور کی مانند ظاہر کیا اور خواجہ نظام الدین اولیاءکی عبادت کو بھی ایک نور کی صورت میں ،مگر فرق یہ تھا کہ اس شخص کی عبادت کا نور ٹمٹماتے ہوئے چراغ سحر کی طرح اور خواجہ نظام الدین اولیاءرحمة اللہ علیہ کی عبادت کا نور زمین سے لے کر آسمان اور عرش معلی تک ایک روشن ستون کی صورت میں اس طرح نظر آیا کہ ہزار ہا فرشتے اس نور کے گرد مستانہ وار طواف کرنے میں مصروف تھے ۔وہ شخص یہ منظر دیکھتے ہی دہل گیا اور حقیقت حال سے باخبر ہوا اورمعافی مانگی اور عرض کرنے لگا ” حضرت میں اپنے غلط گمان سے توبہ کرتا ہوں لیکن آپ یہ سمجھا دیں کہ اصل ماجرا کیا ہے ´

آپ رحمة اللہ علیہ نے فرمایا:مولانا !بندہ جب تک مردِ کامل نہیں ہوتا اس کا سونا جاگنا جدا نوعیت کا ہوتا ہے مگر بندہ جب خدا وند تعالیٰ کے ذکر اور اس کی محبت میں غرق ہو کر اپنا آپ فنا کر دے تو اب وہ سوئے تب بھی عبادت ہے ،جاگے تب بھی عبادت ہے ۔اس لئے کہ عین ممکن ہے جاگنے والا زبان سے اللہ کا ذکر کر رہا ہو مگر اس کا دل نیند کی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ ہو ۔کسی کو کیا خبر کہ سونے والا کس حال میں سو رہا ہے ؟ اس لئے محض ظاہر دیکھ کر کسی کو متقی یا غافل قرار نہیں دینا چاہئے ہو سکتا ہے صرف فرض نماز پڑھنے والا اپنے خلوص اور باطنی احوال کی وجہ سے اس عبادت گزار سے ہزار ہا درجے بہتر ہو جو ساری رات مصلے پر بیٹھا رہا ۔

آپ رحمة اللہ علیہ نے ایک مثال کے ذریعے یہ تصور مزید ذہن نشین کرایا کہ ایک معصوم بچہ جس کی نہ اپنی رائے ہوتی ہے اور نہ ارادہ ،سوتے جاگتے ماں کو پیارا لگتا ہے ،ماں ہر حال میں اسے چومتی اور اس کی بلائیں لیتی ہے لیکن وہی بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو اس کے لئے ماں کی ممتا میں اگر چہ بظاہر پیار کی وہ پہلے جیسی کیفیت نہیں ہوتی ۔ اس کی ماں اسے صاحب ارادہ و اختیار دیکھ کر اس سے کسی قدر بے پروا ہو جاتی ہے ،اسی طرح بندہ مومن جب خدا کی محبت میں اپنا ارادہ اور اختیار ختم کر کے رضائے الہٰی کا طالب بن جاتا ہے تو وہ بہر حال ماں سے زیادہ خدا وند قدوس کی محبت کا مستحق ہوتا ہے اس حالت میں اس کا چلنا، پھرنا ،کھانا پینا، ،بھوکا پیاسا رہنا ،سونا جاگنا ،ہنسنا رونا،اس کا کلام و سکوت الغرض زندگی کی ساری حرکات و سکنا ت اللہ تعالیٰ کے ذکر و محبت کے باعث اللہ تعالیٰ کی عبادت بن جاتی ہے ۔ مذکورہ بالا آیات کریمہ ،احادیث مبارکہ اور اللہ کے ایک ولی کے حال سے ذاکرین کی حقیقت واضح ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے ذاکر بندوں پر کثرت سے لطف و کر م اور فضل و انعام فرماتا ہے اور انہیں نہ صرف اپنی معرفت بلکہ اپنے قرب سے بھی نوازتا ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اہل ذکر کی صحبت سے مالا مال کر کے ذکر کی توفیق دے ۔آمین
Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi: 198 Articles with 615892 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.