تبدیلیوں کا سفر

آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ پاکستان کی سیاست جھوٹ،دھوکہ اور منافقت سے عبارت ہے،یہ ایک حد تک بالکل درست ہے،آپ اس کی تازہ ترین مثال لے لیں!ماروی میمن سابق وفاقی وزیر ِ نثار میمن کی بیٹی ہیں،ماروی نے بنیادی تعلیم کراچی جبکہ اعلٰی تعلیم کویت،پیرس اور لندن سے حاصل کی،یہ بنیادی طور پر ایک بینکارہیں،پرویز مشرف کے دور میں ماروی کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہوگئی تھی،اس وقت نثار میمن پرویز مشرف کی حکومت کے ایک وفادار رکن تھے،ایک دن انہوں نے پرویز مشرف سے اپنا گھریلو مسئلہ ڈسکس کیااور درخواست کی کہ ان کی بیٹی ماروی اپنے شوہر سے علیحدگی کے بعد مستقل طورپر کراچی سے اسلام آباد شفٹ ہوکر ایک باعزت زندگی گزارنا چاہتی ہے،چنانچہ پرویز مشرف نے نثارمیمن کی التجا پر ماروی کو اسلام آباد بلاکر ”بورڈ آف انویسٹمنٹ“ میں جاب د ے دی،یوں وہ اسلام آباد میں سیٹل ہوگئیں،اسی زمانے میں وہ پاک فوج کے میڈیا سیل”ISPR“ میں ڈائریکٹرکے عہدہ پر فائز ہوئیں،اچانک2008میں وہ راتوں رات سندھ ڈومیسائل سے تعلق رکھنے کے باوجودقاف لیگ کے پلیٹ فارم سے پنجاب سے ایم این اے منتخب ہوگئیں،حالانکہ پاکستان کے قانون کے مطابق کوئی بھی سرکاری ملازم اپنی سروس سے ریٹائرمنٹ یا استعفا کے دوسال تک سیاست کے بارے میں نہیں سوچ سکتا،مگرکسی نے ان سے پاکستان کے اس قانون کے بارے میں سوال ہی نہیں کیا، یوں وہ اسمبلی پہنچ کر پرویزمشرف کا دم بھرنے لگیں،اکثراسمبلی کے فلورپر پرویز مشرف کے احسانات اُتارنے کے واسطے نون لیگ کے ارکان کے ساتھ لڑتی جھگڑتی ،چیختی چلاتی اور چھنگاڑتی نظر آتیں،وہ ہمیشہ لال مسجدکے قضیہ ،عافیہ صدیقی اور بگٹی کیس میں پرویز مشرف کا دفاع کرتی رہیں،5اکتوبر 2010کی شام جب عافیہ کو امریکی عدالت کی طرف سے 86سال کی سزا سنائی گئی تو قومی اسمبلی میں ایک سناٹا اور سراسیمگی سی چھائی ہوئی تھی،ایسے میں ماروی اپنی نشست پہ کھڑی چلا رہی تھیں کہ عافیہ صدیقی قوم کی بیٹی نہیں،القاعدہ کی دہشت گرد ہے، یوں وہ کئی سالوں تک”شاہ سے زیادہ شاہ کاوفادار“کے مصداق پرویز مشرف کے” احسانات “کاقرض اُتارتی رہیں،لال مسجد کے غازی برادران اور عافیہ کو کھلم کھلا دہشت گرد کہنے کی وجہ سے ان کے اورقاف لیگی قیادت کے درمیان تناﺅ کی سی کیفیت شروع ہوگئی تھی،ویسے بھی پرویز مشرف کے داغ ِ مفارقت دینے کے بعد قاف لیگ ڈانواں ڈول ہورہی تھی توغم ِ فراق کی وجہ سے ماروی کے قدم بھی لڑکھڑارہے تھے ،انہی باتوں کی وجہ سے انکی قیادت کوماروی کے خلاف کچھ تحفظات پیدا ہوئے ،بعد میں یہ اختلافات میں بدل گئے،پھر یہ اختلافات مخالفت کا روپ دھار گئے، معاملہ بگڑتا جارہا تھا،چنانچہ چوہدری شجاعت نے ماروی سے کہا کہ اگر تم قاف لیگ میں رہنا چاہتی ہو تو قوم سے عافیہ کو دہشت گرد کہنے پرمعافی مانگ لوورنہ قومی اسمبلی سے استعفا دو، یوں کئی سالوں سے مفاد ات کے ناتے جڑنے والارشتہ ٹوٹنے کو آگیاتو ماروی میمن نے 22جون2011 کو استعفادیدیا،پھر وہ قوم کے دکھ ،درد اور تکلیف کے ساتھ ایک نئی جہت لے کر کھڑی ہوئیں،ماروی نے یہاں سے نئے دعوؤں،نئے وعدوں اور نئے نعروں کے ساتھ ایک نیا سفر شروع کیا،انہوں نے تمام ہی پارٹیوں کو کھری کھری سنانا شروع کردی،اقبال کے خواب،قائد کے تصور اور آزادی کے اصل مقاصد کو اپنی منزل بتا کر قوم کو ایک جھنڈے تلے جمع کرنے کا شور مچایا، انہوں نے ایک اور کام بڑے زور و شور اور بڑھ چڑھ کر کیا،وہ یہ کہ وہ مظلوم خواتین جو معاشرے کی بے حسی ،کسی مرد کے ظلم یا پھر کسی اور اسٹریس کا شکار ہوئیں ہوں تو وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر ٹی وی ٹاک شوز میں انہیں حق دلانے کی ”کوشش“کرتیں۔

پھر جب اس دوران عمران خان کا ”سونامی انقلاب“ انگڑائی لینے لگا وہ ایک حادثے میں زخمی ہونے والے اپنے پیرکے ساتھ عمران خان کے ڈرون حملوں کے خلاف ہونے والے دھرنے میں پہنچ گئیں،وہاں بھی بھاشن دیئے ،ایسے میں جب سیاست کے ”بے پیندے لوٹے “لڑھکتے ہوئے عمران خان نیازی کے ”نیاز“ تلے جمع ہونا شروع ہوگئے تھے تو ایک شور سا برپا ہوا کہ ماروی میمن بھی خانہ بدوشوں کے اس قافلہ سے پیچھے نہیں رہیں گی،وہ بھی تحریک ِ انصاف میں چلی جائیں گی،ان کے اورعمران خان کے درمیان کافی ذہنی ہم آہنگی، موافقت اور انڈر اسٹنڈنگ نظر آرہی تھی،چنانچہ جب بے پیندے لوٹوں کے جتھے پی ٹی آئی کے سائے تلے پناہ گزیں ہوگئے تو وہ مسلم لیگ (ق)کی Bٹیم کی صورت اختیار کرگئی،اس پر ماروی کو نہ جانے کیا تکلیف ہوئی،انہوں نے کھل کر اختلاف کرنا شروع کردیا،اختلاف کی وجہ وہ تو یہ بتاتی ہیں کہ عمران خان صرف نام کی تبدیلی کے خواہاں ہیں ،میں ان کی اندورنی صورتحال دیکھ چکی ہوں انہوں نے سارے لوٹوں کو اپنے خیمہ تلے جمع کرلیا ہے،لوٹوں سے کوئی تبدیلی نہیں آنے والی ،وغیرہ وغیرہ ....یہ کہہ کر انہوں نے وہاں سے اپنا قبلہ موڑ لیا،حالانکہ بعض ذرائع کے مطابق ماروی کو سیکریٹری اطلاعات بنانے کی پلاننگ تک ہوچکی تھی،لیکن پھر کیا ہوا،یہ تو وہی بتاسکتی ہیں،چنانچہ ماروی مستقل ”چینج“کا بلبلہ اُڑاتی رہیں،وہ پہلے کہتی رہیں کہ عمران خان ہی پاکستان کی آخری امید ہیں،انہی کے پاس مسائل کا حل موجود ہے،وہ عمران خان کو ” نوجوان قیادت “ گردانتی تھیں،چنانچہ اب وہ عمران خا ن کو فراڈ،جھوٹااور دھوکہ بازکہتے نہیں تھکتیں،کچھ دن تو یوں گومگوکی کیفیت رہی،لیکن گزشتہ دنوں 4مارچ2012کوپوری قوم حیران رہ گئی جب انہوں نے رائے ونڈ کے محل میں حاضری دی اور مسلم لیگ (ن) میں اپنی شمولیت کا اعلان کردیا،نون لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف نے بھی انہیں دیدہ و دل فرشِ راہ کیے”خوش آمدید“کہا،وہ میاں نواز شریف جو پرویز مشرف کا ساتھ دینے پر چوہدری برادران سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور تاحال وہ دونوں بھائی میاں صاحب کے لیے ”شجر ِ ممنوعہ“بنے ہوئے ہیں،انہوں نے ماروی سے اس حوالے سے کچھ نہیں پوچھا،حالانکہ وہ پرویز مشرف کی” باقیات“ میں سے ہی نہیں بلکہ” تخلیقات“ میں سے ہیں اور تو اور چند ہفتوں قبل تک وہ نون لیگ کے اراکان کے ساتھ لائیو شوز میں الجھا کرتی تھیں، ان کو ماروی نے اس وقت ،کیا کچھ نہیں کہا؟وہ تو ”زرداری نواز بھائی بھائی“کا طعنہ دیاکرتی تھیں، اب کیا ہوا ہے؟کیا ماروی نے معافی مانگ لی ہے؟

آپ ذرا ایک لمحہ کے لیے صرف ماوری کے ان بیانات کو اٹھا کے دیکھ لیں!جو انہوں نے اسمبلی سے استعفا کے بعد سے دیئے تھے،ان 9مہینوں میں ان کے بیانات میں ایک کھلا اور واضح تضاد نظر آئے گا،وہ کبھی عمران خان کو تبدیلی کی آواز اور کبھی نواز شریف کو تبدیلی کی قیادت کہتی رہیں،ان کے بیانات میں اگر کوئی چیز مشترک نظرآئے گی تو وہ ہے ”تبدیلی“کا لفظ!انہوں نے مسلسل نو مہینوں تک ہر جلسہ،ہر فورم اور ہر ٹی وی ٹاک شو میں ”چینج“ کی رٹ لگائے رکھی،وہ تو یہاں تک کہہ چکی تھیں کہ عمران خان ہی ملک میں مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں،ان کے سوا باقی سارے ملک کو لے ڈوبیں گے، لیکن 4مارچ کے بعد سے آپ دیکھ لیں!وہ اب یہ کہہ رہی ہیں کہ نون لیگ کے پاس تبدیلی کی قیادت،ٹیم اور اہلیت ہے،اب ذرا کوئی ان سے یہ پوچھے کہ محترمہ کے کون سے بیان پر اعتبار کریں؟ان پر جو پہلے عمران خان کے حق میں دیا کرتی تھی یا ان پرجو اب میاں صاحب کی مدح سرائی میں دے رہی ہیں؟

یہ وہ ماروی میمن ہیں جو پرویز مشرف کودس دس بار باوردی صدر منتخب کرانے کا دعویٰ کیا کرتی تھیں،آج بھی یہ سابق ڈکٹیٹرکو کمانڈو صدر مانتی ہیں،یہ عافیہ کو آج بھی القاعدہ کی دہشت گرد کہتی ہیں،ان کے گناہوں کی لسٹ اتنی طویل ہے کہ خود ان کا یہ ”تبدیلی کا سفر“اتنالمبا نہیں،انہوں نے جون 2011سے4مارچ2012تک ان نو مہینوں میں مسلم لیگ نون اور تحریک ِ انصاف کے خلاف کیا کچھ بیانات نہیں دیئے؟قوم تو ان کے بیانات ،ان کی سرگرمیوں اور راتوں رات وفاداریاں بدلنے پر مکمل طور پر کنفیوژن کا شکار ہے ، نہ جانے یہ کس منہ سے انقلاب ، تبدیلی اور چینج کا نعرہ لگا رہی ہیں،یہ کل تک جس کو لٹیرے،فراڈ اور اَن اَوئیر(unaware)ڈیکلیر کرتی تھیں ،آج انہی کے بغل میں بیٹھی انقلاب کے گل چھرے اُڑارہی ہیں،آج ایک کی مخالفت کل اسی کی حمایت، شاید یہی وہ” تبدیلی کا سفر“ ہے جس کی وہ بات کررہی ہیں،نہ جانے کب تک قوم ان کے پُرفریب لہجوں کے سحر میں مبتلا کولہوکے بیل کی طرح ایک ہی سرکل میں گھومتی رہے گی؟اب تو قوم کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں،اس ملک کے مظلوم عوام کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے، اب تو انہیں یہ سوچ لینا چاہیے کہ وہ کب تک دولت کے ان پجاریوں ،ہوس کے پیروکاروں اورفرنگ کے بے دام غلاموں کے محکوم بنے رہیں گے؟
Muhammad Zahir Noorul Bashar
About the Author: Muhammad Zahir Noorul Bashar Read More Articles by Muhammad Zahir Noorul Bashar: 27 Articles with 25684 views I'm a Student media science .....
as a Student I write articles on current affairs in various websites and papers.
.. View More