بیمثال رسول ﷺ کی بینظیر بشریت

اللہ تعالیٰ نے اپنے بے مثل و بے مثال رسول ﷺ کو اپنے دین کی نشر و اشاعت او رانسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے بھیجا تو بشریت کے لباس میں بھیجا ۔کیونکہ انسان کو سمجھانے کے لئے اُسی کا معلم ہونا ضروری تھا۔

جیسا کہ ارشادِ خدا وندی ہے: قُل اِنَّمَا اَنَا بَشَر مِّثلُکُم یُوحٰی اِلَیَّ اَنَّمَا اِلٰھُکُم اِلٰہ وَّاحِد:”تم فرماﺅ! کہ ظاہر صورت بشری میں تو میں تم جیسا ہو ں مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے ۔“

معزز قارئین! آپ کو لباس بشیریت میں اس لئے مبعوث کیا گیا تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں اور آپ سے قریب آسکیں اسلئے کہ نور کو دیکھنے کی انسان میں طاقت و قوت نہیں ،جیسے سورج کو آنکھ نہیں دیکھ سکتی ،مگر جب آفتاب پر سا بادل آجائے ،تب اس بادل کے حجاب سے لوگ اس کو کچھ دیکھ سکتے ہیں ۔اسی طرح حضور اکرم ﷺ کے نور کو دکھانے کےلئے بشری حجاب ولباس پہنایا گیا ۔پھر آپ جیسے ہیں ویسا کسی نے نہ دیکھا سوائے رب تعالیٰ کے ۔

تفسیر کبیر قصہ نوح میں انبیاءکو لباس بشریت میں مبعوث ہونے کی یہ وجہ بیان کی گئی ہے ،کہ اگر وہ فرشتے ہوتے تو لوگ ان کے معجزات دیکھاتے ہیں تو یہ ان کا کمال ہوتا ہے ۔

آقائے دو جہاں ﷺ کی عظمت والے القاب کے ہوتے ہوئے محض بشر یا بھائی کہنے والوں کو یقینا بے ادب گستاخ کہا جائے گا کیونکہ نبی کو بشر کہنا مومنین کا طریقہ ہر گز نہیں رہا ہے بلکہ کفار کا طریقہ رہا ہے ۔سب سے پہلے شیطان نے نبی کو بشر کہا تھا پھر شیطان کے بعد کفار نے اپنے دور کے نبی کو بشر کہا ۔

حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے ان سے کہا تھا :مَا نَرَاکَ اِلَّا بَشَر مِّثلُنَا۔”نہیں دیکھتے ہم تم کو مگر اپنی مثل ایک بشر۔“

حضرت صالح علیہ السلام کی قوم نے ان سے کہا تھا:مَا اَنتَ اِلَّا بَشَر مِّثلُنَا”اور تو یہی ایک بشر ہے ہماری مثل“

حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے ان سے کہا تھا:مَا اَنتَ اِلَّا بَشَر مِّثلُنَا”اور انہیں ہے تو مگر ہماری مثل ایک انسان۔“

اور سرکارِ کائنات ﷺ کی قوم نے آپ کے بارے میں کہا:ھَل ھٰذَا اِلَّا بَشَر مِّثلُکُم۔”یہ محض تم جیسے ایک معمولی آدمی ہیں ۔“

مذکورہ آیات سے یہ حقیقت خوب آشکارا ہو جاتی ہے کہ انبیاءکرام کو بشر کہنا کفارکا طریقہ رہا ہے ۔تویہ کتنی بڑی نا عاقبت ا اندیشی ہو گی کہ کفار کا طریقہ اپنایا جائے اور سرکارِ کائنات ﷺکے اعلیٰ القاب کے ہوتے ہوئے بشر یا بھائی کہا جائے اور قرآنی ارشاد :اِنَّمَا المُومِنُونَ اِخوَة۔”سے دلیل پکڑ کر حضور ﷺ کو بھائی کہنا اعلیٰ درجہ کی حماقت ہے ۔اس لئے کہ یہ آیت کریمہ حضور سرکارِ کائنات ﷺ کی اُمت کے حق میں ہے نہ کہ ہر قسم کے مومن کے بارے میں ۔کیونکہ ہم مومن ہیں اور حضورﷺ عین ایمان ،حضور ﷺکا ایمان دیکھی ہوئی چیزوں پر ہے اور ہمارا ایمان ایسا نہیں ،حضور ﷺکا کلمہ ہے ”اَنَا رَسُولُ اللّٰہ “اگر ہم کہیں تو کافر ہو جائیں ،ہمارے لئے ارکانِ اسلام پانچ ہیں اور حضورﷺ کے لئے چار، کہ آپ پر زکوٰة فرض نہیں۔ معلوم ہوا کہ ہم میں اور حضور اکرم ﷺ میں حقیقت مومن میں اشتراک نہیں تو آپ ”اِنَّمَا المُومِنُونَ اِخوَة“میں شامل نہیں ہو سکتے ،تو پھر آپ ہمارے بھائی نہیں ہو سکتے جب بھائی نہیں ہو سکتے ہو تو پھر آپ کو بھائی کہنے کی اجازت کیسے مل سکتی ہے؟ جب کوئی اپنے باپ کو بھائی نہیں کہتا کہ اس میں ان کی بے ادبی اور گستاخی ہے تو پھر رسولِ دو جہاںﷺ کو بھائی کہنا کیسے درست ہو سکتا ہے ؟

معزز قائین! سرکارِ دو عالم ﷺ نہ شرعاً ہماری مثل ہیں اور نہ عقلاً ۔ شرعاً تو اسلئے نہیں کہ ایمان و اعمال اور احکام و معاملات کسی میں بھی ہمیں ان سے مماثلت و مشابہت نہیں ۔حضور ﷺ کا کلمہ :اَشھَدُ اِنِّی رَسُولُ اللّٰہ۔اگر اس طرح ہم کہیں تو کافر ہو جائیں یہ فرق تو کلمہ میں ہوا ۔نمازیں ہم پر پانچ اور حضور اکرم ﷺ پر چھ فرض ہیں ۔کہ تہجد بھی آپ پر فرض ہے ۔ہمارے لئے ارکانِ اسلام پانچ ہیں ،حضور اکرم ﷺ کے لئے صرف چار ،ہمیں بیک وقت چار ہی بیویاں رکھنا حلال ، آپ ﷺ کو جس قدر چاہیں اجازت ہے ۔ہماری بیویاں موت کے بعد جس سے چاہیں نکاح کریں لیکن حضور اکرم ﷺ کی بیویاں کسی سے نکاح نہیں کر سکتیں ۔ ہماری میراث تقسیم ہو اور حضور اکرم ﷺ کی میراث تقسیم نہیں ہوتی ۔ہم تو قانون کے پابند مگر قانون الہٰی جنبش لب مصطفےٰ ﷺ کا منتظر ۔جس کو چاہے حلال فرما دیں اور جس کو چاہیں حرام۔اس کے بیشمار دلائل موجود ہیں ۔مثلاً ایک حضرت ابو خذیمہ کی گواہی کو حضور اکرم ﷺ نے دو کے برابر قرار دے دی ۔حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو خاتونِ جنت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہاکی موجودگی میں دوسری عورت سے نکاح کرنے سے روک دیا ۔ ایک صحابی کے روزے کا کفارہ انہی کو کھلا دیا ۔معلوم ہوا کہ سرکارِ کائنا ت ﷺ کو رب دو جہاں نے یہ اختیار دیا ہے کہ جس کے لئے جو چاہیں حلال کر دیں اور جوچاہیں حرام کر دیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے :یَامُرُھُم بِالمَعرُوفِ وَیَنھٰھُم عَنِ المُنکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیھِمُ الخَبٰئِث۔”میرے محبوب پاک کی شان تو یہ ہے کہ وہ دنیا والوں کو نیکی کی تلقین کرتا ہے اور ان کو برائی سے روکتا ہے اور صاف ستھری چیزیں حلال کرتا ہے اور ناپاک و گندی چیزیں حرام کرتا ہے ۔“

دوسرا ارشاد ہے :۔”پس اے محبوب! مجھے تیری معرفت اپنی ذات کی قسم کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک ہر معاملہ میں تیرا فیصلہ نہ مانیں گے اور تجھے حاکم اعلیٰ تسلیم نہ کریں گے ۔“

مذکورہ آیتوں سے صاف دلالت ہو رہی ہے کہ آپ ہماری مثل نہیں ہو سکتے کیونکہ آپ کے علاوہ ساری کائنات میں کوئی بھی ایسا نہیں ،جس کو یہ اختیار دیا گیا ہو ،کہ وہ جس چیز کو چاہے حلال اور جس چیز کو چاہے حرام کر دے ، اور جس کا فیصلہ نہ ماننے سے انسان کافر ہو جائے ۔تو پھر مماثلث کا دعویٰ کتنی بڑی نادانی کی بات ہے ۔ اور حضور اکرم ﷺ کا ہماری مثل نہ ہو نے کا ثبوت اس حدیث پاک سے بھی ہوتا ہے کہ آپ سال کی بعض راتوں میں صوم و صال اختیار فرماتے ،یعنی بغیر کچھ کھائے پیئے اور افطار کئے ہوئے پے در پے روزے رکھتے ۔لیکن صحابہ کرام کو رحمت وشفقت اور دور اندیشی کی خاطر اس سے منع فرماتے اور ناپسند کرتے ۔

جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ :” حضور ﷺ نے صوم وصال سے منع فرمایا ،تو صحابہ نے عرض کیا ! یا رسول اللہ ﷺ !جب آپ صوم و صال رکھتے ہیں تو ہمیں کیوں منع فرماتے ہیں؟حالانکہ ہم حضور ﷺکی متابعت کی تمنا رکھتے ہیں۔

تو آپ نے فرمایا:لست کاحدکم ”میں تم میں سے کسی کی طرح نہیں۔“ایکم مثلی”تم میں سے کون میری مثل ہے۔“انی ابیت عند ربی
”میں اپنے رب کے حضور شب باشی کرتا ہوں ،کیونکہ وہ میرا پالنے والا اور تربیت فرمانیوالا ہے۔“یطعمنی و یسقینی۔ََِِ”وہ مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے “

شیخ عبدالحق محدث د ہلوی فرماتے ہیں کہ :
اس کھانے پینے کے متعلق علماءکے چند اقوال ہیں ایک یہ کہ یہی مخصوص کھانا پینا مراد ہے ۔یعنی حضور ﷺکےلئے ہر شب جنت سے کھانے پینے کا سامان آتا تاکہ حضور ﷺ کھائیں اور پئیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضور اکرم ﷺ پر خاص اکرام تھا اور یہ نہ موصوم کے منافی ہے نہ بطلان صوم کا موجب ہے کیونکہ وہ عام دنیاوی چیزیں نہیں ،کیونکہ جو بطریق معجزات اور خوارق عادت جنت سے رب تعا لیٰ کی جانب سے آئے ،وہ بطلان صوم کا موجب نہیں ۔“

بعض علماءکہتے ہیں کہ اس کھانے پینے سے مرا د قوت ہے ۔ تو آپ کے ارشاد کا مطلب یہ ہوا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کھانے پینے سے حاصل ہونے والی قوت مرحمت فرماتا ہے اور ایسی چیز تفویض فرماتا ہے جو کھانے پینے کے قائم مقام ہوتی ہے جس کی بدولت طاقت و عبادت کی قوت پاتا ہوں اور کسی قسم کا فتور یا عارضہ لا حق نہیں ہوتا لیکن محققین کے نزدیک یہ ہے کہ غذائے روحانی مراد ہے جوازقسم لذت مناجات اور فیضان معارف اور لطائف الہٰی ہے اور حضور اکرم ﷺ کے قلب اطہر اور روح پر فتوح پر واردونازل ہوتی ہے ۔جس سے احوال شریف کو ایسی خوشی و مسرت اور شادمانی حاصل ہوتی ہے کہ اس کی وجہ سے غذائے جسمانی سے استغناءحاصل ہو جاتا ہے ۔(مدارج النبوة ،جلد 1،صفحہ723)

حدیث پاک میں بڑی صراحت سے آپ کا فرمان موجود ہے کہ :تم میں سے کوئی بھی میری طرح نہیں۔

لہٰذا مذکورہ ساری توضیحات سے اس حقیقت کا بخوبی پتہ چلا کہ حضورِ اکرم ﷺ شرعاً ہم جیسے نہیں۔

دوسری بات رہی کہ عقلاً ہم جیسے ہیں؟اس کا جواب یہ ہے کہ آپ عقلاً ہماری طرح اس لئے نہیں کہ آپ کا ایمان دیکھا ہوا ہے اور ہمیں یہ شرف حاصل نہیں ،ہم جو کھاتے پیتے ہیں اس سے پیشاب ،پاخانہ وغیرہ ناپاک چیزیں بنتی ہیں۔ لیکن حضور ﷺ جو کھاتے ہیں اس سے ناپاک چیزیں نہیں بنتیں۔ جیسے شہدکی مکھی جو کھاتی ہے اس سے شہد بنتا ہے اور بھڑ جو کھاتی ہے اس سے زہر بنتا ہے ۔حضور ﷺ ایمان ہیں اور ہم مومن ۔حضور ﷺکے قدموں کے نیچے پتھر موم ہو جایا کرتا تھا ۔(بیہقی :ابن عساکر، زرقانی)

لیکن ہمیں یہ شرف حاصل نہیں ۔حضور اکرم ﷺ کے جسم پر مکھی نہیں بیٹھی تھی ،مگر ہمارے جسم پر بیٹھتی ہے ۔حضور ﷺ کے جسم کا سایہ نہ تھا ، (نوادرالاصول) اور ہمارے جسم کا سایہ ہے دھوپ سے بچاﺅ کے لئے حضورِ اکرم ﷺ پر بادل سایہ کرتا تھا ،لیکن ہمیں یہ بات حاصل نہیں ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :کہ آقا ئے دو جہاں ﷺ نے فرمایا ! انبیاءکرام اپنی قبروں میں زندہ ہیں ،نمازیں پڑھتے ہیں ۔(جذب القلوب صفحہ207)جبکہ عام انسانوں کو یہ مرتبہ میسر نہیں۔

مدارج النبوة میں ہے کہ :
یقینا سرکارِ کائنات ﷺ نے موت کا ذائقہ چکھا ،لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو حیات عطا فرما دی ۔جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام قرار دے دیا کہ وہ انبیاءکے جسموں کو کھائے ،تو اللہ کے نبی زندہ ہیں ،انہیں رزق دیا جاتا ہے ۔

معلوم ہوا کہ حضورِ اکرم ﷺ حیات جسمانی ،دنیاوی اور اس بدنی حیات کیساتھ زندہ ہیں جو آپ رکھتے تھے ۔

اس کے بعد پھر فرماتے ہیں:
انبیاءکرام کی ارواح مقدسہ ان کے انہیں ابدان طیبہ میں لوٹا دی جاتی ہیں جو وہ دنیا میں رکھتے تھے ۔انکے ابدان و اجسام نہ بوسیدہ ہوتے ہیں ،نہ خاک بنتے ہیں اور اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ ارواح کو بغیر بدنوں کے محفوظ رکھے ،لیکن ان کے بدنوں میں ارواح کے وجود پر نقل وارد ہے ۔جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنا ،کیونکہ نماز ادا کرنا بدن میں روح کے وجود اور جیتے بدن کا تقاضہ کرتا ہے ۔

اگر کوئی کہے کہ برزخ نہ دار العمل ہے اور نہ وہاں کوئی احکام شرعیہ پر مکلف ہے تو پھر وہ اعمال کس لئے کرتے ہیں ؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم برزخ میں اجر و ثواب کا اجراءہوتا ہے اور دنیاوی احکام مثلاً کثرت عمل اور زیادتی اجر و ثواب کا حکم جاری ہے اور اعمال کے لئے مکلف ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ بسا اوقات بغیر مکلف ہوئے برائے حصولِ لذت عبادت اور شوق و ذوق اعمال رونما ہوتے ہیں ۔جیسا کہ نوافل و حسنات کا حال ہے وہاں بھی یہی ہے ۔اسی لئے جنت میں لوگ تسبیح کریں گے اور قرآن پڑھیں گے ۔(مدارج النبوة جلد1صفحہ258)

مذکورہ بیانات سے یہ حقیقت خوب واضح ہوجاتی ہے کہ حضور اکرم ﷺ اور دیگر انبیاءکرام زندہ ہیں اور ان کی ارواح مقدسہ ان کے اجسام طیبہ میں لوٹا دی گئی ہیں ۔جو عام لوگوں کو حاصل نہیں ۔تو ثابت ہوا کہ حضور اکرم ﷺ جس طرح شرعاً ہم جیسے نہیں ویسے ہی عقلاً بھی ہم جیسے نہیں۔

ہمارا سرکارِ کائنا ت ﷺ کی طرح ہونا تو بہت دور کی بات ہے ۔ہم آپ کے بول و براز کی طرح بھی نہیں ہو سکتے ۔کہ آپ کے بو ل و براز سے خوشبو پھوٹتی تھی ۔

جیسا کہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”کہ جب حضور اکرم ﷺ قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تو زمین میں شگاف پڑجاتا اور زمین آپ کا بول و براز اپنے اندر سمولیتی اور اس جگہ ایک خوشبو پھیل جاتی تھی ۔“

ایک صحابی فرماتے ہیں :
”کہ ایک سفر میں ،میں حضور اکرم ﷺ کیساتھ تھا ،آپ قضائے حاجت کے لئے ایک جگہ تشریف لے گئے ،جب آپ واپس تشریف لے آئے تو میں اس جگہ گیا جہاں آپ نے فراغت پائی تھی تو میں نے اس جگہ بول و براز کا کوئی نشان تک نہ دیکھا ۔البتہ چند ڈھیلے وہاں پڑے تھے ، میں نے ان ڈھیلوں کو اُٹھا لیا تو ان سے نہایت لطیف و پاکیزہ خوشبو آ رہی تھی ۔“

بعض روایتوں میں ہے کہ :” ایک شخص نے آپ ﷺ کا بول شریف پی لیا تھا ،تو اس کے جسم سے ہمیشہ خوشبو پھوٹتی رہتی ،حتیٰ کہ اس کی اولاد میں کئی نسلوں تک یہ خوشبو باقی رہی۔“(مدارج النبوة جلد1صفحہ50,49)

سرکارِ کائنات ﷺ کے بول و براز کو غالباً زمین اس لئے اپنے اندر سمالیتی تھی تاکہ دوسرے لوگوں کے بول و براز کی طرح آپ کے بول و براز کی طرف نجاست و کراہت کا خیال نہ کیا جائے ۔بلکہ اس کی طہارت و پاکیزگی کا خیال آئے ۔اس لئے کہ آپ کا بول و براز طیب و طاہر ہے ۔جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں۔

جیسا کہ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عینی شارح بخاری نے فرمایا ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ اور شیخ ابن حجر مکی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :” حضور اکرم ﷺ کے فضلات کی طہارت پر بہت زیادہ اور کثرت سے روشن دلائل موجود ہیں۔“(مدارج النبوة جلد 1صفحہ51)

مذکورہ بیانات سے معلوم ہوا کہ ہم حضورﷺ کے بول و براز کی طرح نہیں ہو سکتے ہیں تو جب ہم آپکے بول و براز کی طرح نہیں ہو سکتے تو پھر آپ کی طرح کیسے ہو سکتے ہیں ۔

سرکار دو جہاں ﷺ نے جو فرمایا ہے کہ میں تم جیسا بشر ہوں تو بطور تواضع اور انکسار فرمایا ہے۔ اس لئے کسی کے لئے جائز نہیں کہ حضور اکرم ﷺ کو اپنی طرح بشر کہے کیوں کہ جو کلمات اصحاب عزو شرف بطور تواضع فرماتے ہیں ان کا کہنا دوسروں کے لئے جائز نہیں ہوتا دیکھئے حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا ۔”رَبَّنَا ظَلَمنَا اَنفُسَنَا“حضرت یونس علیہ السلام نے عرض کیا ”اِنِّی کُنتُ مِنَ الظَّالِمِین“اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے فرمایا:فَعَلتُھَا اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِین۔تو ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم بھی انہیں ایسا کہیں لہٰذا اگر کوئی ان حضرات کو ظالم یا ضال کہے تو ایمان سے خارج ہو جائیگا۔ ایسے ہی ایک استاد اپنے شاگرد کو ایک پیر اپنے مرید کو خط لکھتا ہے تو اس میں اپنے نام کے ساتھ حقیر بھی لکھتا ہے لیکن ہم انہیں حقیر نہیں کہہ سکتے ۔کیونکہ اس میں انکی توہین ہوگی۔

معلوم ہوا کہ جو کلمات اصحاب عزو شرف بطور تواضع اپنے لئے استعمال کریں دوسرے لوگوں کو ان کے لئے ان کلمات کے استعمال کرنے میں انکی توہین ہوتی ہے ۔تو جب سرکار دو جہاںﷺ نے بطور تواضع اپنے آپ کو ہماری مثل فرمایا ہے لیکن ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم بھی آ پ کو ایسا کہیں ،اگر ہم کہیں گے تو اس میں آپکی توہین ہو گی ۔کیونکہ سرکارِ کائنات ﷺ نے بطور تواضع اپنے آپکو ہماری طرح اسلئے کہا کہ جب آپ نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو کفار و مشرکین آپ سے نفرت کراہت اور بے زاری کا اظہار کرنے لگے اور بولے ہم تو حید و ایمان کو سمجھ نہیں سکتے اور نہ سن سکتے ہیں۔ توہم آپ کی پیروی کرنے میں معذور ہیں لہٰذا آپ اپنا کام کیجئے ہم اپنا کام کرتے ہیں ۔تو رسول دو جہاںﷺ نے عاجزی کے طور پر فرمایا میں ظاہر صورت بشری میں تم جیسا بشر ہوں یعنی میں دیکھا بھی جاتا ہوں میری بات سنی بھی جاتی ہے اور میرے اور تمہارے درمیان بظاہر کوئی جنسی تضادبھی نہیں ہے۔ تو تمہارا یہ کہنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ میری بات نہ تمہارے دل تک پہنچ سکتی ہے نہ تمہارے سننے میں آسکتی اور میرے اور تمہارے درمیاں کوئی رکاوٹ ہے ۔اگر میری جگہ کوئی جن یا فرشتہ آتا تو تم کہہ سکتے تھے کہ نہ وہ ہمارے دیکھنے میں آتے ہیں نہ انکی بات سننے میں آتی ہے نہ ہم ان کے کلام کو سمجھ سکتے ہیں۔ ہمارے اور انکے درمیان تو جنسی مغائرت ہی بڑی رکاوٹ ہے لیکن یہاں تو ایسی بات نہیں۔ کیونکہ میں بشری صورت میں جلوہ نما ہوا ہوں۔ تو تمہیں مجھ سے مانوس ہونا چاہئے اور میرے کلام کے سمجھنے اور اس سے فائدے اُٹھانے کی بہت کوشش کرنی چاہےے کیونکہ میرا مرتبہ بلند ہے اور میرا کلام بہت عالی ہے اس لئے کہ میں وہی کہتا ہوں جو مجھے وحی آتی ہے ۔(تفسیر خزائن العرفان پارہ24رکوع 15)

دوسری بات یہ کہ جب یہودیوں نے حضرت عزیر علیہ السلام کے معجزات کو دیکھا تو انہیں خدا کا بیٹا کہہ دیا اور نصرانیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کو دیکھا تو انہیں بیٹا کہنے لگے چونکہ سرکار کائناتﷺ سراپا معجزہ بن کر تشریف لائے تو احتمال تھا کہ آپ کی قوم بھی آپ کو مغرب سے سورج نکالتے ہوئے اور دیگر معجزا ت کو دیکھ کر آپ کو خدا یا خدا کا بیٹاکہنے سے گریز نہ کرتے ۔

لہٰذا لوگوں کو گمراہی سے بچا نے کے لئے فرمان باری تعالیٰ ہوا میں تم کو طٰہٰ و یٰسین اور مزمل جیسے خطابات عالیہ سے یاد کروں گا اور تمہاری امت تم کو نبی اللہ و رسول اللہ اور شفیع المذنبین و غیرہم سے یاد کرے گی لیکن تم خود اپنی زبان فیض ترجمان سے بطور تواضع ارشاد فرما دو:اِنَّمَا اَنَا بَشَر مِثلُکُم۔”بے شک میں ظاہر صورت بشری میں تمہاری طرح ہوں۔“(شان حبیب الرحمن صفحہ120)

اللہ تعالیٰ کے حبیب حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ بے مثل بشر اور افضل البشر ہیں ۔جبکہ دوسری صورت نورِ مصطفےٰ ﷺ کی ہے جس پر بھی قرآن و احادیث سے براہین قطعہ موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ سمجھ عطا فرمائے ۔آمین
Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi: 198 Articles with 615848 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.